حق کے دشمن کو اس کے حال پر چھوڑئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو جھٹلانے نہ ماننے اور ایذائیں پہنچانے سے تنگ دل نہ ہوں ، فرماتا ہے کہ ہمیں ان کی حرکت خوب معلوم ہے ، آپ ان کی اس لغویت پر ملال نہ کرو ، کیا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ لگا لیں گے ؟ کہاں تک ان کے لئے حسرت و افسوس کریں گے؟ سمجھا دیجئے اور ان کا معاملہ سپرد الہ کیجئے ۔ یہ لوگ دراصل آپ کو جھوٹا نہیں جانتے بلکہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ۔ چنانجہ ابو جہل نے صاف کہا تھا کہ ہم تجھے نہیں جھٹلاتے لیکن تو جو لے کر آیا ہے اسے نہیں مانتے ، حکم کی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جہل کو حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے اس سے کہا کہ اس بےدین سے تو مصافحہ کرتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے خوب علم ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں ۔ ہم صرف خاندانی بنا پر ان کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے ۔ ہم نے آج تک نبی عبد عناف کی تابعداری نہیں کی ۔ الغرض حضور کو رسول اللہ مانتے ہوئے آپ کی فرمانبرداری سے بھاگتے تھے ، امام محمد بن اسحق رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ اس قصے کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابو جہل ، ابو سفیان ، صحر بن حرب ، اخنس بن شریق کا رات کے وقت پوشیدہ طور پر آن کر ایک دوسرے کی بےخبری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی قرآن سننا ہے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صبح تک قرآن سنا روشنی ذرا سی نمودار ہوئی تھی تو یہ واپس چلے ۔ اتفاقاً ایک چوک میں ایک دوسرے سے ملاقات ہو گئی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت یہاں کہاں؟ پھر ہر ایک دوسرے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ حضور سے قرآن سننے کے لئے چپ چاپ آ گئے تھے ۔ اب تینوں بیٹھ کر معاہدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ اگر اوروں کو خبر ہوئی اور وہ آئے تو وہ تو سچے پکے مسلمان ہو جائیں گے ۔ دوسری رات کو ہر ایک نے اپنے طور یہ گمان کر کے کہ کل رات کے وعدے کے مطابق وہ دونوں تو آئیں گے نہیں میں تنہا کیوں نہ جاؤں؟ میرے جانے کی کسے خبر ہو گی؟ اپنے گھر سے پچھلی رات کے اندھیرے اور سوفتے میں ہر ایک چلا اور ایک کونے میں دب کر اللہ کے نبی کی زبانی تلاوت قرآن کا مزہ لیتا رہا اور صبح کے وقت واپس چلا ۔ اتفاقاً آج بھی اسی جگہ تینوں کا میل ہو گیا ۔ ہر ایک نے ایک دوسرے کو بڑی ملامت کی بہت طعن ملامت کی اور نئے سرے سے عہد کیا کہ اب ایسی حرکت نہیں کریں گے ۔ لیکن تیسری شب پھر صبر نہ ہو سکا اور ہر ایک اسی طرح پوشیدہ طور پر پہنچا اور ہر ایک کو دوسرے کے آنے کا علم بھی ہو گیا ، پھر جمع ہو کر اپنے تئیں برا بھلا کہنے لگے اور بڑی سخت قسمیں کھا کر قول قرار کئے کہ اب ایسا نہیں کریں گے ۔ صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق کپڑے پہن کر تیار ہو کر ابو سفیان بن حرب کے پاس اس کے گھر میں گیا اور کہنے لگا اے ابو حنظلہ ایمان سے بتاؤ سچ سچ کہو جو قرآن تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا اس کی بابت تمہاری اپنی ذاتی رائے کیا ہے؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ سنو واللہ بہت سی آیتوں کے الفاظ معنی اور مطلب تو میں سمجھ گیا اور بہت سی آیتوں کو ان کی مراد کو میں جانتا ہی نہیں ۔ اخنس نے کہا واللہ یہی حال میرا بھی ہے ، اب یہاں سے اٹھ کر اخنس سیدھا ابو جہل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ابو الحکم تم سچ بتاؤ جو کچھ تم حضور سے سنتے ہو اس میں تمہارا خیال کیا ہے؟ اس نے کہا سن جو سنا ہے اسے تو ایک طرف رکھ دے بات یہ یہ کہ بنو عبد مناف اور ہم میں چشمک ہے وہ ہم سے اور ہم ان سے بڑھنا اور سبقت کرنا چاہتے ہیں اور مدت سے یہ رسہ کسی ہو رہی ہے ، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی یہی کیا ۔ انہوں نے عوام الناس کے ساتھ احسان و سلوک کئے تو ہم نے بھی اپنی تھیلیوں کے منہ کھول ڈالے گویا ہم کسی معاملہ میں ان سے کم نہیں رہے ، اب جبکہ برابر کی ٹکر چلی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم میں ایک نبی ہے ، سنو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے نہ تو ہم اس کی تصدیق کریں گے نہ مانیں گے ۔ اخنس مایوس ہو گیا اور اٹھ کر چل دیا ۔ اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر میں ہے کہ بدر والے دن اخنس بن شریق نے قبیلہ بنو زہرہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری قرابت کے ہیں تم ان کی ننہیال میں ہو تمہیں چاہئیے کہ اپنے بھانجے کی مدد کرو ، اگر وہ واقعی نبی ہے تو مقابلہ بےسود ہی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ ہے اور بالفرض نہ بھی ہو تو بھی وہ تمہارا ہے ، اچھا ٹھہرو دیکھو میں ابو الحکم ( یعنی ابو جہل ) سے بھی ملتا ہوں سنو اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم سلامتی کے ساتھ واپس چلے جاؤ گے اور اگر تمہاری قوم غالب آ گئی تو ان میں تو تم ہی ہو ، اسی دن سے اس کا نام اخنس ہوا اصل نام ابی تھا ، اب خنس تنہائی میں ابو جہل سے ملا اور کہنے لگا سچ بتا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے نزدیک سچے ہیں یا جھوٹے؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں دل کی بات مجھ سے نہ چھپانا ، اس نے کہا جب یہی بات ہے تو سو اللہ کی قسم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بالکل سچے اور یقینا صادق ہیں عمر بھر میں کسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں کبھی بھی آپ نے جھوٹ نہیں بولا ۔ ہمارا رکنے اور مخالفت کرنے کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ جب بنو قصی کے خاندان میں جھنڈے اور پھر یرے چلے گئے جب حج کے حاجیوں کے اور بیت اللہ شریف کے مہتمم و منتظم یہی ہو گئے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوت بھی اسی قبیلے میں چلی گئی تو اب اور قریشیوں کے لئے کون سی فضیلت باقی رہ گئی؟ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، پس آیات اللہ سے مراد ذات حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔ پھر دوبارہ تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب ایذاء رسانی وغیرہ پر صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا اور یقین مانئے کہ جس طرح انجام کار گزشہ نبیوں کا غلبہ رہا اور ان کے مخالفین تباہ و برباد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کو غالب کرے گا اور آپ کے مخالفین مغلوب ہوں گے ۔ دونوں جہان میں حقیقی بلندی آپ کی ہی ہو گی ۔ رب تو یہ بات فرما چکا ہے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ) 37 ۔ الصافات:171 ) یعنی ہم تو پہلے سے ہی یہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے رسولوں کو مدد دی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا اور آیت میں فرماتا ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ) 58 ۔ المجادلہ:21 ) اللہ تعالیٰ یہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ قوت ولا اور غلبہ والا ہے ، ان نبیوں کے اکثر قصے آپ کے سامنے بیان ہو چکے ہیں ان کے حالات آپ کو پہنچ چکے ہیں ، آپ خوب جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی نصرت و تائید ہوئی اور مخالفین پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی ، پھر فرماتا ہے اگر ان کی یہ بےرخی تجھ پر گراں گزرتی ہے اگر تجھ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ کھو دلے اور جو معجزہ یہ تجھ سے مانگتے ہیں لا دے یا تیرے بس میں ہو تو کوئی زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ان کی چاہت کی کوئی نشانی لے آ ۔ میں نے تجھے اتنی نشانیاں اس قدر معجزے دیئے ہیں کہ ایک اندھا بھی شک نہ کرسکے ۔ اب ان کی طلب معجزات محض مذاق ہے اور عناد و ضد ہے کوئی ضرورت نہیں کہ تو انہیں ان کی چاہت کے معجزے ہر وقت دیکھتا پھرے ، یا اگر وہ تیرے بس کے نہ ہوں تو غم کر کے رہو ، اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کر دیتا ، تجھے نادانوں میں نہ ملنا چاہیے جیسے اور روایت میں ہے کہ اگر رب چاہتا تو روئے زمین کی مخلوق کو مومن بنا دیتا ، آپ کی حرص تھی کہ سب لوگ ایماندار بن کر آپ کی تابعداری کریں تو رب نے فرما دیا کہ یہ سعادت جس کے حصے میں ہے توفیق کی اسی رفیق ہو گئی ۔ پھر فرمایا کہ آپ کی دعوت پر لبیک کہنا اسے نصیب ہو گی جو کان لگا کر آپ کے کام کو سنے سمجھے یاد رکھے اور دل میں جگہ دے ، جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ اسے آگاہ کرتا ہے جو زندگی ہو ، کفار پر تو کلمہ عذاب ثابت ہو چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھا کر بٹھائے گا پھر اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جائیں گے ۔ مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں کیونکہ وہ مردہ دل ہیں تو انہیں مردہ جسموں سے تشبیہ دی ۔ جس میں ان کی ذلت و خواری ظاہر ہوتی ہے ۔
33۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی طرف سے اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم و ملال پہنچتا اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جا رہا ہے کی یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو وہ صادق و امین مانتے ہیں) اصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اور یہ ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایت میں ہے کہ ابو جہل نے ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ترمذی کی یہ روایت اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت و دیانت اور صداقت کے قائل تھے لیکن اس کے باوجود وہ آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے آج بھی جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حسن اخلاق رفعت کردار اور امانت و صداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں اور اس موضوع پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ و قیاس اوراقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں انھیں سوچنا چاہئیے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے ؟
[٣٧] کفار مکہ آپ کی نہیں بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے تھے :۔ نبوت سے پہلے مشرکین مکہ آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے نبوت کے اعلان کے بعد بھی آپ کے کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی دنیوی معاملات میں آپ کو کبھی جھوٹا نہیں کہا۔ البتہ دین کے متعلق آپ جو کچھ کہتے تھے کافر اسے جھٹلاتے تھے۔ چناچہ ایک دفعہ خود ابو جہل نے رسول اللہ سے یہ بات کہی تھی کہ محمد ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو کچھ تم لائے ہو ہم اسے جھٹلاتے ہیں۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور اس جھٹلانے کی ایک بڑی وجہ قریش کی قبائلی عصبیت تھی۔ ابو جہل جو قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتا تھا ایک بار کہنے لگا ہم اور بنو عبد مناف (آل ہاشم) ہمیشہ حریف مقابل کی حیثیت سے رہے۔ انہوں نے مہمان نوازیاں کیں تو ہم نے بھی کیں۔ انہوں نے خون بہا دیئے تو ہم نے بھی دیئے۔ انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے بھی کیں یہاں تک کہ ہم نے ان کے کندھے سے کندھا ملا دیا۔ اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار بن بیٹھے ہیں۔ واللہ ہم اس پیغمبر پر کبھی ایمان نہیں لاسکتے۔ نہ ہی ہم اس کی تصدیق کریں گے۔ (ابن ہشام ص ١٠٨) گویا شخصی حیثیت سے قریش مکہ کو آپ سے کوئی شکایت نہ تھی۔ آپ سے مخالفت اور عداوت محض دین کی دعوت کی وجہ سے تھی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو تسلی دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ تمہاری تکذیب نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ ظالم ہماری اور ہماری آیات کی تکذیب کر رہے ہیں۔ آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ہم ان سے خود نمٹ لیں گے۔
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ ۔۔ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی قوم کے تمام لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے، لیکن جونہی آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور انھیں اللہ کی آیات سنانا شروع کیں تو ان میں سے اکثر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ کو ( نعوذ باللہ) جھوٹا قرار دینے لگے۔ ابو سفیان جو بدر، احد اور خندق کی جنگ کا باعث تھا، اس سے رومی بادشاہ ہرقل نے پوچھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جھوٹ بولا ہے، تو اس نے کافر ہونے کے باوجود جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں، وہ حقیقت میں آپ کو نہیں بلکہ ہماری آیات کو جھٹلا رہے ہیں، کیونکہ شخصی لحاظ سے تو آپ کو جھٹلا ہی نہیں سکتے، آپ کے نبوت سے پہلے کے چالیس سال اس کا ثبوت ہیں۔ ان سے مراد دراصل وہ کفار ہیں جو بشر کے نبی اور رسول ہونے کو محال سمجھتے تھے۔ (ابن کثیر، رازی)
خلاصہ تفسیر - کفار کے بیہودہ کلمات پر، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی - ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان ( کفار) کے اقوال مغموم کرتے ہیں سو (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غم میں نہ پڑئیے بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیجئے کیونکہ) یہ لوگ (براہ راست) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا نہیں کہتے، لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا (قصداً ) اکار کرتے ہیں، (گو اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب بھی لازم آتی ہے مگر ان کا اصل مقصود آیات اللہ کی تکذیب ہے، جیسا کہ ان میں بعض مثلاً ابو جہل اس کے اقراری بھی ہیں، اور جب ان کا اصل مقصد آیات اللہ کی تکذیب ہے تو ان کا یہ معاملہ خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوا، وہ خود ہی ان کو سمجھ لیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں غم میں مبتلا ہوں) اور (کفار کی یہ تکذیب کوئی نئی نہیں، بلکہ) بہت سے پیغمبر جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے، جس پر انہوں نے صبر ہی کیا کہ ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو (طرح طرح) کی ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچ گئی (جس سے مخالف مغلوب ہوگئے، اس وقت تک وہ صبر ہی کرتے رہے) اور (اسی طرح صبر کرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی امداد الٓہی پہنچے گی، کیونکہ) اللہ تعالیٰ کی باتوں (یعنی وعدوں) کو کوئی بدلنے والا نہیں (اور امداد کا وعدہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوچکا ہے، جیسا فرمایا لا غلبن انا ورسلی) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پیغمبروں کے بعض قصص (قرآن میں) پہنچ چکے ہیں (جن سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، کہ ابتدائی چند روزہ صبر کے بعد وہ اپنے رسولوں کو امداد بھیج دیتے ہیں، جس سے دنیا میں بھی حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل مغلوب ہوجاتا ہے، اور آخرت میں بھی ان کو عزت و فلاح ملتی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہونے والا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغموم نہ ہوں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چونکہ تمام انسانوں کے ساتھ شفقت و محبت انتہا کہ تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اس تسلی کے یہ چاہتے تھے کہ یہ مشرکین اگر موجودہ معجزات اور نبوت کے دلائل پر مطمئن ہو کر ایمان نہیں لاتے تو جس قسم کے معجزات کا یہ مطالبہ کرتے ہیں وہی معجزات واقع ہوجائیں۔ شاید ایمان لے آویں، اور اس اعتبار سے ان کا کفر دیکھ کر صبر نہ آتا تھا، اس لئے اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ بمقتضائے حکمت الٓہیہ ان کے فرمائشی معجزات واقع نہ کئے جاویں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاچندے صبر کریں، ان کے وقوع کی فکر میں نہ پڑیں، چناچہ فرمایا وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ اور اگر آپ کو (منکرین) کا اعراض (و انکار) گراں گزرتا ہے (اور اس لئے جی چاہتا ہے کہ ان کے فرمائشی معجزات ظاہر ہوجاویں) تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں (جانے کو) کوئی سرنگ یا آسمان میں (جانے کو) کوئی سیڑھی ڈھونڈھ لو (پھر اس کے ذریعہ زمین یا آسمان میں جاکر وہاں سے) معجزہ (فرمائشی معجزوں میں سے) لے آؤ تو (بہتر ہے آپ ایسا) کرلو (یعنی ہم تو ان کی یہ فرمائشیں بوجہ عدم ضرور اور بمقتضائے حکمت کے پوری نہیں کرتے، اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ مسلمان ہی ہوجاویں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اس کا انتظام کیجئے) اور اللہ کو (تکویناً ) منظور ہوتا تو ان سب کو راہ (راست) پر جمع کردیتا (لیکن چونکہ یہ خود ہی اپنا بھلا نہیں چاہتے اس لئے تکوینا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہوا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے) سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اس فکر کو چھوڑئیے اور) نادانوں میں سے نہ ہوجائیں (امر حق و ہدایت کو تو) وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو (حق بات کو طلب حق کے ارادہ سے) سنتے ہیں اور (اگر اس انکار و اعراض کی پوری سزا ان کو دنیا میں نہ ملی تو کیا ہوا آخر ایک دن) مردوں کو اللہ تعالیٰ قبروں سے زندہ کرکے اٹھاویں گے، پھر وہ سب اللہ ہی کی طرف (حساب کے لئے) لائے جاویں گے اور یہ (منکر) لوگ (براہ عناد) کہتے ہیں کہ اگر یہ نبی ہیں تو ان پر (ہمارے معجزات میں سے) کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں، لیکن ان میں اکثر (اس کے انجام سے) بیخبر ہیں، (اس لئے ایسی درخواست کر رہے ہیں، اور وہ انجام یہ ہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لاویں گے تو سب فوراً ہلاک کردیئے جاویں گے۔ لقولہ تعالیٰ (آیت) ولو انزلنا ملکا لقضی الامر، حاصل یہ ہے کہ ان کا فرمائشی معجزہ ظاہر کرنے کی ضرورت تو اس لئے نہیں کہ پہلے معجزات کافی ہیں، لقولہ تعالیٰ (آیت) اولم یکفہم الخ اور ہم جانتے ہی کہ فرمائشی معجزہ پر بھی ایمان نہ لاویں گے۔ جس سے فوری عذاب کے مستحق ہوجاویں گے اس لئے حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا فرمائشی معجزہ ظاہر نہ کیا جائے، اور آیت کے آخر میں فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ فرمانا محبت و شفقت کے طور پر ہے، لفظ جہالت عربی زبان میں اس معنی عام کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بخلاف اردو زبان کے، اس لئے اس کا ترجمہ لفظ جہل یا جہالت سے کرنا ادب کے خلاف ہے، اگلی آیات میں تنبیہ کے لئے قیامت اور تمام خلائق کے حشر کا ذکر ہے) اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر (خواہ خشکی میں یا پانی میں) چلنے والے ہیں اور جتنی قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ (قیامت کے دن زندہ ہو کر اٹھنے میں) تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں اور (گو یہ سب اپنی کثرت کی وجہ سے عرفاً بےانتہا ہوں، لیکن ہمارے حساب میں سب منضبط ہیں کیونکہ) ہم نے (اپنے) دفتر (لوح محفوظ) میں کوئی چیز (جو قیامت تک ہونے والی ہے بےلکھے) نہیں چھوڑی (اگرچہ اللہ تعالیٰ کو لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، ان کا علم ازلی اور محیط ہی کافی ہے لیکن لکھنے کے ذریعے منضبط کرلینا افہام عامہ کے قریب تر ہے) پھر (اس کے بعد اپنے وقت معین پر) سب (انسان اور جانور) اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جاویں گے (آگے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کا مضمون ہے) اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو (حق سننے سے) بہرے (جیسے) اور (حق کہنے سے) گونگے (جیسے) ہو رہے ہیں (اور اس کی وجہ سے) طرح طرح کی ظلمتوں میں (گرفتار) ہیں (کیونکہ ہر کفر ایک ظلمت ہے اور ان میں مختلف قسم کے کفر جمع ہیں پھر ان اقسام کفر کا بار بار تکرار الگ الگ ظلمتیں ہیں) اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں (بوجہ اعراض عن الحق کے) بےراہ کردیں اور وہ جس کو چاہیں (اپنے فضل سے) سیدھی راہ پر لگا دیں، آپ (ان مشرکین سے) کہئے کہ (اچھا) یہ تو بتاؤ کہ اگر تم پر خدا کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا (اس عذاب اور ہول قیامت کو ہٹانے کے واسطے) خدا کے سوا کسی اور کو پکاروگے اگر تم (شرک کے دعوے میں) سچے ہو (تو چاہئے اس وقت بھی غیر اللہ ہی کو پکارو لیکن ایسا ہرگز نہ ہوگا) بلکہ (اس وقت تو) خاص اسی کو پکارنے لگو پھر جس (آفت) کے (ہٹانے) کے لئے تم (اس کو) پکارو اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے (اور نہ چاہے تو نہ بھی ہٹاوے) اور جن کو تم (اب اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو (اس وقت) ان سب کو بھول بھال جاؤ۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت جو یہ فرمایا ہے فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ ، یعنی یہ کفار درحقیقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے ہیں، اس کا واقعہ تفسہر مظہری میں بروایت سُدّی یہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ کفار قریش کے دو سردار اخنس بن شریق اور ابوجہل کی ملاقات ہوئی تو اخنس نے ابوجہل سے پوچھا کہ اے ابو الحکم (عرب میں ابوجہل ابو الحکم کے نام سے پکارا جاتا تھا اسلام میں اس کے کفر وعناد کے سبب ابوجہل کا لقب دیا گیا) یہ تنہائی کا موقع ہے میرے اور تمہارے کلام کو کوئی تیسرا نہیں سن رہا ہے، مجھے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اپنا خیال صحیح صحیح بتلاؤ کہ ان کو سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا۔- ابوجہل نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں۔ انہوں نے عمر بھر میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، لیکن بات یہ ہے کہ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو قصی میں ساری خوبیاں اور کمالات جمع ہوجائیں باقی قریش خالی رہ جائیں اس کو ہم کیسے برداشت کریں ؟ جھنڈا بنی قصی کے ہاتھ میں ہے حرم میں حجاج کو پانی پلانے کی اہم خدمت ان کے ہاتھ میں ہے۔ بیت اللہ کی دربانی اور اس کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے، اب اگر نبوت بھی ہم انہی کے اندر تسلیم کرلیں تو باقی قریش کے پاس کیا رہ جائے گا۔- ایک دوسری روایت ناجیہ ابن کعب سے منقول ہے کہ ابوجہل نے ایک مرتبہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ کا کوئی گمان نہیں، اور نہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے ہیں، ہاں ہم اس کتاب یا دین کی تکذیب کرتے ہیں جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے ہیں (مظہری) ۔- ان روایات کی بناء پر آیت کو اپنے حقیقی مفہوم میں بھی لیا جاسکتا ہے کہ یہ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہیں بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور اس آیت کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کفار اگرچہ ظاہر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی تکذیب کرتے ہیں، مگر در حقیقت آپ کی تکذیب کا انجام خود اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کی تکذیب ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” جو شخص مجھے ایذاء پہنچاتا ہے وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچانے کے حکم میں ہے۔
قَدْنَعْلَمُ اِنَّہٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّہُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ يَجْحَدُوْنَ ٣٣- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - جحد - الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد .- ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد - وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔
(٣٣) اور حارث بن عامر اور اس کے ساتھیوں کی طعن وتکذیب اور دلائل نبوت کا مطالبہ آپ کو مغموم کرتا ہے اور یہ براہ راست آپ کی تکذیب نہیں کرتے، لیکن یہ مشرکین آیات خداوندی کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” قد نعلم انہ “۔ (الخ)- امام ترمذی (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ ابوجہل نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ اس چیز کی تکذیب کرتے ہیں جو آپ لے کر آئے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ ظالم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔
آیت ٣٣ (قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ ) - ہم جانتے ہیں کہ جو مطالبات یہ لوگ کر رہے ہیں ‘ آپ سے جو معجزات کا تقاضاکر رہے ہیں اس سے آپ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ آپ کی ذات گویا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آگئی ہے۔ ایک طرف اللہ کی مشیت ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کے تقاضے۔ اب اس کا پہلا جواب تو یہ ہے :- (فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ) ۔- یہ لوگ قرآن کا انکار کر رہے ہیں ‘ ہمارا انکار کر رہے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار انہوں نے کب کیا ہے ؟ یہاں سمجھانے کے اس انداز پر غور کیجیے کیا انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا کہا ؟ نہیں کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی تہمت انہوں نے لگائی ؟ نہیں لگائی لہٰذا یہ لوگ جو تکذیب کر رہے ہیں ‘ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب تو نہیں ہو رہی ‘ تکذیب تو ہماری ہو رہی ہے ‘ غصہ تو ہمیں آنا چاہیے ‘ ناراض تو ہمیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا کلام ہے اور یہ لوگ ہمارے کلام کو جھٹلا رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تو ہمارے کلام کو ان تک پہنچا دینا ہے۔ یہ سمجھانے کا ایک بڑا پیارا انداز ہے ‘ جیسے کوئی شفیق استاد اپنے شاگرد کو سمجھا رہا ہو۔ لیکن اب یہ بات درجہ بدرجہ آگے بڑھے گی۔ لہٰذا ان آیات کو پڑھتے ہوئے یہ اصول ذہن میں ضرور رکھئے کہ الرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی۔ اب اس ضمن میں دوسرا جواب ملاحظہ ہو :
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :21 واقعہ یہ ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی آیات سنانی شروع نہ کی تھیں ، آپ کی قوم کے سب لوگ آپ کو امین اور صادق سمجھتے تھے اور آپ کی راستبازی پر کامل اعتماد رکھتے تھے ۔ انہوں نے آپ کو جھٹلایا اس وقت جبکہ آپ نے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا شروع کیا ۔ اور اس دوسرے دور میں بھی ان کے اندر کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو شخصی حیثیت سے آپ کو جھوٹا قرار دینے کی جرأت کر سکتا ہو ۔ آپ کے کسی سخت سے سخت مخالف نے بھی کبھی آپ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ دنیا کے کسی معاملہ میں کبھی جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جتنی آپ کی تکذیب کی وہ محض نبی ہونے کی حیثیت سے کی ۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انا لا نکذبک ولکن نکذبُ ما جئت بہ ” ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے ، مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اسے جھوٹ قرار دیتے ہیں“ ۔ جنگ بدر کے موقع پر اَخْنَس بن شَرِیق نے تخلیہ میں ابو جہل سے پوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے ، سچ بتاؤ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا ؟ اس نے جواب دیا کہ ”خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک سچا آدمی ہے ، عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا ، مگر جب لِواء اور سقایت اور حجابت اور نبوت سب کچھ بنی قُصَیّ ہی کے حصہ میں آجائے تو بتاؤ باقی سارے قریش کے پاس کیا رہ گیا ؟“ اسی بنا پر یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلی دے رہا ہے کہ تکذیب دراصل تمہاری نہیں بلکہ ہماری کی جارہی ہے ، اور جب ہم تحمل و بردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پر ڈھیل دیے جاتے ہیں تو تم کیوں مضطرب ہوتے ہو ۔
9: یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اپنی ذات کے جھٹلانے سے اتنا زیادہ رنج نہ ہوتا، لیکن زیادہ رنج کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں۔ آیت کے یہ معنی الفاظ قرآن کے بھی زیادہ مطابق ہیں، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاج سے بھی زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔