56۔ 1 یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کی بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کردوں تو یقینا میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ گمراہی اتنی عام ہے۔ حتٰی کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔ ھداھم اللہ تعالیٰ
[٦٠] مجرموں کی خواہش کیا تھی :۔ مشرکین مکہ یا مجرمین یہ چاہتے تھے کہ کوئی سمجھوتہ کی راہ نکل آئے۔ رسول اللہ ہمارے معبودوں یا دیوی دیوتاؤں کی توہین نہ کریں اور ہم انہیں کچھ نہ کہیں۔ آپ کی تعلیم یہ تھی کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں اور اس تعلیم سے صرف ان کے بتوں کی توہین نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے آباؤ اجداد کی بھی ہوتی تھی اور ان کی بھی۔ اسی لیے وہ سٹپٹاتے تھے۔ اسی بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ نہ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کرسکتا ہوں نہ ہی ان دیوی دیوتاؤں کی تعظیم کرسکتا ہوں میں تو مامور ہی اس بات پر ہوں کہ لوگوں کا رشتہ ان معبودوں سے توڑ کر اللہ سے جوڑ دوں۔ پھر اگر میں نے خود ہی وحی الٰہی کے خلاف کیا تو میں تو خود بھی ہدایت پانے والوں میں سے نہ رہوں گا۔ دوسرے کیسے ہدایت پاسکیں گے اور چونکہ یہ حکم مجھے اللہ کی طرف سے ملا ہے لہذا میں کسی قیمت پر بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔
قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ ۔۔ : اوپر کی آیت میں تو یہ بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، تاکہ حق واضح ہو اور مجرموں کا راستہ ظاہر ہوجائے، اب اس آیت میں مجرموں کے راستے پر چلنے سے منع فرمایا، جس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ مجرموں کا راستہ کیا ہے، جس پر چلنے سے تمہیں منع کیا گیا ہے ؟ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہاری خواہشوں کے پیچھے نہیں چلوں گا، اگر میں ایسا کروں تو میں گمراہوں میں شامل ہوجاؤں گا اور میں ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہوں گا۔ اللہ کی ہدایت کے مخالف قول کو کتنا ہی حکیمانہ اور دانشمندانہ سمجھا جائے وہ محض خواہش پر مبنی ہے اور سراسر ضلالت و گمراہی ہے۔ کیونکہ کسی کے پاس حکم کا اختیار سمجھنا اس کی عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ - قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ : یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اللہ کے سوا ان تمام چیزوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم پکارتے ہو۔
خلاصہ تفسیر - آپ (ان معاندین سے) کہہ دیجئے کہ مجھ کو (حق تعالیٰ کی طرف سے) اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان (معبودوں) کی عبادت کروں جن کی تم لوگ اللہ (کی توحید) کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو (اور ان کے طریقہ کی گمراہی ظاہر کرنے کے لئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے (باطل) خیالات کا اتباع نہ کروں گا، کیونکہ (اگر نعوذ باللہ میں ایسا کروں تو) اس حالت میں بےراہ ہوجاؤں گا اور راہ (راست) پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا، آپ (ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو (اس دین اسلام کے حق ہونے پر) ایک دلیل (کافی موجود) ہے جو میرے رب کی طرف سے (مجھ کو ملی ہے، یعنی قرآن مجید جو کہ میرا معجزہ ہے، جس سے میری تصدیق ہوتی ہے) اور تم (بلاوجہ) اس کی تکذیب کرتے ہو (اور تم جو یہ کہتے ہو کہ اگر دین اسلام حق ہے تو ہمارے انکار پر آسمان سے پتھر برسیں یا کوئی اور عذاب سخت آئے، جیسا کہ دوسری جگہ ان الفاظ سے مذکور ہے، (آیت) ان کان ھذا ھو الحق من عندک۔ الخ۔ ، تو اس کا جواب یہ ہے) جس چیز کا تم تقاضا کر رہے ہو (یعنی عذاب الیم) وہ میرے پاس (یعنی میری قدرت میں نہیں) حکم کسی کا نہیں (چلتا) بجز اللہ کے (اور اللہ کا حکم نزول عذاب کا ہوا نہیں تو میں کیسے عذاب دکھلا دوں) اللہ تعالیٰ حق بات کو (دلیل سے) بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے (چنانچہ اس نے میری رسالت کی واضح اور قوی دلیل قرآن کریم بھیج دیا، اور دوسرے واضح معجزات ظاہر فرما دئیے، اور دلیل صحیح ایک بھی کافی ہوتی ہے تو تمہاری فرمائشی دلیلیں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں، اس لئے اس وقت نزول عذاب کے ذریعہ فیصلہ نہیں فرمایا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس (یعنی میری قدرت میں) وہ چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو (یعنی عذاب) تو (اب تک) میرا اور تمہارا باہمی قضیہ (کبھی کا) فیصل ہوچکا ہوتا اور ظالموں کا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے (کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ کس وقت کیا جائے) - ربط آیات - آیات مذکورہ میں کفار کی طرف سے نزول عذاب کی عاجلانہ فرمائش اور اس کا جواب خیر الفاصلین میں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ تامہ کا ذکر اعلم بالظالمین میں مذکور تھا۔ آگے تمام معلومات و مقدرات پر اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت کا احاطہ بیان کیا جاتا ہے۔
قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ٠ۭ قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَہْوَاۗءَكُمْ ٠ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ ٥٦- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- ضَلل - وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان .- جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو
(٥٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ عینیہ اور اس کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ قرآن حکیم میں مجھے بتوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے، آپ ان سے یہ بھی فرما دیجیے کہ بتوں کی عبادت اور مسلمان اور ان کے ساتھیوں کو اپنے پاس سے ہٹا دینے میں، میں تمہاری پیروی نہیں کروں گا کیونخہ اگر میں نے ایسا کیا تو اپنے عمل میں صحیح راہ پر نہ رہوں گا ،
آیت ٥٦ (قُلْ اِنِّیْ نُہِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط) ۔ - یہ لات ‘ منات ‘ عزیٰ وغیرہ جن کو تم لوگ اللہ کے علاوہ معبود مانتے ہو ‘ ان کو میں نہیں پکار سکتا۔ مجھے اس سے منع کردیا گیا ہے۔ مجھے تو حکم دیا گیا ہے : (لَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ) ( الجن ) کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔