جنوں نے قرآن حکیم سنا امام ابن جریر نے تو لفظ ثم کو ترتیب کے لئے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے لیکن میں کہتا ہوں ثم کو ترتیب کیلئے مان کر خبر کا خبر پر عطف کر دیں تو کیا حرج؟ ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے چونکہ قرآن کریم کی مدح آیت ( ان ھذا صراطی مستقیما ) میں گذری تھی اس لئے اس پر عطف ڈال کر توراۃ کی مدح بیان کر دی ۔ جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے آیت ( ومن قبلہ کتاب موسیٰ اماما و رحمتہ و ھذا کتاب مصدق لسانا عربیا ) یعنی اس سے پہلے توراۃ امام رحمت تھی اور اب یہ قرآن عربی تصدیق کرنے والا ہے ۔ اسی سورت کے اول میں ہے آیت ( قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ ) 6- الانعام:91 ) ، اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد اس قرآن کا بیان ہے ، کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے آیت ( فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا ) 10- یونس:76 ) ، جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے اسے اس جیسا کیوں نہ ملا جو موسیٰ کو ملا تھا جس کے جواب میں فرمایا گیا کیا انہوں نے موسیٰ کی اس کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا تھا ؟ کیا صاف طور سے نہیں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم تو ہر ایک کے منکر ہیں ۔ جنوں کا قول بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اتری ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کو سچا کہتی ہیں اور راہ حق کی ہدایت کرتی ہیں ۔ وہ کتاب جامع اور کامل تھی ۔ شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا ۔ جیسے فرمان ہے احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جیسے فرمان ہے کہ نبی اسرائیلیوں کو ہم نے ان کا امام بنا دیا جبکہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھا ۔ غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور نیکوں کی نیکیوں کا صلہ ۔ احسان کرنے والوں پر اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی ۔ امام ابن جریر الذی کو مصدریہ مانتے ہیں جیسے آیت ( خفتم کالذی خاصوا ) میں ابن رواحہ کا شعر ہے ۔ وثبت اللہ ما اتاک من حسن فی المرسلین و نصر کالذی نصروا اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں الذی معنی میں الذین کا ہے عبداللہ بن مسعود کی قرأت ( لما ما علی الذین احسنوا ) ہے ۔ پس مومنوں اور نیک لوگوں پر اللہ کا یہ احسان ہے اور پورا احسان ہے ۔ بغوی کہتے ہیں مراد اس سے انبیاء اور عام مومن ہیں ۔ یعنی ان سب پر ہم نے اس کی فضیلت ظاہر کی جیسے فرمان ہے آیت ( قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ) 7- الاعراف:144 ) ، یعنی اے موسیٰ میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے لوگوں پر بزرگی عطا فرمائی ۔ ہاں حضرت موسیٰ کی اس بزرگی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جو خلیل اللہ ہیں مستثنیٰ ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہو چکے ہیں ۔ یحییٰ بن یعمر احسن ھو کو مخذوف مان کر احسن پڑھتے تھے ہو سکتا ہے؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں میں اس قرأت کو جائز نہیں رکھوں گا اگرچہ عربیت کی بنا پر اس میں نقصان نہیں ۔ آیت کے اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ پر احسان رب کو تمام کرنے کیلئے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی ، ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں ۔ پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تاکہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کرلیں ۔ پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہو جائے وہ دونوں جہان کی برکتیں حاصل کرے گا اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف مضبوط رسی ہے ۔
154۔ 1 قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت اور رحمت کا باعث تھی۔
[١٧٦۔ الف ] اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آج کل بائیبل میں جو عہد نامہ عتیق پایا جاتا ہے اور جسے تورات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ تورات نہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی تھی۔ کیونکہ وہ تورات تو دو بار گم ہوئی اور از سر نو لکھی جاتی رہی پھر اس میں الحاقی مضامین شامل ہوئے اور تحریف بھی ہوئی۔ اور جو تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اس میں نیک لوگوں کی ہدایت کے لیے کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ اخلاقی، تمدنی، معاشرتی اور معاشی احکام کے ہر لحاظ سے مکمل تھی اور اس کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ اس سے آخرت پر ایمان پختہ ہوتا تھا۔- [١٧٧] آخرت پر ایمان رکنے اور نہ رکھنے اور نہ رکھنے والے کی زندگی کا تقابل :۔ پروردگار سے ملاقات سے مراد اللہ کے حضور اعمال کی جواب دہی کا تصور ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو انسان کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے۔ ایک آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے انسان کی زندگی نہایت آزادانہ، غیر ذمہ دار بلکہ وحشیانہ قسم کی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ آخرت کی عنداللہ مسؤلیت ہی کا تصور ہے جو انسان کو اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا پابند بناتا اور دنیا میں انتہائی محتاط ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کا پابند بناتا ہے یعنی بنی اسرائیل کو یہ کتاب اس لیے دی گئی تھی کہ اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کی زندگیوں کا مشاہدہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے۔
ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ : ” پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی “ میں ” پھر “ کا لفظ زمانے کی ترتیب کے لیے نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب بعد میں ملی، بلکہ بعد میں ذکر کی وجہ سے ہے، اسے ترتیب ذکری کہتے ہیں، مثلاً دیکھیے سورة بلد کی آیت (١٧) ۔ متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور تورات کا ذکر اکٹھا کیا ہے۔ (ابن کثیر) - تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ ۔۔ : ” تَمَامًا “ یہاں ” اِتْمَامًا “ ( پورا کرنے) کے معنی میں ہے، یعنی ہم نے تورات ہر اس شخص پر نعمت پوری کرنے کے لیے جو نیکی کرے اور ہر چیز کی تفصیل، رہنمائی اور رحمت کے لیے نازل فرمائی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ یعنی بنی اسرائیل اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔
خلاصہ تفسیر - پھر (مضمون ابطال شرک کے بعد ہم مسئلہ نبوت میں کلام کرتے ہیں کہ ہم نے صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اکیلا ہی نہیں بنایا، جس پر یہ لوگ اس قدر شور و غل مچا رہے ہیں، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) کتاب (تورات) دی تھی، جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر (ہماری) نعمت پوری ہو (کہ عمل کرکے ثواب کامل حاصل کریں) اور سب (ضروری) احکام کی (اس کے ذریعہ سے) تفصیل ہوجاوے اور (اس کے ذریعہ سے سب کو) رہنمائی ہو اور (ماننے والوں کیلئے) رحمت ہو (ہم نے اس صفت کی کتاب اس لئے دی) تاکہ وہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل) اپنے رب کے ملنے پر یقین لاویں (اور اعتقاد لقاء سے اب احکام کو بجا لاویں) اور (جب اس کا اور اس کے تتمہ انجیل کا دور ختم ہوچکا اس کے بعد) یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جس کو ہم نے (آپ کے پاس) بھیجا بڑی خیر و برکت والی سو (اب) اس کا اتباع کرو، اور (اس سے خلاف کرنے کے باب میں خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر (اللہ تعالیٰ کی) رحمت ہو (اور ہم نے یہ قرآن اس لئے بھی نازل کیا کہ) کبھی تم لوگ (قیامت میں درصورت اس کے نازل نہ ہونے کے کفر و شرک پر عذاب کے وقت) یوں کہنے لگتے کہ کتاب (آسمانی) تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے (یہودی عیسائی) تھے ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بیخبر تھے (اس لئے ہم کو توحید کی تحقیق نہ ہوئی) یا (اور مؤمنین سابقین کو ثواب ملنے کے وقت) یوں کہتے کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان (مؤ منین سابقین) سے بھی زیادہ راہ پر ہوتے (اور عقائد و اعمال میں ان سے زیادہ کمال حاصل کرکے ثواب کے مستحق ہوتے) سو (یاد رکھو کہ) اب (تمھارے پاس کوئی عذر نہیں) تمہارے پاس (بھی) تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب (جس کے احکام) واضح (ہیں) اور (جو) رہنمائی کا ذریعہ (ہے) اور (خدا کی) رحمت (ہے) آچکی ہے سو (ایسی کافی شافی کتاب آنے کے بعد) اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتلا دے (اور دوسروں کو بھی) اس سے روکے ہم ابھی (آخرت میں) ان لوگوں کو جو کہ ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کو اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے (یہ سختی اس روکنے سے بڑھی ورنہ صرف تکذیب بھی موجب سزا ہے) ۔ - معارف و مسائل - وجہ غفلت یہ نہیں کہ تورات و انجیل لغت عرب میں نہ تھی کیونکہ ترجمہ کے ذریعہ سے مضامین کی اطلاع ممکن ہے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب نے اہل عرب کی تعلیم و توحید کا کبھی اہتمام نہیں کیا، اور اتفاقاً کان میں کوئی مضمون پڑجانا عادةً تنبیہ میں کم مؤ ثر ہے، گو اس قدر تنبیہ پر طلب اور تامل واجب ہوجاتا ہے، اور اسی بناء پر ترک توحید پر عذاب ممکن تھا، اور اس سے عموم بعثت موسویہ و عیسویہ کا اشکال لازم نہیں آتا، کیونکہ اختصاص اس عموم کا ہمارے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باعتبار مجموعہ اصول و فروع کے ہے، ورنہ اصول میں سب انبیاء کا اتباع سب خلائق پر واجب ہے، پس اس بناء پر عذاب صحیح ہوتا، لیکن یہ عذر بادی النظر میں پیش کیا جاسکتا تھا، اب اس کی بھی گنجائش نہ رہی اور حجة اللہ تام ہوگئی۔- اور دوسرا قول (آیت) لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ کے متعلق ایک سوال و جواب باعتبار ناجین اہل فترت کے سورة مائدہ کے رکوع سوم کے آخر میں گزر چکا ہے۔
ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّہِمْ يُؤْمِنُوْنَ ١٥٤ ۧ- ثمَ- ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و :- ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] فهو في موضع المفعول - ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔
توریت - قول باری ہے ( ثم اتینا موسیٰ الکتاب تماما علی الذین احسن، پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل تھی) آیت میں وارد حرف ثم کے متعلق ایک قول ہے کہ اس کے معنی ہیں۔ ثم قل اتینا موسیٰ الکتاب ( پھر کہہ دو کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی) اس لیے کہ یہ قول باری تعالیٰ ( قل تعالوا تل ما نوم ربکم علیکم۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دو کہ پئو میں تمہیں - سنائوں، تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں) پر عطف ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں ” و اتینا موسیٰ الکتاب ( اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی) جس طرح یہ قول باری ہے ( ثم اللہ شھید) اس کے معنی ہیں ” اور اللہ گواہ ہے “ یا جس طرح یہ قول باری ہے ( ثم کان من الذین امنو) اس کے معنی ہیں ” اور وہ ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لے آئے “۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ لکام ساقب کا صلہ بن کر یہ مفہوم ادا کرتا ہے۔ ثم بعد ماذکرت لکم اخبر تکم انا اتینا موسیٰ الکتب “ ( جو کچھ میں نے تم سے ذکر کردیا اس کے بعد پھر میں نے تمہیں یہ بتایا کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی) وغیرہ ذلک۔
(١٥٤) ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت دی جس میں اوامر نواہی، وعدہ وعید، ثواب و عقاب سب باتیں احسن طریقہ پر موجود تھیں، یا یہ کہ جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر احسان اور ان کے پروردگار کی رسالت کی تبلیغ تھی اور حلال و حرام میں سے ہر ایک چیز کا اس میں بیان موجود تھا اور مومن کے لیے عذاب الہی سے رحمت کا باعث تھی، تاکہ یہ لوگ بعث بعدالموت کی تصدیق کریں۔
آیت ١٥٤ (ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً ) - حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے نزدیک سورة بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع میں جو احکام ہیں وہ تورات کے احکام عشرہ) ( کا ہی خلاصہ ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :136 رب کی ملاقات پر ایمان لانے سے مراد اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنا اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنا ہے ۔ یہاں اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ خود بنی اسرسائیل میں اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ذمہ داری کا احساس بیدار ہو جائے ۔ دوسرے یہ کہ عام لوگ اس اعلیٰ درجہ کے نظام زندگی کا مطالعہ کر کے اور نیکو کار انسانوں میں اس نعمت ہدایت اور اس رحمت کے اثرات دیکھ کر یہ محسوس کرلیں کہ انکار آخرت کی غیر ذمہ دارانہ زندگی کے مقابلہ میں وہ زندگی ہر اعتبار سے بہتر ہے جو اقرار آخرت کی بنیاد پر ذمہ دارانہ طریقہ سے بسر کی جاتی ہے ، اور اس طرح یہ مشاہدہ و مطالعہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے ۔