57۔ 1 مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم (صحیح مسلم) 57۔ 2 تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلدی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ کر دے اور چاہے تو اس وقت تک مہلت دے دے جب تک اس کی حکمت اس کی متقضی ہو۔ 57۔ 3 یَقُصُّ قَصَصْ سے ہے یعنی یَقُصُّ قَصَصَ الْحَق حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے یا قص اثرہ (کسی کے پیچھے پیروی کرنا) سے ہے یعنی یتبع الحق فیما یحکم بہ اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے (فتح القدیر)
[٦١] اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ اس آیت میں ایسے مجرموں یا ہٹ دھرموں کی ایک اور صفت بیان کی گئی ہے۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ اگر تم سچے نبی ہوتے تو تم اور تمہارے ساتھی ایسی بےبسی اور درماندگی کی حالت میں کیوں ہوتے ؟ اور جس طرح ہم تم لوگوں پر سختیاں کر رہے ہیں اگر تم سچے ہوتے تو اب تک ہم پر وہ عذاب آجانا چاہیے تھا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہو۔ مجرموں کی اسی بات کا جواب اللہ نے یہ دیا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میرے اپنے اطمینان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ٹھیک ٹھیک اس راہ راست پر جا رہا ہوں جو اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ تم پر وہ عذاب اب تک کیوں نہیں آچکا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عذاب لے آنا میرے اختیار میں نہیں۔ یہ کام تو اللہ کا ہے۔ جب وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنا چاہے گا تمہیں ایسے عذاب سے دوچار کر دے گا۔
قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَةٍ ۔۔ : کہہ دیجیے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے واضح دلیل، یعنی وحی الٰہی موجود ہے، جس کا اصل الاصول توحید ہے، اسے تم نے جھٹلایا۔ اب جس عذاب کے جلدی لانے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں۔ عذاب لانے یا نہ لانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ - اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ : معلوم ہوا کہ انبیاء کو معجزات پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، یہ اختیار صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے۔
قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَكَذَّبْتُمْ بِہٖ ٠ۭ مَا عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ ٠ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ٠ۭ يَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَخَيْرُ الْفٰصِلِيْنَ ٥٧- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- فصل ( جدا)- الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] وَهُوَ خَيْرُ الْفاصِلِينَ- [ الأنعام 57] .- ( ف ص ل ) الفصل - کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔
(٥٧) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ میرے رب کے پاس سے مجھے تو میرے اور میرے حکم پر ایک کافی دلیل ملی ہے اور تم بلاوجہ قرآن کریم اور توحید کی تکفیر کرتے ہو، نزول عذاب کا کسی بھی طرح کا حکم اللہ ہی کی قدرت میں ہے، وہی سب سے بڑھ کر عدل کے ساتھ فیصلہ فرماتا ہے اور حق کا حکم دیتا ہے۔
آیت ٥٧ (قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ ) - یہ بیّنہ ہے کیا ؟ اس کی وضاحت سورة ھود میں آئے گی۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے بَیِّنَہ دو چیزوں سے مل کر بنتی ہے ‘ انسان کی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی۔ فطرت سلیمہ اور عقل سلیم انسان کے اندر اللہ کی طرف سے ودیعت کردی گئی ہے جس کی بنا پر اس کو نیکی بدی اور اچھے برے کی تمیز فطری طور پر مل گئی ہے۔ اس کے بعد اگر کسی انسان تک نبی یا رسول کے ذریعے سے اللہ کی وحی بھی پہنچ گئی اور اس وحی نے بھی ان حقائق کی تصدیق کردی جن تک وہ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں پہنچ چکا تھا ‘ تو اس پر حجت تمام ہوگئی۔ اس طرح یہ دونوں چیزیں یعنی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی مل کر اس شخص کے لیے بیّنہ بن گئیں۔ پھر اللہ کا رسول اور وحی الٰہی دونوں مل کر بھی لوگوں کے حق میں بَیِّنَہبن جاتے ہیں۔ خود رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بَیِّنَہیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں جن حقائق تک پہنچ چکے تھے وحی الٰہی نے آکر ان حقائق کو اجاگر کردیا۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا جا رہا ہے کہ آپ ان کو بتائیں کہ میں کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہا ‘ میں تو اپنے رب کی طرف سے بیّنہ پر ہوں۔ میں جس راستے پر چل رہا ہوں وہ بہت واضح اور روشن راستہ ہے ‘ اور مجھ پر اس کی باطنی حقیقت بھی منکشف ہے۔- (وَکَذَّبْتُمْ بِہٖط مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ ط) ۔- وہ لوگ جلدی مچا رہے تھے کہ لے آئیے ہمارے اوپر عذاب۔ دس برس سے آپ ہمیں عذاب کی دھمکیاں دے رہے ہیں ‘ اب جب کہ ہم نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا ہے تو وہ عذاب ہم پر آکیوں نہیں جاتا ؟ جواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ انہیں صاف الفاظ میں بتادیں کہ عذاب کا فیصلہ میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ وہ عذاب جب آئے گا ‘ جیسا آئے گا ‘ اللہ کے فیصلے سے آئے گا اور جب وہ چاہے گا ضرور آئے گا۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :39 اشارہ ہے عذاب الہٰی کی طرف ۔ مخالفین کہتے تھے کہ اگر تم خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہو اور ہم کھلم کھلا تمہیں جھٹلا رہے ہیں تو کیوں نہیں خدا کا عذاب ہم پر ٹوٹ پڑتا ؟ تمہارے مامور من اللہ ہونے کا تقاضا تو یہ تھا کہ ادھر کوئی تمہاری تکذیب یا توہین کرتا اور ادھر فوراً زمین دھنستی اور وہ اسمیں سما جاتا ، یا بجلی گرتی اور وہ بھسم ہو جاتا ۔ یہ کیا ہے کہ خدا کا فرستادہ اور اس پر ایمان لانے والے تو مصیبتوں پر مصیبتیں اور ذلتوں پر ذلتیں سہ رہے ہیں اور ان کو گالیاں دینے اور پتھر مارنے والے چین کیے جاتے ہیں؟
22: یہ آیات کفار کے اس مطالبے کے جواب میں نازل ہوئی ہیں کہ جس عذاب سے آنحضرتﷺ ہمیں ڈرارہے ہیں وہ ہم پر فورا کیوں نازل نہیں ہوتا؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب نازل کرنے کا صحیح وقت اور مناسب طریقہ طے کرنے کا مکمل اختیار اﷲ تعالیٰ کو ہے، جس کا فیصلہ وہ اپنی حکمت سے کرتا ہے۔