58۔ 1 یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ میرے اختیار یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلدی ہی یہ فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل ہو۔ ضروری وضاحت : حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والے پیدا فرمائے گا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (صحیح مسلم) یہ حدیث آیت زیر وضاحت کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جبکہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کیے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔
[٦٢] اور اگر ایسا عذاب لانا میرے اختیار میں ہوتا تو وہ کب کا آچکا ہوتا اور یہ سارے جھگڑے ختم ہوچکے ہوتے مگر تم پر عذاب آنے کا ٹھیک وقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ کا علم، اس کا حلم اور اس کی حکمت بالغہ جب تم پر عذاب لانے کی مقتضی ہوگی اس وقت اس کے عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکے گا۔
لَقُضِيَ الْاَمْرُ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ : یعنی اگر عذاب کا لانا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہارے جھٹلانے کی وجہ سے اب تک تمہیں ہلاک کرچکا ہوتا۔ (رازی) - وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بالظّٰلِمِيْنَ : یعنی اللہ ہی جانتا ہے کہ کب عذاب لانا ہے اور کب تک انھیں مہلت دینی ہے۔
قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ لَقُضِيَ الْاَمْرُ بَيْــنِيْ وَبَيْنَكُمْ ٠ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِـمِيْنَ ٥٨- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٥٨) اور یہ بھی فرما دیجیے کہ اگر عذاب میرے ہاتھ میں ہوتا تو تم اب تک ہلاک ہوجاتے، وہ ذات برحق نضر اور اس کے ساتھی مشرک لوگوں کی سزا سے بخوبی آگاہ ہے، چناچہ نضر جیسا کہ یہ عذاب چاہتا تھا اسی طریقہ پر غزوہ بدر میں مارا گیا۔
آیت ٥٨ (قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالظّٰلِمِیْنَ ۔ ) ۔- ان الفاظ سے ایک حد تک تلخی اور بیزاری ظاہر ہو رہی ہے کہ اگر یہ فیصلہ کرنا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہیں مزید مہلت نہ دیتا۔ اب میں بھی تمہارے رویے سے تنگ آچکا ہوں ‘ میرے بھی صبر کا پیمانہ آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔