59۔ 1 کتاب مُبِین سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں اس لئے کفار و مشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے ؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں (صحیح بخاری)
[٦٣] غیب کی خبریں بتانے والے :۔ میں جو ظالموں پر عذاب آنے کی بات کرتا ہوں تو یہ بھی وحی الٰہی کی بنا پر کرتا ہوں۔ رہی یہ بات کہ وہ عذاب کب آئے گا اس کا مجھے کچھ علم نہیں الا یہ کہ اللہ مجھے اس سے آگاہ فرما دے کیونکہ غیب کے تمام تر وسائل و ذرائع صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا اور اگر کوئی شخص غیب جاننے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے اور اللہ کی اس صفت کا منکر ہے اور جو شخص کسی غیب کی خبر دینے والے کی تصدیق کرتا ہے یا اس پر یقین رکھتا ہے وہ بھی برابر کا مجرم ہے جس پر درج ذیل احادیث شاہد ہیں۔- ١۔ آپ نے فرمایا جو شخص کسی عراف (غیب کی خبریں بتانے والے) کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم۔ باب السلام۔ باب تحریم الکہانۃ و اتیان الکھان)- ٢۔ آپ نے فرمایا جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرے، پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس چیز سے کفر کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ (ابو داؤد باب الکھانت والتفسیر۔ باب النھی عن اتیان الکھان )- ٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا نجومی کاہن ہے اور کاہن جادوگر ہے اور جادوگر کافر ہے۔ (بخاری کتاب المناقب۔ باب ایام الجاھلیۃ۔۔ )- ٤۔ آپ نے فرمایا کہ غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ ہی جانتا ہے (یعنی) قیامت کب آئے گی ؟ وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام میں کیا کچھ (تغیر و تبدل) ہوتا رہتا ہے۔ نیز کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کو کیا کرے گا اور نہ ہی وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ اللہ ہی ان باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر)- خ اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت :۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ غیب کے سب علوم ایک مخصوص مقام پر خزانوں کی صورت میں سربمہر بند ہیں۔ اور مقفل ہیں اور ان تالوں کی چابیاں صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اسی مقام پر ہر چیز کی مقادیر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ رکھی ہیں اسی مقام کو قرآن میں کسی جگہ لوح محفوظ (٨٥ : ٢٢) کسی جگہ ام الکتاب (٤٣ : ٤) کسی جگہ امام مبین (٢٦ : ١٢٧) کسی جگہ کتاب مکنون (٥٦ : ٧٨) اور کسی جگہ کتاب مبین فرمایا ہے اور سب اس مقام یا ان غیب کے خزانوں کے صفاتی نام ہیں۔ ان خزانوں تک ان خزانوں کے مالک حق سبحانہ کے علاوہ اور کسی کی رسائی ممکن نہیں گویا یہی لکھی ہوئی مقادیر تمام مخلوقات کا مبدا یا نقطہ آغاز ہیں۔ پھر ان خزانوں کی وسعت کو عام لوگوں کے ذہن نشین کرانے کے لیے اس کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی مثلاً اللہ ہی خشکی اور سمندروں کی سب اشیاء کو جانتا ہے خشکی میں جنگل بھی ہیں آبادیاں بھی، پہاڑ بھی، غاریں بھی۔ بیشمار درخت اور جڑی بوٹیاں بھی اور لاتعداد مخلوق حیوانات بھی اور انسان بھی اور سمندروں کی مخلوق تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کے اجمالی علم سے متعلق تھا اور تفصیلی یہ ہے کہ وہ مثلاً کسی درخت کے پتوں تک انفرادی علم رکھتا ہے کہ اس کی نشوونما کیسے ہو رہی ہے اور کب وہ جھڑ کر اپنے درخت سے نیچے گرپڑے گا اسی طرح جو غلہ زمین سے پیدا ہو رہا ہے اس کے ایک ایک دانے کا اسے علم ہے۔ علاوہ ازیں وہ زمین کے اندر کی مخفی چیزوں تک کو جانتا ہے پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کائنات میں اب تک کیا کچھ ہوچکا ہے اور آئندہ کیا کچھ ہونے والا ہے اور ان باتوں کے متعلق بھی وہ تفصیلی علم رکھتا ہے اجمالی نہیں گویا کتاب مبین یا لوح محفوظ ایسا نورانی تختہ ہے جس میں ازل سے کائنات کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے اسی کے مطابق اسی عالم میں واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں اسی کے مطابق اس عالم کا خاتمہ ہوگا اور پھر روز آخرت قائم ہوگا۔- [٦٤] لکھی ہوئی تقدیر :۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص ص کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ لی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ (مسلم۔ کتاب القدر۔ باب حجاج آدم و موسیٰ علیہ السلام)
وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ ۔۔ : یعنی خلق میں سے کسی ایک کو بھی غیبی امور کا علم نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجومی یا پنڈت یا رمال اور جفار جو اپنی غیب دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں کو آئندہ پیش آنے والی باتیں بتاتے ہیں، وہ سب جھوٹے اور ٹھگ ہیں اور ان کے پاس جانا کسی مسلمان کا کام نہیں ہے۔ مزید دیکھیے سورة نمل (٦٥) ۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” غیب کی کنجیاں پانچ ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ ) [ لقمان : ٣٤ ] ” بیشک اللہ اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : (وعندہ مفاتح الغیب۔۔ ) : ٤٦٢٧ ]- اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : یعنی اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور پوشیدہ سے پوشیدہ چیز لوح محفوظ میں درج ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور اللہ تعالیٰ کے پاس (یعنی اسی کی قدرت میں) ہیں خزانے تمام مخفی اشیاء (ممکنہ) کے (ان میں سے جس چیز کو جس وقت اور جس قدر چاہیں ظہور میں لاتے ہیں، ان اشیاء میں عذاب کی قسمیں بھی آگئیں، مطلب یہ کہ اور کسی کو ان چیزوں پر قدرت نہیں اور جس طرح قدرت کاملہ ان کی ساتھ خاص ہے، اسی طرح ان کا علم تام اور کامل بھی چنانچہ) ان خزائنِ مخفیہ کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے، اور وہ ان تمام چیزوں کو بھی جانتا ہے جو خشکی میں ہیں اور جو دریا میں ہیں اور کوئی پتہ (تک درخت سے) نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ (تک) زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز (مثل پھل وغیرہ کے) گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین (یعنی لوح محفوظ) میں (مرقوم) ہیں، اور وہ (اللہ تعالیٰ ) ایسا ہے کہ (اکثر) رات میں (سونے کے وقت) تمہاری روح (نفسانی) کو (جس سے احساس و ادراک متعلق ہے) ایک گونہ قبض کرلیتا ہے (یعنی معطل کردیتا ہے) اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو (دواماً ) جانتا ہے پھر تم کو دن میں جگا اٹھاتا ہے تاکہ (اسی سونے جاگنے کے دوران سے) میعاد معین (دینوی زندگی کی) تمام کردی جاوے پھر اسی (اللہ) کی طرف (مڑکر) تم کو جانا ہے۔ پھر تم کو بتلا دے گا جو کچھ تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے، (اور اس کے مناسب جزاء و سزاء جاری کرے گا) اور وہی (اللہ تعالیٰ قدرت سے) اپنے بندوں کے اوپر غالب ہیں برتر ہیں اور (اے بندو) تم پر (تمہارے اعمال اور جان کی) نگرانی کرنے والے (فرشتے) بھیجے ہیں (جو زندگی بھر تمہارے اعمال کو بھی دیکھتے ہیں اور تمہاری جان کی بھی حفاظت کرتے ہیں) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آپہنچتی ہے تو (اس وقت) اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) قبض کرلیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے (بلکہ جس وقت حفاظت کا حکم تھا حفاظت کرتے رہے، جب موت کا حکم ہوگیا تو یہی محافظ روح قبض کرنے والے فرشتوں کے ساتھ مل جاتے ہیں) پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جاویں گے، خوب سن لو (اس وقت) فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا (اور کوئی دخل نہ دے سکے گا) اور وہ بہت جلد حساب لے لے گا۔- معارف و مسائل - گناہوں سے بچنے کا نسخہ اکسیر - تمام دنیا کے مذاہب میں اسلام کا طغرائے امتیاز اور اس کا رکن اعظم عقیدہ توحید ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایک اور اکیلا جاننے کا نام توحید نہیں، بلکہ اس کو تمام صفات کمال میں یکتا و بےمثل ماننے اور اس کے سوا کسی مخلوق کو ان صفات کمال میں اس کا سہیم و شریک نہ سمجھنے کو توحید کہتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ کی صفات کمال ؛ حیات، علم، قدرت، سمع، بصر، ارادہ، مشیت، خلق، رزق وغیرہ وہ ان سب صفات میں ایسا کامل ہے کہ اس کے سوا کوئی مخلوق کسی صفات میں اس کے برابر نہیں ہوسکتی۔ پھر ان صفات میں بھی دو صفتیں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔ ایک علم، دوسرے قدرت، اس کا علم بھی تمام موجود وغیر موجود، ظاہر اور مخفی، بڑے اور چھوٹے ہر ذرہ ذرہ پر حاوی اور محیط ہے، اور اس کی قدرت بھی ان سب پر پوری پوری محیط ہے، مذکورہ دو آیتوں میں انہی دو صفتوں پر مکمل یقین اور اس کے استحضار کی کیفیت پیدا کرے تو اس سے کوئی جرم و گناہ سرزد ہو ہی نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک انسان کو اپنے پر قول و عمل اور نشست و برخاست میں ہر قدم پر یہ مستحضر رہے کہ ایک علیم وخبیر قادر مطلق مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے، اور میرے ظاہر و باطن اور دل کے ارادہ اور خیال تک سے واقف ہے تو یہ استحضار کبھی اس کا قدم اس قادر مطلق کی نافرمانی کی طرف نہ اٹھنے دے گا، اس لئے یہ دونوں آیتیں انسان کو انسان کامل بنانے اور اس کے اعمال و اخلاق کو درست کرنے اور درست رکھنے میں نسخہ اکسیر ہیں۔- پہلی آیت میں ارشاد فرمایا : وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ لفظ مفاتح جمع ہے، اس کا مفرد مفتح بفتح میم بھی ہوسکتا ہے، جو خزانہ کے لئے بولا جاتا ہے، اور مفتح بکسر میم بھی ہوسکتا ہے۔ جس کے معنی ہیں کنجی، لفظ مفاتح میں دونوں معنی کی گنجائش ہے، اس لئے بعض مفسرین اور مترجمین نے اس کا ترجمہ خزانوں سے کیا ہے، اور بعض نے کنجیوں سے اور حاصل دونوں کا ایک ہی ہے، کیونکہ کنجیوں کا مالک ہونے سے بھی خزانوں کا مالک ہونا مراد ہوتا ہے۔- قرآنی اصطلاح میں علم غیب اور قدرت عامہ مطلقہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت خاص ہے کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں - اور لفظ غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، یا وجود میں تو آچکی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر کسی کو مطلع نہیں ہونے دیا (مظہری) ۔ پہلی قسم کی مثال وہ تمام حالات و واقعات ہیں جو قیامت سے متعلق ہیں یا کائنات میں آئندہ پیش آنے والے واقعات سے تعلق رکھتے ہیں، مثلاً یہ کہ کون، کب، اور کہاں پیدا ہوگا، کیا کیا کام کرے گا۔ کتنی عمر ہوگی، عمر میں کتنے سانس لے گا، کتنے قدم اٹھائے گا، کہاں مرے گا، کہاں دفن ہوگا، رزق کس کو کتنا اور کس وقت ملے گا، بارش کس وقت کہاں اور کتنی ہوگی۔- اور دوسری قسم کی مثال وہ حمل جو عورت کے رحم میں وجود تو اختیار کرچکا ہے مگر یہ کسی کو معلوم نہیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ خوب صورت ہے یا بدصورت، نیک طبیعت ہے یا بدخصلت، اسی طرح اور ایسی چیزیں جو وجود میں آجانے کے باوجود مخلوق کے علم و نظر سے غائب ہیں۔- وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ کے پاس ہیں خزانے غیب کے۔ اس کے پاس ہونے سے مراد اس کی ملک اور قبضہ میں ہونا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ غیب کے خزانوں کا علم بھی اس کے قبضہ میں ہے، اور ان کو وجود و ظہور میں لانا بھی اسی کی قدرت میں ہے کہ کب کب اور کتنا کتنا وجود میں آئے گا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں مذکور ہے : (آیت) وان من شیء الا عندنا، یعنی ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں مگر ہم ہر چیز کو ایک خاص انداز سے نازل کرتے ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس جملہ سے حق تعالیٰ کا بےمثال کمال علمی بھی ثابت ہوگیا اور کمال قدرت بھی، اور یہ بھی کہ یہ علم محیط اور قدرت مطلقہ صرف اللہ جل شانہ کی صفت ہے اور کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، آیت میں لفظ عندہ کو مقدم کرکے قواعد عربیت کے مطابق اس حصر اور اختصاص کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے، آگے اس اشارہ کو صراحت میں تبدیل کر کے پوری طرح دلنشین کرنے کے لئے ارشاد فرمایا : لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ، یعنی ان خزائنِ غیب کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔- اس لئے اس جملہ سے دو باتیں ثابت ہوئی، اول حق تعالیٰ کا تمام غیب کی چیزوں پر علم محیط کے ساتھ مطلع اور ان سب پر قدرت کامل کے ساتھ قادر ہونا، دوسرے ذات حق جل شانہ کے سوا کسی مخلوق یا کسی چیز کو ایسا علم وقدرت حاصل نہ ہونا۔- قرآن کی اصطلاح میں لفظ غیب کے جو معنی (بحوالہ تفسیر مظہری) اوپر بیان کئے گئے ہیں، کہ وہ چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں یا آچکی ہیں مگر ابھی تک کسی مخلوق پر ان کا ظہور نہیں ہوا۔ اگر ان کو پیش نظر رکھا جائے تو مسئلہ غیب پر سطحی نظر میں جو جو شبہات عوام کو پیش آیا کرتے ہیں خود بخود ختم ہوجائیں۔- لیکن عام طور پر لوگ لفظ غیب کے لغوی معنی لیتے ہیں کہ جو چیز ہمارے علم و نظر سے غائب ہو، خواہ دوسروں کے نزدیک اس کا علم حاصل کرنے کے ذرائع موجود ہوں اس کو بھی غیب کہنے لگتے ہیں، اس کے نتیجہ میں طرح طرح کے شبہات سامنے آتے ہیں، مثلاً علم، نجوم، جفر، رمل، یا ہتھیلی کی لکیروں وغیرہ سے جو آئندہ واقعات کا علم حاصل کیا جاتا ہے یا کشف والہام کے ذریعہ کسی شخص کو واقعات آئندہ کا علم ہوجاتا ہے، یا مان سون کا رخ اور اس کی قوت و رفتار کو دیکھ کر موسمیات کے ماہرین ہونے والے بادو باراں کے متعلق پیشین گوئیاں کرتے ہیں، اور ان میں بہت سی باتیں صحیح بھی ہوجاتی ہیں، یہ سب چیزیں عوام کی نظر میں علم غیب ہوتی ہیں، اس لئے آیت مذکورہ پر یہ شبہات ہونے لگتے ہیں کہ قرآن حکیم نے تو علم غیب کو ذات حق جل شانہ کی خصوصیت بتلایا ہے، اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ - جواب واضح ہے کہ کشف والہام یا وحی کے ذریعہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندہ کو کسی آئندہ واقعہ کی اطلاع دے دیتو قرآنی اصطلاح میں وہ علم غیب نہ رہا۔ اسی طرح اسباب و آلات کے ذریعہ جو علم حاصل کیا جاسکے وہ بھی اصطلاح قرآنی کے لحاظ سے علم غیب نہیں۔ جیسے محکمہ موسمیات کی خبریں، یا نبض دیکھ کر مریض کے مخفی حالات بتلا دینا۔ وجہ یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کو یا کسی حکیم ڈاکٹر کو ایسی خبریں دینے کا موقع جب ہی ہاتھ آیا جب ان واقعات کا مادہ پیدا ہو کر ظاہر ہوجاتا ہے، فرق اتنا ہے کہ ابھی اس کا ظہور عام نہیں ہوتا آلات کے ذریعہ اہل فن کو ظاہر ہوتا ہے، عوام بیخبر رہتے ہیں اور جب یہ مادہ قوی ہوجاتا ہے تو اس کا ظہور عام ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ موسمیات مہینہ دو مہینہ بعد ہونے والی بارش کی خبر آج نہیں دے سکتا۔ کیونکہ ابھی اس بارش کا مادہ سامنے نہیں آیا، اسی طرح کوئی حکیم ڈاکٹر سال دو سال پہلے کی کھائی ہوئی یا دو سال بعد کھائی جانے والی دوا یا غذا وغیرہ کا پتہ آج نبض دیکھ کر نہیں دے سکتا، کیونکہ اس کا کوئی اثر عادةً نبض میں نہیں ہوتا۔ - خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ کسی چیز کے آثار و نشانات دیکھ کر اس کے وجود کی خبر دے دیجاتی ہے۔ اور جب اس کے آثار و نشانات اور مادہ ظاہر ہوچکا تو اب وہ غیب میں شامل نہ رہا بلکہ مشاہدہ میں آگیا۔ البتہ لطیف یا ضعیف ہونے کی وجہ سے عام مشاہدہ میں ابھی نہیں آیا، جب قوت پکڑے گا تو عام مشاہدہ میں بھی آجائے گا۔- اس کے علاوہ ان سب چیزوں سے حاصل ہونے والی واقفیت سب کچھ ہونے کے بعد بھی تخمینہ و اندازہ ہی کی حیثیت رکھتی ہی، علم جو یقین کا نام ہے وہ ان میں سے کسی چیز سے کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان خبروں کے غلط ہونے کے بیشمار واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔- رہا علم نجوم وغیرہ سو اس میں جو چیزیں حسابات سے متعلق ہیں ان کا علم تو علم ہے۔ مگر وہ غیب نہیں۔ جیسے حساب لگا کر کوئی یہ کہے کہ آج ٥ بج کر اکتالیس منٹ پر آفتاب طلوع ہوگا یا فلاں مہینہ فلاں تاریخ کو چاند گرہن ہوگا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک محسوس چیز کی رفتار کا حساب لگا کر وقت کا تعین کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم ہوائی جہازوں اور ریلوں کے کسی پورٹ یا اسٹیشن پر پہنچنے کی خبر دیدتے ہیں۔ اس کے علاوہ نجوم وغیرہ سے جو خبریں معلوم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ دھوکہ کے سوا کچھ نہیں سو جھوٹ میں ایک سچ نکل آنا کوئی علم نہیں۔- حمل میں لڑکا ہے یا لڑکی، اس کے بارے میں بھی بہت سے اہل فن کچھ کہا کرتے ہیں، مگر تجربہ شاہد ہے کہ اس کا درجہ بھی وہی تخمینہ و اندازے کا ہے یقینی نہیں اور سو میں دو چار کا صحیح ہوجانا ایک طبعی امر ہے، وہ کسی علم و آگہی سے تعلق نہیں رکھتا۔- ہاں جب ایکسرے کے آلات ایجاد ہوئے تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید اس کے ذریعہ حمل کا نر یا مادہ ہونا معلوم ہوجایا کرے گا۔ مگر تجربہ نے ثابت کردیا کہ ایکسرے کے آلات بھی یہ متعین نہیں کرسکتے کہ حمل میں لڑکا ہے یا لڑکی۔- خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز قرآنی اصطلاح میں غیب ہے اس کا سوائے خدائے قدوس کے کسی کو علم نہیں، اور جن چیزوں کا علم لوگوں کو بعض اسباب و آلات کے ذریعہ عادةً حاصل ہوجاتا ہے وہ در حقیقت غیب نہیں، گو ظہور عام نہ ہونے کی وجہ سے اس کو غیب کہتے ہوں۔ - اسی طرح کسی رسول و نبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ کشف والہام جو غیب کی کچھ چیزوں کا علم دے دیا گیا تو وہ غیب کی حدود سے نکل گیا، اس کو قرآن میں غیب کی بجائے انباء الغیب کہا گیا ہے۔ جیسا کہ متعدد آیات میں مذکور ہے : (آیت) تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک، اس لئے آیت مذکورہ میں لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ، یعنی غیب کے خزانوں کو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، اس میں کسی شبہ یا استثناء کی گنجائش نہیں۔- اس جملہ میں تو حق جل شانہ کی یہ خصوصی صفت بتلائی ہے کہ وہ عالم الغیب ہے، ہر غیب کو جانتا ہے، بعد کے جملوں میں غیب کے بالمقابل علم شہادت یعنی حاضر و موجود چیزوں کے علم کا بیان ہے کہ ان کا علم میں بھی اللہ جل شانہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا علم محیط ہے کوئی ذرہ اس سے باہر نہیں، ارشاد فرمایا کہ وہی جانتا ہے ہر اس چیز کو جو خشکی میں ہے اور اس چیز کو جو دریا میں ہے اور کوئی پتہ کسی درخت کا نہیں گرتا جس کا علم اس کو نہ ہو، اسی طرح کوئی دانہ جو زمین کے تاریک حصہ میں مستور ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے، اور ہر تر و خشک میں کل کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ علم کے متعلق دو چیزیں حق تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہیں، جن میں کوئی فرشتہ یا رسول یا کوئی دوسری مخلوق شریک نہیں، ایک علم غیب، دوسرے موجودات کا علم محیط جس سے کوئی ذرہ مخفی نہیں، پہلی آیت میں انہی دونوں مخصوص صفات کا بیان اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس کے پہلے جملہ میں پہلی خصوصیت کا بیان ہے، وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ اور بعد کے جملوں میں تمام کائنات و موجودات کے علم محیط کا ذکر اس طرح فرمایا کہ پہلے ارشاد ہوا وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہر اس چیز کو جو خشکی میں ہے اور جو دریا میں ہے۔ مراد اس سے کل کائنات و موجودات ہے، جیسے صبح و شام کا لفظ بول کر پورا زمانہ اور مشرق و مغرب کا لفظ بول کر پوری زمین مراد لی جاتی ہے، اسی طرح بر و بحر یعنی خشکی و دریا بول کر مراد اس سے پورے عالم کی کائنات و موجودات ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اللہ جل شانہ کا علم تمام کائنات پر محیط ہے۔- آگے اس کی مزید تشریح و تفصیل اس طرح بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا تمام کائنات پر احاطہ علمی صرف یہی نہیں کہ بڑی بڑی چیزوں کا اس کو علم ہو، بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی مخفی سے مخفی چیز بھی اس کے علم میں ہے، فرمایا وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا یعنی سارے جہان میں کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو، مراد یہ ہے کہ ہر درخت کا ہر پتہ گرنے سے پہلے اور گرنے کے وقت اور گرنے کے بعد اس کے علم میں ہے، وہ جانتا ہے کہ ہر پتہ درخت پر لگا ہوا کتنی مرتبہ الٹ پلٹ ہوگا، اور کب اور کہاں گرے گا، اور پھر وہ کس کس حال سے گزرے گا۔ گرنے کا ذکر شاید اسی لئے کیا گیا ہے کہ اس کے تمام حالات کی طرف اشارہ ہوجائے، کیونکہ پتے کا درخت سے گرنا اس کے نشوونما اور نباتی زندگی کا آخری حال ہے۔ آخری حال کا ذکر کرکے تمام حالات کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ - اس کے بعد ارشاد فرمایا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ ، یعنی ہر وہ دانہ جو زمین کی گہرائی اور اندھیری میں کہیں پڑا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے، پہلے درخت کے پتہ کا ذکر کیا جو عام نظروں کے سامنے گرتا ہے، اس کے بعد دانہ کا ذکر کیا، جو کاشتکار زمین میں ڈالتا ہے، یا خودبخود کہیں زمین کی گہرائی اور اندھیری میں مستور ہوجاتا ہے، اس کے بعد پھر تمام کائنات پر علم باری تعالیٰ کا حادی ہونا تر اور خشک کے عنوان سے ذکر فرمایا، اور فرمایا کہ یہ سب چیزیں اللہ کے نزدیک کتاب مبین میں لکھی ہوئی ہیں، کتاب مبین سے مراد بعض حضرات مفسرین کے نزدیک لوح محفوظ ہے، اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد علم الٓہی ہے، اور اس کو کتاب مبین سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ جیسے لکھی ہوئی چیز محفوظ ہوجاتی ہے، اس میں سہو و نسیان کی راہ نہیں رہتی اسی طرح اللہ جل شانہ کا یہ علم محیط تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا صرف تخمینی نہیں بلکہ یقینی ہے۔- قرآن مجید کی بہت سی آیات اس پر شاید ہیں کہ اس طرح کا علم محیط جس سے کائنات کا کوئی ذرہ اور اس کا کوئی حال خارج نہ ہو یہ صرف ذات حق جل شانہ کے ساتھ مخصوص ہے۔- سورة لقمان میں ہے :- (آیت) انھا ان تک مثقال حبة من۔ یعنی اگر کوئی دانہ رائی کے برابر پھر وہ پتھر کے جگر میں پیوست ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں ہو اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرلیں گے، بیشک اللہ تعالیٰ لطیف اور ہر چیز سے خبردار ہے “۔- آیة الکرسی میں ہے :- (آیت) یعلم ما بین ایدھم وما خلفھم۔ ” یعنی اللہ تعالیٰ سب انسانوں کے اگلے اور پچھلے سب حالات سے واقف ہیں اور سارے انسان مل کر اس کے علم میں سے کسی ایک چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، بجز اتنے علم کے اللہ تعالیٰ کسی کو دینا چاہیں “۔- سورة یونس میں ہے :- (آیت) وما یعزب عن ربک من مثقال - ” یعنی ایک ذرّہ کے برابر بھی کوئی چیز زمین و آسمان میں آپ کے رب کے علم سے جدا نہیں ہے “۔- اور سورة طلاق میں ہے :- (آیت) وان اللّٰہ قد احاط بکل شیء علما - ” یعنی اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے “۔- اسی طرح بیشمار آیات میں یہ مضمون مختلف عنوانات سے آیا ہوا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ غیب کا علم (جس کو قرآن میں غیب کہا گیا ہے اور اس کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے) یا تمام کائنات کا علم محیط صرف اللہ جل شانہ کی مخصوص صفت ہے، کسی فرشتہ یا رسول کے علم کو اسی طرح ہر ذرّہ کائنات پر محیط سمجھنا وہ عیسائیوں کی طرح رسول کو خدا کا درجہ دیدینا ہے اور خدا تعالیٰ کے برابر قرار دیدینا ہے جو بتصریح قرآن کریم شرک ہے، سورة شعراء میں شرک کی یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے :- (آیت) تاللّٰہ ان کنا لفی ضلل مبین - ” یعنی قیامت کے روز مشرکین کہیں گے کہ بخدا ہم سخت گمراہی میں تھے کہ تم کو یعنی بتوں کو رب العالمین کے برابر کرتے تھے “۔- بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو اور بالخصوص حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی ہزاروں لاکھوں چیزوں کا علم عطا فرمایا ہے اور سب فرشتوں اور انبیاء سے زیادہ عطا فرمایا ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی برابر کسی کا علم نہیں، نہ ہوسکتا ہے، ورنہ پھر یہ رسول کی تعظیم کا وہ غلو ہوگا جو عیسائیوں نے اختیار کیا، کہ رسول کو خدا کے برابر ٹھہرا دیا، اسی کا نام شرک ہے، نعوذ باللہ منہ۔
وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ ٠ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ٠ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ٥٩- مِفْتَاحُ- والمِفْتَحُ وَالمِفْتَاحُ : ما يفتح به، وجمعه : مَفَاتِيحُ ومَفَاتِحُ. وقوله : وَعِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ [ الأنعام 59] ، يعني : ما يتوصّل به إلى غيبه المذکور في قوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ [ الجن 26- 27] . وقوله : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ [ القصص 76] ، قيل : عنی مفاتح خزائنه . وقیل : بل عني بالمفاتح الخزائن أنفسها . وباب فَتْحٌ: مَفْتُوحٌ في عامّة الأحوال، وغلق خلافه . وروي : ( من وجد بابا غلقا وجد إلى جنبه بابا فتحا) «2» وقیل : فَتْحٌ: واسع .- المفتح والمفتاح ( کنجی ) وہ چیزیں جس کے ساتھ کسی چیز کو کھولا جائے اس کی جمع مفاتح ومفاتیح آتی ہے اور آیت وَعِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ [ الأنعام 59] اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ۔ میں مفاتح سے وہ سائل مراد ہیں جن کے ذریعہ اس غیب تک رسائی ہوتی ہے جس کا ذکر آیت فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ [ الجن 26- 27] اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے ۔ میں ہے اور آیت کریمہ : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ [ القصص 76] اتنے خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔ میں مفاتح سے بعض کے نزیدیک خزانوں کی چابیاں مراد ہیں اور بعض نے خزانے ہی مراد لئے ہیں ۔ عام طور پر باب فتح کے معنی مفتوح کے آتے ہیں اور یہ غلق کی ضد ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جس سے ایک دروازہ بند ہوجائے تو اس کے لئے دوسرا دروازہ کھلا ہے اور بعض کے نزدیک فتح بمعنی واسع ہے ۔- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - سقط - السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران :- السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع .- ( س ق ط )- السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔- ورق - وَرَقُ الشّجرِ. جمعه : أَوْرَاقٌ ، الواحدة : وَرَقَةٌ. قال تعالی: وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام 59] ، ووَرَّقْتُ الشّجرةَ : أخذت وَرَقَهَا، والوَارِقَةُ : الشّجرةُ الخضراءُ الوَرَقِ الحسنةُ ، وعامٌ أَوْرَقُ : لا مطر له، وأَوْرَقَ فلانٌ:إذا أخفق ولم ينل الحاجة، كأنه صار ذا وَرَقٍ بلا ثمر، ألا تری أنه عبّر عن المال بالثّمر في قوله : وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف 34] قال ابن عباس - رضي اللہ عنه : هو المال «1» . وباعتبار لونه في حال نضارته قيل : بَعِيرٌ أَوْرَقُ : إذا صار علی لونه، وبعیرٌ أَوْرَقُ : لونه لون الرّماد، وحمامةٌ وَرْقَاءُ. وعبّر به عن المال الکثير تشبيها في الکثرة بالوَرَقِ ، كما عبّر عنه بالثّرى، وکما شبّه بالتّراب وبالسّيل كما يقال : له مال کالتّراب والسّيل والثری، قال الشاعر : واغفر خطایاي وثمّر وَرَقِي«2» والوَرِقُ بالکسر : الدّراهم . قال تعالی: فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف 19] وقرئ : بِوَرِقِكُمْ «3» و ( بِوِرْقِكُمْ ) «4» ، ويقال : وَرْقٌ ووَرِقٌ ووِرْقٌ ، نحو كَبْد وكَبِد، وكِبْد .- ( و ر ق ) الورق ۔- درخت کے پتے اس کی جمع اوراق اور واحد ورقتہ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام 59] اور کوئی پتہ نہیں جھڑ تا مگر وہ اس کو جانتا ہے ۔ اور ورقت الشجرۃ کے معنی درخت کا پتے دار ہونا کے ہیں اور سر سبز خوبصورت پتے دار درخت کو وارقتہ کہا جاتا ہے ۔ عام اورق کے معنی قحط سالی کے ہیں ۔ اور اورق فلان کے معنی ناکام ہونے کے ہیں گویا وہ پتے دار درخت ہے جو بدوں ثمر کے ہے اور اس کے بالمقابل آیت : ۔ وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف 34] اور اس کو پیدا وار ( ملتی رہتی) تھی ۔ میں مال کو ثمر کہا ہے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے اور رنگ کی ترو تازگی کے لحاظ سے خاکستری رنگ کے اونٹ کو بعیر اورق کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح حمامتہ ورقاء کا محاورہ ہے جس کے معنی خاکی رنگ کی کبوتری یا فاختہ کے ہیں ۔ اورق ( ایضا ) مال دار ہونا گویا کثرت کے لحاظ گئی ہے جیسا کہ مال کو ثٰری تراب یاسیل کے ساتھ تشبیہ دے کر اس معنی میں کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ لہ مال کالتراب اوالسیل اوالترٰی : یعنی وہ بہت زیادہ مالدار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الرجز ) ( 447 ) واغفر خطایای وثمرورنی میری خطائیں معاف فرما اور میرا مال بڑھا دے اور الورق ( بکسر الراء ) خصوصیت کے ساتھ دراہم کو کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف 19] تو اپنے میں سے کسی کو یہ سکہ دے کر شہر بھیجو ۔ ایک قرات میں بورقکم وبورقکم ہے اور یہ ورق وورق دونوں طرح بولاجاتا ہے ۔ جیسے کبد وکبد ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - رطب - الرَّطْبُ : خلاف الیابس، قال تعالی: وَلا رَطْبٍ وَلا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ- [ الأنعام 59] ، وخصّ الرُّطَبُ بالرَّطْبِ من التّمر، قال تعالی: وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا [ مریم 25] ، وأَرْطَبَ النّخلُ «1» ، نحو : أتمر وأجنی، ورَطَبْتُ الفرس ورَطَّبْتُهُ : أطعمته الرّطب، فَرَطَبَ الفرس : أكله .- ورَطِبَ الرّجل رَطَباً : إذا تكلّم بما عنّ له من خطإ وصواب «2» ، تشبيها برطب الفرس، والرَّطِيبُ : عبارة عن النّاعم .- ( ر ط ب ) الرطب - ( تر ) یہ یابس ( خشک ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا رَطْبٍ وَلا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ [ الأنعام 59] اور ( دنیا کی ) تر اور خشک چیزیں ( سب ہی تو ) کتاب واضح ( یعنی لوح محفوظ میں ) لکھی ہوئی موجود ہیں ۔ اور رطب کا لفظ ( پختہ اور ) تازہ کھجور کے ساتھ مخصوص ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا [ مریم 25] اور کھجور کی شاخ کو اپنی طرف ہلا تجھ پر تازہ پکی کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ ارطب النخل کے معنی ہیں درخت خرما پکی کھجوروں والا ہوگیا ۔ اس میں صاحب ماخذ ہونے کا خاصہ پایا جاتا ہے ۔ جیسے اثمر واجنی میں ہے عام محاورہ ہے : ارطبت الفرس ورطبتہ : میں نے گھوڑے کو تازہ گھاس کھلائی اور رطب الفرس ( باب علم سے لازمی ہے اور اس ) کے معنی گھوڑے کا تر گھاس کھانا کے ہیں ۔ رطب الرجل ۔ تر و خشک ہر قسم کی باتیں کرنا ۔ خوش گپیاں اڑانا ۔ یہ محاورہ رطب الفرس کے ساتھ بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے : ۔ الرطیب نرم وملائم کو کہتے ہیں ۔- يبس - يَبِسَ الشیءُ يَيْبَسُ ، واليَبْسُ : يَابِسُ النّباتِ ، وهو ما کان فيه رطوبة فذهبت، واليَبَسُ : المکانُ يكون فيه ماء فيذهب . قال تعالی: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً- [ طه 77] والأَيْبَسَانِ «1» : ما لا لحم عليه من الساقین إلى الکعبین .- ( ی ب س ) یبس - ( س ) الشئی کے معنی کسی چیز کا خشک ہوجانا کے ہیں ۔ اور ترگھاس جب خشک ہوجائے تو اسے یبس ( بسکون الباء ) کہاجاتا ہے اور جس جگہ پر پانی ہو اور پھر خشک ہوجائے اسے یبس ( بفتح الباء ) کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه 77] تو انکے لیے دریا میں لائٹس مارکر خشک راستہ بنادو ۔- كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔
(٥٩) غیب کے تمام خزانے مثلا بارشوں کا نازل ہونا، پھلوں اور سبزیوں کا اگنا اور اس کا عذاب نازل ہونا، جس کا تم مطالبہ کرتے ہو یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں، تمام مخلوقات اور مخفی چیزیں اور کون خشکی میں ہلاک ہوگا اور کس کی موت سمندر میں آئے گی اور درخت سے کون سا پتہ کب جھڑرہا ہے، اور سب سے نچلی زمین پتھر کے نیچے کیا ہے، سب کو وہ جانتا ہے، تر اور خشک چیزیں سب کی مقدار اور وقت لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔
آیت ٥٩ (وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَآ اِلاَّ ہُوَط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط) (وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ الاَّ یَعْلَمُہَا) - (وَلاَحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَ یَابِسٍ الاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ۔ ) - یہ کتاب مبین اللہ کا علم قدیم ہے ‘ جس میں ہر شے ( مَا کَانَ وَ مَایَکُوْن) آن واحد کی طرح موجود ہے۔