Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی بعض صفات اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے ، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے ، جیسے فرمان ربانی آیت ( عن الیمیں و الشمائل ) میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت ( وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:153 ) میں یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا ، اللہ ہی قابل حمد ہے ، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے ، اس رب نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا ، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش ، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ ، ابن عباس اور مجاہد وغیرہ سے مروی ہے کہ قضی اجلا سے مراد مدت دنیا ہے اور اجل مسمی سے مراد عمر انسان ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ) 6 ۔ الانعام:60 ) سے ہو ، ابن عباس سے مروی ہے کہ آیت ( ثم قضی اجلا ) سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے ، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور اجل مسمی سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے عندہ سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے جیسے فرمایا آیت ( قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ) 7 ۔ الاعراف:187 ) یعنی قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے ، سورہ نازعات میں بھی فرمان ہے کہ لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے ، باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے ، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے ، نعوذ باللہ اللہ کی برتر و بالا ذات اس سے بالکل پاک ہے ، آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی ، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی ، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ) 43 ۔ الزخرف:84 ) یعنی وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے ، یعنی آسمانوں میں جو ہیں ، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے ، اب اس آیت کا اور جملہ آیت ( يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:3 ) خبر ہو جائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ، جانتا ہے ۔ پس یعلم متعلق ہو گا فی السموات وفی الارض کا اور تقدیر آیت یوں ہو جائے گی آیت ( وھو اللہ یعلم سر کم و جھر کم فی السموات وفی الارض و یعلم ما تکسبون ) ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت ( وھو اللہ فی السموات ) پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت ( وفی الارض یعلم سر کم و جھر کم ) امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔ 1۔ 2 یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] دلائل توحید :۔ یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اسی نے اس کائنات کو پیدا کیا اسی نے سورج اور چاند بنائے اور رات دن پیدا کیے اور کائنات پر اسی کی حکمرانی ہے۔ سورج، چاند، ستارے سب اسی کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں اور خود ہمیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔- خ پہلی دلیل :۔ اللہ تعالیٰ انہیں مخاطب کر کے یہ فرما رہے ہیں کہ وہ ذات جو اتنی بڑی کائنات کا نظام نہایت حسن و خوبی سے چلا رہی ہے کیا وہ تمہاری ضروریات پوری نہیں کرسکتی اور تمہاری مشکلات کو حل نہیں کرسکتی۔ جو تم لات و عزیٰ ، منات اور ہبل جیسے معبودوں کو پکارتے ہو، ان کا اس بھری کائنات میں کوئی عمل دخل ہے ؟ انسان کا حق تو یہ تھا کہ وہ اسی خالق کے آگے سجدہ ریز ہوتا، اسی سے دعائیں مانگتا جس نے اسے پیدا کیا اور زمین کو پیدا کر کے اس کی تمام ضروریات زندگی اس سے منسلک کردی ہیں۔ پھر آخر ان دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی ضرورت تمہیں کیوں پیش آئی جو اللہ کا حق ان دیوی دیوتاؤں کو دیتے ہو اور انہیں اپنے پروردگار کا ہمسر قرار دیتے ہو ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ : اس آیت میں اکیلے اللہ تعالیٰ کے تمام خوبیوں کا مالک اور معبود ہونے کی دلیل بیان کی گئی ہے اور کفار کے شرک پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے۔ - خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے یہاں دو قسم کی چیزوں کا ذکر فرمایا ہے، ایک زمین و آسمان کا جو جوہر ہیں، یعنی اپنا الگ وجود رکھتے ہیں اور دوسرے اندھیروں اور اجالے کا جو عرض ہیں، یعنی دوسری چیزوں کے ذریعے سے قائم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کائنات میں کوئی جوہر یا عرض ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا نہ کیا ہو۔ اندھیروں اور اجالے سے یہی رات اور دن مراد ہیں، یا پھر ایمان کا نور اور کفر کے اندھیرے۔ (قرطبی) ” النُّوْرَ “ کو واحد اور ” الظُّلُمٰتِ “ کو جمع بیان کرنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایمان کا نور ایک ہی ہے، جبکہ کفر کی گمراہیاں بیشمار ہیں۔ سیدھا راستہ ایک ہے اور غلط راستوں کا شمار ہی نہیں۔- ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ : یعنی جب ہر چیز کا خالق ومالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور یہ مشرکین اسے اپنا رب ( پالنے والا) بھی تسلیم کرتے ہیں تو ان پر لازم تھا کہ عبادت بھی اسی کی کرتے، مگر یہ پھر بھی دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں، ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں، ان کے نام کی نذریں چڑھاتے اور منتیں مانتے ہیں اور مشکلات میں ان سے مدد طلب کرتے ہیں۔ کس قدر بےعقلی ہے کہ پیدا اللہ تعالیٰ کرے، روزی بھی وہی دے، پھر مانگا غیر سے جائے اور اسے اپنے رب کے برابر ٹھہرایا جائے۔ دیکھیے سورة لقمان (١٠، ١١) اور سورة عنکبوت (٦١ تا ٦٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا، اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (عبادت میں دوسروں کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تم (سب) کو (بواسطہ آدم (علیہ السلام) کے) مٹی سے بنایا پھر (تمہارے مرنے کا) ایک وقت معین کیا، اور دوسرا وقت معین (دو بارہ زندہ ہو کر اٹھنے کا) خاص اللہ ہی کے نزدیک (معلوم) ہے، پھر بھی تم (میں سے بعض) شک رکھتے ہو (کہ قیامت کو محال سمجھتے ہو حالانکہ جس نے اوّل حیات بخشی دوبارہ دینا اس کو کیا مشکل ہے) اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی (یعنی اور سب معبود باطل ہیں) وہ تمہارے پوشیدہ حالات کو بھی اور تمہارے ظاہر حالات کو بھی (یکساں) جانتے ہیں اور (بالخصوص تم جو کچھ ظاہرا یا باطناً ) عمل کرتے ہو (جس پر جزاء و سزاء کا مدار ہے) اس کو جانتے ہیں، اور ان (کفار) کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آئی، مگر وہ اس سے اعراض ہی کیا کرتے ہیں، سو (چونکہ یہ ان کی عادت بنی ہوئی ہے) انہوں نے اس سچی کتاب (قرآن) کو جھوٹا بتلایا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچی سو (ان کی یہ تکذیب خالی نہ جائے گی بلکہ) جلد ہی ان کو خبر مل جاوے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ استہزاء کیا کرتے تھے (مراد اس سے عذاب ہے جس کی خبر قرآن میں سن کر ہنستے تھے، اور اس کی خبر ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جب عذاب نازل ہوگا تو اس خبر کی تصدیق آنکھوں سے دیکھ لیں گے)- معارف و مسائل - حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ سورة انعام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ پوری سورت بجز چند آیات کے بیک وقت مکہ میں اس طرح نازل ہوئی ہے کہ ستر ہزار فرشتے اس کے جلو میں تسبیح پڑھتے ہوئے آئے تھے، ائمہ تفسیر میں سے مجاہد رحمة اللہ علیہ، کلبی رحمة اللہ علیہ، قتادہ رحمة اللہ علیہ وغیرہ کا بھی تقریباً یہی قول ہے۔- ابو اسحاق اسفرائنی نے فرمایا کہ یہ سورت توحید کے تمام اصول و قواعد پر مشتمل ہے۔ اس سورة کو کلمہ الحمدللہ سے شروع کیا گیا، جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اور مراد اس خبر سے لوگوں کو حمد کی تعلیم دینا ہے، اور تعلیم کے اس طرز خاص میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی کی حمدوتعریف کا محتاج نہیں، کوئی حمد کرے یا نہ کرے وہ اپنے ذاتی کمال کے اعتبار سے خود بخودمحمود ہے، اس جملہ کے بعد آسمان و زمین اور اندھیرے، اجالے کے پیدا کرنے کا ذکر فرما کر اس کے محمود ہونے کی دلیل بھی بتلادی کہ جو ذات اس عظیم قدرت و حکمت کی حامل ہے وہی حمدو تعریف کی مستحق ہو سکتی ہے۔- اس آیت میں سموات کو جمع اور ارض کو مفرد ذکر فرمایا ہے، اگرچہ دوسری آیت میں آسمان کی طرح زمین کے بھی سات ہونے کا ذکر موجود ہے، شاید اس میں اس طرف اشارہ ہو کہ سات آسمان اپنی ہیئت و صورت اور دوسری صفات کے اعتبار سے باہم بہت امتیاز رکھتے ہیں، اور ساتوں زمینیں ایک دوسرے کی ہم شکل اور مثل ہیں، اس لئے ان کو مثل ایک عدد کے قرار دیا گیا (مظہری) ۔- اسی طرح ظلمت کو جمع اور نور کو مفرد ذکر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ نور تعبیر ہے صحیح راہ اور صراط مستقیم سے اور وہ ایک ہی ہے، اور ظلمٰت تعبیر ہے غلط راستہ کی، اور وہ ہزاروں ہیں (مظہری و بحر محیط)- یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آسمانوں اور زمین کے بنانے کو لفظ خلق سے تعبیر کیا گیا ہے اور اندھیرے اجالے کے بنانے کو لفظ جعل سے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اندھیرا اور اجالا، آسمان و زمین کی طرح مستقل قائم بالذات چیزیں نہیں، بلکہ عوارض اور صفات میں سے ہیں، اور ظلمٰت کو نور پر مقدم شاید اس لئے ذکر فرمایا گیا کہ اس جہان میں اصل ظلمٰت ہے، اور نور خاص خاص چیزوں سے وابستہ ہے، جب وہ سامنے ہوتی ہیں روشنی پیدا ہوتی ہے، جب نہیں ہوتیں تو اندھیرا رہتا ہے۔ - مقصود اس آیت کا توحید کی حقیقت اور اس کی واضح دلیل کو بیان فرما کر دنیا کی ان تمام قوموں کو تنبیہ کرنا ہے یا تو سرے سے توحید کی قائل نہیں، یا قائل ہونے کے باوجود توحید کی حقیقت کو چھوڑ بیٹھی ہیں۔- مجوس دنیا کے دو خالق مانتے ہیں یزدان اور اہرمن، یزدان کو خالق خیر اور اہرمن کو خلق شرقرار دیتے ہیں، اور انہی دونوں کو نور و ظلمت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔- ہندوستان کے مشرک تینتیس کروڑ دیوتاؤں کو خدا کا شریک بتاتے ہیں، آریہ سماج توحید کے قائل ہونے کے باوجود روح و مادّہ کو قدیم اور خدا تعالیٰ کو قدرت و خلقت سے آزاد قرار دے کر توحید کی حقیقت سے ہٹ گئے، اسی طرح نصاریٰ توحید کے قائل ہونے کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم بنانے لگے، اور پھر عقیدہ توحید کو تھامنے کے لئے ان کو ایک تین اور تین ایک کا غیر معقول نظریہ اختیار کرنا پڑا، اور عرب کے مشرکین نے تو خدائی کی تقسیم میں یہاں تک سخاوت دکھلائی کہ ہر پہاڑ کا ہر پتھر ان کے نزدیک نوع انسانی کا معبود بن سکتا تھا۔ غرض انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے مخدومِ کائنات اور اشرف المخلوقات بنایا تھا یہ جب راہ سے بھٹکا تو اس نے نہ صرف چاند، سورج، اور ستاروں کو بلکہ آگ، پانی اور درخت، پتھر یہاں تک کہ کیڑوں مکوڑوں کو اپنا مسجود و معبود اور حاجت روا، مشکل کشا بنا لیا۔- قرآن کریم نے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو آسمان و زمین کا خالق اور اندھیرے اجالے کا بنانے والا بتلا کر ان سب غلط خیالات کی تردید کردی، کہ نور و ظلمت اور آسمان و زمین اور ان میں پیدا ہونے والی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور بنائی ہوئی ہیں، تو پھر ان کو کیسے خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم کیا جاسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ۝ ٠ۥۭ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ يَعْدِلُوْنَ۝ ١- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) ہر قسم کے شکر اور خدائی اس ذات کے لیے ہے جس نے تمام آسمانوں کو اتوار اور پیر صرف دو دنوں میں اور اسی طرح تمام زمینوں کو منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیا ہے اور کفر و ایمان یا رات اور دن کو پیدا کیا، اس کے باوجود یہ کفار مکہ بتوں کو عبادت میں اللہ کا درجہ دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ط) - یہاں ایک خاص نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید میں تقریباً سات سات پاروں کے وقفے سے کوئی سورة اَلْحَمْدُ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن کا آغاز (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) سے ہوا ہے ‘ پھر ساتویں پارے میں سورة الانعام (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ج) سے شروع ہو رہی ہے ‘ اس کے بعد پندرھویں پارے میں سورة الکہف کا آغاز (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۔ ) سے ہو رہا ہے ‘ پھر بائیسویں پارے میں اکٹھی دو سورتیں (سورۂ سبا اور سورة فاطر) (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ) سے شروع ہوتی ہیں۔ گویا قرآن کا آخری حصہ بھی اس کے اندر شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک جیسے وقفوں سے سورتوں کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے۔ - دوسری بات یہاں نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ اس آیت میں خَلَقَ اور جَعَلَ دو ایک جیسے افعال مادّی اور غیر مادّی تخلیق کا فرق واضح کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ آسمان اور زمین چونکہ مادّی حقیقتیں ہیں لہٰذا ان کے لیے لفظ خَلَقَ آیا ہے ‘ لیکن اندھیرا اور اجالا اس طرح کی مادّی چیزیں نہیں ہیں (بلکہ اندھیرا تو کوئی چیز یا حقیقت ہے ہی نہیں ‘ کسی جگہ یا کسی وقت میں نور کے نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے) ۔ اس لیے ان کے لیے الگ فعل جَعَلَاستعمال ہوا ہے کہ اس نے ٹھہرا دیے ‘ بنا دیے ‘ نمایاں کردیے اور معلوم ہوگیا کہ یہ اجالا ہے اور یہ اندھیرا ہے۔- (ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ ) - یعنی یَعْدِلُوْنَ بِہٖ شُرَکَاءَ ھُمْکہ ان نام نہاد معبودوں کو اللہ کے برابر کردیتے ہیں ‘ جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ صفات یا حقوق میں شریک سمجھا ہوا ہے ‘ حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ ظلمات اور نور کا بنانے والا بھی تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ لیکن پھر بھی ان لوگوں کے حال پر تعجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہراتے ہیں۔- شرک کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی مورتی ہی سامنے رکھ کر اس کو سجدہ کیا جائے ‘ بلکہ اور بہت سی باتیں اور بہت سے نظریات بھی شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر دور میں بھیس بدل بدل کر آتی ہے ‘ چناچہ اسے پہچاننے کے لیے بہت وسعت نظری کی ضرورت ہے۔ مثلاً آج کے دور کا ایک بہت بڑا شرک نظریۂ وطنیت ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے سب سے بڑا بت قرار دیا ہے ع ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے یہ شرک کی وہ قسم ہے جس سے ہمارے پرانے دور کے علماء بھی واقف نہیں تھے۔ اس لیے کہ اس انداز میں وطنیت کا نظریہ پہلے دنیا میں تھا ہی نہیں۔ - شرک کے بارے میں ایک بہت سخت آیت ہم دو دفعہ سورة النساء (آیت ٤٨ اور ١١٦) میں پڑھ چکے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج) اللہ تعالیٰ اسے ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘ البتہ اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے کمتر گناہوں میں سے جو چاہے گا ‘ جس کے لیے چاہے گا ‘ بغیر توبہ کے بھی بخش دے گا ‘ البتہ شرک سے بھی اگر انسان تائب ہوجائے تو یہ بھی معاف ہوسکتا ہے۔ سورة النساء کی اس آیت کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے بات نہیں ہوئی تھی ‘ اس لیے کہ شرک دراصل مدنی سورتوں کا مضمون نہیں ہے۔ شرک اور توحید کے یہ مضامین حوا میم (وہ سورتیں جن کا آغاز حٰآ سے ہوتا ہے) میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوں گے۔ وہاں توحید عملی اور توحید نظری کے بارے میں بھی بات ہوگی۔ سورة الفرقان سے سورة الاحقاف تک مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ‘ جس میں سورة یٰسٓ‘ سورة فاطر ‘ سورة سبا ‘ سورة صٓ اور حوا میم بھی شامل ہیں۔ سورة یٰسٓاس سلسلے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں شامل تمام سورتوں کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔ بہرحال یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ جو حضرات شرک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حقیقت و اقسام شرک کے موضوع پر میری تقاریر سماعت فرمائیں۔ (یہ چھ گھنٹوں کی تقاریر ہیں ‘ جو اسی عنوان کے تحت اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں) بڑے بڑے جید علماء نے ان تقاریر کو پسند کیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :1 یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ، وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے ۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہُبل یا عُزّیٰ یا کسی اور دیوی یا دیوتا کے ہیں ۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو جب تم خود یہ مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو ، نذریں اور نیازیں چڑھاتے ہو ، دعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو ۔ ( ملاحضہ ہو سورہ فاتحہ حاشیہ نمبر ۲ – سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱٦۳ ) روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغہ جمع بیان کیا گیا ، کیونکہ تاریکی نام ہے عدم نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں ۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani