Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 اَرَءَیْتَکُمْ میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہے اس کے معنی اخبرونی (مجھے بتلاؤ یا خبر دو ) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے (دیکھئے سورة ء بقرہ آیت 561 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسان ماحول، یا آباؤ اجداد کی مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے۔ نذر نیاز بھی انھی کے نام نکالتا ہے لیکن جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بےاختیار پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیئے۔ کاش لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] عکرمہ بن ابو جہل کا اسلام لانا :۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ مصیبت کے وقت اور بالخصوص جب ان کا جہاز طوفان کی زد میں آجاتا تو اپنے معبودوں کو پکارنا شروع کردیتے پھر جب وہ مصیبت نہ ٹلتی اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی تو کہتے اب صرف ایک اللہ ہی کو پکارو۔ ان کی اسی عادت کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے اور ایک انسان کو ہدایت کی راہ پانے کے لیے یہی ایک بات کافی ہے۔ چناچہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل اس خیال سے مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ مفتوحین سے پتہ نہیں کیسا سلوک کیا جائے گا۔ جدہ پہنچے اور وہاں سے کشتی پر سوار ہو کر حبشہ کی راہ لی۔ راستہ میں کشتی طوفان میں گھر گئی تو مشرکوں نے اپنی عادت کے مطابق اپنے دیوی دیوتاؤں کو پکارنا شروع کردیا طوفان بڑھتا ہی گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کشتی اب ڈوبی کہ ڈوبی۔- خ مصیبت میں صرف اللہ ہی کام آتا ہے ؟ اس وقت مشرک کہنے لگے : اب صرف اللہ ہی کو پکارو۔ وہی ہمیں اس مصیبت سے اور موت سے نجات دے سکتا ہے۔ ایسے نازک وقت میں یہ جملہ سن کر عکرمہ کی آنکھیں کھل گئیں وہ سوچنے لگے کہ اگر سمندر میں مصیبت کے وقت اللہ ہی کام آتا ہے تو خشکی میں بھی اللہ ہی کام آنا چاہیے۔ وہ سوچنے لگے کہ بیس سال ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی بات پر لڑتے رہے وہ کہتے تھے مصیبت میں کام آنے والا صرف اللہ ہے اور تمہارے معبود نہ تمہار کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں چناچہ اس نے عہد کیا کہ اگر آج زندگی بچ گئی تو سیدھا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر ان کی بیعت کرلوں گا۔ اللہ کا کرنا ہوا کہ طوفان تھم گیا اور کشتی والوں کی زندگیاں بچ گئیں۔ عکرمہ واپس آگئے اور آ کر اسلام قبول کرلیا اور باقی عمر خدمت اسلام میں صرف کردی۔ - خ حق پرستی کا جذبہ انسان میں موجود ہے :۔ یہ بات صرف عکرمہ تک ہی محدود نہیں بلکہ جب موت سامنے نظر آنے لگتی ہے تو دہریہ قسم کے لوگوں کی زبان پر بھی بےاختیار اللہ کا نام آجاتا ہے اور اسے فریاد کے طور پر پکارنے لگتے ہیں۔ جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ انسان خواہ کتنی ہی ضد اور ہٹ دھرمی کرتا رہے اس کے اندر فطری طور پر حق پرستی کا داعیہ رکھ دیا گیا ہے وہ آڑے وقتوں میں بےاختیار کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلْ اِيَّاہُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَيْہِ اِنْ شَاۗءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۝ ٤١ۧ- كشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17]- ( ک ش ف ) الکشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ - نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١) بلکہ تم تو اس وقت خاص اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو گے تاکہ تم سے عذاب دور ہو اور ہرگز انکو نہیں پکارو گے لہٰذا جن بتوں کو تم شریک ٹھہراتے ہو، ان سب کو بھلا دو ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :29 گزشتہ آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ تم ایک نشانی کا مطالبہ کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں ۔ اس سلسلہ میں پہلے مثال کے طور پر حیوانات کی زندگی کے مشاہدہ کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ اس کے بعد اب ایک دوسری نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جارہا ہے جو خود منکرین حق کے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ جب انسان پر کوئی آفت آجاتی ہے ، یا موت اپنی بھیانک صورت کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہے ، اس وقت ایک خدا کے دامن کے سوا کوئی دوسری پناہ گاہ اسے نظر نہیں آتی ۔ بڑے بڑے مشرک ایسے موقع پر اپنے معبودوں کو بھول کر خداے واحد کو پکارنے لگتے ہیں ۔ کٹے سے کٹا دہریہ تک خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔ اسی نشانی کو یہاں حق نمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا پرستی اور توحید کی شہادت ہر انسان کے نفس میں موجود ہے جس پر غفلت و جہالت کے خواہ کتنے ہی پردے ڈال دیے گئے ہوں ، مگر پھر بھی کبھی نہ کبھی وہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ ابوجہل کے بیٹے عِکْرِمہ کو اسی نشانی کے مشاہدے سے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی ۔ جب مکہ معظمہ نبی صلی علیہ وسلم کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو عِکْرِمہ جدہ کی طرف بھاگے اور ایک کشتی پر سوار ہو کر حبش کی راہ لی ۔ راستہ میں سخت طوفان آیا اور کشتی خطرہ میں پڑگئی ۔ اول اول تو دیویوں اور دیوتاؤں کو پکارا جاتا رہا ۔ مگر جب طوفان کی شدت بڑھی اور مسافروں کو یقین ہو گیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی تو سب کہنے لگے کہ یہ وقت اللہ کے سوا کسی کو پکارنے کا نہیں ہے ، وہی چاہے تو ہم بچ سکتے ہیں ۔ اس وقت عِکْرِمہ کی آنکھیں کھلیں اور ان کے دل نے آواز دی کہ اگر یہاں اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تو کہیں اور کیوں ہو ۔ یہی تو وہ بات ہے جو اللہ کا وہ نیک بندہ ہمیں بیس برس سے سمجھا رہا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس سے لڑ رہے ہیں ۔ یہ عِکْرِمہ کی زندگی میں فیصلہ کن لمحہ تھا ۔ انہوں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر میں اس طوفان سے بچ گیا تو سیدھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اور بعد میں آکر نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اپنی بقیہ عمر اسلام کے لیے جہاد کرتے گزار دی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: عرب کے مشرکین یہ مانتے تھے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؛ لیکن ساتھ ہی ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس کی خدائی میں دوسرے بہت سے دیوتا اس طرح شریک ہیں کہ خدائی کے بہت سے اختیارات ان کو حاصل ہیں، اب ہوتا یہ تھا کہ ان دیوتاؤں کو خوش رکھنے کی نیت سے ان کی پرستش کرتے رہتے تھے مگر جب کوئی ناگہانی آفت آپڑتی تھی مثلاً سمندر میں سفر کرتے ہوئے پہاڑ جیسی موجوں میں گھر جاتے تھے تواپنے گھڑے ہوئے دیوتاؤں کے بجائے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے، یہاں ان کی اس عادت کے حوالے سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ جب دنیا کی ان مصیبتوں میں تم اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو تو اگر کوئی بڑا عذاب آجائے قیامت ہی آکھڑی ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کو پکاروگے۔