سب سے بےنیاز اللہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بےنیاز ہے ، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں ۔ اسے کسی سے کوئی فائدہ نہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ ساری مخلوق اپنے ہر حال میں اس کی محتاج ہے ۔ وہ بڑی ہی رافت و رحمت والا ہے رحم و کرم اس کی خاص صفتیں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:143 ) اللہ اپنے بندوں کے ساتھ مہربانی اور لطف سے پیش آنے والا ہے تو جو اس کی مخالفت کر رہے ہو تو یاد رکھو کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں ایک آن میں غارت کر سکتا ہے اور تمہارے بعد ایسے لوگوں کو بسا سکتا ہے جو اس کی اطاعت کریں ۔ یہ اس کی قدرت میں ہے تم دیکھ لو اس نے آخر اوروں کے قائم مقام تمہیں بھی کیا ہے ۔ ایک قرن کے بعد دوسرا قرن وہی لاتا ہے ایک کو مار ڈالتا ہے دوسرے کو پیدا کر دیتا ہے لانے لے جانے پر اسے مکمل قدرت ہے جیسے فرمان ہے اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو فنا کر دے اور دوسروں کو لے آئے وہ اس پر قادر ہے ۔ فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ) 35 ۔ فاطر:15 ) لوگو تم سب کے سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لے آئے اللہ کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں اور فرمان ہے آیت ( وَاللّٰهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ ) 47 ۔ محمد:38 ) اللہ غنی ہے اور تم سب فقیر ہو ۔ فرماتا ہے اگر تم نافرمان ہو گئے تو وہ تمہیں بدل کر اور قوم لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ ذریت سے مراد اصل و نسل ہے ، اے نبی آپ ان سے کہدیجئے کہ قیامت جنت دوزخ وغیرہ کے جو وعدے تم سے کئے جا رہے ہیں وہ یقینا سچے ہیں اور یہ سب کچھ ہونے والا ہے تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے وہ تمہارے اعادے پر قادر ہے ۔ تم گل سڑ کر مٹی ہو جاؤ گے پھر وہ تمہیں نئی پیدائش میں پیدا کرے گا اس پر کوئی عمل مشکل نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے بنی آدم اگر تم میں عقل ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کرو واللہ اللہ کی فرمائی ہوئی سب باتیں بہ یقین ہونے والی ہیں کوئی نہیں جو اللہ کے ارادے میں اسے ناکام کر دے ، اس کی چاہت کو نہ ہونے دے ، لوگوں تم اپنی کرنی کئے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا کہ ہدایت پر کون تھا ؟ اور ضلالت پر کون تھا ؟ کون نیک انجام ہوتا ہے اور کون گھٹنوں میں سر ڈال کر روتا ہے ۔ جیسے فرمایا بے ایمانوں سے کہہ دو کہ تم اپنے شغل میں رہو میں بھی اپنے کام میں لگا ہوں ۔ تم منتظر رہو ہم بھی انتظار میں ہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام کے لحاظ سے کون اچھا رہا ؟ یاد رکھو اللہ نے جو وعدے اپنے رسول سے کئے ہیں سب اٹل ہیں ۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ نبی جس کا چپہ چپہ مخالف تھا جس کا نام لینا دو بھر تھا جو یکہ وتنہا تھا جو وطن سے نکال دیا گیا تھا جس کی دشمنی ایک ایک کرتا تھا اللہ نے اسے غلبہ دیا لاکھوں دلوں پر اس کی حکومت ہو گئی اس کی زندگی میں ہی تمام جزیرہ عرب کا وہ تنہا مالک بن گیا یمن اور بحرین پر بھی اس کے سامنے اس کا جھنڈا لہرانے لگا ، پھر اس کے جانشینوں نے دنیا کو کھنگال ڈالا بڑی بڑی سلطنتوں کے منہ پھیر دیئے ، جہاں گئے غلبہ پایا جدھر رخ کیا ، فتح حاصل کی ، یہی اللہ کا وعدہ تھا کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے ، مجھ سے زیادہ قوت وعزت کسی کی نہیں ۔ فرما دیا تھا کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی مدد فرمائیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ رسولوں کی طرف اس نے وحی بھیجی تھی کہ ہم ظالموں کو تہ وبالا کر دیں گے اور ان کے بعد زمینوں کے سرتاج تمہیں بنا دیں گے کیونکہ تم مجھ سے اور میرے عذابوں سے ڈرنے والے ہو ۔ وہ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ تم میں سے ایمانداروں اور نیک کاروں کو میں زمین کا سلطان بنا دوں گا جیسے کہ پہلے سے یہ دستور چلا آ رہا ہے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے دین میں مضبوطی اور کشائش دے گا جس کے دین سے وہ خوش ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا ۔ فللہ احمد و المنہ اولا و اخر او ظاہر او باطنا
133۔ 1 وہ غنی بےنیاز ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لیے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لیے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لیے رحیم بھی ہے۔ اس کی بےنیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔ 133۔ 2 یہ اس کی بےپناہ قوت اور غیر محدود قدرت کا اظہار ہے جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست و نبود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ مزید ملاحظہ ہو سورة نساء 133، سورة ابراہیم 20، سورة فاطر 15، 17، سورة محمد 38۔
[١٤٠] تم پر اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ تم سے دین کی خدمت لے رہا ہے :۔ یعنی اللہ کی کوئی غرض تمہاری وجہ سے ان کی ہوئی نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑتا ہو اور فرمانبرداری سے اس کا کچھ سنورتا ہو بلکہ یہ اس کی انتہائی رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے تمہیں ہدایت کی راہ دکھائی۔ جس پر عمل کر کے تم عذاب سے بھی بچ سکتے ہو اور بلند درجات بھی حاصل کرسکتے ہو۔ اس کے مہربان ہونے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تمہیں فوراً سزا نہیں دے رہا اور تمہارے قصور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو تمہارے جرائم اتنے زیادہ ہیں کہ تمہیں اس دنیا سے رخصت کردیتا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آتا۔ جیسے تمہیں پہلی قوموں کے بعد لایا گیا ہے اور یہ کام اس کے لیے کچھ مشکل بھی نہیں۔ لہذا اس کی فرمانبرداری میں ہی تمہاری بھلائی ہے۔
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ : یہاں ” الْغَنِيُّ “ خبر معرفہ ہونے اور ” الرَّحْمَةِ “ پر ” الف لام “ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ” اور تیرا رب ہی ہر طرح بےپروا، کمال رحمت والا ہے “ اس کے سوا کوئی اور نہ ہی بےپروا ہے نہ کمال رحمت والا، یعنی اسے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں، پھر بھی بطور احسان کمال رحمت والا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پہلے جو نعمتیں ذکر ہوئی ہیں، مثلاً رسولوں کا بھیجنا وغیرہ، محض رحمت کی بنا پر ہیں، اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں۔ - ذُو الرَّحْمَةِ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ایک رحمت اس نے جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں اتاری ہے، وہ اسی ایک رحمت کی وجہ سے ایک دوسرے پر مہربانی کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی ایک رحمت کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اور ننانویں رحمتیں اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہیں جو اپنے بندوں پر قیامت کے دن کرے گا۔ “ [ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ ۔۔ : ١٩؍٢٧٥٢ ]- اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ ۔۔ : یعنی جس طرح تمہیں پہلے لوگوں کا جانشین بنایا اسی طرح تمہیں تباہ کر کے دوسروں کو تمہارا جانشین بنا سکتا ہے، یا یہ کہ اس کی قدرت جن و انس کو پیدا کرنے ہی پر منحصر نہیں، بلکہ وہ ان کے بجائے کوئی تیسری قسم کی مخلوق بھی پیدا کرسکتا ہے۔ (رازی) دیکھیے سورة نساء (١٣٣) ، سورة ابراہیم (١٩، ٢٠) اور سورة فاطر (١٥ تا ١٧)
خلاصہ تفسیر - اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب (رسولوں کو کچھ اس لئے نہیں بھیجتا کہ نعوذ باللہ وہ محتاج عبادت ہے وہ تو) بالکل غنی ہے (بلکہ اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ) رحمت والا (بھی) ہے (اپنی رحمت سے رسولوں کو بھیجا تاکہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کو منافع و مضار (نقصان دینی والی چیزیں) معلوم ہوجائیں، پھر منافع سے منتفع اور مضار سے محفوظ رہیں، سو اس میں بندوں ہی کا فائدہ ہے، اور باقی ان کا گناہ تو ایسا ہے کہ) اگر وہ چاہے تو تم سب کو (دنیا سے دفعةً ) اٹھالیوے اور تمہارے بعد جس (مخلوق) کو چاہے تمہاری جگہ (دنیا میں) آباد کر دے جیسا (اس کی نظیر پہلے سے موجود ہے کہ) تم کو (جو کہ اب موجود ہو) ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے (کہ ان کا کہیں پتہ نہیں اور تم ان کی جگہ موجود ہو، اور اسی طرح یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، لیکن یہ سلسلہ تدریجاً قائم ہے، اگر ہم چاہیں دفعةً بھی ایسا کردیں، کیونکہ کسی کے ہونے نہ ہونے سے ہمارا کوئی کام اٹکا نہیں پڑا، پس ارسالِ رسل ہمارے احتیاج کی وجہ سے نہیں تمہارے احتیاج کی وجہ سے ہے، تم کو چاہئے کہ ان کی تصدیق اور ان کا اتباع کرکے سعادت حاصل کرو اور کفر و انکار کے ضرر سے بچو کیونکہ) جس چیز کا (رسولوں کی معرفت) تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (یعنی قیامت و عذاب) وہ بیشک آنے والی چیز ہے اور (اگر احتمال ہو کہ گو قیامت آوے مگر ہم کہیں بھاگ جائیں گے، ہاتھ نہ آئیں گے، جیسا دنیا میں حکام کا مجرم کبھی ایسا کرسکتا ہے تو خوب سمجھ لو کہ) تم (خدا تعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے (کہ اس کے ہاتھ نہ آؤ، اور اگر باجود جو اقامت دلائل تعیین حق کے کسی کو اس میں کلام ہو کہ کفر ہی کا طریقہ اچھا ہے اسلام کا برا ہے، پھر قیامت سے کیا اندیشہ تو ایسے لوگوں کے جواب میں) آپ (آخری بات) یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم (تم جانو بہتر ہے) تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی (اپنے طور پر) عمل کر رہا ہوں، سو اب جلدی تم کو معلوم ہوا چاہتا ہے کہ اس عالم (کے اعمال) کا انجام کار کس کے لئے منافع ہوگا (ہمارے لئے یا تمہارے لئے اور) یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی (انجام میں) فلاح نہ ہوگی (اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حق تلفی ہے، اور یہ امر دلائل صحیحہ میں تھوڑا غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ طریقہ اسلام حق تلفی ہے یا طریقہ کفر، اور جو دلائل میں بھی غور نہ کرے اس سے اتنا کہہ دینا بس ہے فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ یعنی عنقریب تم اس عمل بد کا انجام جان لوگے) اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی (وغیرہ) اور مواشی پیدا کئے ہیں ان (مشرک) لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ (کے نام) کا مقرر کیا (اور کچھ بتوں کے نام کا مقرر کیا حالانکہ پیدا کرنے میں کوئی شریک نہیں) اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے (جو کہ مہمانوں اور مساکین اور مسافر وغیرہ عام مصارف میں صرف ہوتا ہے) اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (جس کے مصارف خاص ہیں) پھر جو چیز ان کے معبودوں (کے نام) کی ہوتی ہے وہ تو اللہ (نام کے حصہ) کی طرف نہیں پہنچتی (بلکہ اتفاقاً مل جانے سے بھی الگ نکال لی جاتی ہے) اور جو چیز اللہ (کے نام) کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں (کے نام کے حصہ) کی طرف پہنچ جاتی ہے، انہوں نے کیا بری تجویز نکال رکھی ہے (کیونکہ اول تو اللہ کا پیدا کیا ہوا دوسرے کے نام کیوں جائے، دوسرے پھر جتنا اللہ کا حصہ نکالا ہے اس میں سے بھی گھٹ جاوے، اور اگر غناء و احتیاج اس کا مبنیٰ ہے تو محتاج مان کر معبود سمجھنا اور زیادہ حماقت ہے) ۔- معارف و مسائل - اس سے پہلی آیت میں مذکور تھا کہ اللہ جل شانہ، کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جن و بشر کی ہر قوم میں اپنے رسول اور اپنی ہدایات بھیجی ہیں، اور جب تک رسولوں کے ذریعہ ان کو پوری طرح متنبہ نہیں کردیا گیا اس وقت تک ان کے کفر و شرک اور معصیت و نافرمانی پر ان کو کبھی سزا نہیں دی۔- مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ رسولوں اور آسمانی کتابوں کے تمام سلسلے کچھ اس لئے نہیں تھے کہ رب العالمین کو ہماری عبادت اور اطاعت کی حاجت تھی، یا اس کا کوئی کام ہماری اطاعت پر موقوف تھا، نہیں وہ بالکل بےنیاز اور غنی ہے، مگر اس کے کامل استغناء اور بےنیازی کے ساتھ اس میں ایک صفت رحمت بھی ہے اور سارے عالم کے وجود میں لانے پھر باقی رکھنے اور ان کی ظاہری اور باطنی موجودہ اور آئندہ تمام ضرورتوں کو بےمانگے پورا کرنے کا سبب بھی صفت رحمت ہے، ورنہ بیچارہ انسان اپنی ضروریات کو خود پیدا کرنے کے قابل تو کیا ہوتا اس کو تو اپنی تمام ضروریات کے مانگنے کا بھی سلیقہ نہیں، خصوصاً نعمت و جود جو عطا کی گئی ہے اس کا تو بےمانگے ملنا بالکل ہی واضح ہے کہ کسی انسان نے کہیں اپنے پیدا ہونے کی دعا نہیں مانگی، اور نہ وجود سے پہلے دعا مانگنے کا کوئی تصور ہوسکتا ہے، اسی طرح انسان کی تخلیق جن اعضاء سے کی گئی ہے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤ ں، دل و دماغ کیا یہ چیزیں کسی انسان نے مانگی تھیں، یا کہیں اس کو مانگنے کا شعور و سلیقہ تھا ؟ کچھ نہیں بلکہ - مانبودیم و تقاضا ما نبود لطف تو ناگفتہ مامی شنود - اللہ تعالیٰ سب سے بےنیاز ہے تخلیق کائنات صرف اس کی رحمت کا نتیجہ ہے - بہر حال اس آیت میں وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ کے الفاظ سے رب الارباب کی بےنیازی بیان کرنے کے ساتھ ذو الرَّحْمَةِ کا اضافہ کرکے یہ بتلا دیا کہ وہ اگرچہ تم سب سے بلکہ ساری کائنات سے بالکل مستغنی اور بےنیاز ہے، لیکن بےنیازی کے ساتھ وہ ذوالرحمة یعنی رحمت والا بھی ہے۔- کسی انسان کو اللہ نے بےنیاز نہیں بنایا اس میں بڑی حکمت ہے، انسان بےنیاز ہوجائے تو ظلم کرتا ہے - اور یہ اسی ذات کا کمال ہے ورنہ انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر وہ دوسروں سے بےنیاز اور مستغنی ہوجائے تو اس کو دوسروں کے نفع نقصان اور رنج و راحت کی کوئی پروا نہیں رہتی، بلکہ اسی حالت میں وہ دوسروں پر ظلم وجور کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے، قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ہے (آیت) ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی۔ یعنی انسان جب اپنے آپ کو بےنیاز اور مستغنی پاتا ہے تو وہ سرکشی اور طغیانی پر آمادہ ہوجاتا ہے، اسی لئے حق جل شانہ، نے انسان کو ایسی ضروریات میں جکڑ دیا ہے جو دوسروں کی امداد کے بغیر پوری ہی نہیں ہو سکتی، بڑے سے بڑا بادشاہ اور حاکم نوکروں چاکروں اور چپراسیوں کا محتاج ہے، بڑے سے بڑا مالدار اور مل آنر مزدوروں کا محتاج ہے، صبح کو جس طرح ایک مزدور اور رکشا چلانے والا کچھ پیسے حاصل کرکے محتاجی دور کرنے کے لئے تلاش روزگار میں نکلتا ہے ٹھیک اسی طرح بڑے مالدار جن کو اغنیاء کہا جاتا ہے وہ مزدور اور رکشا اور گاڑی، سواری کی تلاش میں نکلتے ہیں، قدرت نے اس کو محتاجی کی ایک زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے، کسی کا کسی پر احسان نہیں اور یہ نہ ہوتا تو نہ کوئی مالدار کسی کو ایک پیسہ دیتا اور نہ کوئی مزدور کسی کا ذرا سا بوجھ اٹھاتا، یہ تو صرف حق جل شانہ کی صفت کمال ہے کہ کامل استغناء اور بےنیازی کے باوجود و ذوالرحمة یعنی رحمت والا ہے، اس جگہ ذوالرحمة کے بجائے اگر رحمن یا رحیم کا لفظ لایا جاتا تب بھی مقصود کلام ادا ہوجاتا، لیکن غنی ہونے کے ساتھ صفت رحمت کے جوڑ کی خاص اہمیت ظاہر کرنے کے لئے عنوان ذو الرَّحْمَةِ کا اختیار فرمایا گیا کہ وہ غنی اور مکمل بےنیاز ہونے کے باوجود صفت رحمت بھی مکمل رکھتا ہے، اور یہی صفت رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا اصل سبب ہے۔- اس کے بعد یہ بھی بتلا دیا کہ جس طرح اس کی رحمت عام اور تام ہے اسی طرح اس کی قدرت ہر چیز اور ہر کام پر حاوی ہے، اگر وہ چاہے تو تم سب کو ایک آن میں فناء کرسکتا ہے، اور ساری مخلوق کے فنا کردینے سے بھی اس کے کارخانہ قدرت میں ادنیٰ سا فرق نہیں آتا، پھر اگر وہ چاہے تو موجودہ ساری کائنات کو فناء کر کے ان کی جگہ دوسری مخلوق اسی طرح اسی آن میں پیدا کرکے کھڑی کر دے، جس کی ایک نظیر انسان کے ہر دور میں اس کے سامنے رہتی ہے، کہ آج جو کروڑوں انسان زمین کے چپہ چپہ پر آباد اور زندگی کے تمام شعبوں کے مختلف کاروبار کو چلا رہے ہیں، اگر اب سے ایک سو سال پہلے کی طرف غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی یہ دنیا اسی طرح آباد تھی، اور سب کام چل رہے تھے، مگر موجودہ آباد کرنے والوں اور کام چلانے والوں میں سے کوئی نہ تھا، ایک دوسری قوم تھی جو آج زیر زمین ہے، اور جس کا آج نام و نشان بھی نہیں ملتا، اور موجودہ دنیا اسی پہلی قوم کی نسل سے پیدا کی گئی ہے، ارشاد ہے : (آیت)- اۭاِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ - یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو تم سب کو لے جائیں، لے جانے سے مراد ایسا فنا کردینا ہے کہ نام و نشان تک گم ہوجائے، اور اسی لئے یہاں ہلاک کرنے یا مار دینے کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ لے جانا ارشاد فرمایا، جس میں فناء محض اور بےنام و نشان کردینے کی طرف اشارہ ہے۔
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَۃِ ٠ ۭ اِنْ يَّشَاْ يُذْہِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَـمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ ١٣٣ ۭ- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(١٣٣) آپ کا پروردگار ان کے ایمان سے غنی (بےنیاز) ہے اور جو ایمان لائے اس سے عذاب کو موخر کرکے رحمت فرماتا ہے مکہ والو اگر وہ چاہیے تو تم سب کو ہلاک کردے اور تمہارے بعد دوسری قوم کو آباد کرے۔
آیت ١٣٣ (وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذو الرَّحْمَۃِ ط) ۔- اسے کسی کو عذاب دے کر کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور کسی کی بندگی اور اطاعت سے اس کا کوئی رکا ہوا کام چل نہیں پڑتا۔ وہ ان سب چیزوں سے بےنیاز ہے۔ - (اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْم بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآءُ ) - وہ اس پر قادر ہے کہ ایک نئی مخلوق کو تمہارا جانشین بنا دے ‘ کوئی نئی لے آئے۔ اللہ کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ چاہے تو ایک نئی نسل آدم پیدا کر دے۔ - (کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ ) ۔- جیسے قوم عاد عرب کی بڑی زبردست اور طاقتور قوم تھی ‘ لیکن جب اس کو تباہ برباد کردیا گیا تو ان ہی میں سے کچھ اہل ایمان لوگ جو حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھی تھے وہاں سے ہجرت کر کے چلے گئے اور ان کے ذریعے سے بعد میں قوم ثمودوجود میں آئی۔ پھر قوم ثمود کو بھی ہلاک کردیا گیا اور ان میں سے بچ رہنے والے اہل ایمان سے آگے نسل چلی اور مختلف علاقوں میں مختلف قومیں آباد ہوئیں۔ چناچہ جیسے تمہیں ہم نے اٹھایا ہے کسی دوسری قوم کی نسل سے ‘ اسی طریقے سے ہم تمہیں ہٹا کر کسی اور قوم کو لے آئیں گے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :101 ”تمہارا رب بے نیاز ہے“ یعنی اس کی کوئی غرض تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے ، اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ نہیں ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہو ، یا تمہاری فرماں برداری سے اس کو کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہو ۔ تم سب مل کر سخت نافرمان بن جاؤ تو اس کی بادشاہی میں ذرہ برابر کمی نہیں کر سکتے ، اور سب کے سب مل کر اس کے مطیع فرمان اور عبادت گزار بن جاؤ تو اس کے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے ۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے اور نہ تمہاری نذر و نیاز کا ۔ اپنے بے شمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے بغیر اس کے کہ ان کے بدلہ میں اپنے لیے تم سے کچھ چاہے ۔ ”مہربانی اس کا شیوہ ہے“ ۔ یہاں موقع و محل کے لحاظ سے اس فقرے کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ تمہارا رب تم کو راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور حقیقت نفس الامری کے خلاف طرز عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری راست روی سے اس کا کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے ، بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے ۔ لہٰذا یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں اس صحیح طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے جس سے تم بلند مدارج تک ترقی کرنے کے قابل بن سکتے ہو اور اس غلط طرز عمل سے روکتا ہے جس کی بدولت تم پست مراتب کی طرف تنزل کرتے ہو ۔ دوسرے یہ کہ تمہارا رب سخت گیر نہیں ہے ، تم کو سزا دینے میں اسے کوئی لطف نہیں آتا ہے ، وہ تمھیں پکڑنے اور مارنے پر تلا ہوا نہیں ہے کہ ذرا تم سے قصور سرزد ہو اور وہ تمہاری خبر لے ڈالے ۔ درحقیقت وہ اپنی تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے ، غایت درجہ کے رحم و کرم کے ساتھ خدائی کر رہا ہے ، اور یہی اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے ۔ اسی لیے وہ تمہارے قصور پر قصور معاف کرتا چلا جاتا ہے ۔ تم نافرمانیاں کرتے ہو ، گناہ کرتے ہو ، جرائم کا ارتکاب کرتے ہو ، اس کے رزق سے پل کر بھی اس کے احکام سے منہ موڑتے ہو ، مگر وہ حلم اور عفو ہی سے کام لیے جاتا ہے اور تمھیں سنبھلنے اور سمجھنے اور اپنی اصلاح کر لینے کے لیے مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے ۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ تمھیں دنیا سے رخصت کر دیتا اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا کھڑا کرتا ، یا سارے انسانوں کو ختم کر کے کوئی اور مخلوق پیدا کر دیتا ۔
63: یعنی اس نے رسولوں کو بھیجنے کا جو سلسلہ جاری فرمایا اس کی وجہ معاذ اللہ یہ نہیں تھی کہ وہ تمہاری عبادت کا محتاج ہے وہ تو مخلوق کی عبادت سے بے نیاز ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ رحمت والا بھی ہے، اس لیے اس نے پیغمبر بھیجے ہیں جو بندوں کو اس صحیح راہ عمل کی طرف متوجہ کرتے رہیں جس میں ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہتری کا سامن ہو۔ 64: جس طرح آج کے تمام لوگ ان لوگوں کی نسل سے ہیں جن کا اب کوئی پتہ نشان باقی نہیں رہا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو یہ بھی قدرت ہے کہ آج کے تمام لوگوں کو ایک ہی مرتبہ میں ختم کر کے دوسری قوم پیدا کردے، لیکن وہ اپنی رحمت کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہا۔