Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یہ بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر و عصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدہ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر و جرم کے راستے سے فوراً تائب ہوجائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] تخلیق کائنات کے مختلف نظریئے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور آخرت کے متعلق مختلف نظریات :۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق وحی سے بےنیاز ہو کر محض عقل و خرد سے کائنات کی تخلیق کی گتھی سلجھانے والے لوگ بھی ایک رائے پر متفق نہیں ہو سکے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ یہ کائنات مادہ سے بنی ہے۔ اور مادہ اور اتفاقات کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اصل چیز مادہ ہے اور وہی ازلی ابدی ہے۔ کائنات میں انسان کی وہی حیثیت ہے جو سمندر میں ایک بلبلہ کی ہے جو ہوا کی لہروں سے پیدا ہوتے اور پھر سمندر ہی میں مدغم ہوجاتے ہیں اسی طرح ہم پیدا ہوتے اور مرجاتے ہیں یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے بھی منکر اور آخرت کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو مادہ پرست یا دہریے یا نیچری کہتے ہیں۔ اہل کتاب حتیٰ کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ عقیدتا اور بعض عملاً نیچری ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ بعض فلاسفروں اور سائنسدانوں کا ہے جو اس کائنات اور اس کے مربوط و منظم نظام کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کسی کنٹرول کرنے والی ہستی کے بغیر کائنات کا نظام چلنا محال ہے لہذا کسی ایسی ہستی کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں جو اس کائنات کو وجود میں لائی اور اس کا نظام چلانے والی ہے اس طرح یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی پر ان کا ایمان نہیں ہوتا۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ دین کی پابندیوں سے آزاد رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا مذہب بہت حد تک انہی لوگوں سے ملتا جلتا ہے جو اللہ کے خالق ومالک ہونے کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی کے قائل نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا متبع قرار دیتے تھے۔ دیوی دیوتاؤں کی پوجا وہ دو وجہ سے کرتے تھے ایک یہ کہ ان کی دنیوی حاجات بر آئیں اور مشکلات دور ہوں اور دوسرے اس لیے کہ ان کے وسیلہ سے اللہ کا تقرب حاصل ہو۔ ایمان بالاخرت بھی چونکہ ایمان بالغیب کا ایک اہم جزو ہے لہذا اللہ کی ذات کو تسلیم کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کافر قرار دیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا۔۔ : یعنی زندگی بس وہی ہے جو دنیا میں ہم گزار رہے ہیں، کوئی آخرت نہیں، نہ کچھ ثواب و عذاب ہے، یہ محض لوگوں کو الّو بنانے کے لیے ڈھکوسلا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ، اس کا عطف عادوا پر ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ان کو دوبارہ بھی دنیا میں لوٹا دیا جائے تو پھر دنیا میں پہنچ کر یہی کہیں گے کہ ہم تو اس دنیا کی زندگی کے سوا کسی دوسری زندگی کو نہیں مانتے بس یہیں کی زندگی زندگی ہے، دوبارہ ہم کو زندہ نہیں کیا جائے گا۔- یہاں ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ جب قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کو اور پھر حساب کتاب و جزاء و سزاء کو آنکھوں سے دیکھ چکیں گے تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ پھر یہاں آکر اس کا انکار کردیں۔- جواب یہ ہے کہ انکار کرنے کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ واقع میں ان کو ان واقعات اور حقائق کا یقین نہ رہے، بلکہ جس طرح آج بہت سے کفار و مجرمین اسلامی حقائق کا پورا یقین رکھے ہوئے محض عناد سے انکار و تکذیب پر جمے ہوئے ہیں، اسی طرح یہ لوگ دنیا میں واپس آنے کے بعد قیام قیامت اور دوبارہ زندگی اور آخرت کے تمام حالات کا پورا یقین رکھنے کے باوجود محض شرارت اور عناد سے پھر تکذیب پر اتر آئیں گے جیسا کہ قرآن کریم نے اسی موجودہ زندگی میں بعض کفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے :- وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا - ” یعنی یہ لوگ ہماری آیات کا انکار تو کر رہے ہیں مگر ان کے دلوں میں اس کے حق ہونے کا پورا یقین ہے “۔- جیسے یہود کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے لوگ اپنے بیٹوں کا پہچانا کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ خالق کائنات اپنے علم ازلی سے جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ کہنا کہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو مومن صالح ہوجائیں گے بالکل جھوٹ اور فریب ہے، اگر ان کے کہنے کے مطابق دوبارہ دنیا کو پیدا کرکے ان کو اس میں چھوڑ دیا جائے تو یہ پھر وہی سب کچھ کریں گے جو پہلی زندگی میں کیا تھا۔- تفسیر مظہری میں بحوالہ طبرانی یہ روایت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل ہے کہ حساب کتاب کے وقت حق تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو میزان عدل کے پاس کھڑا کرکے فرما دیں گے کہ اپنی اولاد کے اعمال کا خود معائنہ کریں اور جس شخص کے اعمال صالحہ اس کے گناہوں سے ایک ذرہ بھی بڑھ جائیں تو اس کو آپ جنت میں پہنچا سکتے ہیں، اور حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں جہنم کے عذاب میں صرف اسی شخص کو داخل کروں گا، جس کے بارے میں میں جانتا ہوں، کہ وہ اگر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے، تو پھر بھی وہی حرکتیں کرے گا جو پہلے کر گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا اِنْ ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ۝ ٢٩- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٩) اور کفار مکہ کہتے ہیں کہ زندگی تو صرف دنیا ہی کی زندگی ہے، موت کے بعد کچھ نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (وَ قَالُوْٓا اِنْ ہِیَ الاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ) ۔- جیسے آج کل کفر و الحاد کے مختلف ہیں ‘ اس زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ آج ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو اللہ کو تو مانتے ہیں ‘ آخرت کو نہیں مانتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ لیکن رسالت کو نہیں مانتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل ملحد اور مادہ پرست ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور خود ہی اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں ‘ اور ہماری زندگی صرف یہی ہے ‘ مرنے کے بعد اٹھنے والا کوئی معاملہ نہیں۔ اسی طرح اس دور میں بھی کفر و شرک کے مختلف موجود تھے۔ قریش کے اکثر لوگ اور عرب کے بیشتر مشرکین اللہ کو مانتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے ‘ بعث بعد الموت کو بھی مانتے تھے ‘ لیکن اس کے ساتھ وہ دیوی دیوتاؤں کی سفارش اور شفاعت کے قائل تھے کہ ہمیں فلاں چھڑا لے گا ‘ فلاں بچا لے گا ‘ فلاں ہمارا حمایتی اور مدد گار ہوگا۔ لیکن ایک طبقہ ان میں بھی ایسا تھا جو کہتا تھا کہ زندگی بس یہی دنیا کی ہے ‘ اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ یہاں اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani