نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتیں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہو جو آپ کی آخری وصیت تھی تو وہ ان آیتوں کو ( تتقون ) تک پڑھے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورۃ انعام میں محکم آیتیں ہیں پھر یہی آیتیں آپ نے تلاوت فرمائیں ۔ ایک مرتبہ حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا ، تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے ، پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا جو اسے پورا کرے گا ، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دے دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے ( مسند ، حاکم ) بخاری مسلم میں ہے تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سلام علیہ سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہدیجئے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الٰہی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس ، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بنا پر نہیں کہتا ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کر دیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہدیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہو جائے اس آیت کے آخری جملے ( ذالکم وصاکم ) سے ( الاتشرکو ) اس سے پہلے کے محذوف جملے ( اوصاکم ) پر دلالت ہو گئی ۔ عرب میں یوں بھی کہہ دیا کرتے ہیں ( امرتک ان لا تقوم ) بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہو گا تو میں نے کہا گو اس نے زنا کیا ہو گو اس نے چوری کی ہو آپ نے فرمایا ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضور سے موحد کے جنت میں داخل ہونے کا سن کر حضرت ابو ذر نے یہ سوال کیا تھا اور آپ نے یہ جواب دیا تھا اور آخری مرتبہ فرمایا تھا اور ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو چنانچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دوہرا دیتے ، سنن میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پرواہ نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا بشرطیکہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تو نے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا ، اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آ سکتی ہے ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ) 48- النسآء:4 ) یعنی مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے جاہے بخش دے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے اس بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ( ١ ) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دیئے جاؤ یا کاٹ دیئے جاؤ یا سولی دے دیئے جاؤ ۔ اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا بعض کی قرأت ( ووصی ربک الا تعبدو الا ایاہ وبالوالدین احسانا ) بھی ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 14- لقمان:31 ) میں مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی بقدر ضرورت احسان کرنے کا حکم ہوا ہے اور آیت ( لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمْ رُسُلًا ۭكُلَّمَا جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُهُمْ ۙ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ ) 70- المآئدہ:5 ) ، میں بھی دونوں حکم ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بھی بہت سی اس مفہوم کی آیتیں ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا نماز وقت پر پڑھنا ۔ میں نے پوچھا پھر؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ، میں نے پوچھا پھر؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو حضور بتا دیتے ، ابن مردویہ میں عبادہ بن صامت اور ابو درداء سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو ان کیلئے ساری دنیا سے الگ ہو جائے تو بھی مان لے ، اس کی سند ضعیف ہے باپ داداؤں کی وصیت کر کے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بات وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو وہ لوگ بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے ، مار ڈالتے تھے ، ابن مسعود نے ایک مرتبہ حضور سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے ۔ پوچھا پھر کونسا گناہ ہے؟ فرمایا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی ۔ پوچھا پھر کونسا ہے؟ فرمایا اپنی پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا پھر حضور نے آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 68- الفرقان:25 ) کی تلاوت فرمائی اور آیت میں ہے ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا ) 31- الإسراء:17 ) اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو ، اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو تو ساتھ ہی فرمایا تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں پھر فرمایا کسی ظاہر اور پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاؤ جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) 33- الاعراف:7 ) ، یعنی تمام ظاہری ، باطنی برائیاں ، ظلم و زیادتی ، شرک و کفر اور جھوٹ بہتان سب کچھ اللہ نے حرام کر دیا ہے ۔ اس کی پوری تفسیر آیت ( وذروا ظاھر الاثم باطنہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ سے زیادہ غیرت ولا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بےحیائیاں اللہ نے حرام کر دی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں ۔ سعد بن عبادہ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تو ایک ہی وار میں اس کا فیصلہ کر دوں جب حضور کے پاس ان کا یہ قول بیان ہوا تو فرمایا کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو؟ واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ، اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر و پوشیدہ اس نے حرام کر دیئے ہیں ( بخاری و مسلم ) ایک مرتبہ حضور سے کہا گیا کہ ہم غیرت مند لوگ ہیں آپ نے فرمایا واللہ میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ۔ یہ غیرت ہی ہے جو اس نے تمام بری باتوں کو حرام قرار دے دیا ہے اس حدیث کی سند ترمذی کی فباء پر ہے ترمذی میں یہ حدیث ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہیں ۔ اس کے بعد کسی کے ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کر کے بیان فرما دیا ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز تین باتوں کے جائز نہیں یا تو شادی شدہ ہو کر پھر زنا کرے یا کسی کو قتل کر دے یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے ۔ مسلم میں ہے اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ۔ ابو داؤد اور نسائی میں تیسرا شخص وہ بیان کیا گیا ہے جو اسلام سے نکل جائے اور اللہ کے رسولوں سے جنگ کرنے لگے اسے قتل کر دیا جائے گا یا صلیب پر چڑھا دیا جائے گا یا مسلمانوں کے ملک سے جلا وطن کر دیا جائے گا ۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت جبکہ باغی آپ کو محاصرے میں لئے ہوئے تھے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کسی مسلمان کا خون بجز ان تین کے حلال نہیں ایک تو اسلام کے بعد کافر ہو جانے والا دوسرا شادی ہو جانے کے بعد زنا کرنے والا اور بغیر قصاص کے کسی کو قتل کر دینے والا ۔ اللہ کی قسم نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد ، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی میں نے کسی اور دین کی تمنا کی اور نہ میں نے کسی کو بلا وجہ قتل کیا ۔ پھر تم میرا خون بہانے کے درپے کیوں ہو؟ حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آ جائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت و عید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے ۔ بخاری میں ہے معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے راستے تک پہنچ جاتی ہے اور روایت میں ہے کیونکہ اس نے اللہ کا ذمہ توڑا اس میں ہے پچاس برس کے راستے کے فاصلے سے ہی جنت کی خوشبوں پہنچی ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ ہیں اللہ کی وصیتیں اور اس کے احکام تاکہ تم دین حق کو ، اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو ۔
151۔ 1 یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم بلا دلیل، محض اپنے اوبام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے، کیونکہ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چناچہ میں تم کو ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔ 151۔ 2 ان لا تشرکوا سے پہلے اوصاکم محذوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم نے بھی حدیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت بیان فرمایا ہے۔ اس کے باوجود یہ واقع ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر شرک کا عام ارتکاب کرتے ہیں۔ 151۔ 3 اللہ تعالیٰ کی توحید و اطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑے اہمیت ہے، اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن وَ لَوْ اَ نَّنَا 8 الا نعام 6 (سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کیئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔ 151۔ 4 زمانہء جاہلیت کا یہ فعل قبیح آجکل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زورو شور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ 151۔ 5 یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے ولکم (وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ) 2 ۔ البقرۃ :179) قصاص میں تمہاری زندگی ہے۔
[١٦٥] یعنی تم نے جو اپنی خود ساختہ شریعت بنا رکھی ہے اور خواہ مخواہ اپنے آپ پر کئی طرح کی پابندیاں لگا رکھی ہیں ان کی تمہارے پاس کوئی علمی یا عقلی دلیل موجود نہیں۔ اب میں تمہیں بتاتا ہوں اور کتاب اللہ سے پڑھ کر سناتا ہوں کہ اللہ نے کیا کچھ تم پر حرام کیا ہے اور کیا کیا پابندیاں عائد کی ہیں جو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں اور ہمیشہ سے اللہ کی شریعت کا جزو رہی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس مقام پر اللہ نے جن جن احکام کا ذکر فرمایا ہے مشرکین اور یہود دونوں ان کی خلاف ورزیاں کیا کرتے تھے۔- [١٦٦] مشرکین مکہ میں شرک کی تمام قسمیں پائی جاتی تھیں :۔ سب سے پہلی اور سرفہرست بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اللہ کا شریک نہ بناؤ۔ شرک کی تین بڑی اقسام ہیں (١) شرک فی الذات (٢) شرک فی الصفات اور (٣) شرک فی العبادات۔ اور یہ تینوں قسمیں ان مشرکوں اور یہودیوں میں موجود تھیں۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ پھر اپنے دیوی دیوتاؤں کی پوری نسل کو اللہ کی نسل بنادیا تھا اور اس سے منسلک کر رکھا تھا۔ یہود عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے تھے یعنی ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ عزیر کے جسم میں حلول کر گیا تھا۔- شرک فی الصفات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی دوسری ہستی کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جائے۔ یعنی جو کسی کی بگڑی بنا بھی سکتا ہو اور مشکلات میں پھنسا بھی سکتا ہو۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس ہستی کو عالم الغیب اور حاضر و ناظر اور صاحب تصرف و اختیار بھی سمجھا جائے۔ شرک کی یہ قسم بھی ان لوگوں میں عام تھی۔- اور شرک فی العبادات یہ ہے کہ جس ہستی کو مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو اسے فریاد کے طور پر پکارے اس کی قربانی اور نذر و نیاز دے اور ان کی پرستش و تعظیم اس طرح کرے جیسے اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے۔- [١٦٧] والدین سے بہتر سلوک :۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کے فوراً بعد والدین سے بہتر سلوک کا ذکر آیا ہے اس مقام پر بھی، سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ٢٣ میں بھی اور سورة لقمان کی آیت نمبر ١٤ میں بھی۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقتاً تربیت کنندہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے انسانی جسم کی ضروریات پیدا کیں۔ ہوا اور پانی پیدا فرمایا پھر انسان کی تمام تر غذائی ضروریات کو زمین سے متعلق کردیا۔ پھر اس کے بعد ظاہراً انسان کی تربیت کے ذمہ دار اس کے والدین ہی ہوتے ہیں۔ نیز رسول اللہ نے والدین کی نافرمانی یا انہیں ستانے کو بڑے بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ بابعقوق الوالدین من الکبائر) والدین سے بہتر سلوک کے لیے دیکھئے سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ٢٣، ٢٤ کے حواشی نمبر ٢٥ تا ٢٨)- [١٦٨] قتل اولاد :۔ یعنی اگر خود تمہیں کھانے کو مل رہا ہے تو یقین رکھو کہ تمہاری اولاد کو بھی کھانے کو ملے گا اور وہ فاقہ سے مر نہیں جائیں گے۔ اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل کرنا صرف اللہ پر عدم توکل اور عدم اعتماد ہی کی دلیل نہیں بلکہ اس کی صفت رزاقیت پر براہ راست حملہ ہے جو مخلوق کو پیدا تو کیے جاتا ہے مگر اس کی تربیت کے لیے اس کی غذائی ضروریات فراہم نہیں کرتا۔ اسی لیے رسول اللہ نے اس گناہ کو بڑے بڑے گناہوں میں سے دوسرے نمبر پر شمار فرمایا ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب (فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 22) 2 ۔ البقرة :22)- خ قتل اولاد اور مالتھس نظریہ آبادی :۔ بات دراصل یہ ہے کہ انسان کی نظر محض ان ظاہری اسباب و عوامل پر ہوتی ہے جو اس وقت موجود ہوتے ہیں اور وہ مخفی اسباب جو اس وقت غیر موجود یا آئندہ زمانہ میں پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ظاہر بین ماہرین معاشیات اس مسئلہ میں اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ برطانیہ کے مشہور ماہر معاشیات۔۔ مالتھس (١٧٦٦۔ ١٨٣٤ ئ) نے ١٧٩٨ ء میں ایک کتاب اصول آبادی لکھ کر یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی آبادی جیومیٹری کے حساب یعنی ١۔ ٢۔ ٤۔ ٨۔ ١٦ کی نسبت سے بڑھ رہی ہے جبکہ وسائل پیداوار حساب کی نسبت یعنی ١۔ ٢۔ ٣۔ ٤۔ ٥ کی نسبت سے بڑھتے ہیں اور اپنے اس نظریہ کے مطابق برطانیہ کی موجود آبادی اور وسائل پیداوار کا حساب لگا کر یہ پیشین گوئی کی کہ اگر انسانی پیدائش اور وسائل پیداوار کی یہی صورت حال رہی تو برطانیہ پچاس سال کے اندر اندر افلاس کا شکار ہوجائے گا۔ اور اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ انسانی پیدائش پر کنٹرول کیا جانا چاہیے اور شادی میں حتی الوسع تاخیر سے کام لینا چاہیے۔ لیکن تاریخ نے مالتھس کے اس نظریہ افلاس کو غلط ثابت کردیا۔ پیدائش پر کنٹرول نہ کرنے کے باوجود برطانیہ کی خوشحالی بڑھتی گئی۔ اس کی اصل وجہ تو وہی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جتنی خلقت پیدا کرتا ہے تو اس کے مطابق ان کے رزق کا بھی انتظام فرما دیتا ہے اور ظاہری سبب یہ بنا کہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب آگیا جس کے آغاز کا ذکر مالتھس نے خود بھی کیا ہے اور یہی وہ سبب تھا جو مالتھس کی نظروں سے اوجھل تھا مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا چناچہ بعد میں آنے والے معیشت دانوں نے مالتھس کو جھوٹا پیشین گو کے نام سے یاد کیا۔ کیونکہ برطانیہ اس صنعتی انقلاب کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ خوشحال ہوگیا۔- مالتھس کا یہ سراسر مادی نظریہ ایک اور قباحت کو بھی اپنے ساتھ لایا اور یہ قباحت فحاشی اور بدکاری کی لعنت تھی جس کا اس آیت میں متصلاً ذکر ہوا ہے۔ مالتھس کے نزدیک برتھ کنٹرول یعنی حمل کو ادویات کے ذریعہ ضائع کردینے کا عمل وقت کی بہت بڑی ضرورت تھی۔ یہی بات عیاشی، فحاشی اور بدکاری کا بہت بڑا سبب بن گئی۔ مالتھس کے بعد ایک تحریک اٹھی جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ نفس کی خواہش یعنی شہوانی خواہش کو آزادی کے ساتھ پورا کیا جائے۔ مگر اس کے فطری نتیجہ یعنی اولاد کی پیدائش کو سائنٹیفک ذرائع سے روک دیا جائے۔ اس طبقہ کے لٹریچر میں جس طرز استدلال پر زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر تین پرزور حاجتوں سے سابقہ پڑتا ہے اور وہ خوراک، آرام اور شہوت ہیں۔ اور تینوں باتوں کو پورا کرنے سے ہی انسان کو تسکین نصیب ہوتی ہے اور خاص لذت بھی۔ اب عقل اور منطق کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان کی تسکین کی طرف لپکے۔ پہلی دو باتوں کے متعلق تو انسان کا طرز عمل ہے بھی یہی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ تیسری چیز کے معاملہ میں انسان کا طرز عمل یکسر مختلف ہے۔ اجتماعی اخلاق نے یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ اس خواہش کو نکاح سے باہر پورا نہ کیا جائے اور مزید پابندی یہ کہ اولاد کی پیدائش کو نہ روکا جائے یہ پابندیاں سراسر لغو، عقل اور منطق کے خلاف اور انسانیت کے لیے بدترین نتائج پیدا کرنے والی ہیں۔- یہ نظریات لوگوں میں مقبول ہوئے تو بےحجابی، فحاشی اور بدکاری کا بےپناہ سیلاب آگیا پھر لطف کی بات یہ کہ انہی باتوں کو تہذیب و ترقی کی علامت سمجھا جانے لگا۔ اور مغرب اور مغربی تہذیب سے مرعوب تمام ممالک نے ان نظریات کو اپنے اپنے ممالک میں درآمد کرنا شروع کردیا۔ تاکہ تہذیب و ترقی کی اس رفتار میں مغرب سے پیچھے نہ رہیں اور حد یہ کہ پردہ، عفت اور احکام الٰہیہ کا الٹا مذاق اڑایا جانے لگا اور آج یہ صورت حال ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اسی بےحجابی، بےحیائی، فحاشی اور بدکاری کو پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں۔- خ خاندانی منصوبہ بندی :۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی برتھ کنٹرول کا سرکاری محکمہ قائم ہوگیا اور اسے خوبصورت اور اچھے اچھے نام دیئے جانے لگے۔ پہلے اس محکمہ کا نام خاندانی منصوبہ بندی تجویز کیا گیا۔ پھر اسی محکمہ کا نام تبدیل کر کے محکمہ بہبود آبادی رکھ دیا گیا۔ لیکن چونکہ حمل کو ادویات کے ذریعہ روکنے کا عمل فطرت کے خلاف جنگ ہے لہذا اس کے نتائج توقعات کے خلاف نکلنا شروع ہوگئے۔ پہلے ایک آدمی کی اولاد اوسطاً چار بچے ہوتی تھی اور اب یہ اوسط ٨ بچے تک سمجھی جاتی ہے اور پاکستان میں یہ محکمہ قائم ہونے کے بعد پیدائش کی رفتار پہلے کی نسبت سے بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی عورتیں طرح طرح کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔- خ فطرت کے خلاف جنگ کے نتائج :۔ اب لوگوں کی معیشت کی طرف نظر کیجئے تو بھی حکومت کے خدشات لغو اور باطل ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان جب بنا تھا تو اس وقت اس کی آبادی پانچ اور چھ کروڑ کے درمیان تھی اور آج ٥١ سال بعد تیرہ کروڑ یعنی دو گنا سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اب ہر شخص اپنے ہی حالات پر نظر کر کے دیکھ لے کہ پاکستان بننے کے وقت اس کی معاشی حالت کیا تھی اور آج کیا ہے ؟ آج ہر شخص اس وقت کی نسبت سے بہت زیادہ خوشحال ہے اور اس دوران اللہ تعالیٰ نے کئی زمینی خزانے پاکستان کو عطا فرمائے جن کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا۔ ان چشم دید اور ہر شخص کے تجربہ میں آنے والے واقعات کے بعد اللہ تعالیٰ کی رزاقیت، اس کے وسعت علم اور اس کی قدرت کاملہ میں کوئی شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟- [١٦٩] یعنی ایسے وسائل بھی اختیار نہ کرو جو تمہیں بےحیائی کے کاموں کے قریب لے جائیں اور انسان کے جنسی جذبات میں تحریک پیدا کریں۔ جیسے بےحجابی۔ غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا، تماش بینی، سینما، ٹیوی، جنسی لٹریچر کا مطالعہ، عورتوں کی تصاویر کی عام نشر و اشاعت سب کچھ اس ضمن میں آتا ہے۔ چناچہ آپ نے فرمایا آنکھوں کا زنا (غیر عورتوں کو دیکھنا ہے) کانوں کا زنا (فحاشی کی باتیں سننا ہے) زبان کا زنا (فحاشی کی بات چیت کرنا ہے) ہاتھ کا زنا (پکڑنا ہے) اور پاؤں کا زنا (چلنا ہے) دل کا زنا، اس کی خواہش اور تمنا کرنا ہے۔ پھر شرمگاہ، ان سب کی یا تو تصدیق کردیتی ہے۔ یا تکذیب۔ (مسلم۔ کتاب القدر۔ باب قدر علی ابن آدم حظہ الزنا) وغیرہ۔ نیز آپ نے فرمایا اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں۔ اسی لیے تو اس نے بےحیائی کے تمام کاموں کو حرام کردیا۔ نیز سیدہ عائشہ (رض) روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کو سب سے زیادہ غیرت اس بات پر آتی ہے جب وہ اپنے کسی بندے یا بندی کو زنا کرتے دیکھتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الغیرۃ)- [١٧٠] قتل بالحق کی صورتیں :۔ آن کی رو سے تین صورتوں میں قتل کرنا برحق اور جائز ہے۔ (١) قتل عمد کے قصاص کی صورت میں (٢) میدان میں کفار کا قتل (٣) بغاوت یعنی دیار اسلام میں بدامنی پھیلانے والے اور اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے والے کا قتل اور سنت کی رو سے دو صورتیں ہیں (١) شادی شدہ جو زنا کرے اور (٢) جو شخص ارتداد کا مرتکب ہو یعنی اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلے۔ یہ کل پانچ صورتیں ہوئیں۔ ان کے علاوہ کسی بھی صورت میں کسی کو قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے۔ اور اس گناہ کو رسول اللہ نے سات بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رمی المحصنات)
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ : اب اللہ تعالیٰ تفصیل سے بیان فرماتے ہیں کہ حرام وہ نہیں جو تم نے اپنی مرضی سے حرام بنا لیا، بلکہ وہ ہے جو تمہیں پیدا کرنے والے اور ہر لمحے پالنے والے نے تم پر حرام کیا ہے، آؤ میں خود وہ تم سے بیان کرتا ہوں۔ یہ دس احکام ہیں جو اسلام کا خلاصہ ہیں۔ - اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا : یہاں بیان تو وہ چیزیں کرنی تھیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمائی ہیں، مگر بیان وہ چیزیں فرمائی ہیں جن کا نہایت تاکید کے ساتھ حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے تمہارے لیے جو حکم تاکید کے ساتھ ثابت ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔ گویا یہ مفہوم ” حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُم “ کے ضمن ہی میں شامل ہے کہ یہاں ” وَصّٰىكُمْ بِهٖ “ محذوف ہے، یعنی اس نے تمہیں تاکیداً حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اس کی دلیل یہاں مذکور تینوں آیات کے آخری الفاظ ہیں : (ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ ) یعنی یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمہیں دیا ہے۔ اگر مراد ہوتا کہ یہ چیزیں حرام کی ہیں تو آخر میں یہ الفاظ ہونے چاہییں تھے : ” ذٰلِکُمْ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ “ یعنی یہ ہیں وہ چیزیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا تاکیدی حکم یہ دیا کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نہ کسی انسان کو، نہ کسی جن کو، نہ کسی فرشتے کو، نہ کسی پہاڑ، پتھر، دریا یا درخت کو۔ غرض کوئی چیز کتنی بھی عظیم الشان ہو اسے اللہ کا کسی بھی چیز میں شریک مت بناؤ، کیونکہ سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کا شریک بناؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ٤٤٧٧ ] - اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے جسے چاہے گا۔ “ [ النساء : ١١٦ ] اور اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کا قول ذکر فرمایا کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک بنائے سو یقیناً اللہ نے اس پر جنت حرام کردی۔ [ المائدۃ : ٧٢ ] - وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ ’ اِحْسَانًا ۚ“ فعل محذوف ” اَحْسِنُوْا “ کا مفعول مطلق ہے جس سے مقصود تاکید ہے، اس لیے ترجمہ ” خوب احسان کرو “ کیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ والدین کو اللہ تعالیٰ نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر ولادت اور دلی محبت کے ساتھ پالنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بندوں کے حقوق میں سے سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٢٣) اور سورة لقمان (١٤، ١٥)- وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭ۔۔ : پیدا ہو چکنے کے بعد یا جب کہ وہ ماؤں کے پیٹ میں ہوں، مثلاً کوئی دوا کھلا کر قبل از وقت حمل گرا دینا۔ سورة بنی اسرائیل (٣١) میں بھی یہی حکم دیا گیا ہے، مگر یہاں اور وہاں دو فرق ہیں، یہاں ” مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭ‘(مفلسی کی وجہ سے) ہے اور وہاں ” خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ“ (مفلسی کے ڈر سے) ہے۔ اسی طرح یہاں ” ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ ۚ“ (ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی) ہے اور وہاں ”ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ “ ” ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی “ ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مقام پر ان لوگوں کی بات ہے جو مفلسی میں گرفتار ہیں۔ فرمایا کہ اس مفلسی میں انھیں قتل مت کرو، ہم مفلسی کے باوجود تمہیں جو روزی دیتے ہیں انھیں بھی دیں گے، جبکہ بنی اسرائیل میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مفلسی میں مبتلا تو نہیں مگر بچوں کے پیدا ہونے پر مفلسی سے ڈر رہے ہیں، فرمایا کہ ڈرو نہیں ہم انھیں بھی روزی دیں گے، تمہیں بھی تو دے رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ تمہارا یہ سمجھنا کہ روزی کے مالک تم خود ہو، بالکل غلط ہے، یہ ہمارا کام اور ہمارا ذمہ ہے۔ (دیکھیے ہود : ٦) کفار کا تو کہنا ہی کیا ہے، اس وقت مسلم حکومتیں اسی بہانے سے ضبط و ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر منظم طریقے سے قتل اولاد کا جرم کر رہی ہیں کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں، ہم زیادہ آبادی کی خوراک کا بندوبست نہیں کرسکتے، حالانکہ یہ کفر کا کلمہ ہے۔ خوراک کا بندوبست تو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے، بلکہ ان حکمرانوں کا تمام عیش ان مفلسوں کی محنت ہی کا نتیجہ ہے، جن کی خوراک کے وہ ذمہ دار بن رہے ہیں۔ ہر بچے کو اللہ تعالیٰ کھانے کے لیے ایک منہ اور کمانے کے لیے دو ہاتھ دے کر بھیجتا ہے اور جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے زمین کے خزانوں کے منہ کھلتے جا رہے ہیں۔ دیکھیے سورة حجر (١٩ تا ٢٢) ۔- وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ ۔۔ : ” اَلْفَاحِشَۃُ “ ، ” اَلْفَحْشَاءُ “ اور ” اَلْفَحْشُ “ کا معنی ہے ہر وہ قول یا فعل جو قباحت میں بہت بڑھا ہوا ہو، مثلاً زنا، شدید بخل وغیرہ۔ (راغب) اس لیے اس کا ترجمہ بےحیائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہر کام کو خواہ ظاہر ہو، جیسے سب کے سامنے زنا یا قوم لوط کی حرکتیں کرنا، یا پوشیدہ، مثلاً چھپ کر زنا اور چوری وغیرہ کرنا، انھیں حرام قرار دیا۔ اس مقام پر ایسے ہر کام کے قریب جانے کو بھی حرام قرار دیا، جیسا کہ سورة بنی اسرائیل (٣٢) میں زنا کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا، کیونکہ قریب جانا ہی گناہ کے ارتکاب کا باعث بنتا ہے۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں، اسی لیے اس نے بےحیائی کی ظاہر اور پوشیدہ تمام شکلوں کو حرام قرار دیا ہے۔ “- [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالیٰ : ( ولا تقربوا الفواحش ۔۔ ) : ٤٦٣٤ ]- وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ ۔۔ : عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کسی مسلمان کا خون، جو اس بات کی شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک میں اللہ کا رسول ہوں، تین صورتوں کے سوا کسی بھی صورت میں حلال نہیں : 1 جان کے بدلے جان 2 شادی شدہ زانی 3 دین سے جدا ہو کر ( مسلمانوں کی) جماعت کو ترک کردینے والا۔ “ [ بخاری، الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ : ( إن النفس بالنفس والعین بالعین۔۔ ) : ٦٨٧٨ ] یا ان تینوں کے علاوہ جس کے قتل کرنے کا واضح حکم قرآن یا حدیث میں موجود ہو، مثلاً محارب (ڈاکو، باغی) یا محرم سے نکاح کرنے والا، انھیں قتل کرنا ناحق نہیں بلکہ حق ہے۔ - لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ : تاکہ تم سمجھو، عقل کرو، کیونکہ یہ ایسے کام ہیں کہ ان کا ارتکاب عقل کی خست کی دلیل ہے اور ان کاموں کی قباحت عقل بھی محسوس کرتی ہے، نصیحت اس لیے ہے کہ تم عقل کے تقاضے کے مطابق چلو۔
خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہئے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے وہ (چیزیں یہ ہیں کہ ایک) یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراو (پس شریک ٹھہرانا حرام ہوا) اور (دوسرے یہ کہ) ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو (پس ان سے بری طرح رہنا حرام ہوا) اور (تیسرے یہ کہ) اپنی اولاد کو افلاس کے سبب (جیسا کہ جاہلیت میں غالب عادت تھی) قتل مت کیا کرو (کیونکہ) ہم تم کو اور ان کو (دونوں کو) رزق (مقدر) دیں گے (وہ تمہارے رزق مقدر میں شریک نہیں ہیں، پھر کیوں قتل کرتے ہو، پس قتل کرنا حرام ہوا) اور (چوتھے یہ کہ) بےحیائی (یعنی بدکاری) کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاو (پس زنا کرنا حرام ہوا) خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ ہوں (وہ طریقے یہی ہیں) اور (پانچویں یہ کہ) جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق (شرعی) پر (قتل جائز ہے مثلاً قصاص یا رجم میں، پس قتل ناحق حرام ہوا) اس (سب) کا تم کو (اللہ تعالیٰ نے) تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم (ان کو) سمجھو (اور سمجھ کر عمل کرو) اور (چھٹے یہ کہ) یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ (یعنی اس میں تصرف مت کرو) مگر ایسے طریقہ سے (تصرف کی اجازت ہے) جو کہ (شرعاً ) مستحسن ہے (مثلاً اس کے کام میں لگانا، اس کی حفاظت کرنا، اور بعض اولیاء اور اوصیاء کو اس میں یتیم کے لئے تجارت کرنے کی بھی اجازت ہے) یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جاوے (اس وقت تک ان تصرفات مذکورہ کو بھی اجازت ہے، اور پھر اس کا مال اس کو دے دیاجاوے گا بشرط سفیہہ نہ ہونے کے، پس تصرف غیر مشروع مال یتیم میں حرام ہوا) اور (ساتویں یہ کہ) ناپ اور تول پوری پوری کیا کرو، انصاف کے ساتھ (کہ کسی کا حق اپنے پاس نہ رہے، اور نہ آوے، پس اس میں دغا کرنا حرام ہوا، اور یہ احکام کچھ دشوار نہیں کیونکہ) ہم (تو) کسی شخص کو اس کے امکان سے زیادہ (احکام کی) تکلیف (بھی) نہیں دیتے (پھر ان احکام میں کوتاہی کیوں کی جاوے) اور (آٹھویں یہ کہ) جب تم (فیصلہ یا شہادت وغیرہ کے متعلق کوئی) بات کیا کرو (جیسی قسم یا نذر بشرط اس کے مشروع ہونے کے) اس کو پورا کیا کرو (پس اس کا عدم ایفاء حرام ہوا) ان (سب) کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو (اور عمل کرو) اور یہ (بھی کہہ دیجئے) کہ (کچھ انھیں احکام کی تخصیص نہیں بلکہ) یہ دین (اسلام اور اس کے تمام احکام) میرا رستہ ہے (جس کی طرف میں باذن الٓہی دعوت دیتا ہوں) جو کہ (بالکل) مستقیم (اور راست) ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے (جن کی طرف میں دعوت کرتا ہوں) جدا (اور دور) کردیں گے، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ تم (اس راہ کے خلاف کرنے سے) احتیاط رکھو۔ - معارف و مسائل - ان آیات سے پہلے تقریباً دو تین رکوع میں مسلسل یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ غافل اور جاہل انسان نے زمین و آسمان کی ساری چیزوں کے پیدا کرنے والے احکم الحاکمین کا نازل کیا ہوا قانون چھوڑ کر آبائی اور من گھڑت رسموں کو اپنا دین بنا لیا، جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا تھا ان کو جائز سمجھ کر استعمال کرنے لگے، اور بہت سی چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا تھا ان کو اپنے اوپر حرام کرلیا، اور بعض چیزوں کو مردوں کے لئے جائز عورتوں کے لئے حرام، بعض کو عورتوں کے لئے حلال مردوں کے لئے حرام قرار دیدیا۔- ان تین آیتوں میں ان چیزوں کا بیان ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، تفصیلی بیان میں نو چیزوں کا ذکر ہے، اس کے بعد دسواں حکم اس طرح بیان فرمایا گیا کہ (آیت) ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ” یعنی یہ دین میرا سیدھا راستہ ہے، اس پر چلو “۔ جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے اور بتلائے ہوئے دین و شریعت کی طرف اشارہ کرکے تمام حلال و حرام اور جائز و ناجائز، مکروہ و مستحب چیزوں کی تفصیلات کو اس کے حوالہ کردیا کہ شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس چیز کو حلال بتلایا اس کو حلال اور جس کو حرام قرار دیا اس کو حرام سمجھو، اپنی طرف سے حلال و حرام کے فیصلے نہ کرتے پھرو۔ - پھر جن دس چیزوں کا تفصیلی بیان ان آیات میں آیا ہے ان میں اصل مقصد تو حرام چیزوں کا بیان کرنا ہے، جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ ان سب کو بصیغہ نہی ممانعت کرنے کے عنوان سے بیان کیا جاتا، لیکن قرآن کریم نے اپنے خاص حکیمانہ اسلوب کے ماتحت ان میں سے چند چیزوں کو ایجابی طور پر بصیغہ امر بیان فرمایا ہے، اور مراد یہ ہے کہ اس کے خلاف کرنا حرام ہے (کشاف) اس کی حکمت آگے معلوم ہوجائے گی، وہ دس چیزیں جن کی حرمت کا بیان ان آیات میں آیا ہے یہ ہیں :- (١) اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت و اطاعت میں کسی کو ساجھی ٹھہرانا، (٢) والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، (٣) فقر و افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کردینا، (٤) بےحیائی کے کام کرنا، (٥) کسی کو ناحق قتل کرنا، (٦) یتیم کا مال ناجائز طور پر کھا جانا، (٧) ناپ تول میں کمی کرنا، (٨) شہادت یا فیصلہ یا دوسرے کلام میں بےانصافی کرنا (٩) اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا نہ کرنا، (٠١) اللہ تعالیٰ کے سیدھے راستہ کو چھوڑ کر دائیں بائیں دوسرے راستے اختیار کرنا۔- آیات مذکورہ کی اہم خصوصیات - کعب احبار رحمة اللہ علیہ جو تورات کے ماہر عالم ہیں پہلے یہودی تھے، پھر مسلمان ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی یہ آیات جن میں دس حرام چیزوں کا بیان ہے، اللہ کی کتاب تورات بسم اللہ کے بعد ابھی آیات سے شروع ہوتی ہے (انتہیٰ ) اور کہا گیا ہے کہ یہی وہ دس کلمات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئے تھے۔- مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہی وہ آیات محکمات ہیں جن کا ذکر سورة آل عمران میں آیا ہے کہ جن پر آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتیں متفق رہی ہیں ان میں سے کوئی چیز کسی مذہب وملت اور کسی شریعت میں منسوخ نہیں ہوئی (تفسیر بحر محیط)- یہ آیات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصیت نامہ ہیں - اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایسا وصیت نامہ دیکھنا چاہے جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہر لگی ہو تو وہ ان آیات کو پڑھ لے، ان میں وہ وصیت موجود ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحکم خداوندی اُمّت کو دی ہے۔- اور حاکم نے بروایت حضرت عبادہ بن صامت (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خطاب کرکے فرمایا : ” کون ہے جو مجھ سے تین آیتوں پر بیعت کرے “۔ پھر یہی تین آیتیں تلاوت فرما کر ارشاد فرمایا کہ : ” جو شخص اس بیعت کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگیا “۔- اب ان دس چیزوں کا تفصیلی بیان اور تینوں آیتوں کی تفسیر دیکھئے؛ ان آیات کی ابتداء اس طرح کی گئی ہے : (آیت) قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اس میں تعالوا کا ترجمہ ہے ” آجاؤ “۔ اور اصل میں یہ کلمہ ایسے وقت بولا جاتا ہے جب کہ کوئی بلانے والا بلند جگہ کھڑا ہو کر نیچے والوں کو اپنے پاس بلائے، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اس دعوت کو قبول کرنے میں ان لوگوں کے لئے برتری اور بلندی ہے، معنی یہ ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ آجاؤ تاکہ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کی ہیں، یہ بلاواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوا پیغام ہے، اس میں کسی کے ظن وتخمین یا قیاس کا دخل نہیں، تاکہ تم ان سے بچنے کا اہتمام کرو اور فضول اپنی طرف سے اللہ کی حلال چیزوں کو حرام کرتے نہ پھرو۔ - اس آیت کا خطاب اگرچہ بلاواسطہ مشرکین مکہ کی طرف ہے، مگر مضمون خطاب عام ہے اور تمام بنی نوع انسان کو شامل ہے خواہ مومن ہوں یا کافر، عرب ہوں یا عجم، اور موجودہ حاضرین ہوں یا آئندہ آنے والی نسلیں (بحر محیط)- سب سے پہلا گناہ عظیم شرک ہے جس کو حرام کیا گیا ہے - اس اہتمام کے ساتھ خطاب کرکے محرمات و ممنوعات کی فہرست میں سب سے پہلے یہ ارشاد فرمایا الا تشرکوا بہ شیئاً ، یعنی سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک اور ساجھی نہ سمجھو، نہ مشرکین عرب کی طرح بتوں کو خدا بناؤ، نہ یہود و نصاریٰ کی طرف انبیاء کو خدا یا خدا کا بیٹا کہو، نہ دوسروں کی طرح فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دو ، نہ جاہل عوام کی طرح انبیاء و اولیاء کو صفت علم وقدرت میں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراؤ۔- شرک کی تعریف اور اس کی قسمیں - اور تفسیر مظہری میں ہے کہ لفظ شیئاً کے معنی یہاں یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ شرک کی کسی قسم جلی یا خفی میں مبتلا نہ ہو، شرک جلی کو تو سب جانتے ہیں کہ کسی غیر اللہ کو عبادت اور اطاعت میں یا اس کی مخصوص صفات میں اللہ تعالیٰ کے برابر یا اس کا ساجھی قرار دینا ہے، اور شرک خفی یہ ہے کہ اپنے کاروبار اور دینی دنیوی مقاصد میں اور نفع نقصان میں اگرچہ عقیدہ تو یہی ہو کہ کارساز اللہ تعالیٰ ہے، مگر عملاً دوسروں کو کارساز سمجھے اور ساری کوشش دوسروں ہی سے وابستہ رکھے، یا عبادات میں ریا کاری کرے کہ دوسروں کو دکھانے کے لئے نماز وغیرہ کو درست کرکے پڑھے، یا صدقہ خیرات نام آوری کے خیال سے کرے، یا عملاً نفع نقصان کا مالک کسی غیر اللہ کو قرار دے، شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے - دریں نوعے از شرک پوشیدہ است کہ زیدم بہ بخشیدو عمرم بخست - یعنی اس میں بھی ایک قسم کا شرک چھپا ہوا ہے کہ آدمی یوں سمجھے کہ مجھے زید نے کچھ بخش دیا اور عمر نے نقصان پہنچا دیا، بلکہ حقیقت اس کے سوا نہیں کہ بخشش یا نقصان جو کچھ ہے وہ قادر مطلق حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، زید اور عمر پردے ہیں جن کے اندر سے بخشش یا نقصان کا ظہور ہوتا ہے ورنہ جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے کہ اگر ساری دنیا کے جن و انس مل کر تم کو کوئی ایسا نفع پہنچانا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر نہیں فرمایا تو مجال نہیں کہ پہنچا سکیں، اسی طرح اگر ساری دنیا کے جن و انس مل کر تم کو کوئی ایسا نقصان پہنچانا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا تو یہ بھی کسی سے ممکن نہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ شرک جلی اور خفی دونوں سے انتہائی پرہیز کرنا چاہیے، اور شرک میں جس طرح بتوں وغیرہ کی پوجا پاٹ داخل ہے، اسی طرح انبیاء و اولیاء کو علم وقدرت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا بھی شرک میں داخل ہے، اگر خدا نخواستہ کسی کا عقیدہ ہی ایسا ہو تو شرک جلی ہے، اور عقیدہ نہ ہو مگر عمل اس طرح کا ہے تو شرک خفی کہلائے گا، اس مقام میں سب سے پہلے شرک سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے، وجہ یہ ہے کہ شرک ایسا جرم ہے جس کے متعلق قرآن کا فیصلہ ہے کہ اس کی معافی نہیں، اس کے سوا دوسرے گناہوں کی معافی مختلف اسباب سے ہو سکتی ہے، اسی لئے حدیث میں بروایت حضرت عبادہ بن صامت (رض) و حضرت ابو الدرداء (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو ساجھی نہ قرار دو ، اگرچہ تمہارے ٹکڑے کردیئے جائیں، یا تمہیں سولی پر چڑھا دیا جائے، یا تمہیں زندہ جلا دیا جائے۔- دوسرا گناہ، والدین سے بدسلوکی ہے - اس کے بعد دوسری چیز یہ ارشاد فرمائی : (آیت) وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا، یعنی والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ اور اچھا برتاؤ کرو، مقصد تو اس جگہ یہ ہے کہ والدین کی نافرمانی نہ کرو، ان کو ایذاء نہ پہنچاؤ، مگر حکیمانہ انداز سے بیان اس طرح کیا گیا کہ والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو، اس میں اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ والدین کے حق میں صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ ان کی نافرمانی نہ کرو اور ایذاء نہ پہنچاؤ، بلکہ حسن سلوک اور نیاز مندانہ برتاؤ کے ذریعہ ان کو راضی رکھنا اور خوش کرنا فرض ہے، جس کا بیان دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طرح آیا ہے : (آیت) واخفض لہما جناح الذل، ” یعنی ان کے سامنے اپنے بازو نیاز مندانہ طور پر پست کرو “۔- اس آیت میں والدین کو ایذاء پہنچانے اور تکلیف دینے کو شرک کے بعد دوسرے نمبر کا جرم قرار دیا ہے، جیسا کہ دوسری آیت میں ان کی اطاعت اور راحت رسانی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر ارشاد فرمایا ہے :- (آیت) وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا۔- ” یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو “۔- اور ایک جگہ ارشاد فرمایا :- (آیت) ان اشکرلی ولوالدیک الی المصیر - ” یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا پھر میری ہی طرف لوٹ کر آنا یعنی اگر خلاف کرو گے تو سزا پاؤ گے “۔- صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ سب سے افضل اور بہتر عمل کون سا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” نماز کو اس کے وقت (مستحب) میں پڑھنا “۔ فرماتے ہیں کہ میں نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے ؟ تو فرمایا ” والدین کے ساتھ اچھا سلوک “۔ پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا عمل ہے ؟ فرمایا : ” اللہ کے راستہ میں جہاد “۔- صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) مذکور ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا : انفہ رغم انفہ رغم انفہ، یعنی ذلیل ہوگیا، ذلیل ہوگیا، ذلیل ہوگیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون ذلیل ہوگیا ؟ فرمایا وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے کے زمانہ میں پایا اور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔ - مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے کے زمانہ میں والدین کی خدمت سے جنت کا ملنا یقینی ہے بڑا محروم و ذلیل ہے وہ شخص جس نے اتنی سستی جنت کو ہاتھ سے کھو دیا، سستی اس لئے کہ والدین جو اولاد پر طبعی طور پر خود ہی مہربان ہوتے ہیں وہ ذرا سی خدمت سے بہت خوش ہوجاتے ہیں، ان کا خوش رکھنا کسی بڑے عمل کا محتاج نہیں، اور بڑھاپے کی قید اس لئے کہ جس وقت والدین تندرست اور قوی ہیں، اور اپنی ضروریات خود پوری کرتے ہیں بلکہ اولاد کی بھی مالی اور جانی امداد کردیتے ہیں اس وقت تو نہ خدمت کے وہ محتاج ہیں نہ اس خدمت کا کوئی خاص وزن ہے، قابل قدر خدمت اس وقت ہی ہو سکتی ہے جب کہ وہ بڑھاپے کی وجہ سے محتاج ہوں۔- تیسرا حرام قتل اولاد - تیسری چیز جس کا حرام ہونا ان آیات میں بیان ہوا ہے وہ قتل اولاد ہے، اور مناسب یہ ہے کہ اس سے پہلے ماں باپ کے حق کا بیان تھا جو اولاد کے ذمہ ہے اور اس میں اولاد کے حق کا بیان ہے جو ماں باپ کے ذمہ ہے، اولاد کے ساتھ بدسلوکی کا بدترین معاملہ وہ تھا جو جاہلیت میں اس کو زندہ درگور کرنے یا قتل کرنے کا جاری تھا، اس آیت میں اس سے روکا گیا۔ ارشاد فرمایا (آیت) ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ” یعنی افلاس کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ہم تم کو بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی “۔- جاہلیت کے زمانہ میں بےرحمی اور سنگدلی کی یہ بدترین رسم چل پڑی تھی کہ جس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو اس عار کے خوف سے کہ کسی کو داماد بنانا پڑے گا زندہ گڑھے میں دفن کردیتے تھے، اور بعض اوقات اس خوف سے کہ اولاد کے لئے ضروریات زندگی اور کھانے پینے کا سامان جمع کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی، یہ سنگدل لوگ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کردیتے تھے، قرآن کریم نے اس رسم کو مٹایا، اور جو ارشاد اوپر مذکور ہوا، اس میں ان کے اس ذہنی مرض کا بھی علاج کردیا، جس کے سبب وہ اس بدترین جرم کے مرتکب ہوتے تھے کہ بچوں کو کھانا کہاں سے کھلائیں گے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتلا دیا کہ کھانا کھلانے اور رزق پہنچانے کے اصلی ذمہ دار تم پر نہیں، یہ کام براہ راست حق تعالیٰ کا ہے، تم خود اپنے رزق اور کھانے میں بھی اسی کے محتاج ہو، وہ دیتا ہے تو تم بچوں کو بھی دیدیتے ہو، وہ اگر تمہیں نہ دے تو تمہاری کیا مجال ہے کہ ایک دانہ گیہوں یا چاول کا خود پیدا کرلو، زمین کے اندر سے بیج کو ایک کونپل کی صورت میں منوں مٹی کو چیر پھاڑ کر نکالنا پھر اس کو درخت کی صورت دینا، پھر اس پر پھول پھل لگانا کس کا کام ہے ؟ کیا ماں باپ یہ کام کرسکتے ہیں ؟ یہ تو سب قادر مطلق کی قدرت و حکمت کے کرشمے ہیں، انسان کے عمل کا اس میں کیا دخل ہے وہ تو صرف اتنا کرسکتا ہے کہ زمین کو نرم کر دے اور درخت نکلے تو پانی دے دے، اور اس کی حفاظت کرلے، مگر پھول پھل پیدا کرنے میں تو اس کا ادنیٰ دخل نہیں، معلوم ہوا کہ ماں باپ کا یہ تصور غلط ہے کہ ہم بچوں کو رزق دیتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے خزانہ غیب سے ماں باپ کو بھی ملتا ہے، اولاد کو بھی، اسی لئے اس جگہ ماں باپ کے ذکر کو مقدم کرکے فرمایا کہ ہم تم کو بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی، اس تقدیم میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ تم کو رزق اس لئے دیا جاتا ہے کہ تم بچوں کو پہنچاؤ، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : انما تنصرون وترزقون بضعفاء کم ” یعنی تمہارے کمزور لوگوں کے طفیل میں اللہ تعالیٰ تمہاری بھی مدد فرماتے ہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں “۔- اولاد کی تعلیمی اخلاقی تربیت نہ کرنا اور بےدینی کے لئے آزاد چھوڑ دینا بھی ایک طرح سے قتل اولاد ہے - قتل اولاد کا جرم اور سخت گناہ ہونا جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے وہ ظاہری قتل کرنے اور مار ڈالنے کے لئے تو ظاہری ہے، اور غور کیا جائے تو اولاد کو تعلیم و تربیت نہ دینا جس کے نتیجہ میں خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخرت کی فکر سے غافل رہے، بد اخلاقیوں اور بےحیائیوں میں گرفتار ہو یہ بھی قتل اولاد سے کم نہیں، قرآن کریم نے اس شخص کو مردہ قرار دیا ہے جو اللہ کو نہ پہچانے، اور اس کی اطاعت نہ کرے، (آیت) اومن کان میتا فاحیینہ میں اسی کا بیان ہے، جو لوگ اپنی اولاد کے اعمال و اخلاق کے درست کرنے پر توجہ نہیں دیتے ان کو آزاد چھوڑتے ہیں یا ایسی غلط تعلیم دلاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اسلامی اخلاق تباہ ہوں وہ بھی ایک حیثیت سے قتل اولاد کے مجرم ہیں، اور ظاہری قتل کا اثر تو صرف دنیا کی چند روزہ زندگی کو تباہ کرتا ہے، یہ قتل انسان کی اخروی اور دائمی زندگی کو تباہ کردیتا ہے۔- چوتھا حرام بےحیائی کا کام ہے - چوتھی چیز جس کے حرام ہونے کا ان آیات میں بیان ہے وہ بےحیائی کے کام ہیں، اس کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ، یعنی بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ۔- فَوَاحِشُ ، فاحشہ کی جمع ہے، اور لفظ فحش، فحشاء اور فاحشہ سب مصدر ہیں، جن کا اردو میں ترجمہ بےحیائی سے کیا جاتا ہے، اور قرآن و حدیث کی اصلاح میں ہر ایسے برے کام کے لئے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں جس کی برائی اور فساد کے اثرات برے ہوں اور دور تک پہنچیں، امام راغب رحمة اللہ علیہ نے مفردات القرآن میں اور ابن اثیر رحمة اللہ علیہ نے بہایہ میں یہی معنی بیان فرمائے ہیں، قرآن کریم میں جابجا فحش اور فحشاء کی ممانعت وارد ہوئی ہے ایک آیت میں ارشاد ہے (آیت) ینھی عن الفحشاء والمنکر، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) حرم ربی الفواحش وغیرہ۔- فحش اور فحشاء کے اس مفہوم عام میں تمام بڑے گناہ داخل ہیں خواہ اقوال سے متعلق ہوں یا افعال سے اور ظاہر سے متعلق ہوں یا باطن اور قلب سے، بدکاری اور بےحیائی کے جتنے کام ہیں وہ بھی سب اس میں داخل ہیں، اسی لئے عام زبانوں پر یہ لفظ بدکاری کے معنی میں بولا جاتا ہے، قرآن کی اس آیت میں فواحش کے قریب جانے سے بھی روکا گیا ہے، اس کو اگر مفہوم عام میں لیا جائے تو تمام بری خصلتیں اور گناہ خواہ زبان کے ہوں خواہ ہاتھ پاؤں وغیرہ کے، اور خواہ دل سے متعلق ہوں، سبھی اس میں داخل ہوگئے، اور اگر مشہور عوام معنی بےحیائی کے لئے جاویں تو اس کے معنی بدکاری اور اس کے مقدمات اور اسباب مراد ہوں گے۔- پھر اسی آیت میں فواحش کی تفسیر میں یہ بھی فرما دیا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ، پہلی تفسیر کے مطابق ظاہری فواحش سے زبان اور ہاتھ پاؤں وغیرہ کے تمام گناہ مراد ہوں گے، اور باطنی فواحش سے مراد وہ گناہ ہوں گے جو دل سے متعلق ہیں، جیسے حسد، کینہ، حرص، ناشکری، بےصبری وغیرہ۔- اور دوسری تفسیر کے مطابق ظاہری فواحش سے مراد وہ بےحیائی کے کام ہوں گے جن کو علانیہ کیا جاتا ہے، اور باطنی وہ جو چھپا کر کئے جاویں، کھلی بدکاری میں اس کے مقدمات و لوازمات سب داخل ہیں، بدنیتی سے کسی عورت کی طرف دیکھنا، ہاتھ وغیرہ سے چھونا، اس سے اس طرح کی باتیں کرنا سب اس میں داخل ہیں، اور باطنی بےحیائی میں وہ خیالات اور ارادے اور ان کو پورا کرنے کی خفیہ تدبیریں داخل ہیں جو کسی بےحیائی اور بدکاری کے سلسلہ میں عمل میں لائی جائیں۔- اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ ظاہری فواحش سے وہ بےحیائی کے کام مراد ہیں جن کا برا ہونا عام طور پر مشہور و معلوم ہے اور سب جانتے ہیں، اور باطنی فواحش سے مراد وہ افعال ہیں جو اللہ کے نزدیک بےحیائی کے کام ہیں، اگرچہ عام طور پر ان کو لوگ برا نہیں جانتے یا عام لوگوں کو ان کا حرام ہونا معلوم نہیں، مثلاً بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد بیوی بنا کر رکھ چھوڑنا یا کسی ایسی عورت سے نکاح کرلیا جو شرعاً اس کے لئے حلال نہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت فواحش کے اصل مفہوم کے اعتبار سے تمام ظاہری اور باطنی گناہوں کو اور مشہور عام مفہوم کے اعتبار سے بدکاری و بےحیائی کے جتنے طریقے کھلے یا چھپے ہوئے ہیں ان سب کو شامل ہے، اور حکم اس میں یہ دیا گیا ہے کہ ان چیزوں کے پاس بھی نہ جاؤ، پاس نہ جانے سے مراد یہ ہے کہ ایسی مجلسوں اور ایسے مقامات سے بھی بچو جہاں جاکر اس کا خطرہ ہو کہ ہم گناہ میں مبتلا ہوجائیں گے، اور ایسے کاموں سے بھی بچو جن سے ان گناہوں کا راستہ نکلتا ہو، حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- من حام حول حمی او شک ان یقع فیہ - ” یعنی جو شخص کسی ممنوع جگہ کے گرد گھومتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ اس میں داخل بھی ہوجائے “۔- اس لئے احتیاط کا مقتضیٰ یہی ہے کہ جس جگہ کا داخلہ ممنوع ہے اس جگہ کے اردگرد بھی نہ پھرے۔- پانچواں حرام قتل ناحق ہے - محرمات میں سے پانچویں چیز قتل ناحق ہے، اس کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ ۭ ” یعنی جس شخص کا خون اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق پر “۔ اور اس حق کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں بیان فرمائی ہے جو بروایت عبداللہ بن مسعود (رض) بخاری و مسلم نے نقل کی ہے وہ یہ کہ آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں، مگر تین چیزوں سے، ایک یہ کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہوجائے، دوسرے یہ کہ اس نے کسی کا ناحق قتل کردیا ہو، اس کے قصاص میں مارا جائے، تیسرے یہ کہ اپنا دین حق چھوڑ کر مرتد ہوگیا ہو۔ - حضرت عثمان غنی (رض) جس وقت باغیوں کے نرغہ میں محصور تھے، اور یہ لوگ ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اس وقت بھی حضرت عثمان (رض) نے لوگوں کو یہ حدیث سنا کر کہا کہ بحمد اللہ میں ان تینوں چیزوں سے بری ہوں، میں نے زمانہ اسلام میں تو کیا زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی بدکاری نہیں کی، اور نہ میں نے کسی کو قتل کیا، اور نہ کبھی میرے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ میں اپنے دین اسلام کو چھوڑ دوں، پھر تم مجھے کس بناء پر قتل کرتے ہو ؟- اور بےوجہ قتل کرنا جیسے مسلمان کا حرام ہے اسی طرح اس غیر مسلم کا قتل بھی ایسا ہی حرام ہے جو کسی اسلامی ملک میں ملک کے قانون کا پابند ہو کر رہتا ہے، یا جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں بروایت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو کسی ذمی غیر مسلم کو قتل کر دے اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ دیا، اور جو شخص اللہ کے عہد کو توڑ دے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔- اس ایک آیت میں دس سے پانچ حرام و ناجائز چیزوں کو بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ” یعنی ان چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو “۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ٠ ۚ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ٠ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاہُمْ ٠ ۚ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ٠ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ١٥١- تَعالَ- قيل : أصله أن يدعی الإنسان إلى مکان مرتفع، ثم جعل للدّعاء إلى كلّ مکان، قال بعضهم : أصله من العلوّ ، وهو ارتفاع المنزلة، فكأنه دعا إلى ما فيه رفعة، کقولک : افعل کذا غير صاغر تشریفا للمقول له . وعلی ذلک قال : فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] ، تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] ، تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] ، تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] . وتَعَلَّى: ذهب صعدا . يقال : عَلَيْتُهُ فتَعَلَّى- تعالٰی ۔ اس کے اصل معنی کسی کو بلند جگہ کی طرف بلانے کے ہیں پھر عام بلانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے بعض کہتے ہیں کہ کہ یہ اصل میں علو ہے جس کے معنی بلند مر تبہ کے ہیں لہذا جب کوئی شخص دوسرے کو تعال کہہ کر بلاتا ہے تو گویا وہ کسی رفعت کے حصول کی طرف وعورت دیتا ہے جیسا کہ مخاطب کا شرف ظاہر کرنے کے لئے افعل کذا غیر صاغر کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] تو ان سے کہنا کہ آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں ۔ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] تعالو ا الیٰ کلمۃ ( جو ) بات ( یکساں تسلیم کی گئی ہے اس کی ) طرف آؤ تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف رجوع کرو ) اور آؤ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] کہہ کہ ( لوگو) آؤ میں ( تمہیں ) پڑھ کر سناؤں ۔ تعلیٰ بلندی پر چڑھا گیا ۔ دور چلا گیا ۔ کہا جاتا ہے علیتہ متعلٰی میں نے اسے بلند کیا ۔ چناچہ وہ بلند ہوگیا - تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- (إملاق)- ، مصدر قياسي لفعل أملق الرباعيّ ، وزنه إفعال بکسر الهمزة . املاق۔ بروزن افعال مصدر ہے۔ مفلس۔ تنگدست ہونا۔ املق مفلس ہونا۔ املق الدھر مالہ۔ زمانہ نے اس کے مال کو ہاتھ سے نکال دیا۔ کنگال کردیا۔ من املاق تنگدستی کی وجہ سے۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - ظَهَرَ ظاهر هونا - الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18] .- ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔- بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى - ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
قتل اولاد - قول باری ہے ( ولا تقتلوا اولادکم من املاق۔ اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو) عرب کے لوگ مفلسی کے ڈر سے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ املاق کے معنی افلاس کے ہیں۔ اسی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہے ( اعظم الذنوب ان تجعل للہ نذا وھو خلقک وان تقتل ولدک خشیۃ ان تاکل معک و ان تزلی بحلیلۃ جار سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا مد مقابل ٹھہرائو حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا۔ اور یہ کہ تم اپنی بیٹی کو اس خوف سے قتل کر دو کہ کہیں وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہوجائے اور یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ منہ کالا کرو) زندہ درگور کی جانے والی بیٹی کو قول باری ( واذا الموئودۃ سئلت بای ذنب قتلت، اور جب زندہ دفن کردی جانے والی بچی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کسی گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا ) مئو ودہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پانی اولاد کے قتل سے روک دیا اور اس کے ساتھ اس سبب کا بھی ذکر کردیا جس کی بنا پر وہ اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے اور انہیں بتادیا کہ وہ انہیں بھی رزق دے رہا ہے اور ان کی اولاد کو بھی رزق دے گا۔ - بیٹے کی بیوی یا دو بہنوں کو نکاح میں لینا - قول باری ہے ( ولا تقربو الفواحش ما ظھر منھا وما بطن۔ اور بےشرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو خواہ وہ کھلی ہو یا چھپی) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ کھلی بےشرمی کی باتیں یہ ہیں، بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا، دو سگی بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا اور اس قسم کی دوسری باتیں ۔ چھپی بےشرمی کی بات زنا کا ارتکاب ہے۔ - قتل ناحق - قول بایر ہے ( ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ۔ اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ( امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فاذاق لوھا عضموا منی دماء ھم و اموالھم الا بحقھا و حسابھم علی اللہ۔ مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک لا الہ الا اللہ نہیں کہہ دیتے یعنی جب تک وہ توحید باری کا اقرار نہیں کرلیتے جب وہ اس کا اقرار کرلیں گے تو میری گرفت سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیں گے الا یہ کہ کسی حق کی بنا پر ان کی جان پر ہاتھ ڈالا جائے۔ اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔ ) - مانعین زکوٰۃ کا قتل - حضرت ابوبکر (رض) جب مانعین زکوٰۃ سے جنگ کا ارادہ کیا تو لوگوں نے آپ کے سامنے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درج بالا حدیث پیش کی، حضرت ابوبکر (رض) نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ بھی جان کا حق ہے۔ اگر یہ لوگ زکوٰۃ کے مال میں سے جسے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ادا کرتے تھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کردیں تو اس پر بھی میں ان سے قتال کروں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( لا یحل دم امری مسلم الا بحدی ثلاث زنیی بعد احصان و کفر بعد ایمان وقتل نفس بغیر نفس۔ کسی مسلمان کا خون بہانا صرف تین صورتوں میں حلال ہوتا ہے۔ صفت احصان حاصل کرلینے کے بعد زنا کرنا، مسلمان ہوجانے کے بعد کافر ہوجانا، اور جان کے بدلے کے بغیر کسی کی جان لے لینا) ہمارے نزدیک ایسا شخص قتل کا سزاوار ہوجاتا ہے اور اس پر قتل کا حکم لازم ہوجاتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ افراد کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جنہیں چھٹکارا حاصل کرن کی غرض سے قتل کردینا واجب ہے۔ مثلاً خوارج کا قتل یا ایسے شخص کا قتل جو کسی کی جان یا مال کے درپے ہوجائے،۔ اس صورت میں اپنے دفاع کے طور پر وہ شخص اسے قتل کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ درپے آزاد شخص اگر اپنی اس حرکت سے باز رہتا تو قتل کا سزاوار نہ بنتا۔
(١٥١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مالک بن عوف اور اس کے ساتھیوں سے فرمائیے آؤ میں تمہیں وہ کتاب پڑھ کر سناؤں جو مجھ پر نازل کی گئی ہے جس میں حرام چیزوں کا ذکر ہے ان میں سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں میں سے کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور فاقہ اور ذلت کے خوف سے اپنی لڑکیوں کو مت مارو، ہم تمہاری اور تمہاری اولاد کے بھی رازق ہیں اور زنا اور کسی غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت مت کرو۔- اور سوائے قصاص، رجم اور ارتداد کے کسی کو ناحق قتل مت کرو، یہ وہ باتیں ہیں جن کا تمہیں کتاب خداوندی میں حکم دیا گیا ہے تاکہ تم اس کے حکم اور اس کی توحید کو سمجھو۔
آیت ١٥١ (قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ ) - تم لوگ جب چاہتے ہو کسی بکری کو حرام قرار دے دیتے ہو ‘ کبھی خود ہی کسی اونٹ کو محترم ٹھہرا لیتے ہو ‘ اور اس پر مستزاد یہ کہ پھر اپنی ان خرافات کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہو۔ آؤ میں تمہیں واضح طور پر بتاؤں کہ اللہ نے اصل میں کن چیزوں کو محترم ٹھہرایا ہے ‘ ممنوع اور حرام چیزوں کے بارے میں اللہ کے کیا احکام ہیں اور اس سلسلے میں اس نے کیا کیا حدود وقیود مقرر کی ہیں۔ یہ مضمون تفصیل کے ساتھ سورة بنی اسرائیل میں آیا ہے۔ وہاں ان احکام کی تفصیل میں پورے دو رکوع (تیسرا اور چوتھا) نازل ہوئے ہیں۔ ایک طرح سے انہی احکام کا خلاصہ یہاں ان آیات میں بیان ہوا ہے۔ شریعت کے بنیادی احکام دراصل ضرورت اور حکمت الٰہی کے مطابق قرآن حکیم میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں وارد ہوئے ہیں۔ سورة البقرۃ (دسویں رکوع) میں جہاں بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا ذکر آیا ہے وہاں دین کے اساسی نکات بھی بیان ہوئے ہیں۔ پھر اس کے بعد شرعی احکام کی کچھ تفصیل ہمیں سورة النساء میں ملتی ہے۔ اس کے بعد یہاں اس سورة میں اور پھر انہی احکام کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں ہے۔ - (اَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ج) ۔- یعنی سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ شرک کو حرام ٹھہرایا ہے اور دوسرے نمبر پر والدین کے حقوق میں کوتاہی حرام قرار دی ہے۔ قرآن حکیم میں یہ تیسرا مقام ہے جہاں حقوق اللہ کے فوراً بعد حقوق والدین کا تذکرہ آیا ہے۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ آیت ٨٣ اور سورة النساء آیت ٣٦ میں والدین کے حقوق کا ذکر اللہ کے حقوق کے فوراً بعد کیا گیا ہے۔ - (وَلاَ تَقْتُلُوْٓا اَوْلاَدَکُمْ مِّنْ اِمْلاَقٍط نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاہُمْ ج) (وَلاَ تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ج) (وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بالْحَقِّ ط) - بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسانی جان کو محترم ٹھہرایا ہے۔ لہٰذا کسی اصول ‘ حق اور قانون کے تحت ہی انسانی جان کا قتل ہوسکتا ہے۔ قتل عمد کے بدلے میں قتل ‘ قتل مرتد ‘ مسلمان زانی یا زانیہ (اگر شادی شدہ ہوں ) کا قتل ‘ حربی کافر وغیرہ کا قتل۔ یہ انسانی قتل کی چند جائز اور قانونی صورتیں ہیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :127 یعنی تمہارے رب کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو ، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۲۰ ) ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :128 یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھہراؤ ، نہ اس کی صفات میں ، نہ اس کے اختیارات میں ، اور نہ اس کے حقوق میں ۔ ذات میں شرک یہ ہے کہ جو ہر اُلُوہیّت میں کسی کو حصہ دار قرار دیا جائے ۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث ، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا ، اور دوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنس آلہہ کے افراد قرار دینا ۔ یہ سب شرک فی الذات ہیں ۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں ، ویسا ہی ان کو یا ان میں سے کسی صفت کو کسی دوسرے کے لیے قرار دینا ۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں ، یا وہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بے خطا ہے ۔ اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں ان کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے ۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ، حاجت روائی و دستگیری کرنا ، محافظت و نگہبانی کرنا ، دعائیں سننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا ۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا ۔ یہ سب خداوندی کے مخصوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے ۔ حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کےجو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے ۔ مثلاً رکوع و سجود ، دست بستہ قیام ، سلامی وآستانہ بوسی ، شکر نعمت یا اعتراف برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت ، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا ، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دوسری تمام صورتیں اللہ کے مخصوص حقوق میں سے ہیں ۔ اسی طرح ایسا محبوب ہونا کہ اس کی محبت پر دوسری سب محبتیں قربان کی جائیں ، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے ، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے ۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے ، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے ، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو ۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھہرے گا خواہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :129 نیک سلوک میں ادب ، تعظیم ، اطاعت ، رضا جوئی ، خدمت ، سب داخل ہیں ۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :130 اصل میں لفظ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ان تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی برائی بالکل واضح ہے ۔ قرآن میں زنا ، عمل قوم لوط ، برہنگی ، جھوٹی تہمت ، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے ۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو من جملہ فواحش کہا گیا ہے ۔ اسی طرح دوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشاد الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھپ کر ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :131 یعنی انسانی جان ، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھہرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ ۔ اب رہا یہ سوال کہ ” حق کے ساتھ“ کا کیا مفہوم ہے ، تو اس کی تین صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں ، اور دو صورتیں اس پر زائد ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں: ( ۱ ) انسان کسی دوسرے انسان کے قتل عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو ۔ ( ۲ ) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو ۔ ( ۳ ) دار الاسلام کے حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرے ۔ باقی دو صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں: ( ٤ ) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے ۔ ( ۵ ) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو ۔ ان پانچ صورتوں کے سوا کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر ۔
81: یعنی بے حیائی کے کام جس طرح کھلم کھلا کرنا منع ہے اسی طرح چوری چھپے بھی منع ہے۔