Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شیطانی راہیں فرقہ سازی یہ اور ان جیسی آیتوں کی تفسیر میں ابن عباس کا قول تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو باہم اعتماد کا حکم دیتا ہے اور اختلاف و فرقہ بندی سے روکتا ہے اس لئے کہ اگلے لوگ اللہ کے دین میں پھوٹ ڈالنے ہی سے تباہ ہوئے تھے مسند میں ہے کہ اللہ کے نبی نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا اللہ کی سیدھی راہ یہی ہے پھر اس کے دائیں بائیں اور لکیریں کھینچ کر اور فرمایا ان تمام راہوں پر شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے پھر آپ نے اس آیت کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا ۔ اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند وغیرہ میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ شیطانی راہیں ہیں اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند وغیرہ میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ شیطانی راہیں ہیں اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ابن ماجہ میں اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے ابن مسعود سے کسی نے پوچھا صراط مستقیم کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جس پر ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا اسی کا دوسرا سرا جنت میں جا ملتا ہے اس کے دائیں بائیں بہت سی اور راہیں ہیں جن پر لوگ چل رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی طرف بلا رہے ہیں جو ان راہوں میں سے کسی راہ ہو لیا وہ جہنم میں پہنچا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی ۔ اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں بہت سے دروازے ہیں اور سب چوپٹ کھلے پڑے ہیں اور ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اس سیدھی راہ کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے پکارتا رہتا ہے کہ لوگو تم سب اس صراط مستقیم پر آ جاؤ راستے میں بکھر نہ جاؤ ، بیچ راہ کے بھی ایک شخص ہے ، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے خبردار اسے نہ کھول ، کھولو گے تو سیدھی راہ سے دور نکل جاؤ گے ۔ پس سیدھی راہ اسلام ہے دونوں دیواریں اللہ کی حدود ہیں کھلے ہوئے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں نمایاں شخص اللہ کی کتاب ہے اوپر سے پکارنے والا اللہ کی طرف کا نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے ( ترمذی ) اس نکتے کو نہ بھولنا چاہئے کہ اپنی راہ کیلئے سبیل واحد کا لفظ بولا گیا اور گمراہی کی راہوں کے لئے سبل جمع کا لفظ استعمال کیا گیا اس لئے کہ راہ حق ایک ہی ہوتی ہے اور ناحق کے بہت سے طریقے ہوا کرتے ہیں جیسے آیت ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2- البقرة:257 ) میں ( ظلمان ) کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ( قل تعالوا ) سے تین آیتوں تک تلاوت کر کے فرمایا تم میں سے کون کون ان باتوں پر مجھ سے بیعت کرتا ہے؟ پھر فرمایا جس نے اس بیعت کو اپنا لیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جس نے ان میں سے کسی بات کو توڑ دیا اس کی دو صورتیں ہیں یا تو دنیا میں ہی اس کی سزا شرعی اسے مل جائے گی یا اللہ تعالیٰ آخرت تک اسے مہلت دے پھر رب کی مشیت پر منحصر ہے اگر چاہے سزا دے اگر چاہے تو معاف فرما دے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

153۔ 1 ھَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت اور یہی اسلام کے ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے، اس لئے جو مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہے۔ 153۔ 2 صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا ہے کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یارسول اللہ کی راہ ایک ہے ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اس ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں، یہی ملت مسلمہ کی وحدت و اجماع کی بنیاد ہے جس سے بہت ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے، حالانکہ اس کی تاکید کی گئی ہے کہ دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں طرف کھینچے اور فرمایا یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٦] ایک دفعہ رسول اللہ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی۔ پھر اس لکیر کے دائیں بائیں بہت سی لکیریں کھینچ دیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ سیدھی لکیر تو اللہ تعالیٰ کی راہ ہے اور دائیں اور بائیں جتنی لکیریں ہیں یہ شیطان کی راہیں ہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی (نسائی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام الفصل الثانی) یعنی سیدھی راہ سے بھٹکتے ہی ادھر ادھر بیشمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں۔ اللہ کی راہ چھوڑنے کے بعد کوئی ایک پگڈنڈی پر جا پڑتا ہے کوئی دوسری پر اور کوئی تیسری پر۔ اس طرح پوری نوع انسانی بھٹک کر پراگندہ ہوجاتی ہے اور نوع انسانی کے ارتقاء کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے پاتا۔ اسی حقیقت کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ ایک ہی ہے اور وہی سیدھی اور جنت تک پہنچانے والی ہے، مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اردگرد بہت سی راہیں بنا ڈالی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لیے ایک لکیر کھینچی، پھر فرمایا : ” یہ اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے۔ “ پھر اس کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا : ” یہ الگ الگ راستے ہیں، ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان بیٹھا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے۔ “ اس کے بعد آپ نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ [ أحمد : ١؍٤٦٥، ح :- ٤٤٣٦۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣١٨، ح : ٣٢٤١ ]- تمام دینوں میں سے صراط مستقیم صرف اسلام ہے، باقی سب باطل ہیں، اس آیت میں جس طرح تمام باطل دینوں سے منع فرمایا گیا ہے اسی طرح اسلام میں بھی فرقے بنانے سے روک دیا گیا ہے۔ اسلام میں سیدھی راہ صرف کتاب و سنت کی راہ ہے، جس پر وہ پہلے تین زمانے گزرے ہیں جنھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیر الناس قرار دیا ہے۔ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب فضائل أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٣٦٥١ ] اس کے سوا سب راستے ممنوع ٹھہرے، خواہ وہ مذاہب اربعہ کی تقلید ہو یا اہل بدعت کے بنائے ہوئے اور طریقے ہوں، کیونکہ یہ شروع ہی بعد میں ہوئے ہیں۔ پرانی اور نئی ہر قسم کی بدعات گمراہ کن ہیں، خود ائمۂ دین اور سارے مجتہدین سلف و خلف نے یہی وصیت کی ہے کہ کوئی ان کی تقلید نہ کرے، بلکہ سب کے سب کتاب و سنت کی اتباع کریں، یہی صراط مستقیم ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔- لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ : تاکہ تم اللہ کی نافرمانی، اس کے عذاب اور جہنم سے بچ جاؤ، کیونکہ مختلف راستوں سے بچ کر اس کے سیدھے راستے پر چلنے کے سوا بچنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے تقویٰ کی راہ یہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں دسواں حکم مذکور ہے (آیت) وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ، ” یعنی یہ دین محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا سیدھا راستہ ہے، سو اس راہ پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی “۔- اس میں لفظ ھذا کا اشارہ دین اسلام یا قرآن کی طرف ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سورة انعام کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ اس میں بھی پورے اصول اسلام، توحید، رسالت اور اصول احکام شرعیہ مذکور ہیں (اور مستقیم، دین کے اس راستہ کی صفت ہے جس کو نحوی ترکیب میں بصورت حال ذکر کرکے اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ دین اسلام کے لئے مستقیم ہونا لازمی وصف ہے اس کے بعد فرمایا فاتَّبِعُوْهُ یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ دین اسلام میرا راستہ ہے اور وہی مستقیم اور سیدھا راستہ ہے تو اب منزل مقصود کا سیدھا راستہ ہاتھ آگیا، اس لئے صرف اسی راستہ پر چلو) ۔- پھر فرمایا (آیت) وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ، سُبُل، سبیل کی جمع ہے، اس کے معنی بھی راستہ کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کا اصلی راستہ تو ایک ہی ہے، لیکن دنیا میں لوگوں نے اپنے اپنے خیالات سے مختلف راستے بنا رکھے ہیں، تم ان راستوں میں سے کسی راستہ پر نہ چلو، کیونکہ یہ راستے حقیقت میں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے نہیں ہیں، اس لئے جو ان راستوں پر چلے گا وہ اللہ کے راستہ سے دور جا پڑے گا۔- تفسیر مظہری میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم نازل کرنے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھیجنے کا منشاء تو یہ ہے کہ لوگ اپنے خیالات اور اپنے ارادوں اور تجویزوں کو قرآن و سنت کے تابع کریں، اور اپنی زندگیوں کو ان کے سانچہ میں ڈھالیں، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ لوگوں نے قرآن و سنت کو اپنے خیالات اور تجویزات کے سانچہ میں ڈھالنے کی ٹھان لی، جو آیت یا حدیث اپنے منشاء کے خلاف نظر آئی اس کو تاویلیں کرکے اپنی خواہش کے مطابق بنالی، یہیں سے دوسری گمراہ کن راہیں پیدا ہوتی ہیں، جو بدعات اور شبہات کی راہیں ہیں، انھی سے بچنے کے لئے اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے۔- مسند دارمی میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھا خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا رستہ ہے، پھر اس کے دائیں بائیں اور خطوط کھینچے اور فرمایا کہ یہ سُبُل ہیں، (یعنی وہ راستے جن پر چلنے سے اس آیت میں منع فرمایا ہے) اور فرمایا کہ ان میں سے ہر راستہ پر ایک شیطان مسلط ہے، جو لوگوں کو سیدھے راستہ سے ہٹا کر اس طرف بلاتا ہے اور اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استدلال کے طور پر اس آیت کو تلاوت فرمایا۔ - آخر آیت میں پھر ارشاد فرمایا : (آیت) ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم احتیاط رکھو۔ - تینوں آیتوں کی تفسیر اور ان میں بیان کئے ہوئے دس اصول محرمات کا بیان پورا ہوگیا، آخر میں قرآن کریم کے اس اسلوب بیان پر بھی ایک نظر ڈالئے، کہ اس جگہ دس احکام بیان کئے تھے، ان کو آجکل کی کتب قانون کی طرح دس دفعات میں نہیں لکھ دیا، بلکہ پہلے پانچ حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ، اور پھر اور چار حکم بیان فرمانے کے بعد پھر اسی جملہ کو دوبارہ اس فرق کے ساتھ ذکر کیا کہ تعقلون کے بجائے تذکرون، فرمایا اور پھر آخری حکم ایک مستقل آیت میں بیان فرما کر پھر اسی جملے کا اعادہ اس فرق کے ساتھ کیا کہ تذکرون کے بجائے تتقون فرمایا۔- قرآن کریم کے اس حکیمانہ اسلوب بیان میں بہت سی حکمتیں ہیں۔- اول یہ کہ قرآن کریم عام دنیا کے قوانین کی طرح محض حاکمانہ قانون نہیں، بلکہ مربیانہ قانون ہے، اسی لئے ہر قانون کے ساتھ اس کو آسان کرنے کی تدبیر بھی بتلائی جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو قانون کی پابندی پر خلوت و جلوت میں مجبور کرنے والی ہے، اسی لئے تینوں آیتوں کے آخر میں ایسے کلمات لائے گئے جن سے انسان کا رخ مادی دنیا سے پھر کر اللہ تعالیٰ اور آخرت کی طرف ہوجائے۔- پہلی آیت میں جو پانچ احکام بیان کئے گئے ہیں شرک سے بچنا، والدین کی نافرمانی سے بچنا، قتل اولاد سے بچنا، بےحیائی کے کاموں سے بچنا، کسی کا ناحق خون کرنے سے بچنا، ان کے آخر میں تو لفظ تعقُلَون استعمال فرمایا، کیونکہ زمانہ جاہلیت والے ان چیزوں کو کوئی عیب ہی نہ جانتے تھے، اس لئے اشارہ کیا گیا کہ آبائی رسموں اور خیالوں کو چھوڑ کر عقل سے کام لو۔ - دوسری آیت میں چار احکام بیان ہوئے، یعنی مال یتیم کو ناحق نہ کھانا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، بات کہنے میں حق اور صدق کا لحاظ رکھنا، اور اللہ کے عہد کو پورا کرنا۔- یہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے ضروری ہونے کو تو یہ جاہل بھی جانتے تھے، اور ان میں کچھ لوگ عمل بھی کرتے تھے، مگر اکثر ان میں غفلت برتی جاتی تھی، اور غفلت کا علاج ہے تذکِرَہ یعنی خدا و آخرت کی یاد، اس لئے اس آیت کے آخر میں لفظ تَذَکَّرُون فرمایا۔ - تیسری آیت میں صراط مستقیم کو اختیار کرنے اور اس کے خلاف دوسری راہوں سے بچنے کی ہدایت ہے، اور صرف خوف خدا ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنے خیالات و خواہشات سے باز رکھنے کا صحیح ذریعہ ہو سکتی ہے، اس لئے اس کے آخر میں لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ارشاد فرمایا۔ - اور تینوں جگہ لفظ وصیّت کا لایا گیا، جو تاکیدی حکم کو کہا جاتا ہے، اسی لئے بعض صحابہ کرام نے فرمایا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مہر کیا ہوا وصیت نامہ دیکھنا چاہئے وہ یہ تین آیتیں پڑھ لے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝ ٠ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝ ١٥٣- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- تَّفْرِيقُ ( فرقان)- أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ- [ طه 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] ، وقرئ :- فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] ، أي :- يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ- أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً- [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين .- التفریق - اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ - الفرقان - یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور - فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - الفرق - کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

راہ ہدایت - قول باری ہے ( وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ۔ نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو) تا آخر آیت۔ صراط سے مراد وہ شریعت ہے جس پر اللہ نے اپنے بندوں کو چلنے کا پابند کردیا ہے۔ صراط کے اصل معنی راستے کے ہیں۔ شریعت کو صرات اور طریق کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ شریعت پر چلنے والے کو جنت کی صورت میں ثواب کا مستحق بنا دیتی ہے۔ اس لیے شریعت جنت تک پہنچنے اور نعیم آخرت تک رسائی کی راہ ہے۔ جب کہ شیطان کا دکھایا ہوا راستہ سیدھا جہنم تک لے جاتا ہے۔ ہم جہنم کی آگ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں شریعت پر مع اس کے تمام مشمولات یعنی فرائض، واجبات ، نوافل اور مباحات پر عمل پیرا ہونے کا حکم دینا اسی طرح درست ہے جس طرح تحلیل و تحریم پر مشتمل تمام احکامات میں اس کی اتباع کا امر کرنا درست ہے وہ اس لیے کہ شریعت کی اتباع کے معنی اس کے پورے ڈھانچے کی صحت پر یقین کرنے کے ہیں۔ اس میں ممنوعات کو قبیح سمجھنا، فرائض کو لازم خیال کرنا، تطوعات اور نوافل کی طرف راغب ہونا اور مباحات کو جائز گرداننا تمام باتیں شامل ہیں نیز ان باتوں پر شریعت کے مقتضیات یعنی ایجاب یا نفل یا اباحت کے بموجب عمل پیرا ہونا بھی شامل ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٣) دین اسلام بالکل سیدھا پسندیدہ راستہ ہے، اس پر چلو اور یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت کا اتباع مت کرو کہ کہیں یہ رہیں تمہیں دین خداوندی سے بےراہ کردی، ان باتوں کا تمہیں کتاب میں تاکیدی حکم دیا گیا ہے تاکہ تم دوسرے غلط راستوں سے بچو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٣ (وَاَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج) ۔- دین کے اصل اصول تو وہ ہیں جو ہم بیان کر رہے ہیں۔ تمہارے خود ساختہ طور طریقے تو گویا ایسی پگڈنڈیاں ہیں جن کا صراط مستقیم سے کوئی تعلق نہیں۔ صراط مستقیم تو صرف وہ ہے جس پر ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق چل رہا ہے۔ - (وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط) ۔- یعنی اگر تم خود ساختہ مختلف پگڈنڈیوں پر چلنے کی کوشش کرو گے تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔ لہٰذا تم سب راستوں کو چھوڑ کر سواء السبیل پر قائم رہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :135 اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا ، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے ، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگی غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اس عہد کی اولین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں ۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک ، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہرگز عہدہ برآ نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے ۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر دوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بے شمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں جن میں بھٹک کر پوری نوع انسانی پراگندہ ہو جاتی ہے اور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے ۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ”دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے“ ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۳۵ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani