5۔ 1 یعنی اس نکتہ چینی اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استھزا نہ کرتے۔
[٥] حق سے کیا مراد ہے ؟ حق سے مراد قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے اور رسول اللہ کی ذات بھی۔ ان دونوں کا دعویٰ یہ تھا کہ اسلام ہی بالآخر غالب آ کے رہے گا۔ کفار مکہ بالخصوص اس بات کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ کمزور سی مٹھی بھر جماعت ہے جسے کھانے پینے کی چیزیں بھی میسر نہیں آتیں، وہ اگر محلوں کے خواب دیکھے تو یہ دیوانگی نہیں تو کیا ہے ؟ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عنقریب ان لوگوں کو ایسی خبریں آنے لگیں گی۔- خ مسلمانوں کی کامیابی کی پیشین گوئی :۔ واضح رہے کہ یہ پوری سورت ماسوائے چھ آیات کے (وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ ) سے تین آیتیں اور (قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ ) سے تین آیتیں) ساری کی ساری ایک ہی رات نازل ہوئی تھی۔ اور اس کا زمانہ نزول تقریباً ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے جبکہ مسلمان انتہائی مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان کے اکثر ساتھی حبشہ کی طرف ہجرت کر کے وہاں مقیم ہوچکے تھے اور مکہ میں کفار نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ اس وقت قرآن نے جو یہ پیشین گوئی فرمائی۔ جو جنگ بدر سے ہی پوری ہونا شروع ہوگئی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خبر عرب بھر میں پھیل گئی۔ حتیٰ کہ آپ کی زندگی ہی میں اسلام کو پورے عرب پر غلبہ حاصل ہوگیا۔
فَقَدْ كَذَّبُوْا بالْحَقِّ ۔۔ : اوپر کی آیات میں توحید اور آخرت کو ثابت کیا ہے، اس آیت میں تقلید کا باطل ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ ( رازی) حق سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ پر اترنے والی کتاب ہیں۔ کفار جس چیز پر ہنستے تھے وہ آخرت اور اس میں پیش آنے والے معاملات تھے اور اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے بھی جو اس نے قرآن میں دین اسلام کے غالب اور دشمنوں کے مغلوب ہونے سے متعلق کیے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اب تو یہ کفار اس وعدے کو محض مذاق سمجھتے ہوئے اس پر ہنستے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن عنقریب مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا جائے گا اور پھر ایسے واقعات پیش آئیں گے کہ جن سے یہ وعدہ حقیقت بن کر ان کے سامنے آجائے گا اور آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے کہ آخرت بھی، جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ان کے سامنے آجائے گی۔
پانچویں آیت میں اسی غفلت شعاری کی مزید تفصیل بعض واقعات کی طرف اشارہ کرکے بیان فرمائی ہے کہ فَقَدْ كَذَّبُوْا بالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۭ فَسَوْفَ يَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤ ُ ا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ، یعنی جب حق ان کے سامنے آیا تو انہوں نے حق کو جھٹلا دیا، حق سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس بھی۔- کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتداء عمر سے آخر تک انہی قبائل عرب کے درمیان رہے، بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپا انہی کی آنکھوں کے سامنے آیا، ان کو یہ بھی پوری طرح واضح تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی انسان سے مطلقاً کوئی تعلیم حاصل نہیں کی، یہاں تک کہ اپنا نام بھی خود نہ لکھتے تھے، پورے عرب میں آپ کا لقب امی مشہور تھا، چالیس سال کی عمر اسی حال میں ان کے درمیان گزری، کہ نہ کبھی شعر و شاعری سے دلچسپی ہوئی نہ کبھی کوئی علم وتعلیم سے مناسبت ہوئی، پھر چالیس سال پورے ہوتے ہی دفعةً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے وہ حقائق و معارف اور علوم و فنون جاری ہوگئے کہ دنیا کے بڑے بڑے ماہر فلاسفر بھی ان کے سامنے عاجز نظر آئے، عرب کے تمام فصحاء و بلغاء کو اپنے لائے ہوئے کلام کا مقابلہ کرنے کے لئے چیلنچ دیا۔ یہ لوگ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شکست دینے کے لئے اپنی جان ومال، عزت و آبرو، اولاد و خاندان سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت تلے رہتے تھے، ان میں سے کسی کی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس چیلنچ کو قبول کرکے قرآن کی ایک آیت کی مثال ہی پیش کردیتے۔- اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا اپنا وجود خود حقانیت کی بہت بڑی نشانی تھی، اس کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں ہزاروں معجزات اور کھلی کھلی نشانیاں ایسی ظاہر ہوئیں جس کا انکار کوئی صحیح الحواس انسان نہیں کرسکتا، مگر ان لوگوں نے ان ساری نشانیوں کو یکسر جھٹلا دیا، اسی لئے اس آیت میں ارشاد فرمایا : ففَقَدْ كَذَّبُوْا بالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۔- آخر آیت میں ان کے کفر و انکار اور تکذیب کے انجام بد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ارشاد فرمایا : فَسَوْفَ يَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤ ُ ا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ، یعنی آج تو یہ انجام سے غافل لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی ہدایات اور قیامت و آخرت سب کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب یہ سارے حقائق ان کی آنکھوں کے سامنے آجائیں گے، قیامت قائم ہوگی، ایمان و عمل کا حساب دینا ہوگا، اور ہر شخص اپنے کئے کی جزاء و سزاء پائے گا، مگر اس وقت کا یقین و اقرار ان کے کام نہ آئے گا۔ کیونکہ وہ روز عمل نہیں بلکہ روز جزا ہوگا۔ ابھی غور و فکر کی فرصت خدا تعالیٰ نے دے رکھی ہے، اس کو غنیمت سمجھ کر آیات الٓہیہ پر ایمان لانے ہی میں دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔
فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ ٠ۭ فَسَوْفَ يَاْتِيْہِمْ اَنْۢبٰۗـؤُا مَا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ ٥- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - اسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ .- ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] .- الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔
(٥) قرآن کریم اور اس کی کھلی ہوئی نشانیاں جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس لے کر آئے ان اہل مکہ نے ان کی بھی تکذیب کی۔- اب اللہ تعالیٰ ان کو ڈرا رہے ہیں، چناچہ ان کے مذاق اڑانے کا انجام، بدر، احد اور احزاب کا دن ان کے سامنے آگیا۔
آیت ٥ (فَقَدْ کَذَّبُوْا بالْحَقِّ لَمَّا جَآءَ ہُمْ ط) - یہاں فَقَدْ کَذَّبُوْا کا انداز ملاحظہ کیجیے اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ مکی دور کے آخری زمانے کی سورتیں ہیں۔ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت دیتے ہوئے تقریباً بارہ برس ہوچکے ہیں۔ چناچہ اب تک بھی جو لوگ ایمان نہیں لائے وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر پورے طور سے جم چکے ہیں۔- (فَسَوْفَ یَاْتِیْہِمْ اَنْبآؤُا مَا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُ وْنَ )- مشرکین مکہ مذاق اڑاتے تھے کہ عذاب کی دھمکیاں سنتے سنتے ہمیں بارہ سال ہوگئے ہیں ‘ یہ سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں کہ عذاب آنے والا ہے ‘ لیکن اب تک کوئی عذاب نہیں آیا۔ لہٰذایہ خالی دھونس ہے ‘ صرف دھمکی ہے۔ اس طرح وہ لوگ اللہ کی آیات کا استہزا کرتے تھے۔ یہاں دو ٹوک انداز میں واضح کیا جا رہا ہے کہ جن چیزوں کا یہ لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے ان کی حقیقت عنقریب ان پر کھلنی شروع ہوجائے گی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اس گروپ کی پہلی دو مکی سورتیں (الانعام اور الاعراف ) مشرکین عرب پر اتمام حجت کی سورتیں ہیں اور ان کے بعد دو مدنی سورتوں ( الانفال اور التوبہ) میں مشرکین مکہ پر عذاب موعود کا بیان ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں پر عذاب کی پہلی قسط غزوۂ بدر میں آئی تھی۔ چناچہ سورة الانفال میں غزوۂ بدر کے حالات و واقعات پر تبصرہ ہے اور اس عذاب کی آخری صورت کی تفصیل سورة التوبہ میں بیان ہوئی ہے۔ اسی مناسبت سے دو مکی اور دو مدنی سورتوں پر مشتمل یہ ایک گروپ بن گیا ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :4 اشارہ ہے ہجرت اور ان کامیابیوں کی طرف جو ہجرت کے بعد اسلام کو پے در پے حاصل ہونے والی تھیں ۔ جس وقت یہ اشارہ فرمایا گیا تھا اس وقت نہ کفار یہ گمان کر سکتے تھے کہ کس قسم کی خبریں انہیں پہنچنے والی ہیں اور نہ مسلمانوں ہی کے ذہن میں اس کا کوئی تصور تھا ۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آئندہ کے امکانات سے بے خبر تھے ۔
2: کفار سے کہا گیا تھا کہ اگر انہوں نے ہٹ دھرمی کا رویہ جاری رکھا تو دُنیا میں بھی ان کا انجام برا ہوگا، اور آخرت میں بھی ان کو عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کفار ان باتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ آیت ان کو متنبہ کر رہی ہے کہ جس بات کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں، عنقریب وہ ایک حقیقت بن کر ان کے سامنے آجائے گی۔