Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خود ساختہ حلال و حرام جہالت کا ثمر ہے اسلام سے پہلے عربوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے چوپائے جانوروں میں تقسیم کر کے اپنے طور پر بہت سے حلال بنائے تھے اور بہت سے حرام کر لئے تھے جیسے بحیرہ ، سائبہ ، وسیلہ اور حام وغیرہ ۔ اسی طرح کھیت اور باغات میں بھی تقسیم کر رکھی تھی ۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے ، کھیت ہوں باغات ہوں ، چوپائے ہوں پھر ان چوپایوں کی قسمیں بیان فرمائیں بھیڑ ، مینڈھا ، بکری ، بکرا ، اونٹ ، اونٹنی ، گائے ، بیل ۔ اللہ نے یہ سب چیزیں تمہارے کھانے پینے ، سواریاں لینے ، اور دوری قسم کے فائدوں کے لئے پیدا کی ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۭ يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ) 39 ۔ الزمر:6 ) اس نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے مویشی پیدا کئے ہیں ۔ بچوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ان میں بھی کبھی وہ مردوں کیلئے مخصوص کر کے عورتوں پر حرام کر دیتے تھے پھر ان سے ہی سوال ہوتا ہے کہ آخر اس حرمت کی کوئی دلیل کوئی کیفیت کوئی وجہ تو پیش کرو ۔ چار قسم کے جانور اور مادہ اور نر ملا کر آٹھ قسم کے ہو گئے ، ان سب کو اللہ نے حلال کیا ہے کیا تو اپنی دیکھی سنی کہہ رہے ہو؟ اس فرمان الٰہی کے وقت تم موجود تھے؟ کیوں جھوٹ کہہ کر افترا پردازی کر کے بغیر علم کے باتیں بنا کر اللہ کی مخلوق کی گمراہی کا بوجھ اپنے اوپر لاد کر سب سے بڑھ کر ظالم بن رہے ہو؟ اگر یہی حال رہا تو دستور ربانی کے ماتحت ہدایت الٰہی سے محروم ہو جاؤ گے ۔ سب سے پہلے یہ ناپاک رسم عمرو بن لحی بن قمعہ خبیث نے نکالی تھی اسی نے انبیاء کے دین کو سب سے پہلے بدلا اور غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

143۔ 1 یعنی انشأ ثمانیۃ ازواج (اسی اللہ تعالیٰ نے آٹھ زوج پیدا کیئے) ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوج (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک فرد کو بھی زوج کہہ لیا جاتا ہے کیا ان کہ ہر ایک دوسرے کے لئے زوج ہوتا ہے۔ قرآن میں اس مقام پر بھی ازواج، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی 8 افراد اللہ نے پیدا کیے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں یہ نہیں کہ زوج کہ بمعنی جوڑے پیدا کیے کیونکہ اس طرح تعداد 8 کے بجائے 16 ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔ 143۔ 2 یہ ثَمَا نِیَۃَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم نر اور مادہ یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ۔ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کیئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا شامل ہے) ۔ 143۔ 3 مشرکین بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کرلیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں ؟ مطلب یہ کہ اللہ نے کسی کو حرام نہیں کیا۔ 143۔ 4 تمہارے پاس حرام کردینے کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِیْرَۃ، سَاَئِبَۃِ ، وَصِیْلَۃِ اور حام وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٥] اس آیت میں اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کی ان خود ساختہ پابندیوں کا عقلی طور پر محاسبہ کیا ہے تاکہ ان کی بات کی غیر معقولیت کھل کر سامنے آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آٹھ جوڑوں کا ذکر کیا یعنی کل جنسیں چار ہیں اور جوڑے آٹھ مثلاً بھیڑ اور مینڈھا، بکرا اور بکری، اونٹ اور اونٹنی اور گائے اور بیل۔ اور یہی جانور ہیں جو عرب میں پائے جاتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ان مشرکوں سے پوچھو کہ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ہی جنس کا نر تو حلال ہو اور مادہ حرام ہو۔ یا مادہ حلال ہو اور نر حرام ہو یا جانور خود تو حلال ہو ؟ مگر اس کے پیٹ سے نکلا ہوا بچہ زندہ ہو تو کسی پر حرام ہو اور کسی پر حلال اور مردہ ہو تو وہ سب کے لیے حلال ہو ؟ یہ تو ایسی غیر معقول باتیں ہیں جنہیں عقل سلیم ماننے سے انکار کرتی ہے۔ پھر کیا اللہ ایسی لغو باتوں کا حکم دے سکتا ہے اور کیا تم ایسے غیر معقول احکام کسی آسمانی کتاب سے دکھا سکتے ہو ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۚ: یہ آیت (١٤١) میں ” ٓ اَنْشَاَ “ کا مفعول بہ ہے۔ ” اَزْوَاجٍ “ زَوْجٌ کی جمع ہے۔ عربی میں جوڑے کے دو افراد میں سے ہر ایک کو زوج کہتے ہیں، نر ہو یا مادہ۔ اس لیے زوجین کا معنی ( نر اور مادہ دو قسمیں) ایک جوڑا ہوگا نہ کہ دو جوڑے۔ اسی کے مطابق ترجمہ آٹھ قسمیں کیا گیا ہے۔ - قُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ ۔۔ : جب مشرکین نے اونٹوں، گائیوں اور بھیڑ بکریوں میں سے بعض مخصوص جانوروں کو حرام اور ان کے پیٹ کے بچوں میں سے زندہ بچوں کو عورتوں کے لیے حرام اور مردہ کو سب کے لیے حلال قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اب ان سے اس کی دلیل کا مطالبہ فرما رہے ہیں کہ اگر وہ دلیل عقلی ہے تو بتاؤ کہ حرام ہونے کی وجہ ان دونوں کا نر ہونا ہے، اگر یہ وجہ ہے تو پھر ان میں سے کئی نر تم کیوں کھاتے ہو ؟ یا مادہ ہونا ہے تو پھر تم ان میں سے کئی مادہ جانور حلال کیوں سمجھتے ہو ؟ یا پیٹ کا بچہ ہونا ہے تو تم کئی پیٹ کے بچے خود کیوں کھاتے ہو اور اگر دلیل نقلی ہے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم لاؤ جس میں اس نے ان جانوروں کے کسی نر یا مادہ یا رحم میں موجود بچے کو تمہارے کہنے کے مطابق حلال یا حرام کہا ہو، یا تم خود اس وقت موجود تھے جب اللہ تعالیٰ نے حلال یا حرام کرنے کا یہ حکم جاری فرمایا ؟ پھر بتاؤ اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے نہ خود سنا، نہ کسی رسول کے واسطے سے سنا بلکہ اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں نے عمرو بن لُحَیّ کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا، سب سے پہلے بتوں کے نام پر جانور (بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی) اسی نے چھوڑے تھے۔ “- [ بخاری، التفسیر، باب : ( ما جعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ۔۔ ) : ٤٦٢٣ ]- مقصود مشرکین کے خود ساختہ حرام کیے ہوئے جانوروں کی حرمت کی تردید ہے کہ بحیرہ اور سائبہ وغیرہ جانوروں کو انھوں نے اپنی طرف سے حرام کر رکھا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے یہ جانور حلال کیے ہیں۔ - وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ : ہرن بکری کی جنس میں داخل ہے اور بھینس، نیل گائے اور گورخر (جنگلی گدھا) یہ گائے اور بیل کی جنس ہیں۔ یہ جانور عرب میں اتنے نہیں ہوتے۔ چوپاؤں کی مشہور چار قسمیں وہی ہیں جو یہاں مذکور ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اور یہ مواشی جن میں تحلیل و تحریم کر رہے ہو) آٹھ نر و مادہ (پیدا کئے) یعنی بھیڑ (اور دنبہ) میں دو قسم (ایک نر ایک مادہ) اور بکری میں دو قسم (ایک نر اور ایک مادہ) آپ (ان سے) کہئے کہ (یہ تو بتلاو کہ) کیا اللہ تعالیٰ نے ان (دونوں جانور کے) دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو (حرام کہا ہے) یا اس (بچہ) کو جس کو دونوں مادہ (اپنے) پیٹ میں لئے ہوئے ہوں (وہ بچہ نر ہو یا مادہ یعنی تم جو مختلف صورتوں سے تحریم کے مدعی ہو تو کیا تحریم اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے) تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتلاو اگر (اپنے دعوے میں) سچے ہو (یہ تو چھوٹے قد والے کے متعلق بیان ہوا آگے بڑے قد والوں کا بیان ہے کہ بھیڑ بکری میں بھی نر و مادہ پیدا کیا، جیسا بیان ہوا) اور (اسی طرح) اونٹ میں دو قسم (ایک نر اور ایک مادہ) اور گائے (اور بھینس) میں دو قسم (ایک نر اور ایک مادہ پیدا کئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے اس باب میں بھی) کہئے کہ (یہ تو بتلاو کہ) کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں (جانور کے) نروں کو حرام کہا ہے یا دونوں مادہ کو (حرام کہا ہے) یا اس (بچہ) کو جس کو دونوں مادہ (اپنے) پیٹ میں لئے ہوئے ہوں (وہ بچہ نر ہو یا مادہ، اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ تم جو مختلف صورتوں سے تحریم کے مدعی ہو تو کیا یہ تحریم اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے ؟ اس پر کوئی دلیل قائم کرنا چاہئے، جس کے دو طریقے ہیں، ایک تو یہ کہ کسی رسول و فرشتہ کے واسطہ سے ہو، سو مسئلہ نبوت و وحی سے تو تم کو انکار ہی ہے، اس شق کو تو اختیار کر نہیں سکتے، پس دوسرا طریق دعویٰ کرنے کے لئے متعین ہوگیا کہ خود خدا تعالیٰ نے بلاواسطہ تم کو یہ احکام دئیے ہوں تو) کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس (تحریم و تحلیل) کا حکم دیا (اور ظاہر ہے کہ اس کا دعویٰ بھی نہیں ہوسکتا، پس ثابت ہوگیا کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں) تو (بعد ثبوت اس امر کے کہ اس دعوے پر کوئی دلیل نہیں یقینی بات ہے کہ) اس سے زیادہ کون ظالم (اور کا ذب) ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل (تحلیل و تحریم کے باب میں) جھوٹی تہمت لگائے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے (یعنی یہ شخص بڑا ظالم ہوگا اور) یقینا اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو (جنت کا) راستہ (آخرت میں) نہ دکھلاویں گے (بلکہ دوزخ میں بھیجیں گے، پس یہ لوگ بھی اس جرم کی سزا میں روزخ میں جاویں گے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثَمٰنِيَۃَ اَزْوَاجٍ۝ ٠ ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ۝ ٠ ۭ قُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـيَيْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَيْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَـيَيْنِ۝ ٠ ۭ نَبِّــــُٔــوْنِيْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ١٤٣ ۙ- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- ضأن - الضَّأْنُ معروفٌ. قال تعالی: مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ [ الأنعام 143] ، وأَضْأَنَ الرّجلُ : إذا کثر ضَأْنُهُ ، وقیل : الضَّائِنَةُ واحد الضَّأْنِ.- ( ض ء ن ) الضان کے معنی بھیڑ اور دنبہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ [ الأنعام 143] دو ( دو ) بھیڑوں میں سے ۔ اضان الرجل بہت بھیڑ والا ہوگیا ۔ بعض نے کہا ہے ضان کا واحد ضائنۃ ہے ۔- معز - قال تعالی: وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ [ الأنعام 143] والْمَعِيزُ : جماعة المعز، كما يقال : ضئين لجماعة الضّأن، ورجل ماعز : معصوب الخلق، والأَمْعَز والمِعْزَاء : المکان الغلیظ، واسْتَمْعَزَ في أمره : جدّ- ( م ع ز ) المعز۔ بکریاں قرآن میں ہے : وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ [ الأنعام 143] المعز بکریوں کے ریوڑ کو کہتے ہیں جیسا کہ ضئین ۔ بھیڑوں کے ریوڑ پر بولا جاتا ہے ۔ رجل ماعز سخت جسم والا آدمی الامعز وامعز اء سخت زمین استمعزنی فی امرہ کسی کام میں کوشش کرنا ۔- ذَّكَرُ ( مذکر)- والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه - الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] - ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) - - «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- رحم ( المراۃ)- الرَّحِمُ : رَحِمُ المرأة، وامرأة رَحُومٌ تشتکي رحمها . ومنه استعیر الرَّحِمُ للقرابة، لکونهم خارجین من رحم واحدة ( ر ح م ) الرحم ۔ عورت کا رحم ۔ اور رحوم اس عورت کو کہتے ہیں جسے خرابی رحم کی بیماری ہو اور استعارہ کے طور پر رحم کا لفظ قرابت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ تمام اقرباء ایک ہی رحم سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اس میں رحم و رحم دولغت ہیں - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مشرکین کا ایک غلط عقیدہ - قول باری ہے ( ثمانیۃ ازواج من الضان اثنین و من العمز اثنین یہ آٹھ نرو مادہ ہیں۔ دو بھیڑ کی قسم سے اور دو بکری کی قسم سے) تا قول باری ( الظالمین) قول باری ( ثمانیۃ ازواج) قول باری ( حمولۃ و فرشا) بدل ہے اس لیے کہ یہ آٹھ نرو مادہ بھی انشاء یعنی پیدائش کے فعل میں داخل ہیں۔ گویا یوں فرمایا ” انشاء ثمانیہ ازواج ( نر و مادہ کے آٹھ جوڑے پیدا کیے) ان چاروں اصناف میں ہر صنف کے نر اور مادہ میں سے ہر ایک کو زوج کہا جاتا ہے۔ نر اور مادہ کے ایک جوڑے کو بھیی زوج کہا جاتا ہے جس طرح مقدمے کے ایک فریق کو خصم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور فریقین کو بھیی اسی نام سے پکارا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے نر اور مادہ کے یہ چار جوڑے حلال کردیے ہیں۔ اور مشرکین نے اس میں سے بحیرو، سائبہ، فصیلہ اور حامی کو قرار دیا تھا نیز ان میں سے کچھ جانوروں ک و اپنے شریکوں کے لیے خاص کردیا تھا۔ یہ سب کچھ انہوں نے کسی دلیل اور برہان کے بغیر کیا تھا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو جہالت کی بنا پر گمراہ کرتے رہیں۔ اسی لیے فرمایا نبئونی بعلم ان کنتم صادقین، ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ بتائو اگر تم سچے ہو) - پھر فرمایا ( ام کنتم شھدآء اذ وصکم اللہ بھذا کیا تم اس وقت حاضر تھ جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم تمہیں دیا تھا) اس لیے کہ علم حاصل کرنے کے دو ہی ذرائع ہیں یا تو مشاہدہ ہوجائے یا پھر دلیل موجود ہو جس کے ذریعے تمام عقلاء حق کے ادراک میں شامل ہوسکتے ہو۔ جب مشرکین ان میں سے کسی ایک کے ذریعے دلالت قائم کرنے سے عاجز رہ گئے تو اس سے ان کے اس طریقہ کار کا بطلان ثابت ہوگیا جو انہوں نے بعض مویشیوں کی تحریم کے سلسلے میں اختیار کر رکھا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٣) اور یہ جانور جن میں تم تحریم وتحلیل کررہے ہو، آٹھ نر و مادہ پیدا کیے، بھیڑ اور دنبہ میں دو قسم ایک نر دوسری مادہ اور اسی طرح بکری میں دو قسم نر و مادہ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مالک سے کہیی کہ یہ تو بتلاؤ بحیرہ اور وصیلہ کو حرام کیا ہے تو نروں کے پانی کی وجہ سے ان کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کی وجہ سے یا اس بچہ پر دونوں مادہ کے اجتماع کی وجہ سے اسے حرام کیا ہے اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام کیا ہے تو میرے سامنے کوئی دلیل تو لاؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٣ ( ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ ج) - یہ اس بات کا جواب ہے جو انہوں نے حاملہ ماداؤں کے بارے میں کہی تھی کہ ان کے پیٹوں میں جو بچے ہیں ان کا گوشت صرف مرد ہی کھا سکتے ہیں ‘ جب کہ عورتوں پر یہ حرام ہے۔ ہاں اگر مرا ہوا بچہ پیدا ہو تو اس کا گوشت مردوں کے ساتھ عورتیں بھی کھا سکتی ہیں۔ - (مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ ط) (قُلْ ءٰٓ الذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ ط) - غور طلب نکتہ ہے کہ اس میں حرمت آخر کہاں سے آئی ہے۔ اللہ نے ان میں سے کس کو حرام کیا ہے ؟ نر کو ‘ مادہ کو ‘ یا بچے کو ؟ پھر یہ کہ اگر کوئی شے حرام ہے تو سب کے لیے ہے اور اگر حرام نہیں ہے تو کسی کے لیے بھی نہیں ہے۔ یہ تم نے جو نئے نئے قوانین بنا لیے ہیں وہ کہاں سے لے آئے ہو ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :119 یعنی گمان و وہم یا آبائی روایات نہ پیش کرو بلکہ علم پیش کرو اگر وہ تمہارے پاس ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

75: مطلب یہ ہے کہ تم لوگ کبھی نر جانور کو حرام قرار دے دیتے ہو کبھی مادہ جانور کو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ جوڑے پیدا کرتے وقت نہ نر کو حرام کیا تھا نہ مادہ کو، اب تم ہی بتاؤ کہ اگر نر ہونے کی وجہ سے کوئی جانور حرام ہوتا ہے توہمیشہ نر ہی حرام ہونا چاہئے اور اگر مادہ ہونے کی وجہ سے حرمت آتی ہے تو ہمیشہ مادہ ہی حرام ہونا چاہئے، اور اگر کسی مادہ کے پیٹ میں ہونے کی وجہ سے حرمت آتی ہے تو پھر بچہ نرہویامادہ ہر صورت میں حرام ہونا چاہئے، لہذا تم نے اپنی طرف سے جو احکام گھڑ رکھے ہیں نہ ان کی کوئی علمی یا عقلی بنیاد ہے اور نہ اللہ کا کوئی حکم ایسا آیا ہے۔