Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ ۔۔ : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر فرمایا ہے جن کے دل ایسے سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے بداعمال کو ان کے لیے ایسا خوبصورت بنادیا کہ وہ اللہ کا عذاب آنے پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے دنیاوی اسباب ہی کو اس عذاب کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔ حالانکہ مصائب و آفات بھیجنے کا مقصد لوگوں کو اپنی روش سے باز آنے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ اس موقع کو بھی گنوا دیتے ہیں۔ کیا آج کل ہم مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال نہیں ہوگیا کہ جب کوئی جنگ یا قحط یا سیلاب یا زلزلہ یا کوئی دوسری اجتماعی آفت ہم پر نازل ہوتی ہے تو ہم میں سے کئی افراد اسے محض مادی اسباب کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور سزا سمجھنے کو جہالت اور بےوقوفی قرار دیتے ہیں، خصوصاً منکرین حدیث اور کفار سے مرعوب لوگوں کا یہی حال ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلی امتوں کی طرف بھی پیغمبر بھیجے تھے (مگر انہوں نے ان کو نہ مانا) تو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وہ ڈھیلے پڑجاویں (اور اپنے کفر و معصیت سے توبہ کرلیں) سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی وہ ڈھیلے کیوں نہ پڑے (کہ ان کا جرم معاف ہوجاتا) لیکن ان کے قلوب تو (ویسے ہی) سخت (کے سخت) رہے، اور شیطان ان کے اعمال بد کو ان کے خیال میں (بدستور) آراستہ (و مستحسن) کرکے دکھاتا رہا۔ پھر جب وہ لوگ (بدستور) ان چیزوں کو بھولے (اور چھوڑے) رہے، جن کی ان کو (پیغمبروں کی طرف سے) نصیحت کی جاتی تھی (یعنی ایمان و اطاعت) تو تم نے ان پر (عیش و عشرت کی) ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے (اور غفلت و سستی میں ان کا کفر اور بڑھ گیا، اس وقت) ہم نے ان کو دفعةً (بےگمان عذاب میں) پکڑ لیا (اور عذاب شدید نازل کیا جس کا ذکر قرآن میں جابجا آیا ہے) پھر (اس عذاب سے) ظالم لوگوں کی جڑ (تک) کٹ گئی اور اللہ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے (کہ ایسے ظالموں کا پاپ کٹا جن کی وجہ سے دنیا میں نحوست پھیلی تھی) ۔- معارف ومسائل - آیات مذکورہ میں شرک و کفر کا ابطال اور توحید کا اثبات ایک خاص انداز میں کیا گیا ہے کہ پہلے مشرکین مکہ سے سوال کیا گیا کہ اگر تم پر آج کوئی مصیبت آپڑے، مثلاً خدا تعالیٰ کا عذاب اسی دنیا میں تم پر آجائے، یا موت یا قیامت کا ہولناک ہنگامہ برپا ہوجائے، تو اپنے دلوں میں غور کرکے بتلاؤ کہ تم اس وقت اپنی مصیبت کو دور کرنے کے لئے کس کو پکارو گے اور کس سے امید رکھو گے کہ وہ تمہیں عذاب اور مصیبت سے نجات دلائے، کیا یہ پتھر کے خود تراشیدہ بت یا مخلوق میں سے دوسرے لوگ جن کو تم نے خدا تعالیٰ کی حیثیت دے رکھی ہے، اس وقت تمہارے کام آئیں گے ؟ اور تم ان سے فریاد کرو گے یا صرف ایک اللہ جل شانہ، کو ہی اس وقت پکارو گے۔- اس کا جواب کسی ذی ہوش انسان کی طرف سے بجز اس کے ہو ہی نہیں سکتا جو خود حق تعالیٰ نے ان کی طرف سے ذکر فرمایا کہ اس عام مصیبت کے وقت بڑے سے بڑا مشرک بھی سب بتوں اور خود تراشیدہ معبودوں کو بھول جائے گا، اور صرف خدا تعالیٰ کو پکارے گا، تو اب نتیجہ ظاہر ہے کہ یہ تمہارے بت اور وہ معبود جن کو تم نے خدا تعالیٰ کی حیثیت دے رکھی ہے اور ان کو ہی اپنا مشکل کشا اور حاجت روا جانتے اور کہتے ہو جب اس بڑی مصیبت کے وقت تمہارے کام نہ آئے اور تمہیں یہ جرأت و ہمت بھی نہ ہوسکی کہ ان کو اپنی امداد کے لئے بلاؤ، تو پھر ان کی عبادت اور ان کی مشکل کشائی کس دن کام آئے گی۔- یہ مضمون سابقہ آیات کا خلاصہ ہے، ان میں بطور فرض کے یہ بتلایا گیا کہ تمہارے کفر و شرک اور نافرمانی کی سزا میں تم پر اسی دنیا کی زندگی میں بھی عذاب آسکتا ہے، اور بالفرض زندگی میں عذاب نہ آیا تو قیامت کا آنا تو یقینی ہے، جہاں انسان کے سب اعمال و افعال کا جائزہ لیا جائے گا، اور جزاء و سزا کے احکام نافذ ہوں گے۔- یہاں قیامت سے مراد متعارف معنی قیامت کے بھی ہوسکتے ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ ساعت سے اس جگہ قیامت صغریٰ مراد ہو جو ہر انسان کی موت پر قائم ہوجاتی ہے جیسا کہ معروف ہے کہ من مات فقل قامت قیامتہ، ” یعنی جو شخص مرگیا اس کی قیامت تو آج ہی قائم ہوگئی “۔ کیونکہ قیامت کے حساب و کتاب کا ابتدائی نمونہ بھی قبر و برزخ میں سامنے آجائے گا اور وہاں کی جزاء و سزاء کے نمونے بھی یہیں سے شروع ہوجائیں گے۔- حاصل یہ ہے کہ نافرمانی کرنے والوں کو ان آیات میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنی اس نافرمانی کے ساتھ بےفکر ہو کر مت بیٹھو، ہوسکتا ہے کہ اسی دنیا کی زندگی میں تم پر اللہ تعالیٰ کا کوئی عذاب آجائے، جیسا پچھلی امتوں پر آیا ہے، اور یہ بھی نہ ہو تو پھر موت یا قیامت کے بعد کا حساب تو یقینی ہے۔- لیکن اپنی زندگی کے محدود اوقات اور اس میں پیش آنے والے نہایت محدود تجربات پر پوری دنیا اور پورے عالم کو قیاس کونے والے انسان کی طبیعت ایسی چیزوں میں حیلہ جو ہوتی ہے وہ انبیاء (علیہم السلام) کے انزار اور تنبیہات کو موہوم خیالات کہہ کر ٹال جاتے ہیں، خصوصاً جب کہ ایسے حالات بھی ہر زمانہ میں سامنے آتے ہیں کہ یہت سے لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کھلی نافرمانیوں کے باوجود پھول پھل رہے ہیں، دنیا میں مال و دولت، عزت و شوکت سب کچھ ان کو حاصل ہے، ایک طرف یہ مشاہدہ اور دوسری طرف اللہ کے پیغمبر کی یہ تخویف کہ نافرمانی کرنے والوں پر عذاب آیا کرتے ہیں، جب ان دونوں کو ملا کر دیکھتے ہیں تو ان کی حیلہ جو طبیعت اور شیطان ان کو یہی سکھاتا ہے کہ پیغمبر کا قول ایک فریب یا موہوم خیال ہے۔- اس کے جواب کے لئے مذکور الصدر آیات میں حق تعالیٰ نے پچھلی امتوں کے واقعات اور ان پر جاری ہونے والا قانون قدرت بیان فرمایا ہے، ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ ” یعنی ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی اپنے رسول دوسری امتوں کی طرف بھیجے، اور دو طرح سے ان کا امتحان لیا گیا، اول کچھ سختی اور تکلیف ان پر ڈال کر یہ دیکھا گیا کہ تکلیف و مصیبت سے گھبرا کر بھی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا نہیں، جب وہ اس میں فیل ہوئے اور بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے اور سرکشی سے باز آنے کے وہ زیادہ اس میں منہمک ہوگئے، تو اب ان کا دوسری قسم کا امتحان لیا گیا کہ ان پر دنیوی عیش و راحت کے دروازے کھول دئیے گئے، اور حیات دنیا سے متعلق ان کو سب کچھ دے دیا گیا کہ شاید یہ لوگ نعمتوں کو دیکھ کر اپنے منعم اور محسن کو پہچانیں۔ اور اس طرح ان کو خدا یاد آجائے، لیکن وہ اس امتحان میں بھی ناکام ثابت ہوئے۔ اپنے محسن و منعم کو پہچاننے اور اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے وہ عیش و عشرت کی بھول بھلیاں میں ایسے کھوئے گئے کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغامات وتعلیمات کو یکسر بھلا بیٹھے، اور چند روزہ عیش میں بدمست ہوگئے تو دونوں طرح کے امتحان و آزمائش میں ناکام رہنے کے بعد ان پر ہر طرح کی حجت تمام ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں دفعةً پکڑ لئے گئے، اور ایسے نیست و نابود کردیے گئے کہ ان کا سلسلہ نسل بھی باقی نہ رہا، یہ عذاب پچھلی امتوں پر اکثر اس طرح آیا کہ کبھی آسمان سے کبھی زمین سے کبھی کسی دوسری صورت سے ایک عذاب عام آیا اور پوری قوم کی قوم اس میں بھسم ہو کر رہ گئی۔ نوح (علیہ السلام) کی پوری قوم کو پانی کے ایسے طوفان عام نے گھیر لیا جس سے پہاڑوں کی چوٹیاں بھی محفوظ نہ رہ سکیں، قوم عاد پر ہوا کا شدید طوفان آٹھ دن تک مسلسل رہا جس سے ان کا کوئی فرد باقی نہ بچا۔ قوم ثمود کو ایک خوفناک آواز کے ذریعہ تباہ کردیا گیا۔ قوم لوط (علیہ السلام) کی پوری بستی کو الٹ دیا گیا جو آج تک اردن کے علاقہ میں ایک عجیب قسم کے پانی کی صورت میں موجود ہے، جس میں کوئی جانور مینڈک مچھلی وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتی، اسی لئے اس کو بحر میّت کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، اور بحر لوط کے نام سے بھی۔- غرض پچھلی امتوں کی نافرمانیوں کی سزا اکثر تو ان مختلف قسم کے عذاب کی شکل میں آئی جس میں بیک وقت پوری قوم تباہ و برباد ہوگئی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ بظاہر طبعی موت مرگئے اور آگے کوئی ان کا نام لینے والا بھی باقی نہ رہا۔ - آیت مذکورہ میں یہ بھی بتلا دیا کہ اللہ رب العالمین کسی قوم پر عذاب عام دفعةً نہیں بھیجتے بلکہ بطور تنبیہ کے تھوڑی تھوڑی سزائیں نازل فرماتے ہیں، جن کے ذریعہ سعید و نیک بخت لوگ اپنی غفلت سے باز آکر صحیح راستہ پر لگ سکیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جو تکلیف اور مصیبت دنیا میں بطور سزا کے دی جاتی ہے اس کی صورت اگرچہ سزاء کی ہوتی ہے لیکن حقیقت اس کی بھی سزا نہیں ہوتی، بلکہ غفلت سے چونکانے اور بیدار کرنے کے لئے ہوتی ہے، جو عین تقاضائے رحمت ہے۔ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے) (آیت) ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون، ” یعنی ہم ان کو عذاب اکبر چکھانے سے پہلے ایک عذاب ادنیٰ چکھاتے ہیں تاکہ وہ اب بھی حقیقت کو سمجھ کر اپنے غلط راستہ سے باز آجائیں “۔- انہی آیات سے یہ شبہ بھی دور ہوگیا کہ یہ دنیا تو دار الجزاء نہیں بلکہ دار العمل ہے، یہاں تو نیک و بد اور خیر و شر ایک ہی پلے میں تلتے ہیں، بلکہ بد نیکوں سے اچھے رہتے ہیں، پھر اس دنیا میں سزا جاری ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ جواب واضح ہے کہ اصل جزاء و سزاء تو اسی روز قیامت میں ہوگی، جس کا نام ہی یوم الدین یعنی روز جزاء ہے، لیکن کچھ تکلیفیں بطور نمونہ عذاب کے، اور کچھ راحتیں بطور نمونہ ثواب کے اس دنیا میں بمقتضائے رحمت بھیج دی جاتی ہیں اور بعض عارفین نے تو یہ فرمایا ہے کہ دنیا کی جتنی لذتیں اور راحتیں ہیں، وہ بھی سب نمونہ ہیں۔ جنت کی راحتوں کا، تاکہ انسان کو ان کی طرف رغبت پیدا ہو، اور جتنی تکالیف، پریشانیاں، رنج و غم اس دنیا میں ہیں وہ بھی سب کے سب نمونہ ہیں عذاب آخرت کے، تاکہ انسان کو ان سے بچنے کا اہتمام پیدا ہو، ورنہ بغیر کسی نمونہ کے نہ کسی چیز کی طرف کسی کو رغبت دلائی جاسکتی ہے اور نہ کسی چیز سے ڈرایا جاسکتا ہے۔- الغرض دنیا کی راحت و کلفت در حقیقت سزاء و جزاء کے نمونے ہیں، اور یہ پوری دنیا آخرت کا شو روم ہے جس میں تاجر اپنے مال کے نمونے دکھانے کے لئے دکان کے سامنے لگاتا ہے، کہ ان کو دیکھ کر خریدار کو رغبت پیدا ہو، معلوم ہوا کہ دنیا کا رنج و راحت در حقیقت سزاء و جزاء نہیں بلکہ خالق سے کٹی ہوئی مخلوق کا رشتہ پھر اپنے خالق سے جوڑنے کی ایک تدبیر ہے - خلق رابا تو چنیں بدخوکنند - تاترا نا چار روآں سو کنند - خود آیت مذکورہ کے آخر میں بھی اس حکمت کا ذکر لعلہم یتضرعون کے جملہ میں فرمایا گیا ہے، یعنی ہم نے ان پر جو محنت و مصیبت دنیا میں ڈالی اس کا منشاء درحقیقت عذاب دینا نہ تھا بلکہ یہ تھا کہ مصیبت میں طبعی طور پر شخص کو خدا یاد آیا کرتا ہے، اس لئے اس محنت میں ڈال کر اپنی طرف متوجہ کرنا مقصود تھا، اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں جو تکلیف و مصیبت بطور عذاب کے بھی کسی شخص یا جماعت پر آتی ہے اس میں بھی ایک پہلو سے رحمت الٓہی کار فرما ہوتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّہُمْ يَتَضَرَّعُوْنَ۝ ٤٢- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- سراء، ضراء - والنعماء والضراء قيل انها مصادر بمعنی المسرة والنعمة والمضرة والصواب انها أسماء للمصادر ولیست أنفسها فالسراء الرخاء والنعماء النعمة والضراء الشدة فهي أسماء لهذه المعاني فإذا قلنا إنها مصادر کانت عبارة عن نفس الفعل الذي هو المعنی وإذا کانت أسماء لها کانت عبارة عن المحصّل لهذه المعاني .- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- ضرع - الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ :- أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ- [ الأنعام 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ.- ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢۔ ٤٣) جیسا کہ آپ کو آپ کی قوم کی طرف ہم نے بھیجا، چناچہ جو ایمان نہیں لائے تو ان میں سے بعض کو بعض کا خوف دلا کر اور مصیبتوں اور بیماریوں، تکالیف اور آزمائشوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ اللہ کے حضور دعا کریں اور ایمان لائیں کہ پھر ان سے عذاب کو دور کیا جائے تو پھر کیوں نہیں وہ ہمارے عذاب پر ایمان قبول کرتے لیکن ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دل سخت ہوگئے تو دنیا کی حالت یہی ہے کبھی سختی تو پھر کبھی خوشحالی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلآی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ) - یہاں رسولوں کے بارے میں ایک اہم قانون بیان ہو رہا ہے (واضح رہے کہ یہاں انبیاء نہیں بلکہ رسول مراد ہیں۔ ) جب بھی کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جاتا تھا تو اس قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوٹے چھوٹے عذاب آتے تھے ‘ لیکن اگر وہ قوم اس کے باوجود بھی نہ سنبھلتی اور اپنے رسول پر ایمان نہ لاتی ‘ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رسّی ڈھیلی کردی جاتی تھی ‘ تاکہ جو چند دن کی مہلت ہے اس میں وہ خوب دل کھول کر من مانیاں کرلیں۔ پھر اچانک اللہ کا بڑا عذاب ان کو آ پکڑتا تھا جس سے وہ قوم نیست و نابود کردی جاتی تھی۔ یہ مضمون اصل میں سورة الاعراف کا عمود ہے اور وہاں بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani