لاف زنی عیب ہے دوسروں کو بھی نیکی سے روکنے والے بدترین انسان ہیں فرماتا ہے کہ اس آخری کتاب نے تمہارے تمام عذر ختم کر دیئے جیسے فرمان ہے ( وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْن ) 28- القصص:47 ) ، یعنی اگر انہیں ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو کہدیتے کہ تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے فرمان کو مانتے ۔ اگلی دو جماعتوں سے مراد یہود و نصرانی ہیں ۔ اگر یہ عربی زبان کا قرآن نہ اترتا تو وہ یہ عذر کر دیتے کہ ہم پر تو ہماری زبان میں کوئی کتاب نہیں اتری ہم اللہ کے فرمان سے بالکل غافل رہے پھر ہمیں سزا کیوں ہو؟ نہ یہ عذر باقی رہا نہ یہ کہ اگر ہم پر آسان کتاب اترتی تو ہم تو اگلوں سے آگے نکل جاتے اور خوب نیکیاں کرتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 47- القصص28 ) ، یعنی مؤکد قسمیں کھا کھا کر لاف زنی کرتے تھے کہ ہم میں اگر کوئی نبی آ جائے تو ہم ہدایت کو مان لیں ۔ اللہ فرماتا ہے اب تو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ہدایت و رحمت بھرا قرآن بزبان رسول عربی آ چکا جس میں حلال حرام کا بخوبی بیان ہے اور دلوں کی ہدایت کی کافی نورانیت اور رب کی طرف سے ایمان والوں کیلئے سراسر رحمت و رحم ہے ، اب تم ہی بتاؤ کہ جس کے پاس اللہ کی آیتیں آ جائیں اور وہ انہیں جھٹلائے ان سے فائدہ نہ اٹھائے نہ عمل کرے نہ یقین لائے نہ نیکی کرے نہ بدی چھوڑے نہ خود مانے نہ اوروں کو ماننے دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ اسی سورت کے شروع میں فرمایا ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 28- القصص:47 ) خود اس کے مخالف اوروں کو بھی اسے ماننے سے روکتے ہیں دراصل اپنا ہی بگاڑتے ہیں جیسے فرمایا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا ) 4- النسآء:168 ) یعنی جو لوگ خود کفر کرتے ہیں اور راہ الٰہی سے روکتے ہیں انہیں ہم عذاب بڑھاتے رہیں گے ۔ پس یہ لوگ ہیں جو نہ مانتے تھے نہ فرماں بردار ہوتے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى ) 75- القيامة:31 ) یعنی نہ تو نے مانا نہ نماز پڑھی بلکہ نہ مان کر منہ پھیر لیا ۔ ان دونوں تفسیروں میں پہلی بہت اچھی ہے یعنی خود بھی انکار کیا اور دوسروں کا بھی انکار پر آمادہ کیا ۔
156۔ 1 یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود و انصاریٰ ہیں۔ 156۔ 2 اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چناچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کردیا۔
[١٧٩] قرآن کے نزول سے کفار مکہ پر اتمام حجت :۔ یہ خطاب کفار مکہ سے ہے یعنی ان کی طرف یہ کتاب دو وجہ سے نازل کی گئی ہے۔ ایک وجہ تو اتمام حجت ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ یہود و نصاریٰ کی طرف جو کتابیں اتاری گئی ہیں وہ تو انہی کے لیے تھیں، سب لوگوں کے لیے تو نہ تھیں کہ ہم بھی ان سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے۔ اب جو کچھ اور جیسے وہ ان کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے رہے اس کی ہمیں کیا خبر ہوسکتی ہے ؟ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کتابیں تو عجمی زبانوں میں تھیں عربی میں نہیں تھیں لہذا ہم ان کتابوں کو کیسے پڑھ سکتے یا پڑھا سکتے تھے۔ اور دوسری وجہ جذبہ مسابقت ہے یعنی تمہاری طرف کتاب نازل نہ ہونے کی صورت میں تم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے دلوں میں یہ ولولہ اٹھ سکتا تھا کہ اگر ہمارے پاس اللہ کی کتاب آتی تو ہم دوسروں سے بڑھ کر اس پر عمل کر کے دکھا دیتے۔ سو اب جو کتاب تمہاری طرف نازل کی جا رہی ہے وہ کئی لحاظ سے تو تورات سے بہتر ہے اور اب تم اپنی مسابقت کا شوق پورا کرسکتے ہو۔
اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ ۔۔ : تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہماری طرف تو کوئی کتاب آئی ہی نہیں، کتاب تو صرف ہم سے پہلے دو گروہوں یہود و نصاریٰ پر اتری اور وہ صرف ان کے لیے تھی اور انھوں نے ہمیں دعوت بھی نہیں دی کہ ہم ان سے پڑھ کر ایمان لے آتے، بلکہ وہ اسے بنی اسرائیل ہی کے لیے قرار دیتے رہے، ہم بھی اسے ان کے ساتھ مخصوص سمجھ کر اور کچھ اپنی غفلت کی وجہ سے اسے پڑھنے سے بیخبر رہے، ورنہ زبان نہ جاننا تو کوئی معقول عذر نہیں کیونکہ جب معلوم ہوجائے کہ اللہ کا حکم آیا ہے تو آدمی کسی سے سمجھ بھی سکتا ہے۔
اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ٠ ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِيْنَ ١٥٦ ۙ- طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- درس - دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ- [ الأعراف 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب .- ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معی مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا
(١٥٦) اور یہ اس لیے نازل ہوئی تاکہ قیامت کے دن مکہ والوتم یوں نہ کہنے لگو کہ اہل کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے یہودی و عیسائی تھے، ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم تو توریت وانجیل کے پڑھنے پڑھانے سے بیخبر تھے۔
آیت ١٥٦ (اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلٰی طَآءِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَاص) - یہ بالکل سورة المائدۃ کی آیت ١٩ والا انداز ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا : (اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَ نَا مِنْم بَشِیْرٍ وَّلاَ نَذِیْرٍز) مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر اور نذیر آیا ہی نہیں تھا۔ اور اس احتمال کو رد کرنے کے لیے فرمایا گیا : (فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ ط) پس آگیا ہے تمہارے پاس بشیر اور نذیر۔ کہ ہم نے اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج دیا ہے آخری کتاب ہدایت دے کر تاکہ تمہارے اوپر حجت تمام ہوجائے۔ لیکن وہاں اس حکم کے مخاطب اہل کتاب تھے اور اب وہی بات یہاں مشرکین کو اس انداز میں کہی جا رہی ہے کہ ہم نے یہ کتاب اتار دی ہے جو سراپا خیر و برکت ہے ‘ تاکہ تم روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ اللہ کی طرف سے کتابیں تو یہودیوں اور عیسائیوں پر نازل ہوئی تھیں ‘ ہمیں تو کوئی کتاب دی ہی نہیں گئی ‘ ہم سے مواخذہ کا ہے کا ؟ - (وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ ) ۔- اور وہاں یہ نہ کہہ سکو کہ تورات تو عبرانی زبان میں تھی ‘ جب کہ ہماری زبان عربی تھی۔ آخر ہم کیسے جانتے کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہوا تھا ‘ لہٰذا نہ تو ہم پر کوئی حجت ہے اور نہ ہی ہمارے محاسبے کا کوئی جواز ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :137 یعنی یہود و نصاریٰ کو ۔