Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے، جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ دلیل بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں میں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو سب کو جانتا ہے (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلا تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] اللہ کا ہر جگہ موجود ہونا :۔ انسان کے اوپر آسمان، اس کے نیچے زمین اور ان کے درمیان چاند سورج تارے اور ہوائیں غرض جو کچھ بھی انسان کو نظر آتا ہے ان سب کا انتظام و انصرام اللہ اکیلے کے ہاتھ میں ہے پھر وہ تمہارے ظاہر و باطن حتیٰ کہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ تبھی تو وہ ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں کو یہ دھوکہ ہوا کہ اللہ بذات خود ہر جگہ موجود ہے اور بعض نے کہا کہ ہر شے میں موجود ہے جبکہ بہت سی دوسری آیات اور صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ اللہ کی ذات ساتوں آسمانوں سے ماوراء عرش پر ہے۔ رہی اللہ کی زمین و آسمان میں اور ہر جگہ اس کی موجودگی تو وہ اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے اور ان صفات میں کمال کی وجہ سے ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے علم کا یہ حال ہے کہ وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی رتی رتی چیز کو دیکھ رہا ہے اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ ہر پکارنے والے کی پکار سن رہا ہے ماسوائے چند گمراہ فرقوں کے جمہور اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ ۭ۔۔ : اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کو ثابت کیا ہے، اس آیت میں اس کے علم کا کامل ہونا ثابت فرمایا ہے، یعنی وہی ہستی ہے جسے آسمانوں اور زمین میں اللہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ آیت تقریباً اس آیت کی ہم معنی ہے : (وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْم) [ الزخرف : ٨٤ ]” اور وہی ہے جو آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہ کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ یعنی آسمانوں اور زمین میں ایک ہی ذات ہے جسے ” اللہ “ کہہ کر پکارا جاتا ہے، جس کی آسمانوں اور زمین دونوں میں حکومت ہے اور دونوں میں اس اکیلے ہی کی عبادت کی جاتی ہے، کیونکہ وہ تمہاری ہر چھپی یا کھلی بات کو اور تمہارے ہر عمل کو جانتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے علم کا کمال ثابت ہوتا ہے اور یہ کمال اس کے معبود برحق ہونے کی ایک دلیل ہے۔- بعض لوگ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ ہے اور کوئی عرش وغیرہ نہیں، جس پر اللہ تعالیٰ بلند ہو، حالانکہ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں، کیونکہ آیت میں اس کی ذات یا شخصیت کے آسمان و زمین میں ہونے کا بیان نہیں بلکہ زمین و آسمان میں اس کے ” اللہ “ یعنی معبود برحق ہونے کا بیان ہے، رہی اس کی ذات تو قرآن مجید میں اس کے عرش کا اور اللہ تعالیٰ کے اس کے اوپر ہونے کا واضح بیان ہے۔ قرآن کریم میں تقریباً اٹھارہ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش کا ذکر ہے، اور آٹھ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے اوپر ہے، البتہ اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے۔ اس لیے یہاں اس کے زمین و آسمان میں اللہ اور الٰہ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ دونوں جگہ عبادت اسی کی کرنا لازم ہے اور دونوں جگہ وہی ہے جو کمال علم کی وجہ سے معبود برحق ہونے کا حق دار ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں پہلی دو آیتوں کے مضمون کا نتیجہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو آسمانوں اور زمین میں لائقِ عبادت و اطاعت ہے، اور وہی تمہارے ظاہر و باطن کے ہر حال اور ہر قول و فعل سے پورا واقف ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَاللہُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَہْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ۝ ٣- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں اور وہ ہی معبود برحق زمینوں میں ہے جو تمہاری ظاہری اور پوشیدہ سب باتوں کا اور جو تم نیکیاں اور برائیاں کرتے ہو وہ سب سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَفِی الْاَرْضِ ط) - ایسا نہیں ہے کہ آسمانوں کا خدا کوئی اور ہو زمین کا کوئی اور۔ ہاں فرشتوں کے مختلف طبقات ہیں۔ زمین کے فرشتے ‘ فضا کے فرشتے اور آسمانوں کے فرشتے معین ہیں۔ پھر ہر آسمان کے الگ فرشتے ہیں۔ پھر ملائکہ مقربین ہیں۔ لیکن ذات باری تعالیٰ تو ایک ہی ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani