28۔ 1 بَلْ جو إِضْرَاب (یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لیے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں (1) ان کے لئے وہ کفر اور عناد و تکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکار کرتے تھے، جیسے وہاں بھی کہیں گے ما کنا مشرکین (ہم تو مشرک ہی نہ تھے (2) یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا۔ لیکن پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا (3) یا منافقین کا نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے (تفسیر ابن کثیر) ۔ 28۔ 2 یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔
[٣٢] یعنی ایسے دلائل جن سے حق واضح ہوتا تھا، ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کوئی ان دلائل کو سن بھی نہ سکے اور ان پر پردہ ہی پڑا رہے۔ وہ حق آج ظاہری صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو اور فرماں بردار بن کر رہنے کا جو وعدہ کریں گے وہ وعدہ چونکہ شوق ورغبت کی بنا پر نہ ہوگا بلکہ جہنم کے عذاب کو دیکھ کر اضطراری وعدہ ہوگا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کم بخت اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تو یہ بدبخت پھر بھی وہی کچھ کریں گے جو پہلے دنیا میں کرتے رہے۔ پھر یہ دنیا کی رنگینیوں میں منہمک ہو کر اللہ کی نافرمانیوں پر اتر آئیں گے اور اپنا وعدہ بھول جائیں گے جیسا کہ بسا اوقات مصائب اور بیماریوں میں پھنس کر انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا اور توبہ تائب کرتا ہے مگر اس مصیبت سے نجات پانے کے بعد جب چند دن عیش و آرام میں گزارتا ہے تو اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اس وقت کیا عہد و پیمان کیے تھے ؟
بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا۔۔ : اس سے پہلے ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) جس کفر و شرک اور نفاق کو وہ جھوٹی قسمیں کھا کر چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، اس کی حقیقت کھل جائے گی۔ بعض نے ” مِنْ قَبْلُ “ سے دنیا میں چھپانا مراد لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے، یا پھر اس سے کفار کے سردار مراد ہیں، یعنی وہ قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سچا ہونا جانتے تھے، مگر اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ قیامت کے دن یہ حقیقت ان کے پیروکاروں پر کھل جائے گی اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ ہمیں دھوکا دیتے رہے ہیں۔- وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ : یعنی پھر کفر و شرک اور نفاق کی راہ اختیار کریں گے، کیونکہ ان کی یہ آرزو ایمان لے آنے کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی طرح جہنم سے بچنے کے لیے ہے۔ - وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ : اس لیے آخرت میں اس آرزو کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے۔
دوسری آیت میں علیم وخبیر احکم الحاکمین نے ان کی اس گھبرائی ہوئی تمنا کا پول اس طرح کھولا کہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ جیسے ہمیشہ سے جھوٹ کے عادی تھے وہ اپنے اس قول اور تمنا میں بھی جھوٹے ہیں، اور بات اس کے سوا نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ جو حقائق ان کے سامنے لائے گئے تھے اور یہ لوگ ان کو جاننے پہچاننے کے باوجود محض ہٹ دھرمی سے یا دنیا کی طمع خام کی وجہ سے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیا کرتے تھے آج وہ سب ایک ایک کرکے ان کے سامنے آگئے، اللہ جل شانہ، کی یکتائی اور قدرت کاملہ کے مظاہر آنکھوں سے دیکھے، انبیاء (علیہم السلام) کی سچائی کا مشاہدہ کیا۔ آخرت میں دوبارہ زندہ ہونے کا مسئلہ جس کا ہمیشہ انکار رہتا تھا اب حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ جزاء و سزاء کا مظاہرہ دیکھا، دوزخ کا مشاہدہ کیا تو اب ان کے پاس کوئی حجت مخالفت کی باقی نہ رہی۔ اس لئے یوں ہی کہنے لگے کہ کاش ہم پھر دنیا میں واپس ہوجاتے، تو مومن ہو کر لوٹتے۔- لیکن ان کے پیدا کرنے والے علیم وخبیر مالک نے فرمایا کہ اب تو یہ ایسا کہہ رہے ہیں، لیکن بالفرض ان کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہ پھر اپنے اس قول وقرار کو بھول جائیں گے اور پھر سب کچھ وہی کریں گے جو پہلے کیا تھا، اور جن حرام چیزوں سے ان کو روکا گیا تھا یہ پھر ان میں مبتلا ہوجائیں گے، اس لئے ان کا یہ کہنا بھی ایک جھوٹ اور فریب ہے۔- ان کے اس قول کو جھوٹ فرمانا مآل کار کے لحاظ سے بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو اب وعدہ کر رہے ہیں کہ اگر دوبارہ دنیا میں لوٹائے جائیں تو تکذیب نہ کریں گے، مگر ایسا ہوگا نہیں، یہ وہاں جاکر پھر بھی تکذیب ہی کریں گے، اور اس کذب کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت بھی جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں سچے ارادہ سے نہیں بلکہ محض دفع الوقتی کے طور پر عذاب سے بچنے کے لئے کہہ رہے ہیں، دل میں اب بھی ان کا ارادہ نہیں۔
بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا كَانُوْا يُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ٠ۭ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ ٢٨- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔
(٢٨) بلکہ دنیا میں جو کفر وشرک کو چھپایا کرتے تھے، اس کا انجام اب ظاہر ہوگیا اور اگر ان کی خواہش کے مطابق ان کو دنیا میں بھیج دیا جائے تب بھی یہ کفر وشرک نہیں چھوڑیں گے اور ہرگز ایمان قبول نہیں کریں گے۔
آیت ٢٨ (بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ط) ۔- ایسا نہیں تھا کہ انہیں حقیقت کا علم نہیں تھا۔ حق پہلے ہی ان پر واضح تھا ‘ بات ان پر پوری طرح کھل چکی تھی ‘ لیکن اس وقت ان پر حسد ‘ بغض اور تکبر کے پردے پڑے ہوئے تھے۔- (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) ۔- دنیا میں جا کر پھر وہاں کے تقاضے سامنے آجائیں گے ‘ دنیا کے مال و دولت اور اولاد کی محبت اور دوسری نفسیاتی خواہشات پھر انہیں اسی راستے پر ڈال دیں گی۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :19 یعنی ان کا یہ قول درحقیقت عقل و فکر کے کسی صحیح فیصلے اور کسی حقیقی تبدیلی رائے کا نتیجہ نہ ہوگا بلکہ محض مشاہدہ حق کا نتیجہ ہوگا جس کے بعد ظاہر ہے کہ کوئی کٹے سے کٹا کافر بھی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا ۔