اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے بندے اور نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان کافروں سے جو اللہ کے حلال کو اپنی طرف سے حرام کرتے ہیں فرما دیں کہ جو وحی الٰہی میرے پاس آئی ہے اس میں تو حرام صرف ان چیزوں کو کیا گیا ہے ، جو میں تمہیں سناتا ہوں ، اس میں وہ چیزیں حرمت والی نہیں ، جن کی حرمت کو تم رائج کر رہے ہو ، کسی کھانے والے پر حیوانوں میں سے سوا ان جانوروں کے جو بیان ہوئے ہیں کوئی بھی حرام نہیں ۔ اس آیت کے مفہوم کا رفع کرنے والی سورۃ مائدہ کی آئیندہ آیتیں اور دوسری حدیثیں ہیں جن میں حرمت کا بیان ہے وہ بیان کی جائیں گی ، بعض لوگ اسے نسخ کہتے ہیں اور اکثر متأخرین اسے نسخ نہیں کہتے کیونکہ اس میں تو اصلی مباح کو اٹھا دینا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ خون وہ حرام ہے جو بوقت ذبح بہ جاتا ہے ، رگوں میں اور گوشت میں جو خون مخلوط ہو وہ حرام نہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گدھوں اور درندوں کا گوشت اور ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آ جائے ، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں ۔ عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھوں کا کھانا حرام کر دیا ہے ، آپ نے فرمایا ، ہاں حکم بن عمر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت کرتے ہیں لیکن حضرت ابن عباس اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت ( قل لا اجد ) تلاوت کرتے ہیں ، ابن عباس کا فرمان ہے کہ اہل جاہلیت بعض چیزیں کھاتے تھے بعض کو بوجہ طبعی کراہیت کے چھوڑ دیتے تھے ۔ اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا ، اپنی کتاب اتاری ، حلال حرام کی تفصیل کر دی ، پس جسے حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جسے ہرام کر دیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموش رہے وہ معاف ہے ۔ پھر آپ نے اسی آیت ( قل لا اجد ) کی تلاوت کی ۔ حضرت سودہ بنت زمعہ کی بکری مر گئی ، جب حضور سے ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ جواب دیا کہ کیا مردہ بکری کی کھال اتار لینی جائز ہے؟ آپ نے یہی آیت تلاوت فرما کر فرمایا کہ اس کا صرف کھانا حرام ہے ، لیکن تم اسے دباغت دے کر نفع حاصل کر سکتے ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے آدمی بھیج کر کھال اتروالی اور اس کی مشک بنوائی جو ان کے پاس مدتوں رہی اور کام آئی ۔ ( بخاری وغیرہ ) حضرت ابن عمر سے قنفد ( یعنی خار پشت جسے اردو میں ساہی بھی کہتے ہیں ) کے کھانے کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے یہی آیت پڑھی اس پر ایک بزرگ نے فرمایا میں نے حضرت ابو ہریرہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تھا تو آپ نے فرمایا وہ خبیثوں میں سے ایک خبیث ہے اسے سن کر حضرت ابن عمر نے فرمایا اگر حضور نے یہ فرمایا ہے تو وہ یقینا ویسی ہی ہے جیسے آپ نے ارشاد فرما دیا ( ابو داؤد وغیرہ ) پھر فرمایا جو شخص ان حرام چیزوں کو کھانے پر مجبور ہو جائے لیکن وہ باغی اور ہد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اسے اس کا کھا لینا جائز ہے اللہ اسے بخش دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے اس کی کامل تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے یہاں تو مشرکوں کے اس فعل کی تردید منظور ہے جو انہوں نے اللہ کے حلال کو حرام کر دیا تھا اب بتا دیا گیا کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ۔ اگر اللہ کی طرف سے وہ بھی حرام ہوتیں تو ان کا ذکر بھی آ جاتا ۔ پھر تم اپنی طرف سے حلال کیوں مقرر کرتے ہو؟ اس بنا پر پھر اور چیزوں کی حرمت باقی رہتی جیسے کہ گھروں کے پالتو گدھوں کی ممانعت اور درندوں کے گوشت کی اور جنگل والے پرندوں کی جیسے کہ علماء کا مشہور مذہب ہے ( یہ یاد رہے کہ ان کی حرمت قطعی ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور قرآن نے حدیث کا ماننا بھی فرض کیا ہے ۔ مترجم )
145۔ 1 اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورة بقرہ 173 کے حاشیہ میں گزر چکی ہے یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمہ حصر سے کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین جاہلانہ طریقوں اور ان کے بیان چلا رہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہونگے۔ اس کے علاوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لیے دو اصول بیان فرمادئیے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ او فسقا کا عطف لحم خنزیر پر ہے۔ اس لیے منصوب ہے، معنی ہی ای ذبح علی الاصنام، وہ جانور جو بتوں کے نام پر یا ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیے جائیں۔ یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جئے تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں۔ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور سارا اسی کے تقرب ونیاز کے لیے کیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔
[١٥٧] بنیادی طور پر کونسی اشیاء حرام ہیں ؟ یہی مضمون سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ اور سورة مائدہ کی آیت نمبر ٣ میں گزر چکا ہے۔ ان سب مقامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر چار ہی چیزیں ہیں جو حرام ہیں۔ (١) مردار (٢) خون (٣) خنزیر کا گوشت اور (٤) ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر مشہور کردی جائے۔ اس آیت میں یہ وضاحت مزید ہے کہ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت جانور کے جسم سے نکل جاتا ہے اور اگر کچھ تھوڑا بہت جسم میں رہ جائے تو وہ حرام نہیں اور سورة مائدہ کی آیت نمبر ٣ میں مردار کی بھی بعض صورتیں بیان ہوئی ہیں یعنی خواہ وہ مردار گلا گھٹ کر مرا ہو یا چھڑی کی ضرب سے یا بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مرا ہو۔ کچھ جانوروں اور پرندوں کی حرمت سنت نبوی سے ثابت ہے۔ (تفصیل محولہ بالا آیات میں دیکھئے)- [١٥٨] دیکھئے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ کا حاشیہ۔
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ ۔۔ : مردہ سے مراد ہر وہ حلال جانور ہے جو بغیر ذبح کیے طبعی طور پر یا حادثے سے ( جس کی تفصیل مائدہ کی آیت ٣ میں ہے) مرجائے یا شرعی طریقے کے خلاف ذبح کیا گیا ہو، مثلاً جان بوجھ کر تیز دھار آلے کی ایک ہی ضرب سے گردن جدا کردی جائے، یا سخت گرم پانی میں ڈبو کر مار دیا جائے، یا کرنٹ وغیرہ کے ذریعے سے غرض شرعی ذبیحہ یا شکار کے علاوہ سب مردار ہیں اور حرام ہیں۔ خون جو بہایا جائے، زندہ کا یا ذبیحہ کا، حرام ہے، البتہ جسم کے ساتھ لگا رہ جانے والا خون یا کلیجی اور تلی، بہایا ہوا خون نہ ہونے کی وجہ سے حلال ہیں۔ خنزیر کا گوشت کہ وہ گندگی ہے، یعنی صحت کے لحاظ سے بیشمار بیماریوں کا باعث ہونے اور بےغیرتی میں بد ترین جانور ہونے کی وجہ سے کھانے والوں میں اس کی تاثیر کی بنا پر معنوی طور پر سراسر گندگی ہے۔ ” اَوْ فِسْقًا “ اس کا عطف ” ْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ “ پر ہے، یعنی یہ بھی اسی طرح حرام ہے۔ ” فِسْقًا “ کا معنی اللہ کی فرماں برداری سے نکل جانا ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ جانور اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے، اس لیے وہ جانور جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام پکارا جائے، حرام ہے۔ ” اُهِلَّ “ کا معنی آواز بلند کرنا ہے، کسی جانور پر اگر کسی غیر اللہ کا نام مشہور کردیا جائے کہ یہ داتا کا بکرا ہے، یا بری امام کی گائے ہے، یا فلاں پیر یا امام کی نذر و نیاز ہے، اس سے مقصود چونکہ غیر اللہ کو راضی کرنا ہے کہ وہ راضی ہو کر ہمارے کام سنوار دیں گے، اس لیے ایسے جانور کو ان کی رضا کے لیے ذبح کرتے وقت اس پر ” بسم اللہ “ بھی پڑھی جائے تو بھی حرام ہے، کیونکہ اعتبار نیت کا ہے اور نیت کا اظہار خود ان کی زبانی ہوچکا ہے اور عرس اور قبر کا ماحول بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ - فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ ۔۔ : یعنی جو شخص مجبوری کی بنا پر ان حرام چیزوں کو کھالے بشرطیکہ نہ انھیں حلال سمجھے اور نہ ضرورت سے آگے بڑھے تو تیرا رب نہایت بخشنے والا بیحد رحم والا ہے۔ سورة بقرہ میں صراحت ہے : ( ٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ ) [ البقرۃ : ١٧٣ ] ” اس پر کوئی گناہ نہیں۔ “ - اس آیت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ حرام چیزیں تو ان کے علاوہ بھی ہیں، پھر یہ فرمانے کا کیا مطلب کہ میں اپنی طرف کی ہوئی وحی میں ان کے علاوہ کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا ؟ اس کا جواب سورة بقرہ کی آیت (١٧٣) کی تفسیر میں گزر چکا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ دراصل اس زمانے کے مشرکین کے لحاظ سے بات ہو رہی ہے کہ انھوں نے بحیرہ، سائبہ وغیرہ کو حرام کر رکھا تھا اور مذکورہ بالا چاروں چیزیں وہ حلال سمجھتے اور کھاتے تھے، اس لیے فرمایا کہ میری وحی میں تو تمہاری حرام کردہ چیزیں حرام نہیں، صرف یہ چار چیزیں، جو تم بےدریغ کھاتے ہو، حرام ہیں۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ان آیات کے اترنے تک یہی چیزیں حرام تھیں، بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید کئی چیزیں حرام فرمائیں، جیسے قرآن مجید میں وہ رشتے مذکور ہیں جن سے نکاح حرام ہے، باقی سب کو حلال فرمایا، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث میں ان دو عورتوں کو جو آپس میں خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی ہوں، ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا۔ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح احادیث میں مزید کئی جانوروں کو حرام قرار دینا ثابت ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٣) کے حواشی۔
خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ (جن حیوانات میں کلام ہو رہا ہے ان کے متعلق) جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھاوے (خواہ مرد ہو یا عورت) مگر (ان چیزوں کو البتہ حرام پاتا ہوں وہ) یہ کہ وہ مردار (جانور) ہو، (یعنی جو باوجود واجب الذبح ہونے کے بلا ذبح شرعی مر جائے) یا یہ کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ (خنزیر) بالکل ناپاک ہے، (اس لئے اس کے سب اجزاء نجس اور حرام ہیں ایسا نجس نجس العین کہلاتا ہے) یا جو (جانور وغیرہ) شرک کا ذریعہ ہو (اس طرح) کہ (بقصد تقرب) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو (سو یہ سب حرام ہیں) پھر (بھی اس میں اتنی آسانی رکھی ہے کہ) جو شخص (بھوک سے بہت ہی) بیتاب ہوجاوے بشرطیکہ نہ تو (کھانے میں) طالب لذت ہو اور نہ (قدر ضرورت و حاجت سے) تجاوز کرنے والا ہو تو (اس حالت میں ان حرام چیزوں سے کھانے میں بھی اس شخص کو کچھ گناہ نہیں ہوتا) واقعی آپ کا رب (اس شخص کے لئے) غفور رحیم ہے (کہ ایسے وقت میں رحمت فرمائی کہ گناہ کی چیز میں سے گناہ اٹھا دیا) اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گائے اور بکری (کے اجزاء میں سے) ان دونوں کی چربیاں ان (یہود) پر ہم نے حرام کردی تھیں مگر وہ (چربی مستثنیٰ تھی) جو ان (دونوں) کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو (چربی) ہڈی سے ملی ہوئی ہو (باقی سب چربی حرام تھی، سو ان چیزوں کی تحریم فی نفسہ مقصود نہ تھی بلکہ) ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی تھی، اور ہم یقینا سچے ہیں، پھر (اس تحقیق مذکور کے بعد بھی) اگر یہ (مشرکین) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ اس مضمون میں صرف اس وجہ سے) کاذب کہیں (کہ ان پر عذاب نہیں آتا) تو آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے، (بعض حکمتوں سے جلدی مواخذہ نہیں فرماتا) اور (اس سے یوں نہ سمجھو کہ ہمیشہ یوں ہی بچے رہیں گے جب وہ وقت معیّن آجاوے گا پھر اس وقت) اس کا عذاب مجرم لوگوں سے (کسی طرح) نہ ٹلے گا۔
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ ٠ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٤٥- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، - ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے - ميتة- وَالمَيْتةُ من الحَيوان : ما زال روحه بغیر تذكية، قال : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة 3] ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام 145]- المیتہ - اس حیوان کو کہتے ہیں جس کی روح بغیر تذکیہ کے زائل ہوگئی ہو قرآن میں ہے : ۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة 3] تم پر مرا ہوا جانور حرام ہے ۔ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام 145] بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو ۔ - دم - أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية .- ( د م ی ) الدم - ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔- سفح - ( مسافحین) ، جمع مسافح، اسم فاعل من سافح الرباعي وزنه مفاعل بضم المیم وکسر العین - لحم - اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو :- لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ:- اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم :- قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ.- ( ل ح م ) اللحم - ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ - خنزیر - قوله تعالی: وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] ، قيل : عنی الحیوان المخصوص، وقیل : عنی من أخلاقه وأفعاله مشابهة لأخلاقها، لا من خلقته خلقتها، والأمران مرادان بالآية، فقد روي «أنّ قوما مسخوا خلقة» «1» ، وکذا أيضا في الناس قوم إذا اعتبرت أخلاقهم وجدوا کالقردة والخنازیر، وإن کانت صورهم صور الناس .- ( خ ن ز ر ) الخنزیر - ۔ کے معنی سور کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] اور ( جن کو ) ان میں سے بندر اور سور بنادیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں َ جن کے افعال و عادات بندر اور سور جیسے ہوگئے تھے ۔ نہ کہ وہ بلحاظ صورت کے بندر اور سور بن گئے تھے ۔ مگر زیر بحث آیت میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ مروی ہے کہ ایک قوم کی صورتیں مسخ ہوگئی تھیں اور وہ بندر سور بن گئے تھے ۔ اسی طرح انسانوں میں ایسے لوگوں بھی موجود ہیں جو شکل و صورت کے لحاظ سے گو انسان نظر آتے ہیں ۔ لیکن اخلاق و عادات کے اعتبار سے بندر اور سور بنے ہوئے ہیں ۔- رجس - الرِّجْسُ : الشیء القذر،- ، والرِّجْسُ يكون علی أربعة أوجه :- إمّا من حيث الطّبع، وإمّا من جهة العقل، وإمّا من جهة الشرع، وإمّا من کلّ ذلک کالمیتة، فإنّ المیتة تعاف طبعا وعقلا وشرعا، والرِّجْسُ من جهة الشّرع : الخمر والمیسر، وقیل : إنّ ذلک رجس من جهة العقل، وعلی ذلک نبّه بقوله تعالی: وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] ، لأنّ كلّ ما يوفي إثمه علی نفعه فالعقل يقتضي تجنّبه، وجعل الکافرین رجسا من حيث إنّ الشّرک بالعقل أقبح الأشياء، قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] ، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس 100] ، قيل : الرِّجْسُ : النّتن، وقیل : العذاب - ( ر ج س ) الرجس - پلید ناپاک جمع ارجاس کہا جاتا ہے ۔ - جاننا چاہیے کہ رجس چار قسم پر ہے - ( 1 ) صرف طبیعت کے لحاظ سے ( 2 ) صرف عقل کی جہت سے ( 3 ) صرف شریعت کی رد سے ( 4 ) ہر سہ کی رد سے جیسے میتہ ( مردار سے انسان کو طبعی نفرت بھی ہے اور عقل و شریعت کی در سے بھی ناپاک ہے رجس جیسے جوا اور شراب ہے کہ شریعت نے انہیں رجس قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ چیزیں عقل کی رو سے بھی رجس ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219]( مگر ) فائدہ سے ان کا گناہ ( اور نقصان ) بڑھ کر ۔ میں اسی معنی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ جس چیز کا نقصان اس کے نفع پر غالب ہو ضروری ہے کہ عقل سلیم اس سے مجتنب رہنے کا حکم دے اسی طرح کفار کو جس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کرتے ہیں اور شرک عند العقل قبیح ترین چیز ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جس کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تو اس ( سورت ) نے ان کی ( پہلی ) خباثت پر ایک اور خباثت پڑھادی ۔ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس 100] اور خدا ( شرک وکفر کی ) نجاست انہیں لوگون پر ڈالتا ہے جو ( دالائل وحدانیت ) میں عقل کو کام میں نہیں لاتے ۔ بعض نے رجس سے نتن ( بدبو وار ) اور بعض بت عذاب مراد لیا ہے - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- إهْلالُ :- رفع الصّوت عند رؤية الهلال، ثم استعمل لكلّ صوت، وبه شبّه إِهْلَالُ الصّبيّ ، وقوله : وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ [ البقرة 173] أي : ما ذکر عليه غير اسم الله، وهو ما کان يذبح لأجل الأصنام، وقیل : الْإِهْلَالُ والتَّهَلُّلُ : أن يقول لا إله إلّا الله، ومن هذه الجملة ركّبت هذه اللّفظة کقولهم : التّبسمل والبسملة والتّحولق والحوقلة إذا قال بسم اللہ الرحمن الرحیم، ولا حول ولا قوّة إلّا بالله، ومنه الْإِهْلَالُ بالحجّ ، وتَهَلَّلَ السّحاب ببرقه : تلألأ، ويشبّه في ذلک بالهلال، وثوب مُهَلَّلٌ: سخیف النّسج، ومنه شعر مُهَلْهَلٌ.- اور استھل کے معنی روئت ہلال ہیں لیکن کبھی استہلال بمعنی ھلال بھی آجاتا ہے جیسے استجا بۃ بمعنی اجابۃ الا ھلال کے معنی چاند نظر آنے پر آواز بلند کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ عام آواز بلند کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اسی سے تشبیہا اھل الصبی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں بچے نے آواز بلند کی اور آیت : ۔ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ [ البقرة 173] اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نما پکارا جائے کے معنی ہیں کہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے یعنی جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ اھلال اور تھلل کے معنی لا الہ الا للہ کہنے کے ہیں اور یہ لفظ جملہ مخفف ہے جیسا کہ تبسمل وبسملۃ اور تحویل وحو قلۃ کے معنی بسم اللہ الرحمن الرحیم، اور کہنے کے ہیں اور اسی سے اھلال بالحج ہے جس کے معنی بلند آواز سے تلبیہ کہنے کے ہیں اور باریک جھر جھر کپڑے کو ثوب مھلھل کہا جاتا ہے اور اسی سے شعر مھلھل ہے جس کے معنی عمدہ شعر کے ہیں ۔- الاضْطِرَارُ :- حمل الإنسان علی ما يَضُرُّهُ ، وهو في التّعارف حمله علی أمر يكرهه، وذلک علی ضربین :- أحدهما :- اضطرار بسبب خارج کمن يضرب، أو يهدّد، حتی يفعل منقادا، ويؤخذ قهرا، فيحمل علی ذلك كما قال : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126]- والثاني :- بسبب داخل وذلک إمّا بقهر قوّة له لا يناله بدفعها هلاك، كمن غلب عليه شهوة خمر أو قمار، وإمّا بقهر قوّة يناله بدفعها الهلاك، كمن اشتدّ به الجوع فَاضْطُرَّ إلى أكل ميتة، وعلی هذا قوله : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173]- الاضطرار - کے اصل معنی کسی کو نقصان وہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں اور عرف میں اس کا استعمال ایسے کام پر مجبور کرنے کے لئ ہوتا ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مجبوری کسی خارجی سبب کی بنا پر ہو مثلا مار پٹائی کی جائے یا دھمکی دی جائے حتی ٰ کہ وہ کسی کام کے کرنے پر رضا مند ہوجائے یا زبردستی پکڑکر اس سے کوئی کام کروایا جائے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126] پھر اس عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے ناچار کردوں گا ۔- ۔ دوم یہ کہ وہ مجبوری کسی داخلی سبب کی بنا پر ہو اس کی دوقسمیں ہیں - (1) کسی ایسے جذبہ کے تحت وہ کام کرے جسے نہ کرنے سے اسے ہلاک ہونیکا خوف نہ ہو مثلا شراب یا قمار بازی کی خواہش سے مغلوب ہوکر انکا ارتکاب کرے - (2) کسی ایسی مجبوری کے تحت اس کا ارتکاب کرے جس کے نہ کرنے سے اسے جان کا خطرہ ہو مثلا بھوک سے مجبور ہوکر مردار کا گوشت کھانا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشرطیکہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ( ضرورت ) سے باہر نہ نکل جائے ۔- باغ - في أكثر المواضع مذموم، وقوله : غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ، أي : غير طالب ما ليس له طلبه ولا متجاوز لما رسم له .- قال الحسن : غير متناول للذّة ولا متجاوز سدّ الجوعة «1» .- وقال مجاهد رحمه اللہ : غير باغ علی إمام ولا عاد في المعصية طریق الحق «2» .- گو لغت میں بغی کا لفظ محمود اور مذموم دونوں قسم کے تجاوز پر بولا جاتا ہے مکر قرآن میں اکثر جگہ معنی مذموم کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة يونس 23) تو ملک میں ناھق شرارت کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ ( سورة يونس 23) تمباری شرارت کا وبال تمہاری ہی جانوں پر ہوگا ۔ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللهُ ( سورة الحج 60) پھر اس شخص پر زیادتی کی جائے تو خدا اسکی مدد کریگا ۔ إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ ( سورة القصص 76) قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا ۔ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا ( سورة الحجرات 9) اور لوگ ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو ۔ آیت کریمہ ؛ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ ( سورة البقرة 173) بشرطیکہ ) خدا کی نافرمانی نہ کرے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اتنا ہی لے جتنی اسے ضرورت ہے اور حد متعین سے آگے نہ بڑھے ۔ امام حسین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ نہ تو محض لذت کے لئے کھائے ۔ اور نہ ہی سدر حق ( یعنی ضرورت سے ) تجاوز کرے ۔ مجاہد (رح) نے کہا ہے کہ کے یہ معنی میں بشرطیکہ وہ نہ تو امام وقت سے باعنی ہو اور نہ ہی معصیت کا ارتکاب کرکے راہ حق سے تجاوز کرنے والا ہو ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
حلال اور حرام جانوروں کی تفصیل - قول باری ہے ( قل لا اجد فیما او حی الی محرما علی طاعم بصعمہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو) تا آخر آیت ۔ طائوس سے مروی ہے ک اہل جاہلیت یہت سی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے اور بہت سی اشیاء کو حرام۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما) یعنی ان چیزوں میں سے جنہیں تم حلال سمجھتے تھے ( الا ان تکون میتتاً او دما مسفوحا او لحم خنزیر ۔ الا یہ کہ وہ مردار ہوں یا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو) تا آخر آیت ۔ مخاطبت کا سیاق اس مفہوم پر دلالت کرتا ہے جو طائوس سے مروی ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان مویشیوں کا ذکر فرمایا جنہیں یہ مشرکین حرام قرار دیتے تھے پھر اللہ کے حرام کردہ جانوروں کی تحریم پر ان کی مذمت کی اس لیے لہجہ تندو تیز اختیار کیا پھر ان کی جہالت اور لا علمی کو واضح کردیا اس لیے کہ انہوں نے علم کے بغیر محض جہالت کی بنیاد پر ان مویشیوں کی تحریم کا رویہ اپنایا تھا۔ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں تھی۔ اس کے بعد اس قول کو عطف کیا۔ ( قل لا اجذ فیما اوحی الیٰ محرما) یعنی ان جانوروں اور اشیاء میں سے جنہیں تم حرام قرار دیتے ہو سوائے ان کے جن کا آگے ذکر آ رہا ہے۔ جب آیت کی ترتیب ہماری بیان کردہ صورت کے مطابق ہے تو اب اس سے ان چیزوں کی اباحت پر استدلال درست نہیں ہوگا جن کا ذکر آیت میں نہیں ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سورة مائدہ کی ابتداء میں چند جانوروں کی تحریم کا ذکر ہے مثلاً دم گھٹ کر مرنے والا، چوٹ کھا کر مرنے والا یا اوپر سے نیچے لڑھک کر مرنے والا جانور وغیرہ۔ حالانکہ یہ تمام جانور آیت سے خارج ہیں۔ اس اعتراض کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ دم گھٹ کر مرنے والا جانور اور اس کے ساتھ آیت میں مذکورہ تمام جانور مردار ہیں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ( حرمت علیکم المیتۃ تم پر مردار حرام کردیا گیا) میں صرف مردار کی تحریم کا ذکر کیا پھر اس کیی صورتیں بیان فرما دیں اور ان اسباب کا ذکر کردیا جس کی بناء پر ایک جانور مردار کہلاتا ہے اس لیے میتہ کا لفظ دم گھٹ کر مرجانے والے جانور اور اسی طرح کے دوسرے تمام جانوروں کو شامل ہے جن کا ذکر سورة مائدہ کی آیت میں ہوا ہے۔- دوسرا جواب یہ ہے کہ سورة انعام مکی سورت ہے اس لیے ممکن ہے کہ اس وقت تک آیت زیر بحث میں حرام شدہ جانوروں اور اشیاء کے سوا اور کوئی جانور یا شے حرام نہ قرار دی گئی ہو۔ سورة مائدہ مدنی سورت ہے بلکہ نازل ہونے والی آخری سورت ہے۔ اس آیت میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ حرف او جب نفی پر داخل ہوتا ہے تو اس کے مدخول میں سے ہر ایک چیز علیحدہ اور بالذات ثابت ہوجاتی ہے۔ نیز یہ کہ حرف او تخییر کا مقتضی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ قول باری ( الا ان یکون میتۃ او دما مسفوحا او لحم خنزیر) مذکورہ چیزوں میں سے ہر ایک کی علیحدہ اور بالذات تحریم کو واجب کردیا ہے۔ سلف میں سے بہت سے حضرات نے آیت زیر بحث میں مذکورہ اشیاء کے ماسوا دیگر اشیاء کی اباحت پر آیت سے استدلال کیا ہے ان اشیاء میں پالتو گدھے بھی شامل ہیں۔ - پالتو گدھوں کا گوشت - سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ میں نے جابر بن زید سے پوچھا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے۔ جابر نے جواب میں کہا کہ الحکم بن عمرو الغفاری بھیی ہمارے سامنے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی بات نقل کرتے تھے لیکن ان کی اس بات کو علم کے سمندر یعنی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ آیت تلاوت کی تھی ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرم) تا آخر آیت، حماد بن سلمہ ن یحییٰ بن سعید سیروایت کی ہے انہوں نے قاسم سے انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ وہ درندوں کے گوشت نیز رگوں کے سرے پر موجود خون کے استعمال میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھیں۔ اس سلسلے میں وہ یہی آیت تلاوت کرتی تھیں۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک، سفیان ثوری اور امام شافعی گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے روکتے تھے۔ - حضرت ابن عباس (رض) سے اس سلسلے میں جو کچھ منقول ہے اس کا ذکر ہم نے درج بالا سطور میں کردیا ہے ۔ یعنی آپ اس کی اباحت کے قائل تھے بہت سے لوگوں نے اس مسئلے میں آپ کا مسلک اختیار کیا تھا تا ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم سے پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کے سلسلے میں بکثرت روایات منقول ہیں جو استفاضہ کی حد کو پہنچتی ہیں۔ زہری نے محمد بن الخفیہ کے دو بیٹوں حسن اور عبداللہ سے روایت کی ہے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ انہوں نے حضرت علی (رض) کو حضرت ابن عباس (رض) سے یہ کہتے ہوئے بنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح خیبر کی دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے اور عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ اب وہب نے یحییٰ بن عبداللہ بن سالم سے روایت کی ہے۔ انہوں نے عبدالرحمن بن الحارث المخزومی سے ، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے جب حضرت علی (رض) کی زبانی اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد سن لیا تو آپ نے اباحت کے قول سے رجوع کرلیا۔ امام ابوحنیفہ اور عبداللہ نے نافع سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ ابن عینیہ نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے،- انہوں نے محمد بن علی سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا تھا۔ حماد بن زید نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے محمد بن علی سے، انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ شعبہ نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت براء (رض) بن عازب سے یہ بات سنی تھی کہ ” غزوہ خیبر کے موقع پر کچھ گدھے ہمارے ہاتھ لگے ، ہم نے ان کا گوشت پکایا اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ اعلان کرا دیا گیا کہ اپنی ہانڈیاں الٹ دو ۔- حضرت ابن ابی اوفیٰ (رض) ، حضرت سلمہ (رض) بن الاکوع، حضرت ابوہریرہ (رض) خ حضرت ابو ثعلبہ الخشنی (رض) اور دیگر حضرات سے بھی پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کی روایتیں منقول ہیں بعض روایتیں تو براہ راست حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ممانعت نقل کرتی ہیں اور بعض میں اس کا ذکر فتح خیبر کے واقعہ کے ضمن میں ہوا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقعہ پر جو فرمایا تھا اس کے سبب کے متعلق بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ گدھے لوٹ کا مال تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ آپ نے اس لیے روک دیا تھا کہ آپ سے یہ کہا گیا تھا کہ گدھوں کی عتداد بہت کم ہوگئی ہے ، جبکہ کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ جلالہ تھے یعنی نجاست کھاتے تھے۔ جو لوگ اس کی اباحت کے قائل ہیں وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہی کی درج بالا صورتوں میں توجیہہ و تاویل کرتے ہیں۔ لیکن جو حضرات اس کی ممانعت کے قائل ہیں وہ ان تاویلات کو کئی وجوہ کی بنا پر باطل قرار دیتے ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ پالتو گدھا حلال نہیں ہے۔ ان میں حضرت مقدار بن الاسود (رض) اور ابو ثعلبہ الخشنی (رض) وغیرہما شامل ہیں۔ - گدھوں کے گوشت کے بارے میں حکم عام - دوم سفیان بن عینیہ نے ایوب السنحتیانی سے روایت کی ہے ، انہوں نے ابن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر فتح کرلیا تو لوگوں کو کچھ گدھے ہاتھ آ گئے۔ لوگوں نے انہیں ذبح کر کے گوشت پکایا اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ایک اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا کہ ” لوگو اللہ اور اس کا رسول تمہیں ان کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں اس لیے کہ یہ ناپاک ہیں اس لیے اپنی ہانڈیاں الٹ دو “۔ عبدالوہاب الثقفی نے ایوب السنحتیانی سے اپنی سند کے ساتھ اس کی روایت کی ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ ” اللہ اور اس کا رسوت تمہیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے روکتے ہیں اس لیے کہ یہ ناپاک ہیں “ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اس اعلان کے بعد پکتی ہوئی ہانڈیاں الٹ دی گئیں۔- یہ روایت ان حضرات کی اس تاویل کو باطل کردیتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لیے منع فرمایا تھا کہ یہ لوٹ کا مال تھے۔ اسی طرح وہ تاویل بھی باطل ہوجاتی ہے کہ کثرت سے ذبح ہونے کی وجہ سے گدھوں کا وجود ختم ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس لیے کہ درج بالا روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو یہ بتایا کہ پالتو گدھے نجس اور پلید ہوتے ہیں۔ یہ چیز گدھوں کی ذات کی تحریم پر دلالت کرتی ہے اس کے سوا کسی اور سبب کی بناپ ر تحریم پر دلالت نہیں کرتی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہانڈیوں کو الٹا دینے کا حکم دیا تھا۔ اگر نہی کی بنیاد وہ ہوتی جس کا ذکر اباحت کے قائلین نے کیا ہے تو اس صورت میں حضور صلی اللہ علیہ سولم اس کا گوشت مساکین کو کھلا دینے کا حکم دے سکتے تھے جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالک کو اجازت کے بغیر ذیح شدہ بکری کا گوشت قیدیوں کو کھلا دینے کا حکم دیا تھا۔- حضرت ابو ثعلبہ الخشنی (رض) سے روایت میں ہے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان جانوروں کے متعلق دریافت کیا تھا جن کا گوشت ان پر حرام تھا۔ آپ نے فرمایا ( لا تالک الحھار الا ھلی ولا کل ذی ناب من السباع۔ پالتو گدھے کا نیز کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں کا گوشت نہ کھائو) یہ روایت بھی ہماری مذکورہ ان تمام تاویلات کو باطل کردیتی ہے۔ جن سے ان کے گوشت کی اباحت ثابت کی جاتی ہے۔ سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے اس لیے منع فرما دیا تھا کہ یہ گدھگی کھاتے تھے۔ آپ کی نہی کی یہ تاویل اگر درست تسلیم کر بھی لے جائے تو حضرت ابو ثعلبہ (رض) اور دیگر اصحاب کی روایات میں یہ ذکر ہے کہ ان حضرات نے فتح خیبر کے سوا دوسرے مواقع پر آپ سے ان کے گوشت کے متعلق دریافت کیا تھا۔ یہ روایات اس بات کی طرف اشارے کی موجب ہیں کہ ان کی تحریم کسی سبب اور علت کی بناء پر نہیں ہوئی تھی بلکہ تحریم کی اصل وجہ پالتو گدھوں کی خود اپنی ذات تھی۔ عبدالرحمن بن منعفل نے قبیلہ مزنیہ کے ایک شخص سے جس کا نام بعض نے غالب بن الابجر بنایا ہے اور بعض نے الحر بن غالب، روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرص کیا کہ ” اب میرے پاس چند گدھوں کے سوا اپنے اہل و عیال کو کھلانے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا ( فاطعم اھلک من سمین مالک فانما کرھت لکم جو ال القریۃ۔- اپنے اہل و عیال کو ان جانوروں کا گوشت کھلائو جو موٹے تازے ہوں اس لیے کہ میں تمہارے لیے گائوں کا چکر لگانے والے جانور ناپسند کرتا ہوں) پالتو گدھوں کے گوشت کی اباحت کے قائلین نے اس روایت سے استدلال کیا ہے حالانکہ یہ روایت ان کے گوشت کی نہی پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ آپ نے فرمایا ( فانما کرھت لکم جو ال القریۃ) پالتو گدھے تمام کے تمام گائوں اور دیہاتوں کا چکر لگانے والے ہوتے ہیں۔ - جنگلی گدھوں کو جب مانوس کرلیا جائے - ہمارے نزدیک زیر بحث روایت کی توجیہ یہ ہے کہ اس میں جنگلی گدھوں کی اباحت کا حکم ہے ۔ اگر کوئی جنگلی گدھا انسانوں کی آبادی میں آ جائے اور اسے پالتو بنا لیا جائے تو آیا اس کو گوشت جائز ہوگا یا نہیں، ہمارے اصحاب حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر جنگلی گدھا پالتو بنا لیا جائے اور وہ انسانوں سے مانوس ہوجائے تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ جنگلی گدھا پالتو بن جائے اور پالتو گدھوں کی طرح اس سے باربرداری وغیرہ کا کام لیا جانے لگے تو اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جس جنگلی جانور کو پالتو بنا لیا جائے وہ تحریم کے اس حکم سے خارج نہیں ہوتا جو اس کی جنس کے لیے لازم ہوتا ہے یعنیی اس کا گوشت حرام ہوتا ہے۔ اسی طرح اس جنگلی جانور کا بھی حکم ہے جو انسانوں سے مانوس ہوگیا ہو۔ - درندوں کے بارے میں - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں اور چنگل والے پرندوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ اس قسم کے درندوں اور پرندوں کا گوشت حلال نہیں ہے۔ - امام مالک (رح) کا قول ہے کہ جنگلی درندوں ، جنگلی اور پالتوں بلوں اور بلیوں، لومڑیوں اور بجوئوں نیز ہر قسم کے درندوں کا گوشت حرام ہے۔ لیکن چیر پھاڑ کرنے والے پرندوں مثلاً گدھ، عقاب، چیل وغیرہ کا گوشت کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خواہ وہ مردار خور ہوں یا نہ ہوں۔ اوزاعی کا قول ہے کہ تمام پرندے حلال ہیں تا ہم گدھ کا گوشت مکروہ ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ بلی یا بلا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں تا ہم میں بجو کے گوشت کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں کا جو لوگوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، گوشت نہیں کھایا جائے گا مثلاً شیر، چیتا اور بھیڑیا۔ بجو اور لومڑی کا گوشت کھایا جائے گا لیکن چیل اور باز وغیرہ کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اس لیے کہ یہ لوگوں کے پالتو پرندوں پر چھپٹتے ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ۔ انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے ، انہیں حجاج نے، انہیں حماد نے، انہیں عمران بن جبیر نے کہ عکرمہ سے کوے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ موٹی مرغی ہے، جب ان سے بجو کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہموٹی بھیڑ ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بنبکر نے روایت بیان کی ہے۔- انہیں ابودائود نے انہیں القعنبی نے مالک سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابو ادریس الخولانی سے اور انہوں نے حضرت ثعلبہ الخشنی (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچلی کے دانت رکھنے والے ہر درندے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ۔ انہیں ابودائود نے، انہیں مدد نے، انہیں ابو عوانہ نے ابو بشر سے، انہوں نے میمون بن مہران سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں اور چنگل والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔ اس حدیث کو حضرت علی (رض) حضرت مقداد (رض) بن معدیکرب اور حضرت ابوہریرہ (رض) نیزدیگر اصحاب نے بھی روایت کی ہے کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں اور چنگل والے پرندوں کی تحریم کی یہروایت استفاضہ کے حد کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ان درندوں اور پرندوں میں لومڑی، بلی، چیل، اور گدھ بھی داخل ہیں۔ اس لیے انہیں کسی ایسی دلیل کے بغیر جو انکی تخصیص کی موجب ہو تحریم کے حکم سے مستثنیٰ کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ درج بالا روایات کو قبول کرلینے سے قول باری ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) کا نسخ لازم نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں غیر مذکور اشیاء اور جانور حرام نہیں کیے گئے اور مذکورہ اشای اور جانوروں کے ما سوا جتنی اشیاء اور جانور ہیں وہ اباحت کی اصل پر قائم ہیں ۔ اس لیے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہوتی ہے پھر حکم شرعی کی بنا پر ان پر حرمت طاری ہوجاتی ہے۔- پالتو گدھوں کے گوشت کے بارے میں وارد آثار روایات کا بھی یہی حکم ہے۔ اس کے باوجود بہت سی ایسی چیزوں کی تحریم پر جن کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے اہل علم کے اتفاق کی بناء پر آیت صرف چار چیزوں کی تحریم کے ساتھ خاص ہے اس لیے باقی ماندہ چیزوں کی تخصیص کے سلسلے میں اخبار احاد کو قبول کرلینا جائز ہوگیا۔ ہمارے اصحاب نے ایسے کوے کے گوشت کو مکروہ سمجھا ہے جس کی رنگت میں سیاہی اور سفیدی ملی ہوئی ہو یعنی چتکبرا ہو۔ اسے غراب ابقع کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ مردار خور ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک فصلوں میں رہنے والے کوے کے گوشت میں کوئی کراہت نہیں ہے۔- اس لیے کہ قتادہ نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( خمس فواسق یقتلھن المحرم فی الحل و الحرم پانچ جانور بڑے بدکردار ہیں انہیں حرام باندھنے والا شخص حدود حرم کے اندر اور اس سے باہر دونوں جگہ ہلاک کرسکتا ہے) آپ نے اس میں چتکبرے کوے کا بھی ذکر کیا۔ اس رنگ کے کوے کی اس لیے تخصیص کی کہ یہ مردار خور ہوتا ہے اس لیے یہ ان مردار خور پرندوں کی کراہت کے لیے بنیاد بن گیا جو اس کے مشابہ ہوں۔ پھر آپ کا یہ ارشاد ( حمس یقتلھن المحرم ) ان پانچوں کے گوشت کیی تحریم پر دلالت کرتا ہے۔ نیز یہ کہ ان کا قتل ہی ہوگا، انہیں ذبح نہیں کیا جائے گا ۔ اگر ان کا گوشت حلال ہوتا تو آپ انہیں ذبح کرنے کا حکم دیتے تا کہ قتل ہونے کی صورت میں ان کا گوشت حرام نہ ہوجائے۔ اگر اس روایت کی بنا پر اعتراض اٹھایا جائے جسے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کیا انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں محمد بن حاتم نے، انہیں یحییٰ بن مسلم نے ، انہیں اسماعیل بن امیہ نے ابوالزبیر سے، کہ انہوں نے حضرت جبار (رض) نے حضرت جابر (رض) سے پوچھا تھا کہ آیا بجو کا گوشت کھایا جاسکتا ہے ؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ پھر سوال کیا کہ آیا یہ شکار ہے ؟ اس کا جواب بھی اثبات میں ملا پھر سوال ہوا کہ آیا آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا تھا ؟ اس کا بھی انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔- اس اعتراض کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچل کے دانت رکھنے والے ہر درندے اور چنگل والے ہر پرندے کے گوشت کی نہی میں جو روایت منقول ہے وہ اس روایت کو ختم کردیتی ہے۔ اس لیے کہ اس روایت پر عمل میں فقہاء کا اختلاف ہے اور نہی والی روایت پر عمل میں سب کا اتفاق ہے۔ - گوہ کا گوشت - گوہ کے گوشت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اسے مکروہ سمج تھے ہیں ۔ امام مالک اور امام شافعی اس کے گوشت کے استعمال میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت کی دلیل وہ روایت ہے جو اعمش نے زید بن وہب جہنی سے نقل کی ہے اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن حسنہ (رض) سے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہمارا پڑائو ایسی جگہ ہوا جہاں گوہ بکثرت پائے جاتے تھے، ہمیں بھوک لگی تھی اور کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ہم نے گوہ پکڑ کر اس کا اس کا گوشت پکایا۔ ہنڈیا پک رہی تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور استفسار کرنے پر ہم نے آپ کو بتایا کہ گوہ کا گوشت پک رہا ہے۔- آپ نے فرمایا : بنی اسرائیل کے ایک گرہ کی صورتیں مسخ کر کے انہیں جانوروں کی شکلیں دے دی گئی تھی اور مجھے خطرہ ہے کہ شاد گوہ بھی ان میں سے ایک ہو۔ اس لیے ہنڈیا الٹ دو “ یہ حدیث گوہ کے گوشت کی ممانعت کی مقتضی ہے اس لیے کہ اگر اس کا کھانا مباح ہوتا تو آپ ہنڈیا الٹا دینے کا ہرگز حکم نہ دیتے۔ اس لیے کہ اس کو مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت باین کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں محمد بن عون الطائی نے ، انہیں الحکم بن نافع نے، انہیں ابن عیاش نے ضمضم بن زرعہ سے ، انہوں نے شریح بن عبید سے، انہوں نے ابو راشد الجرانی سے، انہوں نے عبدالرحمن بن شبل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ نے حماد سے ، انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہیں گوہ کا گوشت ہدیہ کے طور پر بھیجا گیا، اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے تو حضرت عائشہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانے سے منع فرما دیا۔ اتنے میں ایک سائل آیا۔ حضرت عائشہ (رض) نے گوشت اسے دینا چاہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تم اسے ایسی چیز کھلانا چاہتی ہو جو خود نہیں کھاتیں “۔ - یہ روایات گوہ کا گوشت کھانے کی نہی کی موجب ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گوہ کا گوشت نہیں کھایا البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دسترخوان پر اسے دوسرے حضرات نے کھایا تھا۔ اگر یہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر یہ کبھی نہ کھایا جاتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے گندی چیز سمجھتے ہوئے نہیں کھایا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” یہ جانور ہمارے علاقے یعنی سرزمین مکہ میں نہیں پایا جاتا اس لیے جب میرے سامنے اس کا گوشت آتا ہے تو مجھے اس سے گھن آتی ہے حضرت خالد بن الولید (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اسے کھایا تھا آپ نے انہیں منع نہیں کیا تھا۔ ہمیں عبدالباقیی بن قائع سے روایت بیان کی، انہیں بشیر بن موسیٰ نے ، انہیں عمر بن سہل نے، انہیں اسحاق بن الربیع نے حس سے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : گوہ عام چرواہوں کی خوراک ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک چیز سے اگر روکتا ہے تو سب کو روکتا ہے۔ اگر میرے پاس بھی اس کا گوشت ہوتا تو میں کھا لیاتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حرام قرار نہیں دیا لیکن مکروہ ضرور سمجھا ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں عمر بن سہل نے، انہیں لجر نے ابوہارون سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے کہ انہوں نے فرمایا ۔” اگر ہم میں سے کسی کو بل میں رہنے والے گوہ کے گوشت کا تخفہ آتا تو وہ اس کے لیے موٹی تازی مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتا “۔ جو حضرات گوہ کے گوشت کی اباحت کے قائل ہیں انہوں نے درج بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ حالانکہ ان روایات میں اس کے گوشت کی ممانعت پر دلالت بھی موجود ہے۔ ان روایات میں یہ مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ن گندی چیز سمجھتے ہوئے اسے نہیں کھایا تھا اور اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھن آئی تھی جس چیز سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھن آئے وہ نجس ہوتی ہے اور جو چیز نجس ہوتی ہے اس کا کھانا حرام ہوتا ہے۔ اگر ان روایات کی بناء پر اس کی اباحت ثابت بھی ہوجائے تو مقابلہ میں ممانعت کی روایت بھی موجود ہیں۔ جب ایک چیز کے بارے میں اباحت اور ممانعت کی روایتیں موجود ہوں تو ممانعت کی روایت اولیٰ ہوتی ہے اس لیے کہ اباحت کے بعد ہی لا محالہ ممانعت کا ورد ہوتا ہے کیونکہ ہر چیز میں اصل اباحت ہوتی ہے اور ممانعت اس پر وارد ہوتی ہے۔ جب ممانعت پر اباحت کے ورود کا ثبوت موجود نہیں ہے تو پھر لا محالہ ممانعت کا حکم ثابت ہوجائے گا۔ - حشرات الارض کے بارے میں حکم - ہوام الارض ( حشرات الارض) کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے جنگلی چوہا، قنفڈا سیہی، ایک جانور جس کے پورے جسم پر کانٹے ہوتے ہیں) عام چوہے اور بچھو نیزتمام قسم کے ہوام الارض کا گوشت مکروہ یعنی حرام سمجھا ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر سانپ کو ذبح کرلیا جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔- امام مالک اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے ، البتہ اوزاعی نے ذبح کی شرط نہیں رکھی ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ قنفذ اور شہد کی مکھیوں کے انڈوں سے نکلے ہوئے بچے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح نپیرا اور کھجور وغیرہ میں پائے جانے والے کیڑے کھا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ مینڈک کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن القاسم کہتے ہیں کہ امام مالک نے کیڑوں مکوڑوں، بچھوئوں اور پھلوں وغیرہ میں پائے جانے والے کیڑوں کو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ قیاس کیا ہے کہ ان جاندار چیزوں کی اگر پانی میں موت واقع ہوجائے تو اس سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ امام شافعی کا قول ہے ہر ایسا جانور جس سے عرب کے لوگ نفرت کرتے اور اسے گندی چیز سمجھتے تھے وہ خبائث میں سے ہے مثلاً بھیڑیا، شیر، کوا، سانپ ، جیل ، بچھو اور چوہا۔ اس لیے کہ یہ جانور قصداً دوسروں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ اس لیے یہ حرام ہیں اور ان کا شمار حبائث میں ہوتا ہے ۔ عرب کے لوگ بجو اور لومڑی کا گوشت کھایا کرتے تھے اس لیے کہ یہ دونوں جانور انسان پر حملہ آور نہیں ہوتے اس لیے یہ حلال ہیں۔ - سیہی کا گوشت - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے ( و یحرم علیھم الخبائی۔ اللہ کا رسول ان پر خبیث چیزیں حرام کرتا ہے) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں ابراہیم بن خالد ابو ثور نے، انہیں سعید بن منصور نے، انہیں عبدالعزیز بن محمد نے انہیں عیسیٰ بن نمیلہ نے اپنے والد سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ آپ سے قنفذ یعنی سیہی کے گوشت کے متعلق پوجھا گیا تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی ( قل لا اجر فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) تا آخر آیت، آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے نے کہا : ” میں نے ابوہریرہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس جانور کا ذکر ہواتو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ خبائث میں سے ایک حبیث جانور ہے “۔ یہ سن کر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا ” کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق یہ فرمایا ہے تو یہ ایسا ہی ہوگا۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حبیث چیز کے نام سے موسوم کیا اس لیے قول بایر ( ویحرم علیھم الخبائث) کی تحریم کا حکم اسے بھی شامل ہوگیا۔ قنفد حشرات الارض میں سے ہے اس لیے ہر وہ جانور جو حشرات الارض میں سے ہوگا وہ قنفد پر قیاس کی وجہ سے حرام ہوگا۔ - مینڈی کا دوا میں استعمال - عبداللہ بن وہب نے روایت بیان کی ہے انہیں ابن ابی ذئب نے سعید بن خالد سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے، انہوں نے حضرت عبدالرحمن (رض) سے کہ ایک طبیب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دوائی کا ذکر کیا جس میں مینڈک بھی ڈالا جاتا تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے منیڈک ہلاک کرنے سے منع فرما دیا۔ یہ بات مینڈک کی تحریم پر دلالت کرتی ہے اسے لیے کہ آپ نے طبیب کو مینڈک مار کر دوائی میں ڈالنے سے منع فرما دیا۔ اگر مینڈک سے انتفاع جائز ہوتا تو طبیب کو اس سے فائدہ اٹھانے کی خاطر اسے ہلاک کرنے سے نہ روکا جاتا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بکثرت روایات منقول ہیں جن کے راویوں میں حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت ابو سعید ، حضرت عائشہ (رض) وغیرہم شامل ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( یقتل المحرم فی الحل و الحرمہ الحداۃ والغراب و الفارۃ و العقرب۔ احرام باندھنے والا شخص حدود حرم کے اندر اور حدود حرم سے باہر یعنی حل میں چیل، کوا، چوہا اور بچھو ہلاک کرسکتا ہے)- بعض روایات میں سانپ کا بھی ذکر ہے۔ آپ نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا گوشت حرام ہے ۔ اس لیے کہ اگر یہ حلال ہوتے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ذبح کرنے کا کوئی وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیتے تا کہ ممکن حد تک ان کے ذبح کا عمل وجود پذیر ہوجاتا۔ لیکن جب آپ نے انہیں قتل کرنے کا حکم دے دیا اور قتل کے اندر ذبح کی صورت نہیں ہوتی اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان کا گوشت حلال نہیں ہے۔ جب یہ بات کوے اور چیل میں ثابت ہوگئی تو تمام مردار خود پرندوں کا بھی یہی حکم ہوگا اور اس امر پر دلالت ہوگی کہ حشرات الارض مثلاً بچھو اور سانپ سب حرام ہیں۔ اسی طرح یربوع یعنی جنگلی چوہا بھی حرام ہے اس لیے کہ وہ چوہے کی جنس میں سے ہے۔ - قول شافعی پر تنقید - امام شافعی (رح) کا یہ قول کئی وجوہ سے بےمعنی ہے کہ ایسے تمام جانور جن کے گوشت سے عرب لوگ نفرت کرتے تھے، خبائث میں داخل ہییں اس لیے حرام ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ن کچلی کے دانت رکھنے والے ہر درندے اور چنگل والے ہر پرندے کی ممانعت فرما دی ہے۔ یہ ممانعت اس قسم کے تمام درندوں اور پرندوں کی تحریم کی مقتضی ہے اس لیے ان میں ایسے جانوروں کا اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ جو ان میں شامل نہ ہو۔ نیز ایسے جانوروں کو اس حکم سے خارج کرنا بھی درست نہیں ہوگا جنہیں حدیث کے الفاظ کا عموم شامل ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تحریم کے حکم میں اس علت کا اعتبار نہیں کیا جس کا امام شافعی نے اعتبار کیا ہے۔ بلکہ آپ نے کچلی کے دانت اور چنگل اور پنجے کو تحریم کی نشانی قرار دیا ہے۔ اس لیے اس کے بالمقابل ایسی صفت کو علت قرار دینا درست نہیں ہوگا جس کے ثبوت کے لیے کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر خبائث کی تحریمکا جو حکم نافذ کیا ہے اس میں تمام لوگوں کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ یہ خطاب صرف عربوں کے لیے خاص نہیں ہے۔ کہ عجم کے لوگ اس کے دائرے سے باہر رکھے جائیں بلکہ اس میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جنہیں احکام کا مکلف بنایا گیا ہے، ۔۔۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ جانور خبائث میں داخل ہیں جن سے عرب کے لوگوں کو گھن آتی تھی ایک بےدلیل قول ہے اور آیت کے مقتضیٰ سے خارج ہے۔ علاوہ ازیں عرب کے لوگوں ک گھن آنے کی بات یا تو اس پر محمول ہوگی کہ عرب کے تمام لوگوں کو ان سے گھن آتی تھی یا بعض لوگوں کو اگر پہلی صورت مراد ہے تو عرب کے تمام لوگ سانپوں ، بچھوئوں، شیرو، بھیڑیوں ، چوہوں اور دوسرے تمام جانوروں کو جن کا ذکر امام شافعی نے کیا ہے گندے جانور تصور نہیں کترے بلکہ عام بدوان کا گوشت مرے سے کھاتے تھے۔ اس لیے پہلی صورت مراد لینا درست نہیں۔ - اگر دوسری صورت مراد ہے تو یہ دو وجوہ سے فاسد ہے۔ ایک تو یہ کہ جب خطاب تمام عربوں کو ہے تو پھر ان میں سے بعض کو چھوڑ دینا اور بعض کو چھوڑ دینا اور بعض کا اعتبار کرلینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ان جانوروں سے نفرت کرنے والے بعض لوگ ہوں گے تو ان کا اعتبار کرنا بہ نسبت ان لوگوں کے اولیٰ ہوگا جوان جانوروں کا گوششت مزے لے لے کر کھاتے تھے۔ اس بنا پر امام شافعی کا یہ قول ہر لحاظ سے قابل انتقاض ہے۔ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ بجو اور لومڑی کی اباحت کی وجہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ ان کا گوشت کھاتے تھے حالانکہ عرب کے لوگ تو کوا، چیل اور شیر تک کو بھی کھا جایا کرتے تھے اور ان جانوروں کو اپنی خوراک بنانے سے باز نہیں رہتے تھے۔ پھر امام شافعی نے تحریم کے لیے انسانوں پر حملہ آورہونے کا اعتبار کیا ہے۔ اگر اس سے ان کی مراد تمام احوال میں حملہ آور ہونا ہے تو یہ کیفیت چیل، سانپ اور کوے میں نہیں پائی جاتی لیکن امام شافعی نے انہیں حرام قرار دیا ہے۔- اور بعض احوال میں حملہ آور ہونا مراد ہے تو بجو بھی بعض اوقات انسان پر حملہ کر بیٹھتا ہے اور شیر اگر بھوکا نہ ہو تو بعض حالات میں وہ انسان پر حملہ آور نہیں ہوتا جب کہ جوش میں آیا ہوا مست اونٹ بعض دفعہ انسان پر حملہ کردیتا ہے یہی کیفیت بعض حالات میں بیل اور سانڈ کے اندر بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ امام شافعی یا کسی اور نے ان جانوروں کے اندر تحریم کل یا اس کی اباحت کے سللے میں ان کیفیات کا اعتبار نہیں کیا ۔ دوسری طرف کتا اور بلی انسان پر حملہ آور نہیں ہوتے لیکن یہ دونوں جانور حرام ہیں۔ - گندگی کھانے والا اونٹ - گندگی کھانے والے اونٹ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ اگر اونٹ گندگی کے سوا اور کچھ نہ کھاتا ہو تو ہمارے اصحاب اور امام شافعی کے قول کے مطاق اس کا گوشت مکروہ ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ ایسے اونٹ کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جس طرح گندگی کھانے والی مرغی کے گوشت میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں عبدہ نے محمد بن اسحاق سے انہوں نے ابن ابی نجیع سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گندگی کھان والے جانور کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع کیا تھا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انیں ابن المثنیٰ نے، انہیں ابو عامر نے ، انہیں ہشام نے قتادہ سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گندگی کھانے والے جانور کے دودھ سے منع فرما دیا تھا۔ - خلاصہ بحث - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( قل لا اجذ فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) کے تحت جو احکام ہمنے بیان کیے ان ک ذیل میں آنے والے ان مسائل کے اندرجن حضرات نے ہم سے اختلاف کیا اور جن جانوروں کے گوشت کی ہمارے اصحاب نے ممانعت کی ان کی انہوں نے اباحت کردی وہ اس بارے میں درج بالا آیت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔ ہم نے پہلے بیان کردیا کہ آیت کے نزول کا سبب ان جانوروں سے متعلق تھا جنہیں اہل جاہلیت حرام قرار دیتے تھے اور جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے قبل کیا ہے۔ اگر اس آیت کا نزول ہمارے مذکورہ سبب سے متعلق نہ ہوتا بلکہ یہ ایک نئے مضمون کی ابتداء ہوتی تو پھر بہت سی ایسی اشیاء کی تحریم کے بارے میں اخبار آحاد کو قبول کرلینے میں کوئی امتناع نہ ہوتا جن کو یہ آیت شامل نہیں ہے اور نہ ہی بہت سی اشیاء کی تحریم کے بارے میں قیاس سے کام لینے کی ضرورت پڑتی۔ اس لیے کہ آیت میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ یہ اطلاع ہے کہ شرعی طور پر صرف وہی چیزیں حرام ہوئی تھیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ - جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ یہ چیزیں دلیل سمعی یعنی آیت کے نزول سے پہلے مباح تھیں اور اس قسم کی چیزوں کی تحریم کیل یے اخبار آحاد کو قوبل کرلینا اور قیاس سے کام لینا جائز اور درست تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ بتادینا کہ شرعی طور پر وہ چیزیں حرام ہیں جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے، ان کے علاوہ دوسری اشیاء کی تحریم کے لیے خبر واحد کو قبول کرنے اور قیاس کو کام میں لانے سے مانع نہیں ہے۔ قول باری ( علی طاعم یطعمہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ مردار کے صرف وہی اجزاء حرام ہیں جو کھانے کے کام آسکتے ہیں اس لیے یہ حکم کمائے ہوئے چمڑے ، سینگ ، بڈی، کُھر ، پَر وغیرہ کو شامل نہیں ہوگا۔ اسی لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کی مردہ بکری کے متعلق فرمایا تھا ( انسا حرم اکلھا۔ اس کا گوشت کھانا ہی حرام ہوا تھا) بعض طریق میں یہ الفاظ ہیں (انما حرم لحمھا۔ اس کا گوشت ہی حرام ہوا تھا) - خون ذبیحہ - قول باری ( اودما مسفوحا) اس پر دلالت کرتا ہے کہ بہایا ہوا خون حرام ہوتا ہے رگوں میں رہ جانے والے اجزائے خون حرام نہیں ہوتے۔ حضرت عائشہ (رض) اور دوسرے صحابہ کرام سے مروی ہے کہ ذبح کی جگہ یا ہانڈی کے اوپر لگا ہوا خون حرام نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ دم مسفوح نہیں ہوتا۔ - مچھر ، مکھی وغیرہ کا خون - یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ مچھر، کھٹمل اور مجھی کا خون نجس نہیں ہے اس لیے کہ وہ مسفوح نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) اگرچہ یہ خبر دیتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں کھانے پینے کی چیزوں یعنی ماکولات میں سے صرف وہی چیزیں حرام ہیں جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے لیکن اس آیت کے ذریعے بہت سی ایسی چیزوں کا حکم منسوخ ہوگیا جنہیں انبیاء سابقین کی زبان سے حرام قرار دیا گیا تھا اس لیے ایسی چیزوں کی حیثیت یہ نہیں ہوگی کہ انہیں اباحت اصلیہ کے حکم پر باقی رکھا گیا ہے بلکہ یہ ان چیزوں کے حکم میں ہوں گی جن کی اباحت شرعی طور پر منصوص ہوچکی ہو اس لیے خبر واحد اور قیاسکے ذریعے اس کی اباحت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کی دلیل کہ اس قول باری کے ذریعے ایسی بہت سی اشیاء کا حکم منسوخ ہوگیا جنہیں دوسرے انبیائے کرام کی زبان سے حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ قول باری ہے ( وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر ومن البنر ولاغنم حرمنا علیھم شحو مھما الا ما حملت ظھورھما۔ اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی یا ہڈی سے لگی رہ جائے) جبکہ ان دونوں جانوروں کی چربی ہمارے لیے مباح ہے اسی طرح بہت سے ناخن والے جانور بھی ہمارے لیے مباح ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جو کچھ کہا ہے وہ ان چیزوں کے ما سوا جن کا ذکر آیت میں ہوچکا ہے دوسری چیزوں کو اباحت اصلیہ کے حکم سے خارج نہیں کرتا۔ وہ اس لیے کہ ان چیزوں میں سے جو اشیا پچھلی امتوں پر حرام کردی گئی تھیں اور پھر ہمارے لیے مباح کردی گئیں وہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے شریعت نہیں بنیں بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف یہ واضح کردیا کہ ان اشیاء کی تحریم ایک خاص وقت تک کے لیے تھی جس کی انتہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے پر آکر ہوگئی۔ نیز یہ کہ تحریم کا وقت گزر جانے کے ساتھ یہ اشیاء پھر اپنے ساقب حکم یعنی اباحت اصلیہ پر آگئیں۔- اس لحاظ سے وقتی طور پر حرام شدہ مذکورہ اشیاء کبھی نہ حرام ہونے والی اشیاء کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے نیز اگر معترض کی بات تسلیم کرلی جائے تو پھر ان اشیاء کی تحریم کے سلسلے میں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے خبر واحد کو قبول کرلینا اور قیاس سے کام لینا درست ہوتا اور اس کی گنجائش ہوتی۔ اس لیے کہ قول باری ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) بالاتفاق ایسی آیت ہے جس کا حکم صرف ان اشیاء کی تحریم کے ساتھ مخصوص ہے جن کا اس میں ذکر آیا ہے اس لیے کہ فقہاء کا ایسی بہت سی اشیاء کی تحریم پر اتفاق ہے جن کا ذکر اس آیت میں نہیں آیا ہے۔ مثلاً شراب، بندر کا گوشت نجس چیزیں اور اس طرح کی دیگر چیزیں۔ جب آیت کا خصوص بالاتفاق ثابت ہوگیا تو باقی ماندہ چیزوں کی تحریم کے بارے میں خبرواحد کو قبول کرنا اور قیاس سے کام لینا درست ہوگیا۔
(١٤٥) اس کے بعد مالک بن عوف کہنے لگا کہ آپ ہی بتائیے پھر ہمارے آباؤ اجداد نے ان کو کیوں حرام کیا ہے اور آپ کی بات کو میں سنتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ فرما دیجیے کہ میں قرآن کریم میں تو کسی کھانے والے کے لیے کوئی حرام غذا نہیں پاتا، البتہ مردار کا گوشت اور بہتا ہوا خون وغیرہ یہ قطعی حرام ہیں یا جو جانور وغیرہ شرک کا ذریعہ ہو عمدا غیر اللہ کے نامزد کیا گیا ہو۔- پھر بھی جو شخص مردار کے کھانے کے لیے بھوک سے بیتاب ہوجائے اور طالب لذت نہ ہو اور بغیر سخت ضرورت کے مردار کے گوشت کو حلال نہ سمجھتا ہو اور نہ اسلام کے راستے پر چھوڑنے والا یعنی باغی نہ ہو اور نہ دانستہ بغیر سخت حاجت کے مردار کا گوشت کھانا چاہتا ہو تو ان سخت مجبوریوں میں وہ سیر ہو کر کھا بھی لے گا تو اللہ تعالیٰ غفور ہے اور بقدر حاجت کھائے گا تو وہ رحیم، باقی ایسی سخت مجبوری میں سیر ہو کر نہ کھانا چاہئے اور اگر کھالے گا تو اللہ تعالیٰ معاف فرماتے گا۔
آیت ١٤٥ (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ ) - یہاں پھر وہ قانون دہرایا جا رہا ہے کہ شریعت میں کن چیزوں کو حرام کیا گیا ہے۔ - (اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً ) - اس مردار کی قسمیں (الْمُنْخَنِقَۃ ‘ الْمَوْقُوْذَۃ ‘ الْمُتَرَدِّیَۃ) اور تفصیل سورة المائدۃ کی آیت ٣ میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ یعنی جانور کسی بھی طرح سے مرگیا ہو وہ مردار کے زمرے میں شمار ہوگا۔ لیکن اگر مرنے سے پہلے اسے ذبح کرلیا جائے اور ذبح کرنے سے اس کے جسم سے خون نکل جائے تو اس کا کھانا جائز ہوگا۔ - (اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا) - یعنی ایک خون تو وہ ہے جو مذبوح جانور کے جسم کے سکیڑ اور کھچاؤ ( ) کی انتہائی کیفیت کے باوجود بھی کسی نہ کسی مقدار میں گوشت میں رہ جاتا ہے۔ اسی طرح تلی کے خون کا معاملہ ہے۔ لہٰذا یہ چیزیں حرام نہیں ہیں ‘ لیکن جو خون بہایا جاسکتا ہو اور جو ذبح کرنے کے بعد جانور کے جسم سے نکل کر بہہ گیا ہو وہ خون حرام ہے۔ - (اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ج) ۔- یعنی سور کے گوشت کی وجۂ حرمت تو یہ ہے کہ وہ اصلاً ناپاک ہے۔ اس کے علاوہ کچھ چیزوں کی حرمت حکمی ہے ‘ جو فسق (اللہ کی نافرمانی) کے سبب لازم آتی ہے۔ چناچہ (اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ج) اسی وجہ سے حرام قرار پایا ‘ یعنی جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اس حکم میں وہ قربانی بھی شامل ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے تقرب کی نیت پر دی گئی ہو۔ مثلاً ایسا جانور جو کسی قبر یا کسی خاص استھان پر جا کر ذبح کیا جائے ‘ اگرچہ اسے ذبح کرتے وقت اللہ ہی کا نام لیا جاتا ہے مگر دل کے اندر کسی غیر اللہ کے تقرب کی خواہش کا چور موجود ہوتا ہے۔- (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ۔- کسی غیر معمولی صورت حال میں ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھا کر اگر جان بچائی جاسکے تو مشروط طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :121 یہ مضمون سورہ بقرہ آیت ۷۳ اور سورہ مائدہ آیت ۳ میں گزر چکا ہے ، اور آگے سورہ نحل آیت ۱۱۵ میں آنے والا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت میں بظاہر اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہاں محض ”خون“ کہا گیا ہے اور یہاں خون کے ساتھ مَسْفُوْح کی قید لگائی گئی ہے ، یعنی ایسا خون جو کسی جانور کو زخمی کر کے یا ذبح کر کے نکالا گیا ہو ۔ مگر دراصل یہ اختلاف نہیں بلکہ اس حکم کی تشریح ہے ۔ اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت میں ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزوں کی حرمت کا بھی ذکر ملتا ہے ، یعنی وہ جانور جو گلا گھونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ۔ لیکن فی الحقیقت یہ بھی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک تشریح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور اس طور پر ہلاک ہوئے ہوں وہ بھی مردار کی تعریف میں آتے ہیں ۔ فقہائے اسلام میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں سے یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا کھانا جائز ہے ۔ یہی مسلک حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عائشہ کا تھا ۔ لیکن متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کے کھانے سے یا تو منع فرمایا ہے یا ان پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے ۔ مثلاً پالتو گدھے ، کچیلوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے ۔ اس وجہ سے اکثر فقہاء تحریم کو ان چار چیزوں تک محدود نہیں مانتے بلکہ دوسری چیزوں تک اسے وسیع قرار دیتے ہیں ۔ مگر اس کے بعد پھر مختلف چیزوں کی حلت و حرمت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ۔ مثلاً پالتو گدھے کو امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں ۔ لیکن بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ وہ حرام نہیں ہے بلکہ کسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس کی ممانعت فرما دی تھی ۔ درندہ جانوروں اور شکاری پرندوں اور مردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں ۔ مگر امام مالک اور اَوزاعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں ۔ لَیث کے نزدیک بلی حلال ہے ۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں ، جیسے شیر ، بھیڑیا ، چیتا وغیرہ ۔ عِکْرِمہ کے نزدیک کوا اور بجو دونوں حلال ہیں ۔ اسی طرح حنفیہ تمام حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے ۔ ان تمام مختلف اقوال اور ان کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعت الہٰی میں قطعی حرمت ان چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے ۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حرمت کے درجہ سے قریب تر ہیں اور جن چیزوں میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان کی کراہت مشکوک ہے ۔ رہی طبعی کراہت جس کی بنا پر بعض اشخاص بعض چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتے ، یا طبقاتی کراہت جس کی بنا پر انسانوں کے بعض طبقے بعض چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں ، یا قومی کراہت جس کی بنا پر بعض قومیں بعض چیزوں سے نفرت کرتی ہیں ، تو شریعت الہٰی کسی کو مجبور نہیں کرتی کہ وہ خواہ مخواہ ہر اس چیز کو ضرور ہی کھا جائے جو حرام نہیں کی گئی ہے ۔ اور اسی طرح شریعت کسی کو یہ حق بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی کراہت کو قانون قرار دے اور ان لوگوں پر الزام عائد کرے جو ایسی غذائیں استعمال کرتے ہیں جنھیں وہ ناپسند کرتا ہے ۔
76: مطلب یہ ہے کہ جن جانوروں کو بت پرستوں نے حرام قرار دے رکھا ہے، ان میں سے کسی جانور کے بارے میں مجھ پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ممانعت کا حکم ان چار چیزوں کے سوا نہیں آیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے جانوروں میں بھی کوئی جانور حرام نہیں۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے ہر قسم کے درندوں وغیرہ کے حرام ہونے کی وضاحت فرمادی ہے۔ 77: یعنی اگر آدمی بھوک سے بے تاب ہو اور کھانے کے لئے کوئی حلال چیز میسر نہ ہو، توجان بچانے کے لئے ان حرام چیزوں میں سے کسی چیز کا کھانا بقدر ضرورت جائز ہوجاتا ہے۔ ان چیزوں کی حرمت کا یہ حکم پیچھے سورۂ بقرہ کی آیت 73 اور سور مائدہ کی آیت نمبر 3 میں بھی گذرا ہے، اور آگے سورۂ نحل کی آیت نمبر 115 میں بھی آئے گا۔