Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نیک و بد کی وضاحت کے بعد؟ یعنی جس طرح ہم نے اس سے پہلے ہدایت کی باتیں اور بھلائی کی راہیں واضح کر دیں نیکی بدی کھول کھول کر بیان کر دی اسی طرح ہم ہر اس چیز کا تفصیلی بیان کرتے ہیں جس کی تمہیں ضرورت پیش آنے والی ہے ۔ اس میں علاوہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مجرموں کا راستہ نیکوں پر عیاں ہو جائے ۔ ایک اور قرأت کے اعتبار سے یہ مطلب ہے تاکہ تو گنہگاروں کا طریقہ واردات لوگوں کے سامنے کھول دے ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں اعلان کر دو کہ میرے پاس الٰہی دلیل ہے میں اپنے رب کی دی ہوئی سچی شریعت پر قائم ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس وحی آتی ہے ، افسوس کہ تم اس حق کو جھٹلا رہے ہو ، تم اگرچہ عذابوں کی جلدی مچا رہے ہو لیکن عذاب کا لانا میرے اختیار کی چیز نہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے ۔ اس کی مصلحت وہی جانتا ہے اگر چاہے دیر سے لائے اگر چاہے تو جلدی لائے ، وہ حق بیان فرمانے والا اور اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلے کرنے والا ہے ، سنو اگر میرا ہی حکم چلتا میرے ہی اختیار میں ثواب و عذاب ہوتا ، میرے بس میں بقا اور فنا ہوتی تو میں جو چاہتا ہو جایا کرتا اور میں تو ابھی اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر لیتا اور تم پر وہ عذاب برس پڑتے جن سے میں تمہیں ڈرا رہا ہوں ، بات یہ ہے کہ میرے بس میں کوئی بات نہیں ، اختیار والا اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ، وہ ظالموں کو بخوبی جانتا ہے ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ احد سے زیادہ سختی کا تو آپ پر کوئی دن نہ آیا ہو گا ؟ آپ نے فرمایا عائشہ کیا پوچھتی ہو کہ مجھے اس قوم نے کیا کیا ایذائیں پہنچیں ؟ سب سے زیادہ بھاری دن مجھ پر عقبہ کا دن تھا جبکہ میں عبدالیل بن عبد کلال کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے آرزو کی کہ وہ میرا ساتھ دے مگر اس نے میری بات نہ مانی ، واللہ میں سخت غمگین ہو کر وہاں سے چلا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں ، قرن ثعالب میں آ کر میرے حواس ٹھیک ہوئے تو میں نے دیکھا کہ اوپر سے ایک بادل نے مجھے ڈھک لیا ہے ، سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے آواز دے کر فرما رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی باتیں سنیں اور جو جواب انہوں نے تجھے دیا وہ بھی سنا ۔ اب پہاڑوں کے داروغہ فرشتے کو اس نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں انہیں حکم دیجئے یہ بجا لائیں گے ، اسی وقت اس فرشتے نے مجھے پکارا سلام کیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی باتیں سنیں اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ان کے بارے میں جو ارشاد آپ فرمائیں میں بجا لاؤں ، اگر آپ حکم دیں تو مکہ شریف کے ان دونوں پہاڑوں کو جو جنوب شمال میں ہیں میں اکٹھے کر دوں اور ان تمام کو ان دونوں کے درمیان پیس دوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ نہیں میں یہ نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو امید ہے کہ کیا عجب ان کی نسل میں آگے جا کر ہی کچھ ایسے لوگ ہوں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، ہاں یہاں یہ بات خیال میں رہے کہ کوئی اس شبہ میں نہ پڑے کہ قرآن کی اس آیت میں تو ہے کہ اگر میرے بس میں عذاب ہوتے تو ابھی ہی فیصلہ کر دیا جاتا اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بس میں کر دیئے پھر بھی آپ نے ان کیلئے تاخیر طلب کی ۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ عذاب طلب کرتے اس وقت اگر آپ کے بس میں ہوتا تو اسی وقت ان پر عذاب آ جاتا اور حدیث میں یہ نہیں کہ اس وقت انہوں نے کوئی عذاب مانگا تھا ۔ حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو یہ بتلایا کہ بحکم الہ میں یہ کر سکتا ہوں صرف آپ کی زبان مبارک کے ہلنے کا منتظر ہوں لیکن رحمتہ للعالمین کو رحم آ گیا اور نرمی برتی ، پس آیت و حدیث میں کوئی معارضہ نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ حضور کا فرمان ہے غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) 31 ۔ لقمان:34 ) پڑھی ، یعنی قیامت کا علم ، بارش کا علم ، پیٹ کے بچے کا علم ، کل کے کام کا علم ، موت کی جگہ کا علم ۔ اس حدیث میں جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بصورت انسان آ کر حضور سے ایمان اسلام احسان کی تفصیل پوچھنا بھی مروی ہے یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے صحیح وقت کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ پھر آپ نے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) 31 ۔ لقمان:34 ) تلاوت فرمائی ۔ پھر فرماتا ہے اس کا علم تمام موجودات کو احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بری بحری کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ۔ آسمان و زمین کا ایک ذرہ اس پر پوشیدہ نہیں ۔ صرصری کا کیا ہی اچھا شعر ہے ۔ فلا یحفی علیہ الذراما یترای للنواظر او تواری یعنی کسی کو کچھ دکھائی دے نہ دے رب پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں ، وہ سب کی ہر کات سے بھی واقف ہے ، جمادات کا ہلنا جلنا یہاں تک کہ پتے کا جھڑنا بھی اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔ پھر بھلا جنات اور انسان کا کونسا علم اس پر مخفی رہ سکتا ہے؟ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت ( يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ ) 40 ۔ غافر:19 ) آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ بھید بھی اس پر عیاں ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ خشکی تری کا کوئی درخت ایسا نہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو اس کے جھڑ جانے والے پتوں کو بھی لکھ لے ، پھر فرماتا ہے زمین کے اندھیروں کے دانوں کا بھی اس اللہ کو علم ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، تیسری زمین کے اوپر اور چوتھی کے نیچے اتنے جن بستے ہیں کہ اگر وہ اس زمین پر آ جائیں تو ان کی وجہ سے کوئی روشنی نظر نہ پڑے ، زمین کے ہر کونے پر اللہ کی مہروں میں سے ایک مہر اور ہر مہر پر ایک فرشتہ مقرر ہے اور ہر دن اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس ایک اور فرشتے کے ذریعہ سے حکم پہنچتا ہے کہ تیرے پاس جو ہے اس کی بخوبی حفاظت کر ۔ حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ زمین کے ہر ایک درخت وغیرہ پر فرشتے مقرر ہیں جو ان کی خشکی تری وغیرہ کی بابت اللہ کی جناب میں عرض کر دیتے ہیں ۔ ابن عباس سے مروی ہے اللہ تعالیٰ نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور تختیاں بنائیں اور اس میں دنیا کے تمام ہونے والے اموار لکھے ۔ کل مخلوق کی روزیاں ، حلال حرام نیکی بدی سب کچھ لکھ دیا ہے پھر یہی آیت پڑھی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] مجرمین کی صفات :۔ ایسے مجرموں کے اوصاف کچھ تو پہلے بیان ہوچکے ہیں یعنی جو لوگ ایمان لانے کے قریب تو آتے نہیں مگر مطالبات اور اعتراضات کیے جاتے ہیں مثلاً یہ کہ ہمیں فلاں معجزہ لا کر دکھا دو یا فلاں بات کا پتہ دو تو تب ہی ہم ایمان لائیں گے کبھی یہ کہ نبی تو ہم ہی جیسا بشر ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ اگر حقیر قسم کے لوگ آپ اپنی مجلس سے نکال دیں تو تب ہی ہم آپ کی مجلس میں آسکتے ہیں۔ کچھ صفات تو ان مجرموں کی سابقہ آیات میں مذکور ہو چکیں اور کچھ آگے ذکر ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم یہ تفصیلات اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ ایسے ہٹ دھرم مجرموں کی صفات کھل کر سامنے آجائیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ باتیں اس لیے کھول کر بیان کی ہیں تاکہ حق ظاہر ہوجائے اور اس پر عمل کیا جاسکے اور مجرموں کا راستہ خوب واضح ہوجائے، تاکہ اس سے بچا جاسکے۔ ( جلالین) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں انھیں مخالفین ( مجرمین) کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے، تاکہ ان کی تردید کرسکیں۔ صحابہ کرام (رض) میں یہی خوبی تھی کہ ایک طرف تو وہ اسلام کو خوب سمجھتے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے رسم و رواج اور قوانین سے پوری واقفیت رکھتے تھے، کیونکہ وہ جاہلیت سے گزر کر آئے تھے۔ یہ مضمون حافظ ابن قیم (رض) کی کتاب الفوائد میں خوب بیان ہوا ہے۔ - وَلِتَسْتَبِيْنَ : ” بَانَ یَبِیْنُ “ کا معنی ہے الگ ہونا، واضح ہونا، تو باب استفعال میں حروف کی کثرت کی وجہ سے ” خوب واضح ہوجائے “ ترجمہ کیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٥٥ۧ- تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم .- واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥) جب حضرت عمر فاروق (رض) ہماری کتاب اور ہمارے رسول پر ایمان لانے کے لیے آئیں تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ اور تمہارے عذر کو قبول فرمالیا کیوں کہ جس شخص نے انجام گناہ سے ناواقف ہو کر کوئی گناہ کرلیا اور پھر توبہ کی اور حقوق اللہ کو بھی ادا کیا تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو معاف فرماتے ہیں۔- ہم قرآن کریم میں اوامرو نواہی اور ان لوگوں کی حالت بیان کرتے ہیں تاکہ عینیہ وغیرہ مشرک لوگوں کا طریقہ واضح ہوجائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ) ۔- یہاں پرنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ کے بعد لِیَتَفَکَّرُوْا بِھَا محذوف مانا جائے گا۔ یعنی ہم آیات کی تفصیل اس لیے بیان کرتے ہیں کہ لوگ ان پر غور و فکر کریں۔ اگر وہ ان پر غور کریں گے ‘ تفکر کریں گے تو مجرموں کا راستہ ان کے سامنے کھل کر واضح ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :38 ”اس طرح“ کا اشارہ اس پورے سلسلہ تقریر کی طرف ہے جو چوتھے رکوع کی اس آیت سے شروع ہوا تھا ، ”یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتری“ ۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی صاف اور صریح دلیلوں اور نشانیوں کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر و انکار پر اصرار ہی کیے چلے جائیں ان کا مجرم ہونا بالکل غیر مشتبہ طور پر ثابت ہوا جاتا ہے اور حقیقت بالکل آئینہ کی طرح نمایاں ہوئی جاتی ہے کہ دراصل یہ لوگ ضلالت پسندی کی بنا پر یہ راہ چل رہے ہیں نہ اس بنا پر کہ راہ حق کے دلائل واضح نہیں ہیں یا یہ کہ کچھ دلیلیں ان کی اس گمراہی کے حق میں بھی موجود ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani