Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی رحمت اللہ کے غضب پر غالب ہے اس اللہ نے تمہیں زمین کا آباد کار بنایا ہے ، وہ تمہیں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا رہتا ہے ایسا نہیں کیا کہ زمین میں خلیفہ بنا کر آزمائے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ اس نے تمہارے درمیان مختلف طبقات بنائے ، کوئی غریب ہے ، کوئی خوش خو ہے ، کوئی بد اخلاق ، کوئی خوبصورت ہے ، کوئی بد صورت ، یہ بھی اس کی حکمت ہے ، اسی نے روزیاں تقسیم کی ہیں ایک کو ایک کے ماتحت کر دیا ہے فرمان ہے آیت ( اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا 21؀ ) 17- الإسراء:21 ) دیکھ لے کہ ہم نے ان میں سے ایک کو ایک پر کیسے فضیلت دی ہے؟ اس سے منشاء یہ ہے کہ آزمائش و امتحان ہو جائے ، امیر آدمیوں کا شکر ، فقیروں کا صبر معلوم ہو جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ پس تمہیں دنیا سے ہوشیار رہنا چاہیے اور عورتوں کے بارے میں بہت احتیاط سے رہنا چاہئے ، بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتیں ہی تھیں ۔ اس سورت کی آخری آیت میں اپنے دونوں وصف بیان فرمائے ، عذاب کا بھی ، ثواب کا بھی ، پکڑ کا بھی اور بخشش کا بھی اپنے نافرمانوں پر ناراضگی کا اور اپنے فرمانبرداروں پر رضامندی کا ، عموماً قرآن کریم میں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہی بیان فرمائی جاتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ وَاِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ Č۝6 ) 13- الرعد ) اور آیت میں ہے آیت ( نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49؀ۙ ) 15- الحجر:49 ) یعنی تریا رب اپنے بندوں کے گناہ بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت اور درد ناک عذاب دینے والا بھی ہے ، پس ان آیتوں میں رغبت رہبت دونوں ہیں اپنے فضل کا اور جنت کا لالچ بھی دیتا ہے اور آگ کے عذاب سے دھمکاتا بھی ہے کبھی کبھی ان دونوں وصفوں کو الگ الگ بیان فرماتا ہے تاکہ عذابوں سے بچنے اور نعمتوں کے حاصل کرنے کا خیال پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے نفرت نصیب فرمائے اور ہمیں کامل یقین عطا فرمائے کہ ہم اس کے کلام پر ایمان و یقین رکھیں ۔ وہ قریب و مجیب ہے وہ دعاؤں کا سننے والا ہے ، وہ جواد ، کریم اور وہاب ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر مومن صحیح طور پر اللہ کے عذاب سے واقف ہو جائے تو اپنے گناہوں کی وجہ سے جنت کے حصول کی آس ہی نہ رہے اور اگر کافر اللہ کی رحمت سے کماحقہ واقف ہو جائے تو کسی کو بھی جنت سے مایوسی نہ ہو اللہ نے سو رحمتیں بنائی ہیں جن میں سے صرف ایک بندوں کے درمیان رکھی ہے اسی سے ایک دوسرے پر رحم و کرم کرتے ہیں باقی ننانوے تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں ۔ یہ حدیث ترمذی اور مسلم شریف میں بھی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پیدائش کے وقت ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے ایک کم ایک سو تو اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا اسی ایک حصے میں مخلوق کو ایک دوسرے پر شفقت و کرم ہے یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے کے جسم سے اپنا پاؤں رحم کھا کر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

165۔ 1 یعنی حکمران بنا کر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔ 165۔ 2 یعنی فقر و غنی، علم و جہل، صحت اور بیماری، جس کو جو دیا، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٠] اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے اسے کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں تاکہ زمین پر خلافت الٰہیہ قائم کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان زمین میں اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا خلیفہ ہے اور یہ بحث پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٣٠ کے تحت گزر چکی ہے۔- [١٩١] انسان کا امتحان انہی چیزوں پر ہے جو اللہ نے اسے دے رکھی ہیں :۔ یعنی کوئی امیر ہے، کوئی غریب، کوئی عالم ہے کوئی جاہل، کوئی عقلمند ہے کوئی بےوقوف، کسی میں قوت کار کی استعداد زیادہ ہے کسی میں کم، جسمانی لحاظ سے کوئی مضبوط اور طاقتور ہے اور کوئی کمزور و نحیف۔ غرض اس دنیا میں انسانوں کے درجات میں تفاوت کے بیشمار پہلو ہیں۔ ان تفاوت درجات سے ہی دنیا کا نظام قائم رہ سکتا ہے اور اس دنیا میں ہر انسان کا امتحان اس کی اپنی استعداد کے مطابق ہی ہوتا ہے جو خوبی اللہ نے کسی کو دے رکھی ہے اسی میں اس کا امتحان ہوگا۔- [١٩٢] امیر کی آزمائش یہ ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں، دوسروں کے جو مالی حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں وہ ادا کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر غریب ہے تو صبر و قناعت سے کام لیتا ہے یا جزع فزع شروع کردیتا ہے اور اس حال میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں ؟ اور عالم کیا باعمل بھی ہے یا نہیں اور اپنے علم سے کیا دوسروں کو مستفید کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے یا نہیں ؟ یعنی علم کی بنا پر اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ ادا کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر کوئی حاکم ہے تو وہ اپنی رعایا سے کیسا سلوک کرتا ہے ؟ اگر رعایا کا فرد ہے تو اپنے حکام کی کس قدر اطاعت کرتا ہے۔ غرض ہر انسان کا اس دنیا میں ایک خاص مقام ہے خواہ اس کا درجہ اونچا ہے یا نیچا اور اس مقام پر ہی اس کے حسب حال اس دنیا میں آزمائش ہو رہی ہے اگر وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو اللہ جلد ہی اسے سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے اور اگر وہ فرمانبردار ہے لیکن اس سے کو تاہیاں ہوگئی ہیں تو اللہ بخش دینے والا ہے اور اگر اس امتحان میں کامیاب رہا ہے تو اللہ اس کے حق میں بہت مہربان ہے۔ اسے دنیا میں بھی عزت بخشے گا اور آخرت میں بھی اپنے انعامات سے نوازے گا۔- یہ آیت اس سورة کا تتمہ ہے جس میں بنی نوع انسان پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کائنات میں اس کی کیا حیثیت ہے اور کس مقصد کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ : یعنی زمین میں ایک دوسرے کے بعد اقتدار بخشا، یا ایک دوسرے کا جانشین اور وارث بنایا۔ - وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ۔۔ : یعنی شکل و صورت، مال و جاہ اور علم و عقل میں ایک دوسرے پر برتری بخشنے کا مقصد اپنی دی ہوئی نعمتوں میں تمہارا امتحان ہے، اگر کفر اختیار کر کے ناکام ہوگئے تو بہت جلد سزا مل جائے گی، کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہے اور موت اور قیامت تو یقیناً آنے والی ہیں اور بہت جلد آنے والی ہیں اور اگر ایمان لے آئے، پھر کوئی لغزش بھی ہوئی تو وہ ذات پاک حد سے بڑھ کر بخشنے والی اور بیحد رحم کرنے والی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچویں اور چھٹی آیت میں ایک جامع نصیحت پر سورة انعام کو ختم کیا گیا ہے، اور وہ عہد ماضی کی تاریخ اور پچھلی قوموں کی سرگزشت کو ان کے سامنے لا کر اپنے مستقبل کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے : (آیت) وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ، اس میں لفظ خلاَئِف، خلیفہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں کسی کا قائم مقام اور گدی نشین، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تم کو تم سے پہلی قوموں کی جگہ پر آباد کیا ہے، کوئی مکان زمین جس کو آج تم اپنی ملکیت کہتے ہو اور سمجھتے ہو ایسا نہیں جو کل تمہیں جیسے دوسرے انسانوں کی ملکیت میں نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کو ہٹا کر تمہیں ان کی جگہ بٹھایا ہے، اور پھر یہ بات بھی ہر وقت قابل غور ہے کہ تم میں بھی اب آدمی یکساں نہیں، کوئی مفلس ہے کوئی مال دار، کوئی ذلیل ہے کوئی عزت دار، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر مال داری اور عزت خود انسان کے اختیار میں ہوئی تو کونسا انسان مفلسی اور ذلت کو اختیار کرتا، یہ درجات کا تفاوت بھی تمہیں اس کی خبر دے رہا ہے کہ اختیار کسی اور ہستی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہے مفلس کر دے جس کو چاہے مال دار، جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلت۔- آخر آیت میں (آیت) فرمایا لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ، ” یعنی تمہیں دوسرے لوگوں کی جگہ بٹھانے اور ان کے مال جائداد کا مالک بن جانے اور پھر عزت و دولت کے اعتبار سے مختلف درجات میں رکھنے سے مقصد ہی یہ ہے کہ تمہاری آنکھیں کھلیں اور اس کا امتحان ہو کہ جو نعمتیں پچھلے لوگوں کو ہٹا کر تمہارے سپرد کی گئی ہیں، ان میں تمہارا عمل کیا ہوتا ہے، شکر گزاری اور فرمانبرداری کا یا ناشکری اور نافرمانی کا ؟- چھٹی آیت میں ان دونوں حالتوں کا انجام اس طرح بتلا دیا : (آیت) اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ” یعنی آپ کا رب نافرمانوں پر جلد عذاب بھیجنے والا ہے، اور فرمانبرداروں کے لئے غفور و رحیم ہے “۔- سورة انعام کا شروع حمد سے ہوا اور اختتام مغفرت پر، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حمد کی توفیق اور مغفرت سے سرفراز فرما دیں۔- حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة انعام مکمل ایک ہی دفعہ نازل ہوئی، اور اس شان کے ساتھ نازل ہوئی کہ ستر (70) ہزار فرشتے اس کے جلو میں تسبیح پڑھتے ہوئے آئے، اسی لئے حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ سورة انعام قرآن کریم کی افضل و اعلیٰ سورتوں میں سے ہے۔- بعض روایات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ یہ سورة جس مریض پر پڑھی جائے اللہ تعالیٰ اس کو شفاء دیتے ہیں۔- واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العلمین

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۝ ٠ ۡ ۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٦٥ ۧ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدراد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزالہ رفیع یعنی - بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٥) اسی رب نے گزشتہ قوموں کا تمہیں زمین میں جانشین کیا اور ایک دوسرے پر مال و دولت دے کر رتبہ بڑھایا تاکہ جو مال و دولت بطور خدام تمہیں دے ہیں اس کے ذریعے سے تمہاری آزمایش کرے کافر اور ناشکر گزار کو اللہ تعالیٰ جلد سزا دینے والا ہے اور وہ واقعی مومن مغفرت کرنے والا بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٥ (وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓءِفَ الْاَرْضِ ) - خلیفہ بنانا ایک تو اس مفہوم میں ہے کہ جو خلافت حضرت آدم (علیہ السلام) کو دی گئی تھی اس کا حصہ بالقوۃ ( ) تمام انسانوں کو ملا ہے ‘ اور جو بھی شخص اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہو کر اللہ کو اپنا حاکم اور بادشاہ مان لے تو وہ گویا اس کی خلافت کا حقدار ہوگیا۔ خَلآءِفَ الْاَرْضِکا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور ایک قوم کے بعد دوسری قوم آتی ہے اور انسانی وراثت نسل در نسل اور قوم در قوم منتقل ہوتی جاتی ہے۔ یہی فلسفہ اس سورة کی آیت ١٣٣ میں بھی بیان ہوا ہے۔ - (وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ) - اس دنیوی زندگی میں اللہ نے اپنی مشیت کے مطابق کسی کو علم دیا ہے ‘ کسی کو حکمت دی ہے ‘ کسی کو ذہانت میں فضیلت دی ہے ‘ کسی کو جسمانی طاقت میں برتری دی ہے ‘ کسی کو صحت جسمانی بہتر دی ہے اور کسی کو حسن جسمانی میں دوسروں پر فوقیت دی ہے۔ یعنی مختلف انداز میں اس نے ہر ایک کو اپنے فضل سے نوازا ہے اور مختلف انسانوں کے درجات و مراتب میں اپنی حکمت کے تحت فرق و تفاوت بھی برقرار رکھا ہے۔- (لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰٹکُمْ ط) ۔- یعنی دنیا کی تمام نعمتیں انسان کو بطور آزمائش دی جاتی ہیں۔ بَلَا ‘ یَبْلُوْ کے معنی ہیں آزمانا اور جانچنا۔ ابتلاء (بمعنی امتحان اور آزمائش) اسی سے باب افتعال ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :146 اس فقرہ میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں: ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں ، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے ، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود ، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر ، کسی کو زیادہ قوت کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم ، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں ۔ تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے ، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے ، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرف کیا ، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا ، اور کس حد تک اپنی قابلیت یا ناقابلیت کا ثبوت دیا ۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani