103۔ 1 ابصار بصر نگاہ کی جمع ہے۔ یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد روئیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا۔ یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار سے مشرف ہونگے۔ اس لئے مسلمانوں کا ایک فرقہ کا اس آیت سے ثبوت و دلیل کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں، جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (شب معراج میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعًا جھوت بولا (صحیح بخاری) ، کیونکہ اس آیت کی روح سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں دیدار ممکن ہوگا، جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا :۔ (وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22ۙ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ 23ۚ ) 75 ۔ القیامۃ :23-22) کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔
[١٠٥] ان تمام مذکورہ اشیاء کو پیدا کرنے والی ہستی ایسی ہے جسے انسان اپنی ان آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- کیا اس دنیا میں دیدار الہی ممکن ہے ؟ مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ (رض) کے پاس بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے (مخاطب کر کے) کہا : ابو عائشہ (رض) (مسروق کی کنیت) تین باتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی بات بھی اگر کسی نے کہی تو اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ جس نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (شب معراج میں) اپنے پروردگار کو دیکھا اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣۔ ) 6 ۔ الانعام :103) ۔ نیز فرماتا ہے : (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ 51) 42 ۔ الشوری:51) میں اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا : ام المومنین جلدی نہ کیجئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : ( وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13 ۙ ) 53 ۔ النجم :13) نیز فرمایا : ( وَلَقَدْ رَاٰهُ بالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ 23ۚ ) 81 ۔ التکوير :23) سیدنا عائشہ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم میں نے اس بارے میں رسول اللہ سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا : وہ تو جبریل تھے جنہیں میں نے دیکھا تھا۔ اور دونوں بار ان کی اصلی صورت میں نہیں بلکہ آسمان سے اترتے دیکھا اور وہ اتنے بڑے تھے کہ زمین و آسمان کے درمیان کی فضا بھر گئی تھی۔ اور جس نے یہ سمجھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منزل من اللہ وحی سے کچھ چھپایا۔ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ فرماتا ہے : ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67) 5 ۔ المآئدہ :67) اور جس نے یہ سمجھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کو ہونے والی بات جانتے تھے۔ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :) ( قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ 65) 27 ۔ النمل :65) (ترمذی ابو اب التفسیر)- البتہ قیامت کو انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکے گا جیسا کہ بیشمار آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو کائنات کی رتی رتی چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر لمحہ انکی خبر گیری کر رہا ہے۔ پھر ان کی ہر چھوٹی موٹی ضرورت کو پورا بھی کرتا رہتا ہے۔
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ ۔۔ : ” اَدْرَکَ یُدْرِکُ “ کا معنی کسی چیز کو پالینا ہے، اس لیے اس کا معنی دیکھنا بھی ہوسکتا ہے اور کسی چیز کی حقیقت کو پالینا بھی۔ ادراک کا معنی اگر آنکھوں سے دیکھنا ہو تو اس کے متعلق ام المومنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” جو تمہیں بیان کرے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔ “ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ ) ۔۔ پھر فرمایا : ” لیکن آپ نے جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، سورة والنجم : ٤٨٥٥ ] عبداللہ بن مسعود (رض) نے بھی فرمایا ( سورة نجم میں مذکور آیات) (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنی، فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( فکان قاب قوسین أو أدنی ) : ٤٨٥٦ ]- صحابہ کرام (رض) میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا میں رب تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ یہی صحیح معلوم ہوتا ہے، صرف ابن عباس (رض) دیکھنے کے قائل ہیں، مگر وہ کبھی ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ مزید تفصیل سورة نجم میں آئے گی۔ یہ تمام بحث دنیا میں نہ دیکھ سکنے کی ہے، مگر قرآن مجید کی متعدد آیات اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن انبیاء کے علاوہ مومنوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا اور وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنی اپنی جگہ اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، جیسے چاند کے دیکھنے میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور جنت کی سب سے بڑی نعمت یہی ہوگی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَة، اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) [ القیامۃ : ٢١، ٢٢ ] ” کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ “ - لیکن ادراک کا معنی اگر حقیقت کو پالینا ہو تو یہ تو قیامت کے دن بھی نہ کسی فرشتے کے لیے ممکن ہے نہ رسول کے لیے، کیونکہ محدود مخلوق لا محدود کی حقیقت کو کیسے پاسکتی ہے۔ پھر زیر تفسیر آیت کے مطابق دنیا اور آخرت کسی جگہ بھی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو نہیں پاسکتیں۔
خلاصہ تفسیر - اور اس کے علیم ہونے کی اور اس میں منفرد ہونے کی یہ کیفیت ہے کہ) اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی (دنیا میں تو اس طرح کہ کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا، جیسا کہ دلائل شرعیہ سے ثابت ہے، اور آخرت میں اس طرح کہ اہل جنت کو دیکھیں گے جیسا کہ یہ بھی دلائل شرعیہ سے ثابت ہے لیکن احاطہ محال رہے گا اور جس محسوس بالبصر کے ظاہر کا احاطہ احساس بصری سے محال ہو تو اس کی حقیقت باطنی کا کہ ظاہر کے مقابلہ میں بدرجہا خفی تر ہے، احاطہ کرنا عقل سے جو کہ احساس سے بدرجہا زیادہ محتمل خطا ہے بدرجہ اولیٰ محال ہوگا) اور وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) سب نگاہوں کو (جو کہ اس کے احاطہ سے عاجز تھیں وجوباً ) محیط ہوجاتا ہے (اسی طرح اور چیزوں کو بھی علماً محیط ہے، (آیت) (وھو بکل شیء علیم) اور (اس امر سے کہ وہ سب محیط ہے اور اس کو کوئی محیط نہیں لازم آگیا کہ) وہی بڑا باریک ہیں، باخبر ہے (اور کوئی دوسرا نہیں، اور یہ وہ کمال علم ہے جس میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع (یعنی توحید و رسالت کے حق ہونے کے دلائل عقلیہ و نقلیہ) پہنچ چکے ہیں سو جو شخص (ان کے ذریعہ سے حق کو) دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا، اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا اور میں تمہارا (یعنی تمہارے اعمال کا) نگران نہیں ہوں (یعنی جیسا نگرانی کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے کہ ناشائستہ حرکت نہ کرنے دے، یہ میرے ذمہ نہیں، میرا کام صرف تبلیغ ہے) اور (دیکھئے) ہم اس (عمدہ) طور پر دلائل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کو پہنچا دیں، اور تاکہ یہ (منکرین تعصب سے) یوں کہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سے (ان مضامین کو) پڑھ لیا ہے (مطلب یہ کہ تاکہ ان پر اور زیادہ الزام ہو کہ ہم تو اس طرح واضح کرکے حق کو ثابت کرتے تھے اور تم پھر لغو بہانے تراشتے تھے) کہ ہم اس (قرآن کے مضامین) کو دانشمندوں کے لئے خوب ظاہر کردیں (یعنی قرآن کے نازل کرنے کے تین فائدے ہیں، ایک یہ کہ آپ کو اجر تبلیغ ملے، دوسرے یہ کہ منکرین پر زیادہ جرم قائم ہو، تیسرے یہ کہ دانشمند و طالبانِ حق کو حق ظاہر ہوجاوے پس) آپ (یہ نہ دیکھئے کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا) خود اس طریق پر چلتے رہئے جس (پر چلنے) کی وحی آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے (اور اس طریق میں بڑی چیز یہ اعتقاد ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (اور اس طریق میں تبلیغ کا حکم بھی داخل ہے) اور (اس پر قائم رہ کر) مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے (کہ افسوس انہوں نے قبول کیوں نہ کیا) اور (وجہ خیال نہ کرنے کی یہ ہے کہ) اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے (لیکن ان لوگوں کی بدعنوانیوں سے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ ان کو سزا دیں، اس لئے ایسا ہی سامان جمع کردیا، پھر ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا مسلمان بنا سکتے ہیں) اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس فکر میں پڑے ہی کیوں) ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان ( کے اعمال) کا نگراں نہیں بنایا اور نہ آپ (ان اعمال پر عذاب دینے کے ہماری طرف سے) مختار ہیں (پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق نہ ان کے جرائم کی تفتیش ہے اور نہ ان کی سزا کا حکم ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں تشویش ہے) ۔ - معارف و مسائل - سورة انعام کی ان پانچ آیات میں سے پہلی آیت میں ابصار، بصر کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نگاہ اور دیکھنے کی قوت، اور ادراک کے معنی پالنا، پکڑ لینا، احاطہ کرلینا ہیں، حضرت ابن عباس (رض) نے اس جگہ ادراک کی تفسیر احاطہ کرلینا بیان فرمائی ہے (بحر محیط)- معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ ساری مخلوقات جن و انس و ملائکہ اور تمام حیوانات کی نگاہیں مل کر بھی اللہ جل شانہ کو اس طرح نہیں دیکھ سکتیں کہ یہ نگاہیں اس کی ذات کا احاطہ کرلیں، اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کی نگاہوں کو پوری طرح دیکھتے ہیں اور ان کا دیکھنا ان سب پر محیط ہے، اس مختصر آیت میں حق تعالیٰ کی دو مخصوص صفتوں کا ذکر ہے، اول یہ کہ ساری کائنات میں کسی کی نگاہ بلکہ سب کی نگاہیں مل کر بھی اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکیں۔- حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر جہان کے سارے انسان اور جنّات اور فرشتے اور شیطان جب سے پیدا ہوئے، اور جب تک پیدا ہوتے رہیں گے وہ سب کے سب مل کر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں تو سب مل کر بھی اس کی ذات کا اپنی نگاہ میں احاطہ نہیں کرسکتے۔ (مظہری بحوالہ ابن ابی حاتم)- اور یہ خاص صفت حق جل شانہ کی ہی ہو سکتی ہے، ورنہ نگاہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت بخشی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے جانور کی چھوٹی سے چھوٹی آنکھ دنیا کے بڑے سے بڑے کُرّے کو دیکھ سکتی اور نگاہ سے اس کا احاطہ کرسکتی ہے، آفتاب و ماہتاب کتنے بڑے بڑے کُرّے ہیں کہ زمین اور ساری دنیا کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے، مگر ہر انسان بلکہ چھوٹے سے چھوٹے جانور کی آنکھ ان کُرّوں کو اسی طرح دیکھتی ہے کہ نگاہ میں ان کا احاطہ ہوجاتا ہے۔- اور حقیقت یہ ہے کہ نگاہ تو انسانی حواس میں سے ایک حاسّہ ہے، جس سے صرف محسوس چیزوں کا علم حاصل ہوسکتا ہے، حق تعالیٰ کی ذات پاک تو عقل و وہم کے احاطہ سے بھی بالاتر ہے، اس کا علم اس حاسہ بصر سے کیسے حاصل ہو - تو دل میں آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا - بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے - حق تعالیٰ کی ذات وصفات غیر محدود ہیں، اور انسانی حواس اور عقل و خیال سب محدود چیزیں ہیں، ظاہر ہے کہ ایک غیر محدود کسی محدود چیز میں نہیں سما سکتا، اسی لئے دنیا کے عقلاء و فلاسفر جنہوں نے عقلی دلائل سے خالق کائنات کا پتہ لگانے اور اس کی ذات وصفات کے ادراک کے لئے اپنی عمریں بحث و تحقیق میں صرف کیں، اور صوفیائے کرام جنہوں نے کشف و شہود کے راستہ سے اس میدان کی سیاحت کی، سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ اس کی ذات وصفات کی حقیقت کو نہ کسی نے پایا نہ پاسکتا ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا - دور بینان بارگاہ الست - غیر ازیں پے نہ بردہ اندکہ ہست - اور حضرت شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا - چہ شبہا نشستم دریں سیر گم - کہ حیرت گرفت آستینم کہ قم - رُویت باری تعالیٰ کا مسئلہ - انسان کو حق تعالیٰ کی زیارت ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں تمام علماء اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اس عالم دنیا میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اور زیارت نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ درخواست کی کہ رَبِّ اَرِنِی ” اے میرے پروردگار مجھے اپنی زیارت کرا دیجئے “۔ تو جواب میں ارشاد ہوا کہ لَن تَرَانِی ” آپ ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے “۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو جب یہ جواب ملتا ہے تو پھر اور کسی جن و بشر کی کیا مجال ہے، البتہ آخرت میں مؤمنین کو حق تعالیٰ کی زیارت ہونا صحیح و قوی احادیث متواترہ سے ثابت ہے، اور خود قرآن کریم میں موجود ہے :- (آیت ( وجوہ یومئذ الناضرہ)- ” قیامت کے روز بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “۔- البتہ کفار و منکرین اس روز بھی سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی رویت سے مشرف نہ ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے : (آیت)- کلا انہم عن ربھم یومئذ لمحجوبون)- ” یعنی کفار اس روز اپنے رب کی زیارت سے محجوب و محروم ہوں گے “۔- اور آخرت میں حق تعالیٰ کی زیارت مختلف مقامات پر ہوگی، عرصہ محشر میں بھی، اور جنت میں پہنچنے کے بعد بھی، اور اہل جنت کے لئے ساری نعمتوں سے بڑی نعمت حق تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو حق تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ جو نعمتیں جنت میں مل چکی ہوں ان سے زائد اور کچھ چاہئے تو بتلاؤ کہ ہم وہ بھی دیدیں، یہ لوگ عرض کریں گے، یا اللہ آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات دی، جنت میں داخل فرمایا، اس سے زیادہ ہم اور کیا چاہیں ؟ اس وقت حجاب درمیان سے اٹھا دیا جائے گا، اور سب کو اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی، اور جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہوگی، یہ حدیث صحیح مسلم میں حضرت صہیب (رض) سے منقول ہے۔- اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات چاند کی چاندنی میں تشریف فرما تھے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا مجمع تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کی طرف نظر فرمائی اور پھر فرمایا کہ (آخرت میں) تم اپنے رب کو اسی طرح عیاناً دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ - ترمذی اور مسند احمد کی ایک حدیث میں بروایت ابن عمر (رض) منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائیں گے، ان کو روزانہ صبح وشام حق تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی۔ - خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی کو حق تعالیٰ کی زیارت نہیں ہو سکتی، اور آخرت میں سب اہل جنت کو ہوگی، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو شب معراج میں زیارت ہوئی وہ بھی درحقیقت عالم آخرت ہی کی زیارت ہے، جیسا شیخ محی الدین ابن عربی نے فرمایا کہ دنیا صرف اس جہان کا نام ہے جو آسمانوں کے اندر محصور ہے، آسمانوں سے اوپر آخرت کا مقام ہے، وہاں پہنچ کر جو زیارت ہوئی اس کو دنیا کی زیارت نہیں کہا جاسکتا۔- اب سوال یہ رہتا ہے کہ جب آیت قرآنی لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَار سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رویت ہو ہی نہیں سکتی تو پھر قیامت میں کیسے ہوگی ؟ اس کا جواب کھلا ہوا یہ ہے کہ آیت قرآنی کے یہ معنی نہیں کہ انسان کے لئے حق تعالیٰ کی رویت وزیارت ناممکن ہے، بلکہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ انسانی نگاہ اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی، کیونکہ اس کی ذات غیر محدود اور انسان کی نظر محدود ہے۔- قیامت میں بھی جو زیارت ہوگی وہ اسی طرح ہوگی کہ نظر احاطہ نہیں کرسکے گی، اور دنیا میں انسان اور اس کی نظر میں اتنی قوت نہیں جو اس طرح کی رویت کو بھی برداشت کرسکے، اس لئے دنیا میں رویت مطلقًا نہیں ہو سکتی، اور آخرت میں قوت پیدا ہوجائے گی، تو رویت وزیارت ہوسکے گی، مگر نظر میں ذات حق کا احاط اس وقت بھی نہ ہو سکے گا۔- دوسری صفت حق تعالیٰ شانہ کی اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کی نظر ساری کائنات پر محیط ہے، دنیا کا کوئی ذرہ اس کی نظر سے چھپا ہوا نہیں، یہ علم مطلق اور احاطہ علمی بھی حق تعالیٰ شانہ کی ہی خصوصیت ہے، اس کے سوا کسی مخلوق کو تمام اشیاء کائنات اور ذرہ ذرہ کا علم نہ کبھی حاصل ہوا نہ ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ مخصوص صفت ہے رب العزت جل شانہ کی۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ، لطیف، عربی لغت کے اعتبار سے دو معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، ایک معنی مہربان، دوسرے بمقابل کثیف یعنی وہ چیز جو حواس کے ذریعہ محسوس وہ معلوم نہیں کی جاسکتی۔- اور خبیر کے معنی ہیں باخبر، معنی اس جملہ کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ لطیف ہیں، اس لئے حواس کے ذریعہ ان کا ادراک نہیں کیا جاسکتا، اور خبیر ہیں، اس لئے ساری کائنات کا کئی ذرہ ان کے علم و خبر سے باہر نہیں، اور اگر لطیف کے معنی اس جگہ مہربان کے لئے جاویں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اگرچہ ہمارے ہر قول وفعل بلکہ ارادہ اور خیال سے بھی باخبر ہیں، جس کا اقتضاء یہ تھا کہ ہم ہر گناہ پر پکڑے جایا کرتے، مگر چونکہ وہ لطیف و مہربان بھی ہیں، اس لئے ہر گناہ پر مواخذہ نہیں فرماتے۔
لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ ٠ۡوَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ٠ۚ وَہُوَاللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣- درك - الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] ، أي :- تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين .- ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ - التدارک ۔- ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔- لطف - اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ- [ الشوری 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، - ( ل ط ف ) اللطیف - ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ - اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا
رئویت باری تعالیٰ- قول باری ہے ( لا تدرکہ الابصارو ھو یدرک الابصار۔ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے) کہا جاتا ہے کہ ادراک کے اصل معنی لحقو یعنی پالینے اور جا لینے کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً آپ کہتے ہیں ” ادرک زمان المنصور “ یا ” ادرک ابا حنیفۃ “ ( اس نے خلیفہ منصور کا زمانہ پایا تھا یا اس اس نے امام ابوحنیفہ کو پایا تھا) نیز ” ادرک الطعام “ یا ” ادرک الزرع و الثمرۃ “ ( طعام پک کر تیار ہونے کے مرحلے کو پہنچ گیا یا فصل پک گئی پھل پک گئے) اسی طرح کہا جاتا ہے ” ادرک الغلام “ ( لڑکا بالغ ہوگیا) یعنی بالغ مردوں کی حالت کو پہنچ گیا۔ آنکھوں کا کسی چیز کو ادراک کرلینے کے معنی ہیں کہ آنکھیں اس چیز تک جا پہنچیں اور آنکھوں کو اس کی رئویت حاصل ہوگئی۔ اس لیے کہ اہل لغت کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتے ” ادرکت ببصریی شخصاً “ ( میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ ایک شخص کو جا لیا) تو اس کے معنی ہیں کہ ” میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا “۔- ادراک کو احاطہ کرنے کے معنی میں لینا درست نہیں ہے اس لیے کہ گھر ان تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہوتا ہے جو اس میں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ ان چیزوں کو مدرک نہیں کہلاتا۔ اس لیے قول باری ( لاتدر کہ الابصار) کے معنی یہ ہیں کہ آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں۔ اس میں آنکھوں کے ذریعے رئویت کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ کی مدح سرائی کی گئی ہے جس طرح اس قول باری ( لا تاخذہ سنۃ ولا نوم۔ اسے نہ اونگھ آسکتی ہے نہ نیند) میں نیند اور اونگھ کی نفی کر کے اللہ کی تعریف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے جس چیز کی نفی کر کے مدح سرائی کی ہو اس کی ضد کا اثبات ذم اور نقص کہلائے گا۔ اس لیے کسی حالت میں بھی اس کے نقیض یعنی صد کا اثبات نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح کہ اگر ( لاتاخذہ سنۃ ولا نوم) کی بناء پر صفت مدح کا استحقاق باطل ہو جاتاے سو اس کے نتیجے میں ایسی صفت لازم آتی جو نقص پر دلالت کرتی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے رئویت بصر کی نفی کرکے اپنی تعریف فرمائی ہے تو اب اس کی ضد اور نقیض کا کسی صورت میں بھی اثبات جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ اس طرح ایسی صفت کا اثبات لازم آئے گا جو نقص پر دلالت کرنے ولای ہوگی۔- اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ قول باری ( وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف نظر میں کئی معانی کا احتمال ہے۔ ایک معنی ثواب اور بد لے کے انتظار کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سلف کی ایک جماعت سیمروی ہے۔ جب اس آیت میں تاویل کا احتمال ہو اس کے ذریعے اس آیت کے حکم کی تخصیص درست نہیں ہوگی جس میں کسی قسم کی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس کا احتمال ۔ رئویت ذات باری کے متعلق جو روایات منقول ہیں اگر وہ روایت اور اسناد کے لحاظ سے درست تسلیم کرلی جائیں تو ان میں مذجکورہ رئویت سے علم مراد ہوگا۔
(١٠٣) اس کو تو کسی کی نگاہ دنیا میں از روئے رؤیت اور آخرت میں بااعتبار کیفیت کے محیط نہیں ہوسکتی اور نگاہوں کی پرواز وہاں تک نہیں ہوسکتی اور وہ دنیا و آخرت میں سب نگاہوں کو محیط ہوجاتا ہے، اس پر مخلوق کی کوئی چیز بھی خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ مخفی نہیں، وہ اپنے افعال میں بڑا باریک بین ہے، اس کا علم اس کی مخلوقات پر نافذ ہے اور اپنی مخلوق اور ان کے اعمال سے بڑا باخبر ہے یہ اس کے وہ کمالات ہیں جو اس کے سوا کسی میں اس طرح نہیں۔
آیت ١٠٣ (لاَ تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَج وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ) ۔- وہ اس حد تک لطیف ہے ‘ اس قدر لطیف ہے کہ انسانی نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ چناچہ اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شب معراج میں کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کو دیکھا یا نہیں دیکھا ؟ اس میں کچھ اختلاف ہے۔ حضرت علی (رض) کی رائے یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کو دیکھا تھا ‘ لیکن حضرت عمر اور حضرت عائشہ (رض) کی رائے ہے کہ نہیں دیکھا تھا۔ اس ضمن میں حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے : نُورٌ اَنّٰی یُرٰی یعنی وہ تو نور ہے اسے دیکھا کیسے جائے گا ؟ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب کوہ طور پر استدعا کی تھی : (رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ ط) (الاعراف : ١٤٣) پروردگار ‘ مجھے یارائے نظر دے کہ میں تیرا دیدار کروں تو صاف کہہ دیا گیا تھا کہ (لَنْ تَرٰٹنِی) تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ اتنی لطیف ہستی ہے کہ اس کا دیکھنا ہماری نگاہوں سے ممکن نہیں۔ ہاں دل کی آنکھ سے اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں بیٹھ کر بھی دل کی آنکھ سے اسے دیکھ سکتے تھے۔
41: یعنی اس کی ذات اتنی لطیف ہے کہ کوئی نگاہ اس کو نہیں پاسکتی اور وہ اتنا باخبر ہے کہ ہر نگاہ کو پالیتا ہے اور اس کے تمام حالات سے خوب واقف ہے اس جملے کی یہ تفسیر علامہ آلوسی (رح) نے متعدد مفسرین سے نقل کی ہے اور سیاق وسباق کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے یہاں یہ واضح رہے کہ لطافت بھی عام بول چال میں جسم ہی کی صفت ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے ؛ لیکن لطافت کا اعلی ترین درجہ وہ ہے جو جسمیت کے ہر شائبہ سے ماورا ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات کو لطیف اس معنی میں کہا گیا ہے۔