Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مزید تفصیل متعلقہ حلال و حرام ناخن دار جانور چوپایوں اور پرندوں میں سے وہ ہیں ، جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ ، شتر مرغ ، بطخ وغیرہ ۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ جو کھلی انگلیوں والا نہ ہو ۔ ایک روایت میں ان سے مروی ہے کہ ہر ایک جدا انگلیوں والا اور انہی میں سے مرغ ہے ۔ قتادہ کا قول ہے جیسے اونٹ ، شتر مرغ اور بہت سے پرند ، مچھلیاں ، بطخ اور اس جیسے جانور جن کی انگلیاں الگ الگ ہیں ۔ ان کا کھانا یہودیوں پر حرام تھا ۔ اسی طرح گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی ۔ یہود کا مقولہ تھا کہ اسرائیل نے اسے حرام کر لیا تھا ، اس لئے ہم بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ ہاں جو چربی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہو ، انتڑیوں کے ساتھ ، اوجھڑی کے ساتھ ، ہڈی کے ساتھ ہو وہ ان پر حلال تھی ، یہ بھی ان کے ظلم ، تکبر اور سرکشی کا بدلہ تھا اور ہماری نافرمانی کا انجام ، جیسے فرمان ہے آیت ( فبظلم من الذین ھادوا ) یہودیوں کے ظلم وستم اور راہ حق سے روک کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دی تھیں اور اس جزا میں ہم عادل ہی تھے اور جیسی خبر ہم نے تجھے اسے نبی دی ہے ، وہی سچ اور حق ہے ۔ یہودیوں کا یہ کہنا کہ حضرت اسرائیل نے اسے حرام کیا تھا ، اس لئے ہم اسے اپنے آپ پر بھی حرام کرتے ہیں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ سمرہ نے شراب فروشی کی ہے تو آپ نے فرمایا اللہ اسے غارت کرے ، کیا یہ نہیں جانتا کہ حضور نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا ۔ حضرت جابر بن عبداللہ نے فتح مکہ والے سال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے شراب ، مردار ، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام فرمائی ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس سے چمڑے رنگے جاتے ہیں اور کشتیوں پر چڑھایا جاتا ہے اور چراغ میں جلایا جاتا ہے آپ نے فرمایا وہ بھی حرام ہے ۔ پھر اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے ، جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ کر اس کی قیمت کھانا شروع کر دی ( بخاری مسلم ) ایک مرتبہ آپ خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تین مرتبہ یہودیوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا اللہ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی ۔ اللہ تعالیٰ جن پر جو چیز حرام کرتا ہے ان پر اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ایک مرتبہ آپ مسجد حرام میں حطیم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے اور یہی فرمایا ( ابوداؤد ابن مردویہ مسند احمد ) حضرت اسامہ بن زید وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے زمانے میں آپ کی عیادت کے لئے گئے اس وقت آپ عدن کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے ، آپ نے چہرہ سے چادر ہٹا کر فرمایا ، اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ بکریوں کی چربی کو حرام مانتے ہوئے اس کی قیمت کھاتے ہیں ۔ ابو داؤد میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

146۔ 1 ناخن والے جانوروں سے مراد وہ ہاتھ والے جانور جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ شتر مرغ، بطخ، قاز گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔ 146۔ 2 یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (دنبے کی چکی ہو) یا انتریوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہو۔ چربی کی مقدار حلال تھی۔ 146۔ 3 یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کو اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔ 146۔ 4 اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٩] بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیائ :۔ حیوانی غذاؤں میں سے بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیاء کا بیان سورة آل عمران کی آیت نمبر ٩٣ اور سورة نساء کی آیت نمبر ١٦٠ میں بھی بیان ہوا ہے۔ ان سب آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہی چیزیں، جو شریعت محمدی میں حرام ہیں بنی اسرائیل پر بھی حرام تھیں۔ سورة آل عمران میں فرمایا کہ ان بنیادی چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں بنی اسرائیل پر حلال تھیں۔ مگر وہ چیزیں جنہیں اسرائیل (سیدنا یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اور تورات کے زمانہ نزول تک یہی صورت حال تھی۔ مگر بنی اسرائیل ان چیزوں کو بھی حرام ہی سمجھتے رہے جنہیں سیدنا یعقوب نے اپنی بیماری یا طبیعت کی کراہت کی بنا پر اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ تورات میں ان کی حرمت کا حکم موجود نہ تھا اور نہ ہی قرآن کے زمانہ نزول تک ایسا حکم تورات میں درج تھا۔ کیونکہ قرآن نے چیلنج کیا تھا کہ اگر تورات میں ان اشیاء کی حرمت کا ذکر موجود ہے تو تورات لا کر دکھا دو ۔ لیکن یہود نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور کی متداول تورات میں اضافہ ہے جو زمانہ مابعد میں کسی وقت کیا گیا ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چار بنیادی چیزوں کے علاوہ کچھ اور چیزیں بھی یہود پر حرام کی گئیں یعنی ہر ناخن والا جانور یعنی جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ یا ہر کھر والا جانور جیسے گورخر وغیرہ۔ اور گائے اور بکری کی چربی بھی ان پر حرام کی گئی تھی۔ اور یہ چیزیں گو بنیادی طور پر حرام نہ تھیں تاہم ان کی سرکشی کی پاداش میں حرام کی گئیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشیاء سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے بہت بعد کسی وقت حرام کی گئی تھیں۔ اور زمانہ نزول قرآن تک تو تورات میں ان چیزوں کی حرمت کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں ایسی حرام چیزیں بھی تورات میں شامل کردی گئیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ۚ۔۔ : ہر ناخن والے جانور سے مراد وہ جانور یا پرندہ ہے جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی، یعنی الگ الگ نہ ہوں، مثلاً اونٹ، شتر مرغ، بطخ وغیرہ، یعنی صرف وہ پرندے یا جانور حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔ - اَوِ الْحَوَايَآ : یہ ” حَوِیَّۃٌ“ کی جمع ہے جیسے ” عِطْیَۃٌ“ کی جمع ” عَطَایَا “ اور ” خِطْیَۃٌ“ کی جمع ” خَطَایَا “ ہے، یا یہ ” حَاوِیَۃٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” ضَارِبَۃٌ“ کی جمع ” ضَوَارِبٌ“ مطلب وہ انتڑیاں جن میں مینگنیاں ہوتی ہیں۔ - ۭذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ ڮ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ : یعنی یہ چیزیں جس طرح اب شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حرام نہیں ہیں، اس سے پہلے بھی حرام نہ تھیں، البتہ یہودیوں کو ان کی سرکشی کی سزا دینے کے لیے ہم نے انھیں وقتی طور پر حرام کردیا تھا۔ (دیکھیے نساء : ١٦٠) مقصد یہودیوں کے اس دعوے کی تردید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی چیز حرام نہیں کی، سوائے ان چیزوں کے جو اسرائیل ( یعقوب (علیہ السلام ) نے خود اپنے آپ پر حرام کرلی تھیں۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) اور ” َاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ “ (بلاشبہ ہم یقیناً سچے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ دعویٰ غلط ہے اور صحیح بات وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے، نیز دیکھیے سورة آل عمران (٩٣) ۔- مگر یہودیوں نے حیلے سے چربی کی ایک صورت حلال کر ہی لی۔ جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتح مکہ کے سال مکہ میں سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ یہود کو برباد کرے، جب ان کے لیے چربیوں کو حرام کیا گیا تو انھوں نے انھیں پگھلایا اور پھر ان کی قیمت کھا گئے۔ “ [ بخاری، البیوع، باب بیع المیتۃ والأصنام : ٢٢٣٦ ] یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کل کئی مسلمان شراب خود نہیں پیتے اور خنزیر کا گوشت وغیرہ خود نہیں کھاتے، مگر کفار کے ہاتھوں بیچ کر قیمت کھا جاتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَعَلَي الَّذِيْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ۝ ٠ ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْہِمْ شُحُوْمَہُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُہُوْرُہُمَآ اَوِ الْحَــوَايَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ جَزَيْنٰہُمْ بِبَغْيِہِمْ۝ ٠ ۡ ۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝ ١٤٦- هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- ظفر - الظُّفْرُ يقال في الإنسان وفي غيره، قال تعالی: وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ- [ الأنعام 146] ، أي : ذي مخالب، ويعبّر عن السّلاح به تشبيها بِظُفُرِ الطائرِ ، إذ هو له بمنزلة السّلاح، ويقال : فلان كَلِيلُ الظُّفُرِ ، وظَفَرَهُ فلانٌ: نشب ظُفُرَهُ فيه، وهو أَظْفَرُ : طویلُ الظُّفُرِ ، والظَّفَرَةُ : جُلَيْدَةٌ يُغَشَّى البصرُ بها تشبيها بِالظُّفُرِ في الصّلابة، يقال : ظَفِرَتْ عينُهُ ، والظَّفَرُ : الفوزُ ، وأصله من : ظَفِرَ عليه . أي : نشب ظُفْرُهُ فيه . قال تعالی: مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح 24] .- ( ظ ف ر ) الظفر ( ناخن ) یہ لفظ انسان اور دوسرے جانوروں کے ناخن پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] تمام ناخن دار جانور میں ذی ظفر سے ذی مخلب یعنی پختہ دار شکار ی جانور مراد ہیں اور پرندہ کا ناخن چونکہ اس کا اوزار ہوتا ہے اس منا سبت سے ظفر کا لفظ سلاح یعنی ہتھیار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان کلیل الظفر فلاں کند ہتھیار یعنی کمزور ہے ۔ ظفر ہ فلان فلاں نے اس میں اپنے ناخن گاڑ دیئے ۔ الاظفر لمبے ناخن والا ۔ الظفرۃ ( ناخنہ چشم ایک قسم کی جھلی جو آنکھ کو ڈھانپ لیتی ہے اور ماخن کی طرح سخت ہوتی ہے ۔ ظفرت عینہ اس کی آنکھ پر ناخنہ چھا گیا ۔ الظفر : کامیاب ہونا یہ مفہوم دراصل ظفرہ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ناخن گاڑ دینے کے ہیں ۔ اطفرہ کامیاب کردینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح 24] اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح یاب کردیا ۔- غنم - الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] .- ( غ ن م ) الغنم - بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔- شحم - قال تعالی: حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما إِلَّا ما حَمَلَتْ ظُهُورُهُما[ الأنعام 146] . وشَحْمَةُ الأذن : معلّق القرط لتصوّره بصورة الشَّحْمِ ، وشَحْمَةُ الأرض لدودة بيضاء، ورجل مُشْحِمٌ:- كثر عنده الشّحم، وشَحِمٌ: محبّ للشّحم، وشَاحِمٌ: يطعمه أصحابه «3» ، وشَحِيمٌ: كثر علی بدنه .- ( ش ح م ) الشحم ( چربی ج شحوم ) قرآن میں ہے : حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما إِلَّا ما حَمَلَتْ ظُهُورُهُما[ الأنعام 146] ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ کان کا نرم حصہ جس میں بالیاں پہنی جاتی ہیں ۔ یہ نرم ہونے کے لحاظ سے چونکہ چربی جیسا ہوتا ہے اس لئے اسے شحمۃ کہا جاتا ہے اور شحمۃ الارض ( کیچوا) گرگٹ کی قسم کا ایک جانور جو زمین یا ریت میں گھس کر رہتا ہے ۔ رجل مشحم گھر میں بہت زیادہ چربی رکھنے والا ۔ شحم چربی کھانے کا حریص ۔ لیکن جو اپنے دوستوں کو بہت چربی کھلانے والا ہو اسے شاحم کہا جاتا ہے ۔ اور شحیم کے معنی موٹے تازے اور چربی دار کے ہیں ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا - حوایا - الحَوَايَا : جمع حَوِيَّة، وهي الأمعاء ويقال للکساء الذي يلفّ به السّنام : حويّة، وأصله من : حَوَيْتُ كذا حَيّاً وحَوَايَةً «قال اللہ تعالی: أَوِ الْحَوایا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ [ الأنعام 146] قوله عزّ وجلّ : فَجَعَلَهُ غُثاءً أَحْوى[ الأعلی 5] ، أي : شدید السّواد وذلک إشارة إلى الدّرين نحو : وطال حبس بالدّرين الأسود وقیل تقدیره : والّذي أخرج المرعی أحوی، فجعله غثاء، والحُوَّة : شدّة الخضرة، وقد احْوَوَى يَحْوَوِي احْوِوَاءً ، نحو ارعوی، وقیل ليس لهما نظیر، وحَوَى حُوَّةً ، ومنه : أَحْوَى وحَوَّاء - ( ح و ی ) الحوایا ( انتڑیاں ) یہ حویۃ کی جمع ہے جس کے معنی آنت کے ہیں قرآن میں ہے ۔ أَوِ الْحَوایا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ [ الأنعام 146] یا انتڑیوں میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو ۔ اور حویۃ اس کمبل کو بھی کہتے ہیں جو اونٹ کی کوہان کے ارد گرد لپٹا جاتا ہے ۔ یہ اصل میں حویت ( ض ) حیا وحویۃ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی جمع کرنے کے ہیں ۔ الاحویٰ کالا سیاہ مائل بہ سبزی یہ حوۃ سے مشتق ہے جس کے معنی سبزی مائل سیاہی ہیں اور اس کا باب احوویٰ یحوویٰ احوواء آتا ہے جیسے ادعویٰ بعض نے کہا ہے کہ اس وزن پر یہ دو باب ہی آتے ہیں ولا ثالث نھما حوی ہے جس کے معنی سخت سیاہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَهُ غُثاءً أَحْوى[ الأعلی 5] پھر اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کردیا ۔ یہاں احویٰ سے مراد وہ گھا س جو پرانی بوسیدہ ہوکر سیاہ پڑجائے ۔ جس کے متعلق شاعر نے کہا ہے ع محبوس ہوں ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت کی ترتیب اصل یہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ سبز چارہ اگاتا ہے ہے پھر اس کو کوڑا بنا دیتا ہے ۔- خلط - الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی:- فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ- [ ص 24] ، - ( خ ل ط ) الخلط - ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ - عظم - العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها،- ( ع ظ م ) العظم - کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ناخن والے جانور - قول باری ہے (وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی تھی ان پر ہم نے ناخن والے تمام جانور حرام کردیے تھے) تا آخر آیت۔ حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن حبیر، قتادہ ، سدی اور مجاہد کا قول ہے کہ اس سے ہر وہ جانور مراد ہے جس کی انگلیاں کھلی نہیں ہوتیں مثلاً اونٹ، شتر مرغ، بطخ اور مرغابی وغیرہ۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس میں درندوں کی تمام قسمیں نیز کتے، بلیاں اور وہ تمام پرندے شامل ہیں جو اپنے ناخنوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ انبیاء سابقین کی زبان سے ان امتوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان چیزوں کی تحریم ثابت ہوچکی ہے۔ تحریم کا یہ حکم ہمارے لیے بھی بایں معنی ثابت ہے کہ یہ اب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا جزو بن گیا ہے الا یہ کہ اس حکم کا نسخ ثابت ہوجائے۔ جب کتوں اور درندوں وغیرہ کی تحریم کا نسخ ثابت نہیں ہوا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے شروع میں ان چیزوں کو جس طرح حرام قرار دیا تھا اسی طرح یہ اب بھی حرام رہیں اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا حصہ بن جائیں۔ - چربی کا حکم - قول باری ہے ( حرمنا علیھم شحو مھما الا ما حملت ظھورھما ہم نے گائے اور بکری کی چربی بھی ان پر حرام کردی تھی بجز اس ک جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے) اگر کوئی شخص چربی نہ کھانے کی قسم کھالے اور پھر وہ پرندے کی چربی کھالے تو مام ایوسف اور امام محمد کے نزدیک وہ حانث ہوجائے گا ان کا استدلال درج بالا آیت سے ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجموعی تحریم سے گائے اور بکری کی پیٹھ پر لگی ہوئی چربی کو مستثنیٰ کردیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک پیٹھ پر لگی ہوئی چربی کو عادۃً چربی نہیں کہا جاتا بلکہچربیدار گوشت کہا جاتا ہے۔ اس چربی کو چربی کا اسم علیٰ الاطلاق شامل نہیں ہوتا۔ - اللہ تعالیٰ نے اگرچہ اسے چربی کے نام سے پکارا ہے لیکن یہ چربی نہ کھانے کی قسم میں داخل نہیں ہوتا اس لیے کہ اس کے لیے یہ نام متعارف نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو گوشت کا اور سورج کو چراغ کا نام دیا ہے لیکن گوشت نہ کھانے کی قسم کے تحت یہ دونوں چیزیں نہیں آتیں، آیت میں وارد لفظ الحوایا کے متعلق حضرب ابن عباس (رض) ، حس، سعید بن جبیر، قتادہ ، مجاہد اور سدی سے مروی ہے کہ اس سے مینگنی نکلنے کا عضو مراد ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے نبات اللبن یعنی تھن مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے آنتیں مراد ہیں جن پر چربی لگی ہوتی ہے۔ قول باری ہے ( اوما احتلط بعظم یا جو ہڈی سے لگی رہ جائے) سدی اور ابن جریج سے منقول ہے کہ اس سے پہلو میں لگی ہوئی چربی اور دنبے کی چکتی مراد ہے اس لیے کہ یہ دونوں ہڈی پر ہوتی ہیں۔ ہم نے یہ ذکر کیا ہے کہ حرف ” او “ جب نفی پر داخل ہوتا ہے تو اپنے مدخوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ نفی کا مقتضی ہوتا ہے۔ آیت میں اس کی دلیل موجود ہے اس لیے کہ قول باری ( الا ما حملت ظھورھما او الحوایا او ما اختلظ بعظم) میں سب کی تحریم کی نفی ہے اس کی نظیر یہ قول باری ہے ( ولا تطع منھم اثما او کفورا) اس میں گنہگار اور کافر میں سے ہر ایک کی پیروی کی نہی ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی اس شخص کے بارے میں جس نے یہ قسم کھائی ہو کہ میں فلاں سے فلاں سے بات نہیں کروں گا۔ یہی قول ہے کہ اگر وہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی بات کرلے گا حانث ہوجائے گا اس لیے کہ اس نے ان میں سے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ بات نہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٦) اور یہود پر اس نے تمام شکاری پرندے اور درندے حرام کردیے تھے یا یہ کہ تمام ناخن والے جانور حرام کردیے تھے جیسا کہ اونٹ بطخ، مرغابی خوگوش وغیرہ اور گائے، بکری کی چربی ان پر حرام کردی تھی بجز اس چربی کے جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں پر ہو یا ہڈی سے لگی ہو وہ ان پر حلال تھی ان کے گناہوں کی وجہ سے بطور سزا کے ہم نے ان پر یہ حرام کردی تھی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٦ (وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ ج) ۔- کچھ جانوروں کے پاؤں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ‘ جیسے گائے ‘ بکری وغیرہ ‘ جب کہ کچھ جانوروں کا ایک ہی پاؤں (کھر) ہوتا ہے۔ ایسے ایک کھر والے جانور مثلاً گھوڑا ‘ گدھا وغیرہ یہودیوں پر حرام کردیے گئے تھے۔ جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں ‘ یہودیوں پر جو چیزیں حرام کی گئیں تھیں ‘ ان میں سے بعض تو اصلاً حرام تھیں مگر کچھ چیزیں ان کی شرارتوں اور نا فرمانیوں کی وجہ سے بطور سزا ان کے لیے حرام کردی گئی تھیں۔ - (وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُوْمَہُمَآ اِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُوْرُہُمَآ اَوِ الْحَوَایَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ط) ۔ - (ذٰلِکَ جَزَیْنٰہُمْ بِبَغْیِہِ مْز) - یعنی اس قسم کے جانوروں کی عام کھلی چربی ان کے لیے حرام تھی۔ لیکن یہ حکم آسمانی شریعت کا مستقل حصہ نہیں تھا ‘ بلکہ ان کی شرارتوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے یہ تنگی ان پر بطور سزا کی گئی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :122 یہ مضمون قرآن مجید میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سورہ آل عمران میں فرمایا”کھانے کی یہ ساری چیزیں ( جو شریعت محمدی میں حلال ہیں ) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ۔ ان سے کہو لاؤ توراۃ اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت اگر تم ( اپنے اعتراض میں ) سچے ہو“ ۔ ( آیت ۹۳ ) ۔ پھر سورہ نساء میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر” ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں“ ۔ ( آیت ۱٦۰ ) ۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی سرکشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کیے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لیے حرام ٹھہرا دی ۔ ان تینون آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حلت و حرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مبنی ہے : ایک یہ کہ نزول توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام ( اسرائیل ) نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی ، حتٰی کہ یہودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حرمت توراۃ میں لکھ لی ۔ ان اشیاء میں اونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں ۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں ان میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے ( احبار ٤:۱۱ – ٦ – استثناء ۷:۱٤ ) ۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے ۔ دوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سی پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا ۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مرغ ، قاز ، بط وغیرہ ۔ دوسرے گائے اور بکری کی چربی ۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکام توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے ۔ ( احبار ۱٦:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱٤:۱٤ – ۱۵ – ۱٦ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳ ) ۔ لیکن سورہ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد حرام ہوئی ہیں ، اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دوسری صدی عیسوی کے آخر میں ربی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا ( ہم نے حرام کیا ) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے ۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان پر طیبات کو حرام کر دیں ۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani