Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعرفونہ میں ضمیر کا مرجع رسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئیں تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔ فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اہل کتاب کا آپ کو پہچانا :۔ عرب میں یہ الفاظ بطور محاورہ بولے جاتے ہیں یعنی اگر کسی شخص کو کسی چیز کے متعلق پختہ یقین ہوتا تو کہتے کہ وہ اسے ایسے پہچانتا ہے جیسے اپنے بیٹے کو۔ یعنی جس طرح ایک باپ بچوں کے اجتماع میں اپنے بیٹے کو فوراً پہچان لیتا ہے بالکل اسی طرح اہل کتاب، اپنی کتاب میں مذکور نشانیوں کے مطابق نبی آخر الزماں کو پہچان چکے تھے کہ وہ فی الواقع وہی نبی ہے جس کی بشارات دی گئی ہیں پھر بھی اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجوہ دوسری ہیں مثلاً قومی عصبیت، اپنی اپنی سرداریوں اور گدیوں کا خاتمہ، حسد اور بغض وغیرہ یا یہ عقیدہ کہ موسوی شریعت قیامت تک کے لیے غیر متبدل ہے یا یہ کہ کوئی نبی بنی اسرائیل کے علاوہ آ ہی نہیں سکتا۔ جو کچھ بھی ہو یہ بہرحال اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ ۔۔ : یعنی یہود و نصاریٰ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے رسول ہونے میں کوئی شک نہیں، کیونکہ ان کی اپنی کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر موجود ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٤٦) ، سورة اعراف (١٥٧) اور سورة صف (٦) ۔- کفار مکہ نے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے آپ کی نبوت سے انکار کیا اور کہا کہ تورات و انجیل میں آپ کا کوئی ذکر نہیں۔ اس پر کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ اہل کتاب تو آپ کی نبوت کا انکار کر رہے ہیں، پھر آپ کی نبوت کی شہادت کون دیتا ہے ؟ اس کا جواب اس سے پہلی آیت میں دیا گیا ہے، اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب جھوٹ بولتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر تورات و انجیل میں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے سچا ہونے کو پورے یقین سے جانتے ہیں مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کر کے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رہے ہیں، ایسے لوگوں سے ایمان کی امید نہیں، ہاں جن لوگوں کے دلوں میں اخلاص ہے وہ ضرور ایمان لے آئیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخری آیت میں ان لوگوں کے اس قول کی تردید ہے کہ ہم نے یہود و نصاریٰ سے سب سے تحقیق کرلی، کوئی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی اور نبوت کی گواہی نہیں دیتا، اس کے متعلق ارشاد فرمایا : اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ یعنی یہود و نصاریٰ تو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا پہنچاتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔- وجہ یہ ہے کہ تورات و انجیل میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پورا حلیہ شریف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وطن اصلی پھر وطن ہجرت کا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عادات و اخلاق اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کارناموں کا ایسا تفصیلی ذکر ہے کہ اس کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی، بلکہ صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا ذکر نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے حالات کا مفصل تذکرہ تک تورات و انجیل میں موجود ہے، اس لئے اس کا کوئی امکان نہیں کہ جو شخص تورات و انجیل کو پڑھتا اور ان پر ایمان رکھتا ہو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پہچانے۔- اس جگہ حق تعالیٰ نے تشبیہ کے موقع پر یہ ارشاد فرمایا کہ جیسے لوگ اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ جیسے بچے اپنے ماں باپ کو پہچانتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ماں باپ کی پہچان اپنے بچوں کے لئے سب سے زیادہ تفصیلی اور یقینی ہوتی ہے، بچوں کے بدن کا ہر حصہ ماں باپ کے سامنے آتا رہتا ہے، وہ بچپن سے لے کر جوانی تک ان کے ہاتھوں اور گود میں پرورش پاتے ہیں، اس لئے وہ جتنا اپنی اولاد کو پہچان سکتے ہیں اتنا اولاد ان کو نہیں پہچان سکتی۔- حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو پہلے یہود میں داخل تھے، پھر مسلمان ہوگئے، حضرت فاروق اعظم (رض) نے ان سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خبر دی ہے کہ تم لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا پہچانتے ہو جیسے اپنی اولاد کو اس کی کیا وجہ ہے ؟ عبداللہ ابن سلام (رض) نے فرمایا کہ ہاں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اوصاف کے ساتھ جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تورات میں نازل فرمائے، اس لئے اس کا علم ہمیں یقینی اور قطعی طور پر ہے، بخلاف اپنی اولاد کے کہ اس میں شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری اولاد ہے بھی یا نہیں۔- حضرت زید بن سعنہ جو اہل کتاب میں سے ہیں انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تورات و انجیل کے بیان کردہ اوصاف ہی کے ذریعہ پہچانا تھا، صرف ایک وصف ایسا تھا جس کی ان کو پہلے تصدیق نہیں ہوسکی تھی، امتحان کے بعد تصدیق ہوئی، وہ یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غصہ پر غالب ہوگا، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر تجربہ کیا تو یہ صفت بھی پوری طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پائی اسی وقت مسلمان ہوگئے۔- آخر آیت میں فرمایا کہ یہ اہل کتاب جو پوری طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتے، یہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو برباد کر رہے اور خسارہ میں پڑ رہے ہیں، َالَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَہُمْ۝ ٠ۘ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٢٠ۧ- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠) جن حضرات کو ہم نے توریت کا علم دیا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے اوصاف اور تعریف کے ساتھ اپنے بیٹوں کی طرح جانتے ہیں اور جنہوں نے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کردیا ہے جیسا کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی وہ قرآن حکیم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمْ ٧)- یَعْرِفُوْنَہٗ کی ضمیر مفعولی دونوں طرف جاسکتی ہے ‘ قرآن کی طرف بھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھی۔ البتہ اس سے قبل یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ قرآن اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مل کر ہی بیّنہ بنتے ہیں ‘ یہ دونوں ایک وحدت اور ایک ہی حقیقت ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود قرآن مجسم ہیں۔ قرآن ایک انسانی شخصیت اور سیرت و کردار کا جامہ پہن لے تو وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جیسا کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تھا : کَانَ خُلُقُہُ الْقُرآنَ (١) یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت قرآن ہی تو ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :14 یعنی کتب آسمانی کا علم رکھنے والے اس حقیقت کو غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور خدائی میں کسی کا کچھ حصہ نہیں ہے ۔ جس طرح کسی کا بچہ بہت سے بچوں میں ملا جلا کھڑا ہو تو وہ الگ پہچان لے گا کہ اس کا بچہ کونسا ہے ، اسی طرح جو شخص کتاب الہٰی کا علم رکھتا ہو وہ الوہیت کے متعلق لوگوں کے بے شمار مختلف عقیدوں اور نظریوں کے درمیان بلا کسی شک و اشتباہ کے یہ پہچان لیتا ہے کہ ان میں سے امر حق کونسا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani