سخت لوگ اور کثرت دولت مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تمام مخلوق اس کے آگے پست و لا چار ہے جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے ، اس کا کوئی ارادہ بدلتا نہیں ، اس کا کوئی حکم ٹلتا نہیں کوئی نہیں جو اس کی چاہت کے خلاف کر سکے یا اس کے حکم کو ٹال سکے یا اس کی قضا کو پھیر سکے وہ سارے ملک کا تنہا مالک ہے اس کی کسی بات میں کوئی سریک یا دخیل نہیں جو اسے مانگے وہ اسے دیتا ہے ، جس کی چاہے دعا قبول فرماتا ہے پس فرماتا ہے خود تمہیں بھی ان تمام باتوں کا علم و اقرار ہے یہی وجہ ہے کہ آسمانی سزاؤں کے آ پڑنے پر تم اپنے تمام شریکوں کو بھول جاتے ہو اور صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو ، اگر تم سچے ہو کہ اللہ کے ساتھ اس کے کچھ اور سریک بھی ہیں تو ایسے کٹھن موقعوں پر ان میں سے کسی کو کیوں نہیں پکارتے؟ بلکہ صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو اور اپنے تمام معبودان باطل کو بھول جاتے ہو ، چنانچہ اور آیت میں ہے کہ سمندر میں جب ضرر پہنچتا ہے تو اللہ کے سوا ہر ایک تمہاری یاد سے نکل جاتا ہے ، ہم نے اگلی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے پھر ان کے نہ ماننے پر ہم نے انہیں فقرو فاقہ میں تنگی ترشی میں بیماریوں اور دکھ درد میں مبتلا کر دیا کہ اب بھی وہ ہمارے سامنے گریہ و زاری کریں عاجزانہ طور پر ہمارے سامنے جھک جائیں ، ہم سے ڈر جائیں اور ہمارے دامن سے چمٹ جائیں ، پھر انہوں نے ہمارے عذابوں کے آ جانے کے بعد بھی ہمارے سامنے عاجزی کیوں نہ کی؟ مسکینی کیوں نہ جتائی ؟ بلکہ ان کے دل سخت ہو گئے ، شرک ، دشمنی ، ضد ، تعصب ، سرکشی ، نافرمانی وغیرہ کو شیطان نے انہیں بڑا حسن میں دکھایا اور یہ اس پر جمے رہے ، جب یہ لوگ ہماری باتوں کو فراموش کر گئے ہماری کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہمارے فرمان سے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھی انہیں ڈھیل دے دی کہ یہ اپنی برائیوں میں اور آگے نکل جائیں ، ہر طرح کی روزیاں اور زیادہ سے زیادہ مال انہیں دیتے رہے یہاں تک کہ مال اولاد و رزق وغیرہ کی وسعت پر وہ بھولنے لگے اور غفلت کے گہرے گڑھے میں اتر گئے تو ہم نے انہیں ناگہاں پکڑ لیا ، اس وقت وہ مایوس ہو گئے ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا صوفیانہ مقولہ ہے کہ جس نے کشادگی کے وقت اللہ تعالیٰ کی ڈھیل نہ سمجھی وہ محض بےعقل ہے اور جس نے تنگی کے وقت رب کی رحمت کی امید چھوڑ دی وہ بھی محض بیوقوف ہے ۔ پھر آپ اسی آیت کی تلاوت فرماتے ہیں رب کعبہ کی قسم ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی چاہتوں کو پوری ہوتے ہوئے دیکھ کر اللہ کو بھول جاتے ہیں اور پھر رب کی گرفت میں آ جاتے ہیں ، حضرت قتادہ کا فرمان ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کے فرمان سے سر تابی کرتی ہے تو اول تو انہیں دنیا خوب مل جاتی ہے جب وہ نعمتوں میں پڑ کر بد مست ہو جاتے ہیں تو اچانک پکڑ لئے جاتے ہیں لوگو اللہ کی ڈھیل کو سمجھ جایا کرو نافرمانیوں پر نعمتیں ملیں تو غافل ہو کر نافرمانیوں میں بڑھ نہ جاؤ ۔ اس لئے کہ یہ تو بدکار اور بےنصیب لوگوں کا کام ہے ، زہری فرماتے ہیں ہر چیز کے دروازے کھول دینے سے مراد دنیا میں آسائش و آرام کا دینا ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم دیکھو کہ کسی گنہگار شخص کو اس کی گنہگاری کے باوجود اللہ کی نعمتیں دنیا میں مل رہی ہیں تو اسے استدراج سمجھنا یعنی وہ ایک مہلت ہے ، پھر حضور نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے کہ جب کسی قوم کی بربادی کا وقت آ جاتا ہے تو ان پر خیانت کا دروازہ کھل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان دی گئی ہوئی چیزوں پر اترانے لگتے ہیں تو ہم انہیں ناگہاں پکڑ لیتے ہیں اور اس وقت وہ محض ناامید ہو جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ظالموں کی باگ ڈور کاٹ دی جاتی ہے ۔ تعریفوں کے لائق وہ معبود بر حق ہے جو سب کا پالنہار ہے ( مسند وغیرہ ) ۔
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَاب اللّٰهِ ۔۔ : اس مضمون کو بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٦٧) ، سورة زمر (٣٨) ، سورة مومنون (٨٤ تا ٨٩) ، سورة لقمان (٣٢) اور سورة یونس (٢٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے مشرکین کا طرز عمل بیان فرمایا، مطلب یہ ہے کہ توحید انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے، وہ ماحول کے اثر سے یا آباء و اجداد کی تقلید سے شرک میں گرفتار ہوتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر و نیاز بھی ان کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب آزمائش سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب کو بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے، پھر بےبس انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور صرف اسی ایک ذات کو پکارتا ہے جسے پکارنا چاہیے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی طرز عمل کو بطور ثبوت توحید کی دلیل کے طور پر بیان کیا، یعنی اگر اپنے اس دعویٰ میں کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ تم پر آئی ہوئی بلا ٹال سکتے ہیں تو یہ بتاؤ کہ اللہ کا عذاب آنے کی صورت میں، یا قیامت آنے پر بھی کیا تم غیر اللہ کو پکارو گے ؟ نہیں بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے، باقی مشکل کشا تمہیں بھول جائیں گے۔ یہ تو ان کفار و مشرکین کا حال تھا لیکن آج خود مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی فطرت اس قدر مسخ ہوچکی ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی فریاد کرتے ہیں تو اپنے کسی خود ساختہ داتا سے یا علی ( ) سے، یا شیخ عبد القادر جیلانی سے، انھیں غوث اعظم، یعنی سب سے بڑا مدد گار کہہ کر، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے، یا فاطمہ، حسین اور حسن (رض) سے۔ نعرے بھی ان سے مدد مانگنے کے الفاظ کے ساتھ لگاتے ہیں، جیسا کہ یا رسول اللہ، یا علی، یا غوث اعظم وغیرہ، گویا ان کی حالت عملی طور پر ان پہلے کفار و مشرکین سے بھی بدتر ہے۔
قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللہِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَۃُ اَغَيْرَ اللہِ تَدْعُوْنَ ٠ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٤٠- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔
(٤٠) اہل مکہ ذرا اپنی حالت تو بتاؤ کہ اگر تمہیں مثلا بدر، احد، احزاب کا سامان کرنا پڑجائے یا قیامت کا عذاب تم پر آجائے تو کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور اس عذاب کو ٹال دے گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ یہ بت سفارشی اور اللہ کی خدائی میں شریک ہیں تو اس بات کا جواب دو ۔
آیت ٤٠ (قُلْ اَرَءَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰٹکُمْ عَذَاب اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَج اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) - یہ بھی متجسسانہ ) ( انداز میں ان سے سوال کیا جا رہا ہے۔ یہ ان کا معمول بھی تھا اور مشاہدہ بھی ‘ کہ جب بھی کبھی کوئی مصیبت آتی ‘ سمندر میں سفر کے دوران کبھی طوفان آجاتا ‘ موت سامنے نظر آنے لگتی تو پھر لات ‘ منات ‘ عزیٰ ‘ ہُبل وغیرہ میں سے کوئی بھی دوسراخدا انہیں یاد نہ رہتا۔ ایسے مشکل وقت میں وہ صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ چناچہ خود ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ہر شخص ذرا اپنے دل سے پوچھے ‘ کہ آخر مصیبت کے وقت ہمیں ایک اللہ ہی کیوں یاد آتا ہے ؟ گویا ایک اللہ کو ماننا اور اس پر ایمان رکھنا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ کسی شخص میں شرافت کی کچھ بھی رمق موجود ہو تو اس طرح کے سوالات کے جواب میں اس کا دل ضرور گواہی دیتا ہے کہ ہاں بات تو ٹھیک ہے ‘ ایسے مواقع پر ہماری اندرونی کیفیت بالکل ایسی ہی ہوتی ہے اور بےاختیار اللہ ہی کا نام زبان پر آتا ہے۔