Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ جب آیت ( ولا تقربوا ) اور آیت ( ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما ) نازل ہوئیں تو اصحاب رسول نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کر دیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو یا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہو جائے جب حضور سے اس کا ذکر ہوا تو آیت ( فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) 2- البقرة:220 ) نازل ہوئی کہ ان کے لئے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں وہ تمہارے بھائی ہیں اسے پڑھ کر سن کر صحابہ نے ان کا کھانا اپنے ساتھ ملا لیا ۔ یہ حکم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں اللہ اعلم ، پھر حکم فرمایا کہ لین دین میں ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو ، ان کے لئے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں ، ان امتوں کو اللہ نے غارت کر دیا جن میں یہ بد خصلت تھی ، جامع ابو عیسی ترمذی میں ہے کہ حضور نے ناپنے اور تولنے والوں سے فرمایا تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو ، جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہو گئے ، پھر فرماتا ہے ، کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کر لی دوسرے کا حق دے دیا ، اپنے حق سے زیادہ نہ لیا ، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے آیت کے یہ دونوں جملے تلاوت کر کے فرمایا کہ جس نے صحیح نیت سے وزن کیا ، تولا ، پھر بھی واقع میں کوئی کمی زیادتی بھول چوک سے ہو گئی تو اس کا مؤاخذہ نہ ہو گا ۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ، پھر فرماتا ہے بات انصاف کی کہا کرو کہ قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ ) 4- النسآء:135 ) اور سورۃ نساء میں بھی یہی حکم دیا کہ ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہ چھوڑنا چاہئے ۔ جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہئے ، اللہ کے عہد کو پورا کرو ، اس کے احکام بجا لاؤ ، اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو ، اس کی کتاب اس کے رسول کی سنت پر چلتے رہو ، یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے ، انہی چیزوں کے بارے اللہ کا تاکیدی حکم ہے ، یہی فرمان تمہارے وعظ و نصیحت کا ذریعہ ہیں تاکہ تم جو اس سے پہلے نکمے بلکہ برے کاموں میں تھے ، اب ان سے الگ ہو جاؤ ۔ بعض کی قرأت میں ( تذکرون ) بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

152۔ 1 جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے مال سے وارثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جایئداد کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ 152۔ 2 ناپ تول میں کمی کرنا لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کرلینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں تھی۔ 152۔ 3 یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کر رہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو، اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں عزت اور سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧١] یتیم کا مال کھانا :۔ یعنی اگر یتیم کا مال تمہاری تحویل میں ہے تو اسے صرف اس طریقے سے خرچ کرو جس میں یتیم کا بھلا اور بہتری ہو۔ اس سے کوئی اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنے کی مطلق کوشش نہ کرو نہ ہی اس قسم کی بات دل میں سوچو یتیم کا مال اس کا ولی صرف اس صورت میں کھا سکتا ہے جبکہ وہ خود تنگ دست اور محتاج ہو اور اس صورت میں بھی وہ صرف معروف طریقے سے اس میں سے لے سکتا ہے جو کسی بھی فریق کے لیے قابل اعتراض نہ ہو۔ یتیم کا مال کھانے کی ممانعت قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آئی ہے۔ اور آپ نے اس گناہ کو سات بڑے بڑے ہلاک کردینے والے گناہوں میں سے پانچویں نمبر پر شمار کیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے پوچھا۔ یا رسول اللہ وہ کون کون سے ہیں ؟ فرمایا اللہ سے شرک کرنا، جادو، ایسی جان کو ناحق کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے بھاگنا اور بھولی بھالی پاکباز مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رمی المحصنات)- [١٧٢] ناپ تول میں کمی بیشی کے ذریعہ دوسروں کا مال کھانا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو تباہ و برباد کر ڈالا تھا۔ قرآن کریم میں ایک سورة کا نام ہی المطففین ہے یعنی وہ لوگ جو ناپ تول کرتے وقت اپنا حق تو دوسروں سے زیادہ وصول کرتے ہیں اور دیتے وقت دوسروں کو ان کے اصل حق سے کم دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے کام فریب کاری سے ہی ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایسا کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں روز آخرت اور اللہ کے حضور باز پرس کا خوف نہ ہو۔ پھر ان کا انجام یہ بتایا کہ ایسے لوگوں کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔- [١٧٣] عدل وانصاف سے بات کہنا :۔ اگرچہ عام بات چیت میں بھی کسی کے متعلق بےانصافی کی بات کرنا جرم ہے لیکن اگر شہادت کی صورت میں ہو تو جرم عظیم بن جاتی ہے۔ چناچہ ایک دفعہ آپ نے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا تو فرمایا : بڑے گناہ یہ ہیں۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا اور والدین کو ستانا۔ پھر فرمایا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ وہ ہے قول الزور (یعنی ناانصافی کی بات، یا ایسی بات جس میں ہیرا پھیری سے جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کی جائے) یا ایسی ہی جھوٹی شہادت۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) اور آیت کا مفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب بھی تم بات کرو تو انصاف کی کرو سچے کو سچا کہو اور جھوٹے کو جھوٹا۔ خواہ اس کی زد تمہاری اپنی ذات پر پڑتی ہو یا کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار یا دوست پر۔ کوئی بات گول مول یا ہیرا پھیری سے بھی نہ کرو جس سے کسی دوسرے کی توہین کا پہلو نکلتا ہو یا اس کا کوئی حق تلف ہوتا ہو۔ یا اس سے متکلم کی ذات کو کسی قسم کا فائدہ پہنچتا ہو۔ - [١٧٤] عہد کو بہرحال پورا کرنا فرض ہے خواہ یہ عہد انسان نے اللہ سے کیا ہو جیسے کوئی نذر یا منت ماننا یا اللہ کا نام لے کر دوسروں سے کیا ہو اور اس میں عقد نکاح اور بیوع بھی شامل ہیں۔ یا وہ عہد جسے عہد الست کہا جاتا ہے اور وہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔- [١٧٥] یعنی اے مشرکین اور یہود کرنے کا کام تو یہ نو قسم کے احکام ہیں جن کی علمی سند ہر کتاب اللہ میں موجود ہے۔ ان کا تو تم خیال نہیں رکھتے اور خلاف ورزیاں کیے جاتے ہو اور جن شرکیہ افعال کو تم بجا لا رہے ہو۔ وہ تمہارے اپنے ہی خود ساختہ ہیں جن کی کوئی علمی سند موجود نہیں۔ لہذا اگر ہدایت مطلوب ہے تو اپنی سابقہ روش چھوڑ کر یہ طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔- واضح رہے کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر لکھی لکھائی تختیاں دی گئیں۔ ان میں دس احکام مذکور تھے جنہیں احکام عشرہ کہتے ہیں۔ یہ احکام بعد میں تورات میں شامل کردیئے گئے۔ ان دس احکام میں سے ایک حکم سبت کے دن کی تعظیم تھا۔ اگر اسے نکال دیا جائے تو باقی یہی نو احکام رہ جاتے ہیں جو ان آیات میں مذکور ہیں۔ یہود کو بالخصوص تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تمہارے لیے جو بنیادی احکام تھے ان میں سے ایک ایک حکم کی تم نے خلاف ورزی کی اور اس کی دھجیاں اڑا دیں اور ان کے بجائے ایسے کاموں میں لگ گئے ہو جن کا تمہاری کتاب میں کہیں اشارہ تک نہیں ملتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ ۔۔ :” سب سے اچھے طریقے “ میں یتیم کے مال کی حفاظت کرنا، اسے بڑھانے کے متعلق سوچنا، یتیموں کی بہتری کے سوا اسے خرچ کرنے سے بچنا وغیرہ سب شامل ہیں۔ ” حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ “ میں جوانی کے ساتھ سمجھ داری بھی شامل ہے کہ اس میں معاملات کو خود نپٹانے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ دیکھیے سورة نساء ( ٦) ۔- وَاَوْفُوا الْكَيْلَ : اس میں انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیتے وقت ماپ تول میں کمی نہ کرنا اور لیتے وقت زیادہ نہ لینا دونوں شامل ہیں۔ دیکھیے سورة مطففین (١ تا ٣) سورة رحمٰن (٩) اور سورة بنی اسرائیل (٣٥) ۔ - لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۚ: یعنی اگر پورا تولنے اور ماپنے کی کوشش کرے مگر بھول چوک کی وجہ سے غلطی کر بیٹھے تو اس سے باز پرس نہیں ہوگی۔ ” اِلَّا وُسْعَهَا ۚ‘ کا یہی مطلب ہے۔ - وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا۔۔ : جب بات کرو، خواہ فیصلہ کر رہے ہو یا حکم دے رہے ہو یا شہادت دے رہے ہو، تو ہر حال میں عدل و انصاف سے کام لو، کوئی رشتہ داری یا قرابت یا دوستی انصاف میں رکاوٹ نہ بننے پائے۔ دیکھیے سورة نساء (١٣٥) اور سورة مائدہ (٨) ۔ - وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا : یعنی تم نے اسلام قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا جو عہد کیا ہے وہ پورا کرو۔ اس سے مراد قرآن و سنت کے تمام احکام پر عمل کرنا ہے۔ لوگوں سے کیے ہوئے عہد پورا کرنے کا بھی اللہ نے حکم دیا ہے۔ - لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ : اس آیت میں مذکور چیزیں ایسی ہیں جو معاشرے میں معروف ہیں، ان کی تاکید اس لیے کی ہے کہ تمہیں یاد آجائے اور تمہیں نصیحت ہوجائے۔ ” ذِکْرٌ“ کا معنی ” یاد “ اور ” نصیحت “ دونوں ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِذَا نَسِیْتُ فَذَکِّرُوْنِیْ ) [ بخاری، الصلوۃ، باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان : ٤٠١ ] ” جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دو ۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چھٹا حرام، یتیم کا مال ناجائز طور پر کھانا - دوسری آیت میں چھٹا حکم یتیم کا مال ناجائز طور پر کھانے کی حرمت کے متعلق ارشاد فرمایا : (آیت) وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ” یعنی یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے “۔ اس میں یتیم نابالغ بچوں کے ولی اور پالنے والے کو خطاب ہے، کہ وہ ان کے مال کو ایک آگ سمجھیں اور ناجائز طور پر اس کے کھانے اور لینے کے پاس بھی نہ جائیں، جیسا کہ دوسری ایک آیت میں انہی الفاظ کے ساتھ آیا ہے، کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر ظلماً کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔- البتہ یتیم کے مال کی حفاظت کرنا اور کسی ایسی جائز تجارت یا کاروبار میں لگا کر بڑھانا جس میں نقصان کا خطرہ عادةً نہ ہو، یہ طریقہ مستحسن اور ضروری ہے، یتیموں کے ولی کو ایسا کرنا چاہیے۔- اس کے بعد مال یتیم کی حفاظت کی ذمہ داری کی حد بتلا دی حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ، یعنی یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے تو ولی کی ذمہ داری ختم ہوگئی، اس کا مال اس کے سپرد کردیا جائے۔- لفظ اشد کے اصلی معنی قوت کے ہیں، اور اس کی ابتداء جمہور علماء نے نزدیک بالغ ہوجانے سے ہوجاتی ہے، جس وقت بچہ میں آثار بلوغ پائے جائیں یا اس کی عمر پندرہ سال کی پوری ہوجائے، اس وقت اس کو شرعاً بالغ قرار دیا جائے گا۔- البتہ بالغ ہوجانے کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں اپنے مال کی حفاظت اور صحیح مصرف میں خرچ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے یا نہیں، اگر صلاحیت ابھی اس میں موجود نہیں تو پچیس سال کی عمر تک مال کی حفاظت ولی کے ذمہ ہے، اس درمیان میں جس وقت بھی اس کو مال کی حفاظت اور کاروبار کی لیاقت پیدا ہوجائے تو مال اس کو دیا جاسکتا ہے، اور اگر پچیس سال تک بھی اس میں یہ صلاحیت پیدا نہ ہو تو پھر امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک اس کا مال بہر حال اس کو دے دیا جائے، بشرطیکہ اس کی یہ عدم صلاحیت دیوانگی اور جنون کی حد تک نہ پہنچی ہو، اور بعض ائمہ کے نزدیک اس وقت بھی مال اس کو سپرد نہ کیا جائے، بلکہ قاضی شرعی اس کے مال کی حفاظت کسی ذمہ دار آدمی کے سپرد کردے۔- یہ مضمون قرآن مجید کی ایک دوسری آیت سے ماخوذ ہے، جس میں فرمایا ہے : (آیت) فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم، یعنی یتیم بچوں میں بالغ ہونے کے بعد اگر تم یہ صلاحیت دیکھو کہ وہ اپنے مال کی خود حفاظت کرسکتے ہیں اور کسی کاروبار میں لگا سکتے ہیں تو ان کا مال ان کے سپرد کردو، اس آیت نے بتلایا کہ صرف بالغ ہونا مال سپرد کرنے کے لئے کافی نہیں، بلکہ مال کی حفاظت اور کاروبار کی قابلیت شرط ہے۔- ساتواں حرام ناپ تول میں کمی - ساتواں حرام اس آیت میں ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرنے کا ہے انصاف کا مطلب یہ ہے کہ دینے والا دوسرے فریق کے حق میں کوئی کمی نہ کرے اور لینے والا اپنے حق سے زیادہ نہ لے (روح المعانی) - چیزوں کے لین دین میں ناپ تول میں کمی زیادتی کو قرآن نے شدید حرام قرار دیا ہے، اور اس کے خلاف کرنے والوں کے لئے سورة مطففین میں سخت وعید آئی ہے۔ - مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو جو تجارت میں ناپ تول کا کام کرتے ہیں خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ ناپ اور تول یہ وہ کام ہیں جن میں بےانصافی کرنے کی وجہ سے تم سے پہلے کئی امتیں عذاب الٓہی کے ذریعے تباہ ہوچکی ہیں (تم اس میں پوری احتیاط سے کام لو) (تفسیر ابن کثیر)- افسروں، ملازموں، مزدوروں کا اپنی مقررہ ڈیوٹی اور خدمت میں کوتاہی کرنا بھی ناپ تول میں کمی کرنے کے حکم میں ہے - یاد رہے کہ ناپ تول کی کمی جس کو قرآن میں تطفیف کہا گیا ہے صرف ڈنڈی مارنے اور کم ناپنے کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ کسی کے ذمہ دوسرے کا جو حق ہے اس میں کمی کرنا بھی تطفیف میں داخل ہے جیسا کہ مؤ طا امام مالک رحمة اللہ علیہ میں حضرت عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کو نماز کے ارکان میں کمی کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ تو نے تطفیف کردی یعنی جو حق واجب تھا وہ ادا نہیں کیا، اس کو نقل کرکے امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں لکل شیء وفاء وتطفیف، یعنی حق کا پورا دینا اور کمی کرنا ہر چیز میں ہوتا ہے، صرف ناپ تول میں ہی نہیں۔ - اس سے معلوم ہوا کہ جو ملازم اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتا، وقت چراتا ہے، یا کام میں کوتاہی کرتا ہے، وہ کوئی وزیر و امیر ہو یا معمولی ملازم، اور وہ کوئی دفتری کام کرنے والا ہو یا علمی اور دینی خدمت، جو حق اس کے ذمہ ہے اس میں کوتاہی کرے تو وہ بھی مطففین میں داخل ہے، اسی طرح مزدور جو اپنی مقررہ خدمت میں کوتاہی کرے وہ بھی اس میں داخل ہے۔- اس کے بعد فرمایا لا نکلف نفسا الا وسعھا، ” یعنی ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا حکم نہیں دیتے “۔ بعض روایات حدیث میں اس کا یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے حد اختیار تک ناپ تول کا پورا پورا حق ادا کرے تو اگر اس کے باوجود غیر اختیاری طور پر کوئی معمولی کمی بیشی ہوجائے تو وہ معاف ہے، کیونکہ وہ اس کی قدرت و اختیار سے خارج ہے۔- اور تفسیر مظہری میں ہے کہ اس جملہ کا اضافہ کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ ادائے حق کے وقت احتیاط اس میں ہے کہ کچھ زیادہ دے دیا جائے، تاکہ کمی کا شبہ نہ رہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایسے ہی موقع پر وزن کرنے والے کو حکم دیا کہ زن وارجع، ” یعنی تولو اور جھکتا ہوا تولو “۔ (احمد، ابو داؤد، ترمذی، بروایت سوید بن قین (رض) - اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عام عادت یہی تھی کہ جس کسی کا کوئی حق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ ہوتا، تو اس کے ادا کرنے کے وقت اس کے حق سے زائد ادا فرمانے کو پسند فرماتے تھے، اور بخاری کی ایک حدیث میں بروایت جابر (رض) مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو بیچنے کے وقت بھی نرم ہو کہ حق سے زیادہ دے اور خریدنے کے وقت بھی نرم ہو کہ حق سے زیادہ نہ لے، بلکہ کچھ معمولی کمی بھی ہو تو راضی ہو جائے “۔- مگر یہ حکم اخلاقی ہے کہ دینے میں زیادہ دے اور لینے میں کم بھی ہو تو جھگڑا نہ کرے، قانونی چیز نہیں کہ آدمی ایسا کرنے پر مجبور ہو، اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ چیز کا حکم نہیں دیتے، یعنی دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ ادا کرنا اور اپنے حق میں کمی پر راضی ہوجانا کوئی جبری حکم نہیں، کیونکہ عام لوگوں کو ایسا کرنا آسان نہیں۔- آٹھواں حکم عدل و انصاف ہے اس کے خلاف کرنا حرام ہے - ارشاد (آیت) فرمایا وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي ” یعنی جب تم بات کہو تو حق کی کہو، اگرچہ وہ اپنا رشتہ دار ہی ہو “۔ اس جگہ کسی خاص بات کا ذکر نہیں، اسی لئے جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہر قسم کی بات کو شامل ہے، خواہ وہ بات کسی معاملہ کی گواہی ہو یا حاکم کی طرف سے فیصلہ یا آپس میں مختلف قسم کی گفتگو ان سب میں ارشاد قرآنی یہ ہے کہ ہر جگہ ہر حال بات کرتے ہوئے حق و انصاف کا خیال رہنا چاہئے، کسی مقدمہ کی گواہی یا فیصلہ میں حق و انصاف قائم رکھنے کے معنی ظاہر ہیں، کہ گواہ کو جو بات یقینی طور پر معلوم ہے وہ اپنی طرف سے کسی لفظ کی کمی بیشی کئے بغیر جتنا معلوم ہے صاف صاف کہہ دے، اپنی اٹکل اور گمان کو دخل نہ دے، اور اس کی فکر نہ کرے کہ اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا، اور کس کو نقصان، اسی طرح کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنا ہے تو گواہوں کو شرعی اصول پر جانچنے کے بعد جو کچھ ان کی شہادت سے نیز دوسری قسم کے قرائن سے ثابت ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے، گواہی اور فیصلہ دونوں میں نہ کسی کی دوستی اور محبت حق بات کہنے سے مانع ہو، اور نہ کسی کی دشمنی اور مخالفت، اسی لئے اس جگہ یہ جملہ بڑھایا گیا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي، یعنی اگرچہ وہ آدمی جس کے مقدمہ کی شہادت دینا یا فیصلہ کرنا ہے وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو تب بھی حق و انصاف کو نہ گواہی میں ہاتھ سے جانے دو اور نہ فیصلہ میں۔- مقصود اس آیت میں جھوٹی گواہی اور حق کے خلاف فیصلہ سے روکنا ہے، جھوٹی گواہی کے متعلق ابو داؤد اور ابن ماجہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ :- ” جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، تین مرتبہ فرمایا، اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت) فاجتنبوا الرجس من الاوثان تا مشرکین بہ ” یعنی بت پرستی کے گندہ عقیدہ سے بچو اور جھوٹ بولنے سے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتے ہوئے “۔- اسی طرح حق کے خلاف فیصلہ کرنے کے بارے میں ابوداؤد نے بروایت حضرت بریدہ (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ : - ” قاضی (یعنی مقدمات کا فیصلہ کرنے والے) تین قسم کے ہیں، ان میں سے ایک جنت میں جائے گا، اور دو جہنم میں، جس نے معاملہ کی تحقیق شریعت کے موافق کرکے حق کو پہچانا پھر حق کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنّتی ہے اور جس نے تحقیق کرکے حق بات کو جان تو لیا، مگر جان بوجھ کر فیصلہ اس کے خلاف کیا وہ دوزخی ہے، اور اسی طرح وہ قاضی جس کو علم نہ ہو یا تحقیق اور غور وفکر میں کمی کی اور جہالت سے کوئی فیصلہ دے دیاوہ بھی جہنم میں جائے گا “۔- قرآن مجید کی دوسری آیات میں اسی مضمون کو اور بھی زیادہ وضاحت اور تاکید سے بیان فرمایا گیا ہے کہ شہادت یا فیصلہ میں کسی کو دوستی، قرابت اور تعلق کا یا دشمنی اور مخالفت کا کوئی اثر نہ ہونا چاہئے، جیسے ایک جگہ ارشاد ہے : (آیت) ولو علی انفسکم اوالوالدین والاقربین، ” یعنی حق بات اگرچہ خود تمہارے خلاف ہو یا والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے خلاف ہو اس کے کہنے میں رکاوٹ نہ ہونی چاہئے “۔- اسی طرح ایک دوسری آیت میں حکم ہے : (آیت) ولا یجرمنکم شنان قوم علی الاتعدلوا، ” یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف کے خلاف گواہی دینے یا فیصلہ کرنے پر آمادہ نہ کر دے “۔ اور گواہی اور فیصلہ کے علاوہ آپس کی گفتگوؤں میں حق و انصاف قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جھوٹ نہ بولے، کسی کی غیبت نہ کرے، ایسی بات نہ بولے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے، یا کسی کو جانی یا مالی نقصان پہنچے۔- نواں حکم اللہ کے عہد کو پورا کرنا، یعنی عہد شکنی کا حرام ہونا - نواں حکم اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرنے اور عہد شکنی سے بچنے کا ہے، ارشاد فرمایا : (آیت) وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا، ” یعنی اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو “۔ اللہ کے عہد سے مراد وہ عہد بھی ہوسکتا ہے جو ازل میں ہر انسان سے لیا گیا جس میں سب انسانوں سے کہا گیا تھا الست بربکم، ” کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں “۔ سب نے جواب دیا بَلٰی، ” یعنی بلاشبہ آپ ہمارے رب اور پروردگار ہیں “۔ اس عہد کا مقتضیٰ یہی ہے کہ پروردگار کے کسی حکم کی سرتابی نہ کریں، جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے ان کو سارے کاموں سے مقدم اور اہم جانیں، اور جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کے پاس بھی نہ جائیں، اور ان کے شبہات سے بھی بچتے رہیں، خلاصہ اس عہد کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کریں۔- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خاص خاص عہد جن کا ذکر قرآن کے مختلف مواقع میں فرمایا گیا ہے مراد ہوں، اور انہی میں سے یہ تین آیتیں بھی جن کی تفسیر آپ دیکھ رہے ہیں (جن میں دس احکام تاکید کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں) ۔- علماء نے فرمایا کہ اس عہد میں نذر اور منّت کا پورا کرنا بھی داخل ہے جو ایک انسان اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے کہ فلاں کام کروں گا یا نہیں کروں گا، قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں اس کو صراحةً بھی ذکر فرمایا ہے (آیت) یوفون بالنذر، ” یعنی اللہ کے نیک بندے اپنی منتوں کو پورا کیا کرتے ہیں “۔- (خلاصہ یہ ہے کہ یہ نواں حکم شمار میں تو نواں حکم ہے، مگر حقیقت کے اعتبار سے تمام احکام شرعیہ واجبات اور ممنوعات سب پر حاوی ہے) ۔- اس دوسری آیت کے آخر میں فرمایا (آیت) ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ، ” یعنی ان کاموں کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو “۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّہٗ۝ ٠ ۚ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ۝ ٠ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝ ٠ ۚ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي۝ ٠ ۚ وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ ١٥٢ ۙ- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- كيل - الْكَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] - ( ک ی ل ) الکیل - ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں ) اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے منعی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے منعی ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے منعی ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- كلف - وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین :- محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات .- والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . - ( ک ل ف ) التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے - اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے - محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں - وُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى - ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مال یتیم - قول باری ہے ( ولا تقربو مال الیتیم الا بالتیھی احسن۔ اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جائو مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو) اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم دیا ہے اس کے سلسلے میں یتیم کا خصوصیت کے ساتھ ذکر یکا ہے اس لیے کہ یتیم اپنی ذات کے لیے بدلہ لینے سے نیز دوسروں کو اپنے مال سے دور رکھنے سے عاجز ہوتا ہے، چونکہ لوگ یتیم کا مال ہتھیانے کے لیے دندان حرص و آز تیز کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یتیم کا خصوصیت سے ذکر کر کے اس کا مال ہتھیانے کی نہی کی اور تاکید کردی۔ قول باری ( الا بالتیھی احسن) اس پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص کو یتیم کی سرپرستی کا حق حاصل ہو اس کے لیے اس ییتیم کا مال مضاربت کے طور پر کسی کو دے دینا جائز ہے اور اگر وہ مناسب سمجھے تو خود بھی مضاربت کے طور پر اس کا مال لے کر کام کرسکتا ہے اور منافع میں شریک ہوسکتا ہے۔ نیز وہ کسی شخص کو اس غرض سے اجرت پر بھی رکھ سکتا ہے کہ وہ اس کے مال سے سرمایہ کاری کرے یا تجارت شروع کردے۔ - اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ یتیم کا مال خود خرید لے بشرطیکہ اس میں یتیم کا فائدہ ہو، اس کی صورت یہ ہے کہ وہ یتیم کو جو چیز یا مال دے اس کی قیمت یتیم سے لی ہوئی چیز سے بڑھ کر ہو، امام اوب حنیفہ (رح) نے اس آیت کی بناء پر یتیم کے والی کے لیے اس کا مال خود خریدنے کی اجازت دی تھی بشرطیکہ اس میں یتیم کی بھائی مد نظر ہو۔ قول باری ہے ( حتی یبلغ اشدہ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے) اس میں بالغ ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ بالغ ہونے کے بعد بھی یتیم کے سرپرست کے لیے اس کے مال کی حفاظت جائز ہے۔ اگر اس میں مال کی حفاظت کی اہلیت نہ پائے۔ اس صورت میں ولی، یتیم کا مال اس کے حوالے نہیں کرے گا۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب یتیم سن رشد کو پہنچ جائے تو ولی کے لیے اس کے مال سے اسے الگ رکھنا جائز نہیں ہوگا خواہ اس میں اسے اہلیت نظر آئے یا نہ آئے بشرطیکہ یتیم عاقل ہو، دیوانہ نہ ہو۔ اس لیے کہ آیت میں یتیم کے مال کے قریب جانے کی اباحت کی حد یہ مقرر کی گئی ہے کہ وہ سن رشد کو پہنچ جائے۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وصی کے لیے یتیم کا مال میں سے کھانا جائز نہیں ہے۔ خواہ وصی فقیر ہو یا مالدار۔ وصی یتیم کا مال بطور قرض بھی نہیں لے سکتا۔ اس لیے کہ اس کے مال کی حفاظت کا یہ بہترین طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں یتیم کی بھلائی مدنظر ہوتی ہے۔ - سن رشد کی حد - امام ابوحنیفہ نے سن رشد کی حد پچیس سال مقرر کی ہے۔ اس عمرکو پہنچنے کے بعد ولی اس کا مال اس کے حوالے کر دے گا بشرطیکہ وہ دیوانہ یا فتور عقل میں مبتلا نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سن رشد کا اندازہ لگانا اجتہاد رائے اور غالب ظن پر مبنی ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس عمر کو پہنچ جانے کے بعد ایک شخص اپنے سن رشد کو پہنچ جاتا ہے۔ سن رشد کو پہنچ جانے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ عامر بن ربیعہ اور زید بن اسلم کا قول ہے کہ اس سے مراد بلوغت کو پہنچ جانا ہے۔ سدی کے قول کے مطابق یہ تین سال کی عمر ہے۔ ایک قول کے مطابق اٹھارہ سال ہے۔ امام اوب حنیفہ (رح) اس کی حد پچیس سال مقرر کی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اشد کا واحد شد ہے۔ یہ ابھرتی ہوئی جوانی کی قوت کا نام ہے اس کی اصل ہے جس کا مفہوم دن بلند ہونے کے وقت روشنی کا قوت پکڑ جانا ہے۔ - شاعر کا قول ہے۔ - تطیف بہ شدا النھار ظعینۃ طویلہ انقاء الیدین سحوق - دن کی روشنی پھیل جانے پر اس کے گرد ایک عورت ( بیوی) چکر لگاتی رہتی ہے جو دراز قد ہے اور اس کے دونوں ہاتھ کی گودے دار ہڈیاں طویل ہیں۔ - امکانی حد تک صحیح ناپ تول - قول باری ہے ( واوفوا الکیل والمیزان بالقسط لا نکلف نفسا الا وسعہا اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے) آیت میں حقوق کو بکمال ادا کرنے کا حکم ہے۔ چونکہ ناپ تول میں اقل قلیل کی تحدید ایک مشکل امر ہے اس لیے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا مکلف نہیں بنایا، بلکہ ناپ تول پورا رکھنے میں کوشاں رہنے کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے، ناپ تول حقیقی طور پر پورا ہوجائے اس کے ہم مکلف نہیں ہیں۔ احکام میں اجتہاد سے کام لینے کے جواز کے لیے یہ بات اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز یہ کہ ہر مجتہد باصواب ہوتا ہے اگرچہ اجتہاد کے ذریعے ایک ہی حقیقت مطلوب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ناپ اور تول میں مطلوب مقدار حقیقی طور پر اللہ کے علم میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو بس ہمیں اس کی تلاش اور اس کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہمیں اس کا مکلف نہیں بنایا کہ اس مقدار کی حقیقت تک ہماری رسائی بھی ہوجائے۔ اس لیے کہ اس نے اس سلسلے میں ہمارے لیے کوئی دلیل راہ مقرر نہیں کی۔ ہمارا اجتہاد ہمیں اس حقیقت کی جس منزل تک پہنچا دے گا وہی ہمارے لیے حکم ہوگا جس کی ادائیگی ہم پر فرض ہوگی۔ اس میں یہ ممکن ہے کہ ہمارا اجتہاد ہمیں اس حقیقت سے پیچھے ہی رکھے یا اس سے آگے لے جائے۔ لیکن جب اللہ تعلایٰ نے ہمارے لیے اس حقیقت تک رسائی کی کوئی سبیل نہیں بنائی تو اس کا حکم بھی ہم سے ساقط کردیا۔ حقیقت مطلوبہ تک یقینی طور پر رسائی نہیں ہوتی۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ایک چیز کو ناپنے یا تولنے کے بعد جب دوبارہ یہی عمل کیا جاتا ہے تو کمی بیشی ضرور ظاہر ہوتی ہے خاص طور پر جب کہ چیز کی مقدار بہت زیادہ ہو۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا) اس مقام پر اس سے مراد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے اجتہاد کے ذریعہ ایک چیز کی طلب اور جستجو کرتا ہے اس پر اسی سے زائد اور کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ عیسیٰ بن ابان نے ناپ تول کے امر سے احکام میں مجتہدین کے طریق کار کے حق میں استدلال کیا ہے اور اسے ناپ تول کے مشابہ قرار دیا ہے۔ - حق گوئی - قول باری ہے ( واذا قلتم فاعدلوا ولو کان ذا قربی۔ اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپن رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو) اس آیت میں درج ذیل تمام باتیں شامل ہیں جب اناسن گواہی دے تو سچائی اور انصاف کی بات کو اپنا مطمع نظر بنائے۔ اسی طرح جب ایک بات کی خبر دے اور دسورے تک اسے پہنچائے تو اس کا یہ عمل صداقت اور انصاف پر مبنی ہو۔ جب کسی شخص کو لوگوں کے مقدمات کے فیصلوں کی ذمہ داری سونپ دی جائے تو وہ عدل و انصاف کے ساتھ یہ فرض ادا کرے اور اس سلسلے میں رشتہ دار اور غیر رشتہ دار کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے بلکہ ان کے ساتھ یکساں رویہ رکھے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے ( کونوا قوامین بالقسط شھدآء للہ ولو علی انفسکم اولوالدین والاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فاللہ اولیٰ بھما و ان تلووا آئو تعرضوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا۔- انصاف کے علمبردار اور خدا واستے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے کہ تم اس کا لحاظ کرو لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے) ہم نے اس آیت میں موجود احکام پر اس کے اپنے مقام میں روشنی ڈالی ہے۔ قول باری ( واذا قلتم فاعدلوا) دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیوں اور مصالح پر مشتمل ہے۔ اس لیے کہ جو شخص انصاف کے معاملے میں سچی بات کہنے کے لیے کوشاں رہے گا تو وہ فعل و عمل میں بھی صداقت اور انصاف کا جو یا ہوگا بلکہ اس معاملے میں دو قدم آگے ہی ہوگا اور جس کو قول و عمل کی صداقت نصیب ہوجائے اور عدل و انصاف کی توفیق حاصل ہوجائے اس دنیا اور آخرت کی دونوں بھلائیاں نصیب ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ سے ہم سوالی ہیں کہ وہ ہمیں ان باتوں کی حسن توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔- ایفائے عہد - قول باری ہے ( وبعھد اللہ اوفوا اور اللہ کے عہد کو پورا کرو) اللہ کا عہد اس کے ارام و نواہی پر مشتمل ہے۔ مثلاً یہ قول باری ہے ( الم اعھد الیکم یا بنی آدم، اے نبی آدم کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا ؟ ) یہ لفظ نذر کو - بھی شامل ہے نیز ہر اس نیکی کو جسے بندہ اللہ کو راضی کرنے کی خاطر اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ( واوفو بعھد اللہ اذا عامرتم ولا تنقضو الایمان بعد توکیدا۔ جب تم عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد انہیں نہ توڑو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٢) اور یتیم کے مال کے قریب مت جاؤ مگر اس کی حفاظت اور نفع کے لیے تاوقتیکہ وہ سن بلوغت اور رشد و عقل کو نہ پہنچ جائے اور ماپ و تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو کیوں کہ ماپ و تول میں اس کے امکان سے زیادہ تمہیں تکلیف نہیں۔- جب کوئی بات کہو تو انصاف کا خیال کرو، خواہ کوئی رشتہ دار ہی ہو تب بھی سچ اور صحیح بول اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کرو اسے پورا کیا کرو، ان باتوں کا کتاب اللہ میں تمہیں حکم دیا گیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٢ (وَلاَ تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ الاَّ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ ج) ۔- یتیم کے مال کو ہڑپ کرنا یا اپنا ردّی مال اس کے مال میں ملاکر اس کے اچھے مال پر قبضہ کرنے کا حیلہ کرنا بھی حرام ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ مکی دور کے احکام ہیں لیکن یتیموں کے حقوق کی اہمیت کے پیش نظر مدنی سورتوں میں بھی اس بارے میں احکام آئے ہیں ‘ مثلاً سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٢٠ اور سورة النساء آیت ٢ میں بھی یتیموں کے اموال کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے ‘ جو اس سے قبل ہم پڑھ چکے ہیں۔- (وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَان بالْقِسْطِج لاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ج) ۔- یعنی بغیر کسی ارادے کے اگر کوئی کمی بیشی ہوجائے تو اس پر گرفت نہیں۔ جیسے دعا کے لیے ہمیں یہ کلمات سکھائے گئے ہیں : (رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا ج) (البقرۃ : ٢٨٦) اے ہمارے ربّ اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے تو ہم سے مؤاخذہ نہ کرنا۔ لیکن اگر جان بوجھ کر ذرا سی بھی ڈنڈی ماری تو وہ قابل گرفت ہے۔ اس لیے کہ عملاً معصیت کا ارتکاب کرنا در حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو تمہیں آخرت کا یقین نہیں ہے یا پھر یہ یقین نہیں ہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ گویا عمداً ذرا سی منفی جنبش میں بھی ایمان کی نفی کا احتمال ہے۔ - (وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ج وَبِعَہْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ط) ۔- تمہاری بات چیت کھری اور انصاف پر مبنی ہو۔ اس میں جانبداری نہیں ہونی چاہیے ‘ چاہے قرابت داری ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اللہ کے نام پر ‘ اللہ کے حوالے سے ‘ اللہ کی قسم کھا کر جو بھی عہد کیا جائے اس کو بھی پورا کرو۔ جیسے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ بھی ایک عہد ہے جو ہم اللہ سے کرتے ہیں۔ ہر انسان نے دنیا میں آنے سے پہلے بھی اللہ سے ایک عہد کیا تھا ‘ جس کا ذکر سورة الاعراف (آیت ١٢٧) میں ملتا ہے۔ اسی طرح روز مرہ کی زندگی میں بھی بہت سے عہد ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ - (ذٰلِکُمْ وَصّٰٹکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔- یہ وہ چیزیں ہیں جو دین میں اہمیت کی حامل اور انسانی کردار کی عظمت کی علامت ہیں۔ یہ انسانی تمدن اور اخلاقیات کی بنیادیں ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :132 یعنی ایسا طریقہ جو زیادہ سے زیادہ بے غرضی ، نیک نیتی اور یتیم کی خیر خواہی پر مبنی ہو ، اور جس پر خدا اور خلق کسی کی طرف سے بھی تم اعتراض کے مستحق نہ ہو ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :133 یہ اگرچہ شریعت الہٰی کا ایک مستقل اصول ہے ، لیکن یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی حد تک ناپ تول اور لین دین کے معاملات میں راستی و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا ۔ بھول چوک یا نادانستہ کمی و بیشی ہو جانے پر اس سے باز پرس نہ ہوگی ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :134 ”اللہ کے عہد“ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے ، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے ، اور وہ بھی جو انسان اور خدا ، اور انسان اور انسان کے درمیان اسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

82: خرید وفروخت کے وقت ناپ تول کا پورا لحاظ رکھنا واجب ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اس معاملے میں طاقت سے زیادہ میخ نکالنے کی بھی ضرورت نہیں انسان کو پوری پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ناپ تول ٹھیک ہو، لیکن کوشش کے باوجود تھوڑا بہت فرق رہ جائے تو وہ معاف ہے۔ 83: اللہ کے عہد میں وہ عہد بھی داخل ہے جس میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ کیا گیا ہو، اور وہ عہد بھی جوکسی انسان سے کیا گیا ہو مگر اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر یا اس کو گواہ بناکر کیا گیا ہو۔