Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اولاد کے قاتل اولاد کے قاتل اللہ کے حلال کو حرام کرنے والے دونوں جہان کی بربادی اپنے اوپر لینے والے ہیں ۔ دنیا کا گھاٹا تو ظاہر ہے ان کے یہ دونوں کام خود انہیں نقصان پہنچانے والے ہیں بے اولاد یہ ہو جائیں گے مال کا ایک حصہ ان کا تباہ ہو جائے گا ۔ رہا آخرت کا نقصان سو چونکہ یہ مفتری ہیں ، کذاب ہیں ، وہاں کی بدترین جگہ انہیں ملے گی ، عذابوں کے سزاوار ہوں گے جیسے فرمان ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے نجات سے محروم کامیابی سے دور ہیں یہ دنیا میں گو کچھ فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو ہمارے بس میں آئیں گے پھر تو ہم انہیں سخت تر عذاب چکھائیں گے کیونکہ یہ کافر تھے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اگر تو اسلام سے پہلے کے عربوں کی بد خصلتی معلوم کرنا چاہے تو سورۃ انعام کی ایک سو تیس آیات کے بعد آیت ( قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ ) 6 ۔ الانعام:31 ) والی روایت پڑھو ( بخاری کتاب مناقب قریش )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٩] مشرکوں کی اس خود ساختہ شریعت کی ایک ایک دفعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ (١) بتوں اور درباروں کے مجاوروں نے قانون سازی کے جملہ اختیارات خود سنبھال رکھے تھے۔ (٢) وہ اپنی ان اختراعات کو دین کا حصہ بنا دیتے تھے (٣) اور حیلوں بہانوں سے لوگوں سے مال بٹورتے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کو تلف کردیتے تھے (٤) حلال و حرام قرار دینے کے جملہ اختیارات بھی انہیں کے پاس تھے (٥) وہی قتل اولاد کے مجرم تھے۔ غرض یہ کہ شرک کی کوئی قسم باقی نہ رہ گئی تھی جو انہوں نے اختیار نہ کی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے جرائم بتا کر مسلمانوں کو متنبہ فرماتے ہیں کہ ایسے سر سے پاؤں تک شرک میں پھنسے ہوئے لوگوں کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے جن اسلاف اور بزرگوں نے اللہ پر اس طرح کے جھوٹ گھڑ لیے تھے انہیں ہدایت یافتہ قرار دیا جاسکتا ہے ؟ جو خود بھی گمراہ ہوئے اور آنے والی نسلوں کو بھی گمراہی کی راہ پر ڈال دیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ : فرمایا جن لوگوں نے یہ کام کیے انھوں نے دنیا اور آخرت میں خسارا اٹھایا، دنیا میں اپنی بےوقوفی اور جہالت سے اپنی اولاد کو قتل کرنے کی وجہ سے اولاد سے محروم ہوئے اور اپنے اموال میں سے کچھ چیزوں کو خود ہی حرام قرار دے کر اپنے آپ کو تنگی اور مشکل میں ڈال لیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھنے کی وجہ سے بدترین انجام سے دوچار ہوں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللہِ۝ ٠ ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۝ ١٤٠ ۧ- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔- سفه - السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] - ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٠) وہ لوگ خرابی میں پڑگئے جنہوں نے اپنی لڑکیوں کو اپنی حماقت کے سبب بلا کسی سند کے زندہ دفن کر ڈالا یہ آیت ربیعہ دنصر عرب کے بڑے قبیلوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ اپنے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے مگر بنی کنانہ والے ایسی حرکت نہیں کرتے تھے۔- اور جن جانوروں اور کھیتوں کو اللہ تعالیٰ نے ان پر حلال کیا تھا انہوں نے اپنی عورتوں پر ان کو حرام کردیا، محض اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے طور پر اپنی باتوں سے خود ہی گمراہی میں پڑگئے اور ان غلط باتوں ہی کی وجہ سے یہ کبھی راہ پر چلنے والے نہیں ہوئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٠ (قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلاَدَہُمْ سَفَہًام بِغَیْرِعِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افْتِرَآءً عَلَی اللّٰہِ ط) ۔- یعنی ان ساری غلط رسومات کا انتساب وہ لوگ اللہ کے نام کرتے تھے۔ دوسری طرف وہ بتوں کے نام پر قربانیاں دیتے اور استھانوں پر نذرانے بھی چڑھاتے تھے۔ اسی طرح کے نذرانے وہ اللہ کے نام پر بھی دیتے تھے۔ یہ سارے معاملات ان کے ہاں اللہ تعالیٰ اور بتوں کے لیے مشترکہ طور پر چل رہے تھے۔ اس طرح انہوں نے سارا دین مشتبہ اور گڈ مڈ کردیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :115 یعنی اگرچہ وہ لوگ جنھوں نے یہ رسم و رواج گھڑے تھے تمہارے باپ دادا تھے ، تمہارے مذہبی بزرگ تھے ، تمہارے پیشوا اور سردار تھے ، لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہے ، ان کے ایجاد کیے ہوئے غلط طریقے صرف اس لیے صحیح اور مقدس نہیں ہوسکتے کہ وہ تمہارے اسلاف اور بزرگ تھے ۔ جن ظالموں نے قتل اولاد جیسے وحشیانہ فعل کو رسم بنایا ہو ، جنہوں نے خدا کے دیے ہوئے رزق کو خواہ مخواہ خدا کے بندوں پر حرام کیا ہو ، جنھوں نے دین میں اپنی طرف سے نئی نئی باتیں شامل کر کے خدا کی طرف منسوب کی ہوں ، وہ آخر فلاح یاب اور راست رو کیسے ہو سکتے ہیں ۔ چاہے وہ تمہارے اسلاف اور بزرگ ہی کیوں نہ ہوں ، بہرحال تھے وہ گمراہ اور اپنی اس گمراہی کا برا انجام بھی وہ دیکھ کر رہیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani