Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

155۔ 1 اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٨] قرآن تورات سے یادہ بابرکت کیسے ہے ؟ تورات کے مقابلہ میں قرآن کے زیادہ بابرکت ہونے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ تورات صرف ایک قوم یعنی بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تھی جبکہ قرآن سب لوگوں کے لئے ہے اور تمام اقوام عالم سے مخاطب ہے۔ دوسرے یہ کہ تورات ایک مخصوص زمانہ کے لئے تھی جبکہ قرآن قیامت تک کے لئے ہے۔ تیسرے وہ صرف قومی مسائل کا حل پیش کرنے والی تھی۔ یہ پوری انسانیت کے مسائل کا جواب دیتی ہے۔ پھر اس میں پہلی تمام آسمانی کتب و صحائف کے مضامین کو سمو دیا گیا ہے۔ لہذا اب تمہیں دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر اللہ کی رحمت سے حظ وافر لینا چاہتے ہو تو اس کی اتباع کرو۔ اور اس بات سے اللہ سے ڈرتے رہو کہ اس کتاب کے کسی حصہ کی خلاف ورزی تم سے سرزد نہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَھٰذَا كِتٰبٌ ۔۔ : اس سے مراد قرآن مجید ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝ ١٥٥ ۙ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اتباعِ قرآن حکیم - قول باری ہے ( وھذا کتاب انزلنہ مبارک فاتبعوہ واتقوا، اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے۔ ایک برتک والی کتاب ، پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو) یہ کتاب یعنی قرآن مجید کی اس کے مقتضیات یعنی فرض یا نفل یا اباحت کے بموجب اتباع کا حکم ہے، نیز اس میں مندرج ہر چیز کا اس کے مقتضیٰ کے مطابق اعتقاد کا امر ہے۔ برکت خیر یعنی بھلائی کے ثبوت اور اس کے نمو کا نام ہے،۔ فقرہ ” تبارک اللہ “ ثبات کی صفت ہے جس کا نہ کوئی اول ہے نہ آخر۔ اس تعظیم کا استحقاق صرف اللہ وحدہ، لا شریک کو حاصل ہے۔ قول باری ہے ( ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طائفتین من قبلنا۔ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں کو دی گئی تھی) حضرت ابن عباس (رض) ، حنس، مجاہد، قتادہ ، سدی اور ابن جریج کا قول ہے کہ ان گروہوں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اہل کتاب صرف یہود و نصاریٰ ہیں۔ مجوس اہل کتاب نہیں ہیں۔ اس لیے کہ مجوس اگر اہل کتاب ہوتے تو پھر اہل کتاب دو گروہ نہ ہوتے تین گروہ ہوتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اہل کتاب دو گروہ ہیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے دوگروہوں کی بات مشرکین کا قول نقل کرتے ہوئے فرمائی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ان کے قول کی نقل نہیں ہے بلکہ یہ ان پر بایں معنی حجت تام کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر بھی کتاب نازل کردی ہے تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں کو دی گئی تھی۔ اس طرح اللہ تعلایٰ نے کتاب نازل کر کے ان کا عذر ختم کردیا اور ان کا یہ استدلال باطل کردیا کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر نازل کی گئی تھی۔ ہم پر نازل نہیں کی گئی تھی۔ قول باری ہے ( ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملائکۃ او یاتی ربک کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آکھڑے ہوں یا تمہارا رب خود آ جائے) ایک قول کے مطابق ” یا تمہارا رب خود آ جائے “ کے معنی ” یا تمہارے رب کا حکم عذاب کے ساتھ آ جائے “ کے ہیں۔ - حسن سے یہ قول مروی ہے۔ فقرے میں یہ الفاظ اسی طرح مخدوف ہیں جس طرح قلو باری ( ان الذین یوزون اللہ) میں مخدوف ہیں۔ اس کے معنی ہیں جو لوگ اللہ کے دوستوں کو ایذا پہنچاتے ہیں “ ایک قول کے مطابق آیت زیر بحث کے معنی ہیں ” یا تمہارا رب اپنی زبردست نشانیاں لے آئے “ ایک قول ہے ” فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آ جائیں “ یا ” تمہارے رب کا حکم قیامت کے دن آ جائے “ یا ” تمہارے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں یعنی سورج مغرب سے طلوع ہوجائے “۔ یہ اقوال مجاہد، قتادہ اور سدی سے منقول ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٥) اور یہ قرآن حکیم جس کو ہم نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نازل کیا ہے یہ کتاب اس پر ایمان لانے والے کے لیے رحمت ومغفرت کا باعث ہے۔- لہذا اسی کی حلال و حرام چیزوں اور اسی کے اوامر ونواہی کی پیروی کرو اور دوسری غلط چیزوں سے بچو تاکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو جس کی وجہ سے تم پر عذاب نازل نہ ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani