Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یعنی انذار کا فائدہ ایسے ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے ورنہ جو بعث بعد الموت حشر نشر پر یقین ہی نہیں رکھتے وہ اپنے کفر و جحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا عقیدہ رہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہوگا کا مطلب۔ یعنی ان کے لئے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پاچکے ہوں گے۔ ورنہ مومنوں کے لئے اللہ کے نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر و شرک کے لئے ہے اور اس کا اثبات ان کے لئے جو گناہ گار مومن و موحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٤] آپ سب لوگوں کے ہدایت پانے کی فکر نہ کیجئے بلکہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور اور دوزخ کے عذاب سے ڈرتے ہیں ان کا ضرور خیال رکھیے اور وحی کے احکام ان تک ضرور پہنچایا کیجئے۔ اور جو لوگ روز آخرت پر یقین تو رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ وہ بزرگوں کی اولاد ہیں یا بزرگ ان کی سفارش کر کے انہیں بچا لیں گے انہیں خبردار کیجئے کہ اس دن کسی کی سفارش کام نہ آسکے گی نہ حسب و نسب اور نہ ہی کوئی قریبی سے قریبی رشتہ دار۔ لہذا اپنے اپنے اعمال کی خود فکر کیجئے یہی ان کے متقی بننے کی صورت ہے۔ اور بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے مخاطب مومن نہیں بلکہ کافر ہیں کیونکہ یہی لوگ اللہ کے ہاں جانے سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ لہذا انہیں ڈرانے کی زیادہ ضرورت ہے اس مفہوم کی بھی اس آیت میں گنجائش موجود ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ ۔۔ : اوپر کی آیت میں پیغمبروں کے متعلق فرمایا کہ وہ مبشر (خوشخبری دینے والے) اور منذر ( ڈرانے والے) ہوتے ہیں، اب اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انذار ( ڈرانے) کا حکم دیا۔ (رازی) یعنی ڈرانے کا فائدہ انھی کو ہوسکتا ہے جنھیں دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا خوف ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا نہ ان کی حمایت کرنے والا کوئی مدد گار ہوگا اور نہ سفارشی۔ جو لوگ حشر اور قیامت کو مانتے ہی نہیں اور انکار پر اڑے ہوئے ہیں، انھیں آپ کے ڈرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، فرمایا : ( سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ) [ البقرۃ : ٦ ] ” ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو، یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔ “- لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ : یعنی ان لوگوں کو ڈرانے کا یہ فائدہ ہوگا کہ آپ کے ڈرانے سے ان میں اللہ کا خوف اور زیادہ ہوجائے گا اور وہ گناہوں سے باز آجائیں گے۔ اس آیت سے ان کافروں کا رد بھی مقصود ہے جو یہ گمان رکھتے تھے کہ ان کے معبود اور ٹھاکر وغیرہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے انھیں بچا لیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی اس میں عبرت ہے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کر کے بےفکر ہو کر بےکھٹکے گناہ کرتے رہتے ہیں، کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی سفارش نہیں چل سکے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ان واضح بیانات کے بعد بھی اگر یہ لوگ اپنی ضد سے باز نہ آئیں تو ان سے بحث و مباحثہ کو موقوف کر دیجئے اور جو اصلی کام ہے رسالت کا یعنی تبلیغ اس میں مشغول ہوجائیے، اور تبلیغ و انذار کا رخ ان لوگوں کی طرف پھیر دیجئے، جو قیامت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی اور حساب کتاب کا عقیدہ رکھتے ہیں، جیسے مسلمان یا وہ جو کم از کم اس کے منکر نہیں، بطور احتمال کے ہی سہی، کم از کم ان کو خطرہ تو ہے کہ شاید ہمارے اعمال کا ہم سے حساب لیا جائے۔- خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے متعلق تین طرح کے آدمی ہیں، ایک وہ جو یقینی طور پر اس کے معتقد ہیں، دوسرے وہ جو متردد ہیں، تیسرے وہ جو بالکل منکر ہیں، اور تبلیغ و انذار کا حکم انبیاء (علیہم السلام) کو اگرچہ ان تینوں طبقوں کے لئے عام ہے، جیسا کہ بہت سے ارشادات قرآنی سے واضح ہے، لیکن پہلے دو طبقوں میں چونکہ اثر قبول کرنے کی توقع زیادہ ہے، اس لئے اس آیت میں خاص طور پر ان کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی، وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّهِمْ ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْٓا اِلٰى رَبِّہِمْ لَيْسَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِيٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ لَّعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝ ٥١- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» - الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١) یہ آیات مسلمان غلاموں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں یعنی ایسے لوگوں کو جو جانتے ہیں یا بعث بعد الموت پر یقین رکھتے ہیں، جن میں حضرت بلال بن رباح (رح) صہیب بن سنان (رض) بن صالح (رض) ، عمار بن یاسر (رض) ، سلمان فارسی (رض) ، عامر بن فیہرہ (رض) ، خباب بن ارت (رض) ، سالم مولی حذیفہ (رض) ہیں، قرآن کریم یا اللہ تعالیٰ سے ڈرائیے اور اس بات کا یہ ڈر رکھتے ہیں کہ ان کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی محافظ نہ ہوگا اور نہ کوئی ایسا شفاعت کرنے والا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ وہ ان کے عذاب سے نجات دلائے تاکہ یہ گناہوں سے بچیں اور نیکیوں کی طرف مائل ہوں۔- شان نزول : (آیت) ” وانذر بہ الذین “۔ (الخ)- امام احمد (رح) ، طبرانی (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن مسعود (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ قریش کی ایک جماعت کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزر ہوا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خباب بن ارت (رض) صیہب (رض) ، بلال (رض) بیٹھے ہوئے تھے یہ دیکھ کر قریش کا ایک گروہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ ان کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ کی اتباع کرلیں اللہ تعالیٰ نے اس پر ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت (آیت) ” وانذر بہ الذین “۔ ” سبیل المجرمین “۔ نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

ابھی پچھلے رکوع میں ہم نے پڑھا : (وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ الاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ج) (آیت ٤٨) کہ تمام رسول تبشیر اور انذار کے لیے آتے رہے اور اسی سورت میں ہم یہ بھی پڑھ چکے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا : (وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط) (آیت ١٩) یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے میں خبردار کروں تم لوگوں کو اور ان تمام لوگوں کو بھی جن تک یہ پہنچے۔ یہاں اب پھر قرآن کے ذریعے سے (بِہٖ ) انذار کا حکم آرہا ہے کہ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کا کام انذار اور تبشیر ہے جسے آپ اس قرآن کے ذریعے سے سر انجام دیں۔- آیت ٥١ (وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْٓا اِلٰی رَبِّہِمْ ) - جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ مشرکین مکہ میں بہت کم لوگ تھے جو بعث بعد الموت کے منکر تھے۔ ان میں زیادہ تر لوگوں کا عقیدہ یہی تھا کہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے ‘ قیامت آئے گی اور اللہ کے حضور پیشی ہوگی ‘ لیکن اپنے باطل معبودوں کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ وہ وہاں ہمارے چھڑانے کے لیے موجود ہوں گے اور ہمیں بچا لیں گے۔- (لَیْسَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَّلاَ شَفِیْعٌ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ ) - ان کو خبردار کردیں کہ اپنے باطل معبودوں اور ان کی شفاعت کے سہارے کے بارے میں اپنی غلط فہمیوں کو دور کرلیں۔ شاید کہ حقیقت حال کا ادراک ہونے کے بعد ان کے دلوں میں کچھ خوف خدا پیدا ہوجائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :33 مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں ایسے مدہوش ہیں کہ انہیں نہ موت کی فکر ہے نہ یہ خیال ہے کہ کبھی ہمیں اپنے خدا کو بھی منہ دکھانا ہے ، ان پر تو یہ نصیحت ہرگز کارگر نہ ہوگی ۔ اور اسی طرح ان لوگوں پر بھی اس کا کچھ اثر نہ ہوگا جو اس بے بنیاد بھروسے پر جی رہے ہیں کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کر گزریں ، آخرت میں ہمارا بال تک بیکا نہ ہوگا ، کیونکہ ہم فلاں کے دامن گرفتہ ہیں ، یا فلاں ہماری سفارش کر دے گا ، یا فلاں ہمارے لیے کفارہ بن چکا ہے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو چھوڑ کر تم اپنا روئے سخن ان لوگوں کی طرف رکھو جو خدا کے سامنے حاضری کا بھی اندیشہ رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ جھوٹے بھروسوں پر پھولے ہوئے بھی نہ ہوں ۔ اس نصیحت کا اثر صرف ایسے ہی لوگوں پر ہو سکتا ہے اور انہی کے درست ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: یہ درحقیقت مشرکین کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ وہ اپنے دیوتاؤں کو اپنا مستقل سفارشی سمجھتے تھے، لہذا اس سے آنحضرتﷺ کی اس شفاعت کی تردید نہیں ہوتی جو آپ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مومنوں کے لئے کریں گے کیونکہ دوسری آیتوں میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شفاعت ممکن ہے.(مثلاً دیکھئے : سورۃ بقرہ آیت نمبر 255)