کفار کو نافرمانی پر سخت انتباہ کفار کی سرکشی کی انتہا بیان ہو رہی ہے کہ ہر امر کی تکذیب پر گویا انہوں نے کمر باندھ لی ہے ، نیت کر کے بیٹھے ہیں کہ جو نشانی دیکھیں گے ، اسی کا انکار کریں گے ، ان کی یہ خطرناک روش انہیں ایک دن ذلیل کرے گی اور وہ ذائقہ آئے گا کہ ہونٹ کاٹتے رہیں ، یہ یوں نہ سمجھیں کہ ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے نہیں بلکہ عنقریب انہیں اللہ کی پکڑ ہو گی ، کیا ان سے پہلے کے ایسے سرکشوں کے حالات ان کے کان میں نہیں پڑے؟ کیا ان کے عبرتناک انجام ان کی نگاہوں کے سامنے نہیں؟ وہ تو قوت طاقت میں اور زور میں ان سے بہت بڑھے چڑھے ہوئے تھے ، وہ اپنی رہائش میں اور زمین کو بسانے میں ان سے کہیں زیادہ آگے تھے ، ان کے لاؤ لشکر ، ان کی جاہ و عزت ، غرور و تمکنت ان سے کہیں زیادہ تھی ، ہم نے انہیں خوب مست بنا رکھا تھا ، بارشیں پے درپے حسن ضرورت ان پر برابر برسا کرتی تھیں ، زمین ہر وقت ترو تازہ رہتی تھی چاروں طرف پانی کی ریل پیل کی وجہ سے آبشاریں اور چشمے صاف شفاف پانی کے بہتے رہتے تھے ۔ جب وہ تکبر میں آ گئے ، ہماری نشانیوں کی حقارت کرنے لگے تو آخر نتیجہ یہ ہوا کہ برباد کر دیئے گئے ۔ تہس نہس ہو گئے ، بھوسی اڑ گئی ۔ لوگوں میں ان کے فسانے باقی رہ گئے اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے اور ان کے بعد ان کے قائم مقام اور زمانہ آیا ۔ اگر وہ بھی اسی روش پر چلا تو یہی سلوک ان کے ساتھی بھی ہوتا ، اتنی نظریں جب تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے ، یہ کس قدر تمہاری غفلت ہے ، یاد رکھو تم کچھ اللہ کے ایسے لاڈلے نہیں ہو کہ جن کاموں کی وجہ سے اوروں کو وہ تباہ کر دے وہ کام تم کرتے رہو اور تباہی سے بچ جاؤ ۔ اسی طرح جن رسولوں کو جھٹلانے اور ان کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے ان رسولوں سے کسی طرح یہ رسول کم درجے کے نہیں بلکہ ان سے زیادہ اللہ کے ہاں یہ با عزت ہیں ۔ یقین مانو کہ پہلوں سے بھی سخت اور نہایت سخت عذاب تم پر آئیں گے ، پس تم اپنی اس غلط روش کو چھوڑ دو ، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہاری بدترین اور انتہائی شرارتوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔
[٤] یہاں آیت سے مراد قرآن کی کوئی آیت بھی ہوسکتی ہے کوئی معجزہ اور کوئی واضح دلیل بھی۔ یعنی جو کافر انکار کرنے کا ہی تہیہ کیے بیٹھے ہیں ان کے لیے نہ کوئی دلیل کارگر ہوسکتی ہے، نہ معجزہ اور نہ پند و نصیحت۔
وَمَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ ۔۔ : ان آیات سے مراد وہ احکام بھی ہیں جو آیات کی صورت میں انبیاء پر اترتے رہے اور وہ معجزات بھی جو نبوت کی دلیل کے طور پر اترتے رہے۔ اس کے علاوہ زمین و آسمان میں موجود وہ بیشمار نشانیاں بھی جو اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہیں، مثلاً دیکھیے سورة بقرہ (١٦٤) ، یوسف (١٠٥) اور ذاریات (٢٠ تا ٢٣) ۔
چوتھی آیت میں غفلت شعار انسان کی ہٹ دھرمی اور خلاف حق ضد کی شکایت اس طرح فرمائی گئی ہے کہ : وَمَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کے واضح دلائل اور کھلی نشانیوں کے باوجود منکر انسانوں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی نشانی ان کو ہدایت کے لئے بھیجی جاتی ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، اس میں ذرا غور نہیں کرتے۔
وَمَا تَاْتِيْہِمْ مِّنْ اٰيَۃٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّہِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِيْنَ ٤- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔
(٤) اور ان اہل مکہ کے پاس جو بھی نشانیاں ان کے پروردگار کی طرف سے آتی ہیں مثلا سورج گرہن ہونا، چاند کے دو ٹکرے ہونا اور تاروں کا ٹوٹ کر بکھرنا مگر یہ ان سب باتوں کی تکذیب ہی کرتے ہیں۔
آیت ٤ (وَمَا تَاْتِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّہِمْ الاَّ کَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ ) ۔- ہم نئی سے نئی سورتیں بھیج رہے ہیں ‘ نئی سے نئی آیات نازل کر رہے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اعراض پر تلے ہوئے ہیں۔