Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسلمانو طبقاتی عصبیت سے بچو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک نہیں نہ مجھے ان میں کسی طرح کا اختیار ہے ، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا جاننے والا ہوں ، رب نے جو چیزیں خاص اپنے علم میں رکھی ہیں مجھے ان میں سے کچھ بھی معلوم نہیں ، ہاں جن چیزوں سے خود اللہ نے مجھے مطلع کر دے ان پر مجھے اطلاع ہو جاتی ہے ، میرا یہ بھی دعوی نہیں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں ، میں تو انسان ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے جو شرف دیا ہے یعنی میری طرف جو وحی نازل فرمائی ہے میں اسی کا عمل پیرا ہوں ، اس سے ایک بالشت ادھر ادھر نہیں ہٹتا ۔ کیا حق کے تابعدار جو بصارت والے ہیں اور حق سے محروم جو اندھے ہیں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم اتنا غور بھی نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے کہ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے حق ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو نابینا ہے؟ نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ قرآن کے ذریعہ انہیں راہ راست پر لائیں جو رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف دل میں رکھتے ہیں ، حساب کا کھٹکار رکھتے ہیں ، جانتے ہیں کہ رب کے سامنے پیش ہونا ہے اس دن اس کے سوا اور کوئی ان کا قریبی یا سفارشی نہ ہو گا ، وہ اگر عذاب کرنا چاہے تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا ۔ یہ تیرا ڈرانا اس لئے ہے کہ شاید وہ تقی بن جائیں حاکم حقیقی سے ڈر کر نیکیاں کریں اور قیامت کے عذابوں سے چھوٹیں اور ثابت کے مستحق بن جائیں ، پھر فرماتا ہے یہ مسلمان غرباء جو صبح شام اپنے پروردگار کا نام جپتے ہیں خبردار انہیں حقیر نہ سمجھنا انہیں اپنے پاس سے نہ ہٹانا بلکہ انہی کو اپنی صحبت میں رکھ کر انہی کے ساتھ بیٹھ اٹھ ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ) 18 ۔ الکہف:28 ) یعنی انہی کے ساتھ رہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی کی طلب کرتے ہیں ، خبردار ان کی طرف سے آنکھیں نہ پھیرنا کہ دنیا کی زندگی کی آسائش طلب کرنے لگو اس کا کہا نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی ہے اور اس کا ہر کام حد سے گزرا ہوا ہے بلکہ ان کا ساتھ دے جو صبح شام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں بعض بزرگ فرماتے ہیں مراد اس سے فرض نمازیں ہیں اور آیت میں ہے آیت ( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) 40 ۔ غافر:60 ) تمہارے رب کا اعلان ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا ان اطاعتوں اور عبادتوں سے ان کا ارادہ اللہ کریم کے دیدار کا ہے ، محض خلوص اخلاص والی ان کی نیتیں ہیں ، ان کا کوئی حساب تجھ پر نہیں نہ تیرا کوئی حساب ان پر ، جناب نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے شرفا نے کہا تھا کہ ہم تجھے کیسے مان لیں تیرے ماننے والے تو اکثر غریب مسکین لوگ ہیں تو آپ نے یہی جواب دیا کہ ان کے اعمال کا مجھے کیا علم ہے ان کا حساب تو میرے رب پر ہے لیکن تمہیں اتنا بھی شعور نہیں پھر بھی تم نے ان غریب مسکین لوگوں کو اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دیا ۔ ان سے ذرا بھی بےرخی کی تو یاد رکھنا تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہو جائے گا ، مسند احمد میں ہے کہ قریش کے بڑے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اس وقت آپ کی مجلس مبارک میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، حضرت خباب رضی اللہ عنہ ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے ، انہیں دیکھ کر یہ لوگ کہنے لگے دیکھو تو ہمیں چھوڑ کر کن کے ساتھ بیٹھے ہیں؟ تو آیت ( و انذر بہ سے بالشاکرین تک اتری ۔ ابن جریر میں ہے کہ ان لوگوں اور ان جیسے اوروں کو حضور کی مجلس میں دیکھ کر مشرک سرداروں نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا یہی لوگ رہ گئے ہیں کہ اللہ نے ہم سب میں سے چن چن کر انہی پر احسان کیا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ پے در پے سہارا لوگ بھی ہم امیروں رئیسوں کے برابر بیٹھیں دیکھئے حضرت اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو وہ آپ کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں اس پر آیت ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ ) 6 ۔ الانعام:52 ) شاکرین تک اتری ۔ ابن ابی حاتم میں قریش کے ان معززین لوگوں میں سے دو کے نام یہ ہیں اقرع بن حابس تیمی ، عینیہ بن حصن فزاری ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ تنہائی میں مل کر انہوں نے حضور کو سمجھایا کہ ان غلام اور گرے پڑے بےحیثیت لوگوں کے ساتھ ہمیں بیٹھتے ہوئے شرم معلوم ہوتی ہے ، آپ کی مجلس میں عرب کا وفد آیا کرتے ہیں وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر ہمیں بھی ذلیل خیال کریں گے تو آپ کم سے کم اتنا ہی کیجئے کہ جب ہم آئیں تب خاص مجلس ہو اور ان جیسے گرے پڑے لوگ اس میں شامل نہ کئے جائین ، ہاں جب ہم نہ ہوں تو آپ کو اختیار ہے جب یہ بات طے ہو گئی اور آپ نے بھی اس کا اقرار کر لیا تو انہوں نے کہا ہمارا یہ معاہدہ تحریر میں آ جانا چاہیے آپ نے کاغذ منگوایا اور حضرت علی کو لکھنے کیلئے بلوایا ، مسلمانوں کا یہ غریب طبقہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا اسی وقت حضرت جبرائیل اترے اور یہ آیت نازل ہوئی حضور نے کاغذ پھینک دیا اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور ہم نے پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حلقے میں لے لیا ، لیکن یہ حدیث غریب ہے آیت مکی ہے اور اقرع اور عینیہ ہجرت کے بہت سارے زمانے کے بعد اسلام میں آئے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ہم لوگ سب سے پہلے خدمت نبوی میں جاتے اور آپ کے اردگرد بیٹھتے تاکہ پور طرح اور شروع سے آخر تک آپ کی حدیثیں سنیں ۔ قریش کے بڑے لوگوں پر یہ بات گراں گزرتی تھی اس کے برخلاف یہ آیت اتری ( مستدرک حاکم ) پھر فرماتا ہے اسی طرح ہم ایک دورے کو پرکھ لیتے ہیں اور ایک سے ایک کا امتحان لے لیتے ہیں کہ یہ امرا ان غرباء سے متعلق اپنی رائے ظاہر کر دیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا اور ہم سب میں سے اللہ کو یہی لوگ پسند آئے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے یہی بیچارے بےمایہ غریب غرباء لوگ تھے مرد عورت لونڈی غلام وغیرہ ، بڑے بڑے اور ذی وقعت لوگوں میں سے تو اس وقت یونہی کوئی اکا دکا آ گیا تھا ۔ یہی لوگ دراصل انبیاء علیہم السلام کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے رہے ۔ قوم نوح نے کہا تھا ( وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ ) 11 ۔ ہود:27 ) یعنی ہم تو دیکھتے ہیں کہ تیری تابعداری رذیل اور بےوقوف لوگوں نے ہی کی ہے ، شاہ روم ہرقل نے جب ابو سفیان سے حضور کی بابت یہ دریافت کیا کہ شریف لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے ؟ یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا تھا کہ ضعیف لوگوں نے ، بادشاہ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الواقع تمام نبیوں کا اول پیرو یہی طبقہ ہوتا ہے ، الغرض مشرکین مکہ ان ایمان داروں کا مزاق اڑاتے اور انہیں ستاتے تھے جہاں تک بس چلتا انہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ یہ ناممکن ہے کہ بھلائی انہیں تو نظر آ جائے اور ہم یونہی رہ جائیں؟ قرآن میں ان کا قول یہ بھی ہے کہ آیت ( لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ) 46 ۔ الاحقاف:11 ) اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو یہ لوگ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے اور آیت میں ہے جب ان کے سامنے ہماری صاف اور واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کفار ایمانداروں سے کہتے یہیں کہ بتاؤ تو مرتبے میں عزت میں حسب نسب میں کون شریف ہے؟ اس کے جواب میں رب نے فرمایا آیت ( وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا ) 19 ۔ مریم:74 ) یعنی ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دی ہیں جو باعتبار سامان و اسباب کے اور باعتبار نمود و ریا کے ان سے بہت ہی آگے بڑھی ہوئی تھیں ، چنانچہ یہاں بھی ان کے ایسے ہی قول کے جواب میں فرمایا گیا کہ شکر گزاروں تو اللہ کو رب جانتا ہے جو اپنے اقوال و افعال اور ولی ارادوں کو درست رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سلامتیوں کی راہیں دکھاتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور صحیح راہ کی رہنمائی کرتا ہے ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:69 ) جو لوگ ہماری فرمانبرداری کی کوشس کرتے ہیں ہم انہیں اپنی صحیح رہ پر لگا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نیک کاروں کا ساتھ دیتا ہے ، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا بلکہ نیتوں اور اعمال کو دیھکتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور عدی کا بیٹا مطعم اور نوفل کا بیٹا حارث اور عمرو کا بیٹا قرطہ اور ابن عبد مناف کے قبیلے کے کافر سب کے سب جمع ہو کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے دیکھ آپ کے بھتیجے اگر ہماری ایک درخواست قبول کرلیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عظمت و عزت ہو گی اور پھر ان کی مجلس میں بھی آمدو رفت شروع کر دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی سچائی سمجھ میں آ جائے اور ہم بھی مان لیں ، ابو طالب نے قوم کے بڑوں کا یہ پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس وقت اس مجلس میں تھے فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ اللہ عزوجل نے وانذو سے بالشاکرین تک آیتیں اتریں ۔ یہ غرباء جنہیں یہ لوگ فیض صحبت سے محروم کرنا چاہتے تھے یہ تھے بلال ، عمار ، سالم صبیح ، ابن مسعود ، مقداد ، مسعود ، واقد ، عمرو ذوالشمالین ، یزید اور انہی جیسے اور حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین ، انہی دونوں جماعتوں کے بارے میں آیت ( وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِيْنَ ) 6 ۔ الانعام:53 ) بھی نازل ہوئی ۔ حضرت عمر ان آیتوں کو سن کر عذر معذرت کرنے لگے اس پر آیت ( وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ ۙ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 6 ۔ الانعام:54 ) نازل ہوئی ، آخری آیت میں حکم ہوتا ہے کہ ایمان والے جب تیرے پاس آ کر سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دو ان کا احترام کرو اور انہیں اللہ کی وسیع رحمت کی خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نفس پر رح پر واجب کر لیا ہے ، بعض سلف سے منقول ہے کہ گناہ ہر شخص جہالت سے ہی کرتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں دنیا ساری جہالت ہے ، غرض جو بھی کوئی برائی کرے پھر اس سے ہٹ جائے اور پورا ارادہ کر لے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور آگے کیلئے اپنے عمل کی اصلاح بھی کر لے تو وہ یقین مانے کہ غفور و رحیم اللہ اسے بخشے گا بھی اور اس پر مہربانی بھی کرے گا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کی قضا و قدر مقرر کی تو اپنی کتاب میں لکھا جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ ابن مردویہ میں حضور کا فرمان ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے کر دے گا اپنے عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گا جس میں یہ تحریر ہے کہ میرا رحم و کرم میرے غصے اور غضب سے زیادہ بڑھا ہوا ہے اور میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہوں پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ایک بار مٹھیاں بھر کر اپنی مخلوق کو جہنم میں سے نکالے گا جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہو گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اپنی رحمت کے سو حصے کئے پھر ساری مخلوق میں ان میں سے ایک حصہ رکھا اور ننانوے حصے اپنے پاس باقی رکھے اسی ایک حصہ رحمت کا یہ ظہور ہے کہ مخلوق بھی ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے اور تواضع سے پیش آتی ہے اور آپس کے تعلقات قائم ہیں ، اونٹنی گائے بکری پرند مچھلی وغیرہ جانور اپنے بچوں کی پرورش میں تکلیفیں جھیلتے ہیں اور ان پر پیار و محبت کرتے ہیں ، روز قیامت میں اس حصے کو کامل کرنے کے بعد اس میں ننانوے حصے ملا لئے جائیں گے فی الواقع رب کی رحمت اور اس کا فضل بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے ، یہ حدیث دوسری سند ہے مرفوعاً بھی مروی ہے اور ایسی ہی اکثر حدیثیں آیت ( وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ) 7 ۔ الاعراف:156 ) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ ایسی ہی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضور نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوجھا جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر فرمایا جانتے ہو بندے جب یہ کرلیں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے؟ یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے ، مسند احمد میں یہ حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت و طاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن و مشیت کے بغیر کوئی ایسا معجزه کر کے دکھا سکو، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر میری نبوت کا یقین ہوجائے، میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات سے تمہیں مطلع کردوں، مجھے فرشتہ ہونے کا بھی دعوٰی نہیں کہ تم مجھے ایسے امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا اوتیت القرآن و مثلہ معہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے۔ 50۔ 2 یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن اور کافر برابر نہیں ہوسکتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] نبوت اور ولایت کے لئے جہلاء کے معیار :۔ انبیاء کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں جنت اور اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رضامندی کی خوشخبری دیں اور جو لوگ ان نبیوں کا یا اللہ کی آیات کا انکار کردیں انہیں اللہ کے غضب اور دوزخ کی آگ سے ڈرائیں۔ مگر جاہل قسم کے لوگوں نے انبیاء اور خدا رسیدہ لوگوں کی صداقت جانچنے کے لیے کچھ الگ ہی معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے خرق عادت امور صادر ہوں۔ وہ کچھ معجزات یا کرامات انہیں دکھائیں، انہیں ان کے دلوں کا حال بتائیں، آئندہ پیش آنے والے حالات سے انہیں مطلع کریں۔ ان کی نظر کرم سے ایک گنہگار فوراً ولی کے مقام پر پہنچ جائے۔ وغیرہ وغیرہ یہ تو ایجابی معیار ہے اور سلبی معیار یہ ہوتا ہے کہ ایک خدا رسیدہ انسان کو تارک دنیا ہونا چاہیے اور جو انسان نکاح کرتا، کھاتا پیتا اور لذائذ دنیا سے لطف اندوز ہوتا ہے وہ بھلا خدا رسیدہ کیسے کہلا سکتا ہے وہ تو ہم جیسا طالب دنیا ہی ہوا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے احمقانہ نظریات کی تردید کرتے ہوئے آپ کی زبان سے کہلوایا کہ نہ تو میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں کہ تمہیں تمہارے منہ مانگے معجزات دکھا سکوں اور تمہاری حاجات کو فوراً پورا کردیا کروں نہ ہی میں غیب جانتا ہوں کہ تمہیں بتاسکوں۔ یہ کہ چوری فلاں چور نے فلاں وقت کی تھی۔ یا اس وقت تم اپنے دل میں کیا سوچ رہے ہو۔ اور میں فرشتہ بھی نہیں کہ مجھے کھانے پینے، چلنے پھرنے، یا نکاح کی حاجت نہ ہو۔ میرے فرائض صرف یہ ہیں کہ ایمان لانے والوں کو خوشخبری دوں اور انکار کرنے والوں کو ڈراؤں اور ہر حال میں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے کی کوشش کروں۔- [٥٣] ایک نبی اور عام آدمی میں فرق :۔ ہاں مجھ میں اور تم میں یہ فرق ضرور ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے جس سے مجھے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات غیب کے پردے ہٹا کر مجھے مطلع بھی کردیا جاتا ہے اور پھر میں اس وحی کے مطابق اس کے تمام احکام کی پیروی بھی کرتا ہوں لیکن تمہیں ان سے کوئی چیز بھی میسر نہیں۔ تمہارے نظریات کی بنیاد محض تمہارے گمان ہیں۔ اب بتاؤ کہ میں اور تم یا ایک بینا اور نابینا برابر ہوسکتے ہیں ؟ یا ایک راہ پانے والا اور دوسرا گمراہ یا ایک عالم اور دوسرا جاہل دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ : وہ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ اگر تم اللہ کے رسول ہو تو اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرو کہ ہمیں دنیا کا ساز و سامان اور فراوانی حاصل ہوجائے، تو اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ فلاں مرید کو فلاں پیر نے ایک خزانہ بخش دیا، یا مال دار کردیا تو یہ عقیدہ شرک کے ذیل میں آئے گا۔ - وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ : اور نہ میں غیب جانتا ہوں کہ آئندہ کی جو بات مجھ سے پوچھتے جاؤ میں تمہیں بتلاتا جاؤں۔ غیب کا جاننا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مجھے جو اور جتنا علم ہے اس کی اسی نے اطلاع دی ہے، وہ چاہتا تو مجھے اتنا علم بھی نہ دیتا اور چاہتا تو اس سے بھی زیادہ دے دیتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ انبیاء ( علیہ السلام) کو علم غیب ہوتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ جب سید الرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب نہ ہوا تو دوسروں کا ذکر کیا ہے اور جب رسول غیب دان نہ ٹھہرے تو پھر کوئی پیر، شہید، ولی، مجذوب، سالک یا عالم و عابد کیسے غیب دان ہوسکتا ہے ؟ اور کاہن، نجومی اور رمل والے کس شمار و قطار میں ہیں ؟ دیکھیے سورة نمل (٦٥) اور سورة لقمان (٣٤) ۔- وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ: اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، بلکہ تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، تو پھر تم مجھ سے آسمان پر چڑھنے کا مطالبہ کیوں کرتے ہو۔ دیکھیے سورة اعراف (١٨٨) اور سورة ہود (٣١) ۔- اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۭ: یعنی میں تمھی جیسا انسان ہوں، فرشتہ نہیں، البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ میرے پاس وحی آتی ہے اور تمہارے پاس نہیں آتی (دیکھیے کہف : ١١٠) اور میں کسی معاملے میں اپنی خواہش کی پیروی نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق عمل کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بندوں تک جتنے احکام پہنچائے، چاہے قرآن کی شکل میں یا احادیث کی صورت میں، وہ سب اللہ کی طرف سے تھے، لہٰذا قرآن کی طرح سنت کی پیروی بھی ضروری ہے، بلکہ سنت کے بغیر قرآن کی پیروی ممکن ہی نہیں ہے۔ جو لوگ سنت کو چھوڑ کر صرف قرآن کی پیروی پر زور دیتے ہیں وہ دراصل اپنی من مانی تاویلات کرنا چاہتے ہیں، جن کی راہ میں حدیث حائل ہے۔ - قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭ: یہ بظاہر سوال ہے مگر حقیقت میں اس بات کا انکار ہے کہ اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتے ہیں۔ اسے استفہام انکاری کہتے ہیں، اندھے اور دیکھنے والے سے مراد باطل پرست اور حق پرست، یا کافر اور مسلمان، یا جاہل اور عالم ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ پیغمبر آدمی کے سوا کچھ اور نہیں ہوجاتے کہ ان سے محال باتیں طلب کی جائیں۔ ایک اندھے اور ایک دیکھتے کا یہی فرق ہے۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان معاند لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے تمام خزانے ہیں (کہ جو کچھ مجھ سے مانگا جائے وہ اپنی قدرت سے دیدوں) اور نہ میں تمام غیب کی چیزوں کو جانتا ہوں (جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے) اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کا اتباع کرتا ہوں جو میرے پاس آتی ہے (جس میں مقتضائے وحی پر خود عمل کرنا بھی داخل ہے اور دوسروں کو دعوت دینا بھی، جیسا کہ پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کا بھی یہی حال تھا، پھر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے (اور جب یہ بات سب کو مسلم ہے) تو کیا تم (آنکھوں والا بننا نہیں چاہتے اور اس تقریر مذکور میں) غور (کامل بقصد طلب حق) نہیں کرتے (کہ حق واضح ہوجائے اور تم بیناؤں میں داخل ہوجاؤ) اور اگر (اس پر بھی وہ عناد سے باز نہ آئیں تو ان سے بحث مباحثہ بند کر دیجئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو اصلی کام ہے تبلیغ رسالت کا اس میں مشغول ہوجائیے اور) ایسے لوگوں کو (کفر و معصیت پر عذاب الہی سے خاص طور سے) ڈرائیے (جو اعتقاداً یا کم از کم احتمالاً ) اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں (کہ قیامت میں) اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جاویں گے کہ اللہ کے سوا (جس جس کو مددگار یا سفارش کرنے والا کفار نے سمجھا تھا اس وقت ان میں سے) نہ کوئی ان کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی (مستقل) اشاعت کرنے والا، شاید یہ لوگ (عذاب سے) ڈر جاویں (اور کفر و معصیت سے باز آجائیں) ۔- معارف و مسائل - کفار عرب کی طرف سے فرمائشی معجزات کا معاندانہ مطالبہ - کفار مکہ کے سامنے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیشمار معجزات اور اللہ تعالیٰ کی آیات بینات کا ظہور ہوچکا تھا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بحالت یتیمی دنیا میں تشریف لانا لکھنے پڑھنے سے بالکل الگ ایک امی محض ہو کر رہنا، ایسی زمین میں پیدا ہونا جس کے آس پاس بھی نہ کوئی عالم تھا نہ علمی مرکز، عمر شریف کے چالیس سال اسی امّیت محضہ کے عالم میں سارے اہل مکہ کے سامنے رہنا، پھر چالیس سال کے بعد دفعةً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ایسا محیرّ العقول حکیمانہ کلام جاری ہونا جس کی فصاحت و بلاغت نے تمام بلغار عرب کو چیلنج دے کر ہمیشہ کے لئے ان کے مونہوں پر مہر لگادی اور جس کے حکمت پرور معانی اور قیامت تک کی ضروریات انسانی کی رعایت کے ساتھ انسان کامل کی زندگی کا ایسا نظام عمل جس کو انسانی عقل و دماغ ہرگز مرتب نہیں کرسکتا، نہ صرف نظری اور فکری حیثیت سے جمع کرکے پیش کیا، بلکہ عملی طور پر بھی دنیا میں نہایت کامیابی کے ساتھ رائج کرکے دکھلا دیا، اور وہ انسان جو اپنی انسانیت کو بھلا کر بیل، بکری، گھوڑے، گدھے کی طرح اپنی زندگی کا مقصد صرف کھانے، پینے، سونے، جاگنے کو قرار دے چکا تھا، اس کو صحیح انسانیت کا سبق دیا، اس کا رخ اس بلند مقصد کی طرف پھیر دیا جس کے لئے اس کی تخلیق عمل میں آئی تھی، اس طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ہر دور اور اس میں پیش آنے والے عظیم القدر وقائع میں سے ہر ایک ایک مستقل معجزہ اور آیت الٓہیہ تھی، جس کے بعد کسی انصاف پسند عقلمند کے لئے مزید کسی آیت و معجزہ کے طلب کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی۔- لیکن کفار قریش نے اس کے باوجود دوسری قسم کے معجزات اپنی خواہش کے مطابق طلب کئے، ان کے مطلوبہ معجزات میں سے بھی بعض کو حق تعالیٰ نے واضح طور پر عمل میں لاکر دکھلا دیا، چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا تھا، شق قمر کا معجزہ نہ صرف قریش نے بلکہ اس وقت کی دنیا میں رہنے والوں کی بڑی تعداد نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔- لیکن ان کے مطالبہ کے موافق ایسا عظیم الشان معجزہ ظاہر ہونے کے باوجود وہ اپنے اسی کفر و ضلالت اور ضد وعناد پر جمے رہے اور اللہ تعالیٰ کی اس آیت بینہ کو (آیت) ان ہذا الا سحر یوثر، کہہ کر نظر انداز کردیا، اور ان سب چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے بوجھنے کے باوجود ان کی طرف سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روز نئے نئے معجزات کا مطالبہ رہتا تھا، اور جیسا کہ پچھلی آیتوں میں گزرا ہے : (آیت) لولا نزل علیہ ایة من ربہ۔ ” یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچ مچ اللہ کے رسول ہیں تو ان کا کوئی معجزہ کیوں ظاہر نہیں ہوتا، قرآن نے ان کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو بتلا دیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو سب کچھ ہے، اس نے جس طرح تمہارے مانگے بغیر خود ہی بیشمار آیات بینات اور معجزات نازل فرما دئیے، اسی طرح وہ تمہارے مطلوبہ معجزات بھی نازل فرما سکتا ہے “۔ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ عادة اللہ اس بارے میں یہ ہے کہ جب کسی قوم کا مطلوبہ معجزہ دکھلا دیا جائے اور پھر وہ اس پر بھی ایمان نہ لائیں تو ان کو فوری عذاب میں پکڑ لیا جاتا ہے، اس لئے قوم کی مصلحت اس میں تھی اور یہ کہ ان کے مطلوبہ معجزات ظاہر نہ کئے جائیں، مگر بہت سے لوگ جو اس دقیق حکمت سے جاہل و بیخبر ہیں، ان کا اصرار یہی رہتا ہے کہ ہمارا مطلوبہ معجزہ دکھلایا جائے۔- مذکورہ الصدر آیتوں میں ان لوگوں کے ایسے سوالات و مطالبات کا جواب ایک خاص انداز میں دیا گیا ہے۔- کفار مکہ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف اوقات میں تین مطالبے پیش کئے تھے، اول یہ کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں تو بذریعہ معجزہ ہمارے لئے تمام دنیا کے خزائن جمع کرا دیجئے، دوسرے یہ کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی سچے رسول ہیں تو ہمارے مستقبل میں پیش آنے والے تمام مفید یا مضر حالات و واقعات بتا دیجئے، تاکہ ہم مفید چیزوں کے حاصل کرنے اور مضر صورتوں سے بچنے کا انتظام پہلے ہی کرلیا کریں، تیسرے یہ کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری ہی قوم کا ایک انسان جو ہماری ہی طرح ماں باپ سے پیدا ہوا، اور تمام بشری صفات کھانے، پینے، بازاروں میں پھرنے وغیرہ میں ہمارے ساتھ شریک ہے وہ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن جائے، کوئی فرشتہ ہوتا جس کی تخلیق اور اوصاف ہم سب سے ممتاز ہوتے، تو ہم اس کو خدا تعالیٰ کا رسول اور اپنا پیشوا مان لیتے۔- ان تینوں سوالات کے جواب میں ارشاد ہوا : قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ، ” یعنی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہداہت دی گئی کہ ان لوگوں کے لایعنی سوالات کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے صاف کہہ دیجئے کہ تم جو مجھ سے خزائن دنیا کا مطالبہ کرتے ہو تو میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب خزانے میرے ہاتھ میں ہیں، اور تم جو یہ مطالبہ کرتے ہو کہ مستقبل میں پیش آنے والے ہر مفید یا مضر معاملہ اور واقعہ کو میں تمہیں بتلا دوں تو میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں ہر غیب کی چیز کو جانتا ہوں، اور تم جو مجھ میں فرشتوں کی مخصوص صفات دیکھنا چاہتے ہو، تو میں نے کب کہا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔- خلاصہ یہ ہے کہ مجھ سے دلیل اس چیز کی مانگی جاسکتی ہے جس کا میں نے دعویٰ کیا ہے، یعنی یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اس کی بھیجی ہوئی ہدایات انسانوں کو پہنچاتا ہوں اور خود بھی ان کا اتباع کرتا ہوں، دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتا ہوں، چناچہ اس کے لئے ایک دو نہیں بیشمار واضح دلائل پیش کئے جا چکے ہیں۔- اس دعویٰ رسالت کے لئے نہ یہ ضروری ہے کہ اللہ کا رسول اللہ کے سب خزانوں کا مالک ہوجائے، اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرح غیب کی ہر چھوٹی بڑی چیز سے واقف ہو، اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ انسانی اور بشری صفات سے جدا کوئی فرشتہ ہو، بلکہ رسول کا منصب صرف اتنا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی کا اتباع کرے، جس میں خود اس پر عمل کرنا بھی داخل ہے، اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دینا بھی۔- اس ہدایت نامہ سے منصب رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا، اور رسول کے بارے میں جو غلط تصورات ان لوگوں نے قائم کر رکھے تھے ان کا ازالہ بھی کردیا گیا، اور اس کے ضمن میں مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت کردی گئی کہ وہ عیسائیوں کی طرح اپنے رسول کو خدا نہ بنائیں اور خدائی کا مالک نہ قرار دیں، ان کی عظمت و محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان کے متعلق یہود و نصاریٰ کی طرح افراط وتفریط میں اور غلو میں نہ پڑجائیں، کہ یہود نے تو اپنے انبیاء کے قتل تک سے گریز نہ کیا، اور نصاریٰ نے اپنے رسول کو خدا بنادیا۔- اس کے پہلے جملہ میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے میرے ہاتھ میں نہیں ان خزانوں سے کیا مراد ہے ؟ علماء تفسیر نے بہت سی چیزوں کے نام لئے ہیں، مگر خود قرآن کریم نے جہاں اللہ کے خزانوں کا ذکر کیا ہے تو اس میں فرمایا ہے : (آیت) وان من شیء الا عندنا خزائنہ، ” یعنی کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں “۔ اس سے معلوم ہوا کہ خزائن اللہ کا مفہوم دنیا کی تمام چیزوں پر حاوی ہے کچھ خاص چیزوں کو متعین نہیں کیا جاسکتا، اور جن حضرات مفسرین نے مخصوص چیزوں کے نام لئے ہیں، وہ بھی بطور مثال کے ہے، اس لئے اختلاف کچھ نہیں، اور جب اس آیت نے یہ بتلا دیا کہ خدائی کے سارے خزانے سید الرسل امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں بھی نہیں ہیں تو پھر امت کے کسی بزرگ یا ولی کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں، جس کو جو چاہیں دے سکتے ہیں کھلی ہوئی جہالت ہے۔- آخری جملہ میں فرمایا وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ” یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں جس کی وجہ سے تم بشری صفات کو دیکھ کر رسالت کا انکار کرتے ہو “۔- درمیانی جملہ میں طرز کلام بدل کر بجائے اس کے کہ لا اقول لکم انی اعلم و الغیب، فرمایا جاتا، یعنی یہ کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں غیب کو جانتا ہوں، ارشاد یوں فرمایا گیا کہ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ، یعنی میں غیب کو نہیں جانتا۔- ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں اس طرز کلام کے بدلنے کی ایک لطیف توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تمام خدائی خزانوں کا مالک ہونا یا نہ ہونا، اسی طرح کسی شخص کا فرشہ ہونا یا نہ ہونا یہ چیزیں تو مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں، مخاطب لوگ بھی سب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے خزائن سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں نہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتہ بھی نہیں، محض عناد سے اس کا مطالبہ کرتے تھے، ان کے جواب میں یہ کہہ دینا کافی تھا کہ میں نے کبھی اس کا دعویٰ نہیں کیا کہ میں خزائن اللہ کا مالک ہوں یا یہ کہ میں فرشتہ ہوں۔ - لیکن علم ِ غیب کا مسئلہ ایسا نہ تھا، کیونکہ وہ لوگ اپنے نجومیوں، کاہنوں کے بارے میں بھی اس کا اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ غیب کو جانتے ہیں، تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایسا اعتقاد رکھنا کچھ مستبعد نہ تھا، خصوصاً جب کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے انہوں نے بہت سی غیب کی خبریں بھی سنی تھیں، اور ان کے مطابق واقعہ ہونے کا مشاہدہ بھی کیا تھا، اس لئے یہاں صرف دعویٰ اور قول کی نفی کرنے کو کافی نہ سمجھا بلکہ اصل فعل کی نفی کی گئی اور یہ فرمایا وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ، یعنی میں غیب کو نہیں جانتا۔ اس میں ان کی اس غلط فہمی کو بھی رفع کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی یا الہام جن غیب کی چیزوں کا علم کسی فرشتہ یا رسول یا ولی کو دیے دیا جائے اصطلاح قرآنی میں اس کو علم غیب یا اس کے جاننے والے کو عالم الغیب کہا جاسکتا۔- اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اس معاملہ میں کسی مسلمان کو کلام نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی ہزاروں لاکھوں چیزوں کا علم عطا فرمایا تھا، بلکہ تمام فرشتوں اور اولین و آخرین کو جتنا علم دیا گیا ہے ان سب سے زیادہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم عطا فرمایا گیا ہے۔ یہی پوری امت کا عقیدہ ہے، ہاں اس کے ساتھ ہی قرآن و سنت کی بیشمار تصریحات کے مطابق تمام ائمہ سلف و خلف کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ تمام کائنات کا علم محیط صرف حق تعالیٰ شانہ کی مخصوص صفت ہے۔ جس طرح اس کے خالق و رازق، قادر مطلق ہونے میں کوئی فرشتہ یا رسول اس کے برابر نہیں ہوسکتا، اسی طرح اس کے علم محیط میں بھی کوئی اس کے برابر نہیں ہوسکتا، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی فرشتہ یا پیغمبر کو غیب کی لاکھوں چیزیں معلوم ہونے کے باوجود عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا۔- خلاصہ یہ ہے کہ سرور کائنات سید الرسل امام الانبیاء محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کمالات کے بارے میں بڑا جامع جملہ یہ ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔- کمالات علمی میں بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد تمام فرشتوں اور انبیاء و رسل سے آپ کا علم بڑھا ہوا ہے، مگر خدا تعالیٰ کے برابر نہیں، برابری کا دعویٰ کرنا عیسائیت کے غلو کا راستہ ہے۔ - آخر آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے، مطلب یہ ہے کہ نفسانی جذبات اور ضد وعناد کو چھوڑ کر حقیقت کو دیکھو تاکہ تمہارا شمار اندھوں میں نہ رہے، تم بصیر اور بینا ہوجاؤ اور یہ بینائی تمہیں ذرا سے غور و فکر سے حاصل ہوسکتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۝ ٠ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝ ٠ۭ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ۝ ٠ۭ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۝ ٥٠ۧ- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٠) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ نہ میرے پاس سبزیوں اور پھلوں، بارشوں اور عذاب الہی کے خزانے کی کنجیاں ہیں اور نہ میں عذاب کے نزول کے وقت سے آگاہ ہوں اور نہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف وہی کرتا یا کہتا ہوں جس کا مجھے بذریعہ وحی حکم دیا جاتا ہے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے یہ بھی فرمادیجیے، کیا مومن و کافر ثواب اور انعام میں برابر ہیں، پھر بھی یہ قرآن کی مثالوں پر غور نہیں کرتے۔ (آیت) ” قل لااقول لکم “۔ یہ آیت کریمہ یہاں تک ابوجہل اور حارث وعینیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ ج) - تم لوگ مجھ سے معجزات کے مطالبات کرتے ہو اور غیب کے احوال پوچھتے ہو ‘ لیکن کسی شخص سے مطالبہ تو کیا جانا چاہیے اس کے دعوے کے مطابق۔ میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ میں غیب جانتا ہوں اور الوہیت میں میرا حصہ ہے۔ میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں اللہ کا ایک بندہ ہوں ‘ بشر ہوں ‘ مجھ پر وحی آتی ہے ‘ مجھے مامور کیا گیا ہے کہ تمہیں خبردارکر دوں اور وہ کام میں کر رہا ہوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :31 نادان لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ احمقانہ تصور رہا ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہو اسے انسانیت سے ماوراء ہونا چاہیے ، اس سے عجائب و غرائب صادر ہونے چاہییں ، وہ ایک اشارہ کرے اور پہاڑ سونے کا بن جائے ، وہ حکم دے اور زمین سے خزانے ابلنے لگیں ، اس پر لوگوں کے اگلے پچھلے سب حالات روشن ہوں ، وہ بتا دے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے ، مریض بچ جائے گا ، حاملہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ ۔ پھر اس کو انسانی کمزوریوں اور محدودیتوں سے بھی بالاتر ہونا چاہیے ۔ بھلا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ ہوا جسے بھوک اور پیاس لگے ، جس کو نیند آئے ، جو بیوی بچے رکھتا ہو ، جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرید و فروخت کرتا پھرے ۔ جسے کبھی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور کبھی وہ مفلسی و تنگ دستی میں مبتلا ہو کر پریشان حال رہے ۔ اسی قسم کے تصورات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین کی ذہنیت پر مسلط تھے ۔ وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیغمبری کا دعوٰی سنتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت جانچنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیب کی خبریں پوچھتے تھے ، خوارق عادت کا مطالبہ کرتے تھے ، اور آپ کو بالکل عام انسانوں جیسا ایک انسان دیکھ کر اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا پیغمبر ہے جو کھاتا پیتا ہے ، بیوی بچے رکھتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ انہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :32 مطلب یہ ہے کہ میں جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ان کا میں نے مشاہدہ کیا ہے ، وہ براہ راست میرے تجربہ میں آئی ہیں ، مجھے وحی کے ذریعہ سے ان کا ٹھیک ٹھیک علم دیا گیا ہے ، ان کے بارے میں میری شہادت آنکھوں دیکھی شہادت ہے ۔ بخلاف اس کے تم ان حقیقتوں کی طرف سے اندھے ہو ، تم ان کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہو وہ یا تو قیاس و گمان پر مبنی ہیں یا محض اندھی تقلید پر ۔ لہٰذا میرے اور تمہارے درمیان بینا اور نابینا کا سا فرق ہے اور اسی اعتبار سے مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے ، نہ اس اعتبار سے کہ میرے پاس کوئی خدائی کے خزانے ہیں ، یا میں عالم الغیب ہوں ، یا انسانی کمزوریوں سے مبرا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: یہ ان مطالبات کا جواب ہے جو کفار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو دولت کے خزانے تمہارے پاس ہونے چاہئیں۔ لہذا فلاں فلاں معجزات دکھاؤ۔ جواب میں فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدائی کے اختیارات مجھے حاصل ہوگئے ہیں، یا مجھے مکمل علم غیب حاصل ہے یا میں فرشتہ ہوں۔ پیغمبر ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے اور میں اسی کا اتباع کرتا ہوں۔