نیند موت کی چھوٹی بہن وفاۃ صغریٰ یعنی چھوٹی موت کا بیان ہو رہا ہے اس سے مراد نیند ہے ، جیسے اس آیت میں ہے آیت ( اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۚثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:55 ) یعنی جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تجھے فوت کرنے والا ہوں ( یعنی تجھ پر نیند ڈالنے والا ہوں ) اور اپنی طرف چڑھا لینے والا ہوں اور جیسے اس آیت میں ہے آیت ( اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ) 39 ۔ الزمر:42 ) یعنی اللہ تعالیٰ نفسوں کو ان کی موت کے وقت مار ڈالتا ہے اور جن کی موت نہیں آئی انہیں نیند کے وقت فوت کر لیتا ہے ( یعنی سلا دیتا ہے ) موت والے نفس کو تو اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقررہ وقت پورا کرنے کے لئے پھر بھیج دیتا ہے ، اس آیت میں دونوں وفاۃ بیان کر دی ہیں ۔ وفاۃ کبریٰ اور وفاۃ صغریٰ اور جس آیت کی اس وقت تفسیر ہو رہی ہے اس میں بھی دونوں وفاتوں کا ذکر ہے ، وفاۃ صغری ٰ یعنی نیند کا پہلے پھر وفاۃ کبریٰ یعنی حقیقی موت کا ۔ بیچ کا جملہ آیت ( وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ) 6 ۔ الانعام:60 ) جملہ معترضہ ہے جس سے اللہ کے وسیع علم کی دلالت ہو رہی ہے کہ وہ دن رات کے کسی وقت اپنی مخلوق کی کسی حالت سے بےعلم نہیں ، ان کی حرکات و سکنات سب جانتا ہے ، جیسے فرمان ہے آیت ( سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ ) 13 ۔ الرعد:10 ) یعنی چھپا کھلا رات کا دن کا سب باتوں کا اسے علم ہے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) 28 ۔ القصص:73 ) یعنی یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے سکون کا وقت رات کو بنایا اور دن کو تلاش معاش کا وقت بنایا اور آیت میں ارشاد ہے آیت ( وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا ) 78 ۔ النبأ:10 ) رات کو ہم نے لباس اور دن کو سبب معاش بنایا یہاں فرمایا رات کو وہ تمہیں سلا دیتا ہے اور دنوں کو جو تم کرتے ہو اس سے وہ آگاہ ہے ، پھر دن میں تمہیں اٹھا بٹھا دیتا ہے ۔ ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ وہ نیند میں یعنی خواب میں تمہیں اٹھا کھڑا کرتا ہے لیکن اول معنی ہی اولی ہیں ، ابن مردویہ کی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے جو سونے کے وقت اس کی روح کو لے جاتا ہے پھر اگر قبض کرنے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس روح کو نہیں لوٹاتا ورنہ بحکم الہی لوٹا دیتا ہے ، یہی معنی اس آیت کے جملے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ) 6 ۔ الانعام:60 ) کا ہے تاکہ اس طرح عمر کا پورا وقت گزرے اور جو اجل مقرر ہے وہ پوری ہو ، قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ ہر ایک کو اس کے عمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک اور بدوں کو برا ، وہی ذات ہے جو ہر چیز پر غالب و قادر ہے اس کی جلالت عظمت عزت کے سامنے ہر کوئی پست ہے بڑائی اس کی ہے اور سب اس کے سامنے عاجز و مسکین ہیں وہ اپنے محافظ فرشتوں کو بھیجتا ہے جو انسان کی دیکھ بھال رکھتے ہیں جیسے فرمان عالیشان ہے آیت ( لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ) 13 ۔ الرعد:11 ) پس یہ فرشتے تو وہ ہیں جو انسان کی جسمانی حفاظت رکھتے ہیں اور دائیں بائیں آگے پیچھے سے اسے بحکم الہی بلاؤں سے بچاتے رہتے ہیں ، دوسری قسم کے وہ فرشتے ہیں جو اس کے اعمال کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں جیسے فرمایا آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ ) 82 ۔ الانفطار:10 ) ان ہی فرشتوں کا ذکر آیت ( اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ ) 50 ۔ ق:17 ) میں ہے پھر فرمایا یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو سکرات کے عالم میں اس کے پاس ہمارے وہ فرشتے آتے ہیں جو اسی کام پر مقرر ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ملک الموت کے بہتے مددگار فرشتے ہیں جو روح کو جسم سے نکالتے ہیں اور حلقوم تک جب روح آ جاتی ہے پھر ملک الموت اسے قبض کر لیتے ہیں ۔ اس کا مفصل بیان آیت ( یثبت اللہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا وہ کوئی کمی نہیں کرتے یعنی روح کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کرتے ۔ اسے پوری حفاظت کے ساتھ یا تو علین میں یک روحوں سے ملا دیتے ہیں یا سجبین میں بری روحوں ڈال دیتے ہیں ۔ پھر وہ سب اپنے سچے مولی کی طرف بلا لئے جائیں گے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مرنے والے کی روح کو نکالنے کے لئے فرشتے آتے ہیں اور اگر وہ نیک ہے تو اس سے کہتے ہیں اے مطمئن روح جو پاک جسم میں تھی تو نہایت اچھائیوں اور بھلائیوں سے چل تو راحت و آرام کی خوسخبری سن تو اس رب کی طرف چل جو تجھ پر کبھی خفا نہ ہو گا ، وہ اسے سنتے ہی نکلتی ہے اور جب تک وہ نکل نہ چکے تب تک یہی مبارک صدا اسے سنائی جاتی ہے پھر اسے آسمانوں پر لے جاتے ہیں اس کیلئے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے اس کی آؤ بھگت کرتے ہیں مرحبا کہتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور جو موت کے فرشتوں نے کہا تھا وہی خوشخبری یہ بھی سناتے ہیں یہاں تک کہ اسی طرح نہایت تپاک اور گرم جوشی سے فرشتوں کے استقبال کے ساتھ یہ نیک روح اس آسمان تک پہنچتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہے ، ( اللہ تعالیٰ ہماری موت بھی نیک پر کرے ) اور جب کوئی برا آدمی ہوتا ہے تو موت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ اے خبیث روح جو گندے جسم میں تھی تو بری بن کر چل گرم کھولتے ہوئے پانی اور سڑی بھسی غذا اور طرح طرح کے عذابوں کی طرف چل ، پھر وہ اس روح کو نکالتے ہیں اور یہی کہتے رہے ہیں پھر اسے آسمان کی طرف چڑھاتے ہیں دروازہ کھولنا چاہتے ہیں ، آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ہے؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں اس خبیث نفس کے لئے مرحبا نہیں ، یہ تھا بھی ناپاک جسم میں تو برائی کے ساتھ لوٹ جا ، تیرے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھلتے ، چنانچہ اسے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے ، پھر قبر پر لائی جاتی ہے ، پھر قبر میں ان دونوں روحوں سے سوال جواب ہوتے ہیں جیسے پہلی حدیثیں گزر چکیں ۔ پھر اللہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں اس سے مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتے لوٹائے جاتے ہیں ۔ اس سے مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتے لوٹائے جاتے ہیں یا یہ کہ مخلوق لوٹائی جاتی ہے یعنی قیامت کے دن ، پھر جناب باری ان میں عدل و انصاف کرے گا اور احکام جاری فرمائے گا ، جیسے فرمایا آیت ( قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِيْنَ وَالْاٰخِرِيْنَ ) 56 ۔ الواقعہ:49 ) یعنی کہدے کہ اول آخر والے سب قیامت کے دن جمع ہوں گے اور آیت میں ہے آیت ( وحشرنا ھم فلم نغادر من ھم احدا ) ہم سب کو جمع کریں گے اور کسی کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے یہاں بھی فرمایا کہ اپنے سچے مولی کی طرف سب کو لوٹنا ہے ۔ جو بہت جلدی حساب لینے والا ہے ۔ اس سے زیادہ جلدی حساب میں کوئی نہیں کر سکتا ۔
60۔ 1 یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئے اسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے (وفات کی وضاحت کے لئے دیکھئے (آل عمران کی آیت 55 کا حشیہ) 60۔ 2 یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کردینا ہے۔ 60۔ 3 یعنی یہ سلسلہ شب و روز اور وفات اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا 61۔ 4 یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
[٦٥] روح کی قسمیں اور حشر ونشر پر دلیل :۔ روح دو قسم کی ہوتی ہے ایک حیوانی دوسرے روحانی یا نفسانی۔ رات کو یا نیند کے دوران روح نفسانی جسم سے نکل جاتی ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اسے قبض کرلیتا ہے۔ اس روح کے جسم سے علیحدہ ہونے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی سماعت، بصارت اور قلب و دماغ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن حیوانی روح جسم میں موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے انسان میں دوران خون جاری رہتا ہے اور وہ سانس بھی لیتا رہتا ہے اور نیند پوری ہونے کے بعد یا سوئے ہوئے کو جگانے سے روح نفسانی بھی جسم میں واپس لوٹ آتی ہے اور ان دونوں قسم کی روحوں کا آپس میں تعلق یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک روح کے خاتمہ سے یا قبض کرنے سے دوسرے کا از خود خاتمہ ہوجاتا ہے اور انسان پر موت واقع ہوجاتی ہے گویا سوئے ہوئے انسان پر آدھی موت طاری ہوچکی ہوتی ہے اسی لیے رسول اللہ نے نیند کو موت کی بہن قرار دیا ہے اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا اور اس حقیقت سے ایک دوسری بڑی حقیقت پر استدلال کیا ہے جو یہ ہے کہ جس طرح اللہ تمہاری نفسانی روح رات کو قبض کر کے صبح واپس تمہارے جسم میں بھیج دیتا ہے اسی طرح موت کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جب قیامت قائم ہوگی تو وہی روح واپس بھیج کر تمہیں تمہاری قبروں سے اٹھا کھڑا کرے گا۔
يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ یہاں قبض کرنے سے مراد نیند ہے۔ ” تَوَفِّیْ “ کی تشریح کے لیے دیکھیے سورة زمر (١٢) ۔- ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ : یعنی دن کے وقت تمہاری روح لوٹا دیتا ہے، معلوم ہوا کہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے۔ - لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ : یعنی تم میں سے ہر ایک کے لیے جو رزق اور عمر متعین ہے وہ پوری کی جاتی ہے۔ - ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ۔۔ : یعنی دن میں تمہاری روح لوٹا کر زندہ کردیتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ تم نے اچھے عمل کیے یا برے، پھر اچھا کام کیا ہوگا تو اچھا بدلہ دے گا اور برا کیا ہوگا تو برا بدلہ دے گا۔ اوپر کی آیت میں کمال علم کا بیان تھا اور اس سے کمال قدرت ثابت ہوتی ہے۔ (رازی)
یہاں تک پہلی آیت کا بیان تھا، جس میں اللہ جل شانہ کی صفت علم کی خصوصیات کا بیان ہے کہ وہ ہر غیب و شہادت اور ہر ذرہ ذرہ کائنات پر حاوی ہے، دوسری آیت میں اسی طرح حق تعالیٰ کی صفت قدرت اور اس کے قادر مطلق ہونے کا بیان ہے جو اسی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے، ارشاد ہے :- وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ” یعنی اللہ تعالیٰ ہر رات میں تمہاری روح کو ایک گونہ قبض کرلیتا ہے، اور پھر صبح کو جگا دیتا ہے تاکہ تمہاری مقررہ عمر پوری کر دے، اور پھر دن میں بھی تم جو کچھ کرتے رہتے ہو وہ سب اس کے علم میں ہے، یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ ہے کہ انسان کے جینے، مرنے اور مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا ایک نمونہ ہر روز اس کے سامنے آتا رہتا ہے، حدیث میں نیند کو موت کا بھائی فرمایا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ نیند انسان کے تمام قوی کو ایسا ہی معطل کردیتی ہے جیسے موت۔- اس آیت میں حق تعالیٰ نے نیند اور پھر اس کے بعد بیداری کی مثال پیش فرما کر انسان کو اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ جس طرح ہر رات اور ہر صبح میں ہر شخص شخصی طور پر مر کر جینے کی ایک مثال کا مشاہدہ کرتا ہے، اسی طرح پورے عالم کی اجتماعی موت اور پھر اجتماعی زندگی کو سمجھ لو، جس کو قیامت کہا جاتا ہے، جو ذات اس پر قادر ہے اس کی قدرت کاملہ سے وہ بھی مستبعد نہیں، اسی لئے آخر آیت میں فرمایا، ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ، یعنی پھر تم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تم کو جتلائے گا جو تم عمل کیا کرتے تھے “۔- مراد یہ ہے کہ اعمال کا حساب ہوگا، پھر اس پر جزاء و سزاء ہوگی۔
وَہُوَالَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْہِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ٠ۚ ثُمَّ اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٦٠ۧ- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - جرحتم - ۔ تم نے کمایا۔ ( باب فتح) جرح سے جس کے معنی زخمی کرنے کمانے اور کسی میں طعن کرنے کے ہیں۔ یہاں کمانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یقال فلان یجرح لعیالہ۔ وہ اپنے کنبے کے لئے کماتا ہے۔- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
(٦٠) وہ رات کے وقت نیند کی حالت میں تمہاری روحوں کو ایک خاص انداز سے قبض کرلیتا ہے اور پھر دن میں تمہاری روحوں کو واپس کردیتا ہے تاکہ سب لوگ اپنی مدت اور روزی پورا کرلیں اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے حاضر ہوتا ہے اور وہ تمہیں تمہاری نیکی اور بدی سب سے آگاہ کر دے گا۔
آیت ٦٠ (وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰٹکُمْ بالَّیْلِ ) - سورۂ آل عمران کی آیت ٥٥ کی تشریح کے سلسلے میں یُوَفِّیْ ‘ یَتَوَفّٰی اور مُتَوَفِّیوغیرہ الفاظ کی وضاحت ہوچکی ہے ‘ جس سے قادیانیوں کی ساری خباثت کا توڑ ہوجاتا ہے۔ ذرا غور کیجئے یہاں وفات دینے کے کیا معنی ہیں ؟ کیا نیند کے دوران انسان مرجاتا ہے ؟ نہیں ‘ جان تو بدن میں رہتی ہے ‘ البتہ شعور نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں تین چیزیں الگ الگ ہیں ‘ جسم ‘ جان اور شعور۔ فارسی کا ایک بڑا خوبصورت شعر ہے - جاں نہاں در جسم ‘ اُو در جاں نہاں - اے نہاں ‘ اندر نہاں ‘ اے جان جاں - جان جسم کے اندر پنہاں ہے اور جان میں وہ پنہاں ہے۔ اے کہ جو پنہاں شے کے اندر پنہاں ہے ‘ تو ہی تو جان جاں ہے - اس شعر میں او (وہ) سے مراد کچھ اور ہے ‘ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اس وقت صرف یہ سمجھ لیجیے کہ ان تین چیزوں (یعنی جسم ‘ جان اور شعور ) میں سے نیند میں صرف شعور جاتا ہے جبکہ موت میں شعور بھی جاتا ہے اور جان بھی چلی جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تَوَفِّی مکمل صورت میں وقوع پذیر ہوا تھا ‘ یعنی جسم ‘ جان اور شعور تینوں چیزوں کے ساتھ۔ عام آدمی کی موت کی صورت میں یہ تَوَفِّی ادھورا ہوتا ہے ‘ یعنی جسم یہیں رہ جاتا ہے ‘ جان اور شعور چلے جاتے ہیں ‘ جب کہ نیند کی حالت میں صرف شعور جاتا ہے۔- (وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ج) ۔- یعنی روزانہ ہم ایک طرح سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ‘ کیونکہ نیند آدھی موت ہوتی ہے۔ جیسے صبح کے وقت اٹھنے کی مسنون دعا میں مذکور ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَیْہِ النُّشُوْرِ (کل شکر اور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے دوبارہ زندہ کیا ‘ اس کے بعد کہ مجھ پر موت وارد کردی تھی اور اسی کی طرف جی اٹھنا ہے) ۔ اس دعا سے ایک بڑاعجیب نکتہ ذہن میں آتا ہے۔ وہ یہ کہ ہر روز صبح اٹھتے ہی جس شخص کی زبان پر یہ الفاظ آتے ہوں : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَیْہِ النُّشُوْرِ قیامت کے دن جب وہ قبر سے اٹھے گا تو دنیا میں اپنی عادت کے سبب اس کی زبان پر خود بخود یہی ترانہ جاری ہوجائے گا ‘ جو اس وقت لفظی اعتبار سے صد فی صد درست ہوگا ‘ کیونکہ وہ اٹھنا حقیقی موت کے بعد کا اٹھنا ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ زندگی میں روزانہ اس کی ریہرسل کی جائے تاکہ یہ عادت پختہ ہوجائے۔