Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے تم جو خوراک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔ 2۔ 2 ٰ یعنی موت کا وقت۔ 2۔ 3 یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمٰی ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہوجائے گا۔ 2۔ 4 یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح سے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔ ( سورة یسین)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] دوسری دلیل :۔ یعنی ابو البشر سیدنا آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا۔ پھر تمہاری تمام غذائی ضروریات اسی مٹی سے پوری ہو رہی ہیں۔ پھر مرنے کے بعد بھی تم اسی مٹی میں مل جاؤ گے گویا اس نے تمہیں ایک بےجان چیز سے پیدا کیا اور تمہیں زندگی بخشی پھر اسی طرح زندہ کو بےجان چیز میں مدغم کر دے گا۔ پھر کیا تمہیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ دوبارہ تمہیں اسی مٹی سے اٹھائے گا اور ایسی زندگی بخشنے پر وہ قادر ہے۔ لہذا اگر سوچو تو تمہیں نہ اللہ کے بارے میں شک ہونا چاہیے نہ قیامت کے بارے میں۔- اس آیت میں پہلے لفظ اجل سے مراد انسان کی موت تک کا وقت ہے جو کہ ہر انسان کے لیے قیامت صغریٰ ہے چناچہ آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی اور اجل مسمیٰ سے مراد قیامت کا دن یا قیامت کبریٰ ہے۔ جبکہ سب لوگ قبروں سے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اور اللہ کے حضور ان سے باز پرس اور ان کا محاسبہ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ : تمہیں مٹی سے پیدا کیا، یعنی آدم (علیہ السلام) کو، باقی سب لوگ چونکہ آدم ہی کی اولاد ہیں، اس لیے گویا سبھی مٹی سے پیدا ہوئے۔ ” طِيْنٍ “ میں تنوین تحقیر کے لیے ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ” حقیر مٹی “ کہا گیا ہے۔ - ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا ۭ: پھر ایک مدت مقرر کی، یعنی موت کا وقت اور ایک اور مدت اس کے ہاں مقرر ہے، یعنی قیامت کا وقت، جسے صرف وہ جانتا ہے، اس کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ پھر بھی تم شک کرتے ہو، یعنی اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جس نے مٹی کی ایک مٹھی سے تمہیں پیدا کیا، وہ دوبارہ بھی تمہیں زندہ کرسکتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پہلی آیت میں عالم کبیر یعنی پوری دنیا کی عظیم ترین چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق و محتاج بتلا کر انسان کو صحیح عقیدہ توحید کا سبق دیا گیا ہے، اس کے بعد دوسری آیات میں انسان کو بتلایا ہے کہ تیرا وجود خود ایک عالم صغیر ہے، اگر اسی کی ابتداء و انتہاء اور بودوباش پر نظر کرے تو عقیدہ توحید ایک واضح حقیقت بن کر سامنے آجائے، اس میں ارشاد فرمایا :- هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا، یعنی اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، کہ آدم (علیہ السلام) کو مٹی کے خمیر سے پیدا فرما کر ان میں جان ڈال دی اور عام انسانوں کی غذا مٹی سے نکلتی ہے، غذا سے نطفہ، اور نطفہ سے انسان کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔ - حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک خاص مقدار سے پیدا فرمایا جس میں پوری زمین کے اجزاء شامل کئے گئے، یہی وجہ ہے کہ اولاد آدم، رنگ و روپ اور اخلاق و عادات میں مختلف ہیں، کوئی کالا کوئی گورا، کوئی سُرخ، کوئی سخت کوئی نرم، کوئی پاکیزہ خصلت، کوئی خبیث الطبع ہوتا ہے، (مظہری بروایت ابن عدی بسند حسن)- یہ تو انسان کی ابتداء آفرینش کا ذکر تھا اس کے بعد انتہا کی دو منزلوں کا ذکر ہے، ایک انسان کی شخصی انتہا جس کو موت کہا جاتا ہے، دوسری نوع انسانی اور اس کے کائناتی خوادم سب کے مجموعہ کی انتہاء جس کو قیامت کہا جاتا ہے، انسان کی شخصی انتہاء کے لئے فرمایا، ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا، یعنی انسان کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی بقاء وحیات کے لئے ایک میعاد مقرر کردی، اس میعاد پر پہنچنے کا نام موت ہے جس کو اگرچہ انسان نہیں جانتا مگر اللہ کے فرشتے جانتے ہیں، بلکہ خود انسان بھی اس حیثیت سے اپنی موت کو جانتا ہے کہ ہر وقت ہر جگہ اپنے گردوپیش میں اولاد آدم کو مرتے دیکھتا ہے۔- اس کے بعد پورے عالم کی انتہاء یعنی قیامت کا ذکر اس طرح فرمایا وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ، یعنی ایک اور میعاد مقرر ہے، جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اس کی میعاد کا پورا علم نہ کسی فرشتہ کو ہے نہ کسی انسان کو۔ - خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی آیت میں عالم اکبر یعنی پوری دنیا کا حال یہ بتلایا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور بنائی ہوئی ہے، اور دوسری آیت میں اسی طرح عالم اصغر یعنی انسان کا مخلوق خداوندی ہونا بیان فرمایا، پھر انسان کو غفلت سے چونکانے کے لئے یہ بتلایا کہ ہر انسان کی ایک خاص عمر ہے جس کے بعد اس کی موت یقینی ہے، اور یہ ایسی چیز ہے کہ اس کا مشاہدہ ہر انسان کو اپنے گردوپیش میں ہر وقت ہوتا رہتا ہے، وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انسان کی شخصی موت سے پورے عالم کی عمومی موت یعنی قیامت پر استدلال ایک فکری اور طبعی امر ہے، اس لئے قیامت کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں، اس لئے آخر آیت میں بطور استبعاد کے فرمایا، ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ ، یعنی ایسے واضح دلائل کے باوجود تم قیامت کے بارے میں شبہات و شکوک نکالتے ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا۝ ٠ۭ وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَہٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ۝ ٢- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ - ثمَ- ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و :- ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] فهو في موضع المفعول - ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- ( تمترون)- ، فيه إعلال بالحذف، أصله تمتریون بضمّ الیاء، استثقلت الضمّة فوق الیاء فسكّنت ونقلت إلى الراء، ولمّا التقی ساکنان۔ الیاء وواو الجماعة۔ حذفت الیاء فأصبح تمترون وزنه تفتعون .

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) اس ذات نے تمہیں آدم سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کا دنیا کو پیدا کیا اور اس کی مدت فنا بنائی اور مخلوق کو پیدا کرکے ان کی میعاد موت کو قرار دیا اور آخرت کے آنے کی مدت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، جس میں نہ موت ہے اور نہ فنا، اس کے بعد بھی اے مکہ والو تم اللہ تعالیٰ کے بارے اور مرنے کے بعد زندہ ہونے میں شک کرتے ہو،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلاً ط) ۔- یعنی ہر شخص جس کو اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے اس کا اس دنیا میں رہنے کا ایک وقت معین ہے۔ اس اجل سے مراد اس کی موت کا وقت ہے۔- (وَاَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ )- یعنی ایک تو ہے انفرادی موت کا وقت ‘ جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ ) (١) جس کو موت آگئی اس کی قیامت تو قائم ہوگئی۔ جبکہ ایک اس دنیا کی اجتماعی موت کا مقررہ وقت ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے پاس رکھا ہے ‘ کسی اور کو نہیں دیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :2 انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں ، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :3 یعنی قیامت کی گھڑی جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان از سر نو زندہ کیے جائیں گے اور حساب دینے کے لیے اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یعنی ایک میعاد تو ہر انسان کی انفرادی زندگی کی ہے کہ وہ کب تک جئے گا، شروع میں تو اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا، مگر جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو ہر ایک کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی عمر کتنی تھی۔ لیکن مرنے کے بعد جو دوسری زندگی آنے والی ہے وہ کب آئے گی، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔