54۔ 1 یعنی ان پر سلام کر کے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدر افزائی کریں۔ 54۔ 2 اور انھیں خوشخبری دیں کہ فضل و احسان کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے، کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا (انَّ رَحْمَتِیْ تَغْلِبُ (صحیح بخاریٰ و مسلم) میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے۔ 54۔ 3 اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے اگر نادانی یا برضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو پھر فوراً توبہ کر کے اپنی صلاح کرلیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ انابت سے روگردانی نہیں کرتے۔
[٥٧] مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانہ جاہلیت میں کئی بڑے گناہ سرزد ہوچکے تھے۔ اگرچہ اب انہوں نے بہت حد تک اپنی اصلاح کرلی تھی اور ان کی زندگی بدل چکی تھی لیکن مخالفین اسلام انہیں ان کے سابقہ اعمال و عیوب پر طعنے دینے سے باز نہیں آتے تھے۔ اس پس منظر میں آپ کو یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اہل ایمان کو تسلی دیں اور کہیں کہ آپ کا پر ورگار بڑا غفور رحیم ہے جو شخص اسلام لا کر یا توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ یقینا پچھلے گناہوں پر گرفت نہیں کرے گا جیسا کہ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب کوئی شخص اسلام لائے اور ٹھیک طور پر لائے تو اس کی سابقہ تمام برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد جو حساب شروع ہوگا وہ یوں ہوگا کہ ہر نیکی کے عوض دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں لکھی جائیں گی اور برائی کے عوض ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ الا یہ کہ اللہ وہ بھی معاف فرما دے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب حسن اسلام المرء۔۔ ) لہذا آپ ایسے لوگوں کو یقین دلائیے کہ تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہے۔ اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ وہ یقینا تمہاری اسلام لانے سے پہلے کی برائیوں کو معاف فرما دے گا۔ پھر اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص غلطی سے یا لاعلمی سے کوئی گناہ کا کام کر بیٹھے پھر اللہ کے حضور توبہ کرلے تو اللہ یقینا اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے۔- [٥٨] ١۔ سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب لکھی (جس میں یہ لکھا کہ) میری رحمت میرے غضب سے آگے نکل گئی۔ اور یہ بات اس کے پاس عرش پر لکھی ہوئی ہے۔ (بخاری کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعالیٰ بل ہو قرآن مجید فی لوح محفوظ)- ٢۔ ننانوے آدمیوں کے قاتل کے احوال :۔ سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے آدمی ناحق قتل کیے تھے۔ پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور اس سے پوچھا کیا میرے لیے توبہ (کی گنجائش) ہے ؟ اس نے کہا نہیں تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا (سو پورے کردیئے) پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی آدمی نے اسے کہا کہ : فلاں فلاں بستی میں (توبہ کے لیے) چلے جاؤ۔ راستہ میں ہی اسے موت نے آن لیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ اب رحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ جس بستی کو وہ جا رہا تھا اسے اللہ نے حکم دیا کہ نزدیک ہو اور جس بستی سے جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ دور ہوجا اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ناپ لو۔ چناچہ جہاں اسے جانا تھا وہ بستی بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ماذکر عن بنی اسرائیل )- ٣۔ سیدنا ابو سعید خدری رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کا ذکر کیا۔ اللہ نے اس کو مال اور اولاد دی تھی۔ جب وہ مرنے لگا تو اپنے بیٹوں سے پوچھا : میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ وہ کہنے لگے۔ اچھا باپ تھا۔ باپ نے کہا : دیکھو میں نے کوئی نیکی اللہ کے ہاں جمع نہیں کی اور اگر میں اللہ کے ہاں پہنچ گیا تو وہ ضرور مجھے سزا دے گا۔ لہذا تم ایسا کرنا کہ میں جب مرجاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جب میں کوئلہ ہوجاؤں تو باریک پیس کر اس کے ذرات تیز آندھی میں بکھیر دینا۔ اس نے اپنی اولاد سے قسم دے کر یہ عہد لیا۔ چناچہ اس کی اولاد نے اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن کہا تو وہ شخص اللہ کے حضور کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا : میرے بندے جو کچھ تو نے کیا ہے کونسی بات اس کی محرک بنی تھی ؟ وہ کہنے لگا : فقط تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ڈرنے کا بدلہ یہ دیا کہ اس پر رحم فرما دیا (بخش دیا) (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب الخوف من اللہ )
وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ ۔۔ : پہلی آیت میں کمزور اہل ایمان کو اپنے پاس سے دور ہٹانے سے منع فرمایا، اب اس آیت میں ان کے اکرام اور عزت افزائی کا حکم دیا۔ (رازی) یعنی جو لوگ کفر و شرک کے غلبے کے باوجود اس پر آشوب دور میں آپ کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو رہے ہیں انھیں امن اور سلامتی کی خوش خبری دے دیجیے، یعنی یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ اللہ کے عذاب سے امن والے ہوگئے، اب ان کی ان اعمال پر پکڑ نہیں ہوگی جو وہ کفر کی زندگی میں کرتے رہے ہیں۔ ( المنار) اس سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کا احترام کرنا چاہیے اور انھیں ناراض نہیں کرنا چاہیے۔- كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۙ: اس جملے کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (١٢) کی تفسیر۔ - مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢا بِجَهَالَةٍ ۔۔ : جہالت کے ساتھ گناہ کا مطلب اس کے برے انجام کو نہ سمجھنا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٧) پہلے انذار ( ڈرانا) تھا، اب تبشیر (خوش خبری) ہے، یعنی یہ اس کی رحمت کا اثر ہے کہ وہ اعمال سیۂ کو چھوڑ کر اعمال حسنہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ اصلاح کاروں سے مجرموں کا راستہ ممتاز اور خوب واضح ہوجائے۔
تفسیر کے دو قول ہیں اکثر حضرات نے ان آیات کو آیات سابقہ اور واقعہ سابقہ ہی سے متعلق قرار دیا ہے۔ اور اس کی تائید میں یہ روایت پیش کی ہے کہ جب روساء قریش نے بواسطہ ابو طالب یہ مطالبہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں غریب اور ادنیٰ درجہ کے لوگ رہتے ہیں، ان کی صف میں بیٹھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہم نہیں سن سکتے۔ اگر ہمارے آنے کے وقت ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس سے ہٹا دیا کریں تو ہم آپ کا کلام سنیں اور غور کریں۔- اس پر حضرت فاروق اعظم (رض) نے یہ مشورہ دیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں، مسلمان تو اپنے مخلص دوست ہیں، ان سے کہہ دیا جائے گا تو کچھ دیر کے لئے وہ مجلس سے ہٹ جایا کریں گے ممکن ہے کہ اس طرح یہ روساء قریش اللہ کا کلام سنیں اور مسلمان ہوجائیں۔- لیکن آیات سابقہ میں اس مشورہ کے خلاف یہ حکم نازل ہوا کہ ایسا ہرگز نہ کیا جائے ایسا کرنا ظلم اور بےانصافی ہے، اس حکم کے نازل ہونے پر حضرت فاروق اعظم (رض) کو اپنی رائے اور مشورہ کی غلطی واضح ہوئی اور ڈرے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف رائے دے کر گنہگار ہوگیا، اس کی معذرت پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے۔- اس پر آیات متذکرہ ان کی تسلی کے لئے نازل ہوئیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو گزشتہ غلطی پر مواخذہ نہ ہونے سے مطمئن فرما دیں، بلکہ صرف یہی نہیں کہ اس غلطی پر کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا بلکہ ارحم الراحمین کی بیشمار نعمتوں کا وعدہ بھی سنا دیں، اور بارگاہ الرحم الراحمین کا یہ قانون ان کو بتلا دیں کہ جب بھی کوئی مسلمان جہالت سے کوئی برا کام کر بیٹھے، اور پھر اپنی غلطی پر متنبہ ہو کر اس سے توبہ کرلے اور آئندہ کے لیے اپنے عمل درست کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیں گے اور آئندہ اپنی دنیوی اور اخروی نعمتوں سے بھی اس کو محروم نہ فرماویں گے۔- اس تشریح کے مطابق یہ آیات اس خاص واقعہ میں نازل ہوئیں جس کا بیان پچھلی آیتوں میں ہوچکا ہے، اور بعض حضرات مفسرین نے ان آیات کے مضمون کو ایک مستقل ہدایت نامہ کی حیثیت سے بیان کیا ہے، جو ان لوگوں سے متعلق ہے، جن سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا، پھر ندامت ہوئی، اور توبہ کرکے اپنے عمل کو درست کرلیا۔- اور اگر غور کیا جائے تو ان دونوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے تو وہ صرف اسی واقعہ کے لئے مخصوص نہیں ہوتا، بلکہ ایک عام حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اگر بالفرض آیات مذکورہ کا نزول اسی واقعہ مذکورہ میں ہوا ہو تب بھی یہ حکم ایک عام ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے جو ہر اس گنہگار کو شامل ہے جس کو گناہ کے بعد بھی اپنی غلطی پر تنبہ ہوا اور نادم ہو کر اس نے اپنے آئندہ عمل کو درست کرلیا۔- اب ان آیات کی پوری تشریح دیکھئے، پہلی آیت میں ارشاد ہے : وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا یعنی جب وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں، آیات سے مراد اس جگہ آیات قرآنی بھی ہوسکتی ہیں، اور اللہ جل شانہ، کی قدرت کاملہ کی عام نشانیاں بھی تو ایسے لوگوں کے متعلق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو سلام علیکم سے خطاب فرمائیں، یہاں سلام علیکم کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو اللہ جل شانہ کا سلام پہنچا دیجئے، جس میں ان لوگوں کا انتہائی اعزازو اکرام ہے۔ اس صورت میں ان غریب مسلمانوں کی دل شکنی کا بہترین تدارک ہوگیا، جن کے بارے میں رؤ ساء قریش نے مجلس سے ہٹا دینے کی تجویز پیش کی تھی۔ اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو سلامتی کی خوش خبری سنا دیجئے، کہ اگر ان لوگوں سے عمل میں کوتاہی یا غلطی بھی ہوئی ہے تو وہ معاف کردی جائے گی، اور یہ ہر قسم کی آفات سے سلامت رہیں گے۔- دوسرے جملہ میں كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ میں اس احسان پر اور مزید احسان و انعام کا وعدہ اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مسلمانوں سے فرما دیں کہ تمہارے رب نے رحمت کرنے کو اپنے ذمہ لکھ لیا ہے، اس لئے بہت ڈریں اور گھبرائیں نہیں، اس جملہ میں اول تو رب استعمال فرما کر مضمون آیت کو مدلل کردیا، کہ اللہ تعالیٰ تمہارا پالنے والا ہے، اور ظاہر ہے کہ کوئی پالنے والا اپنے پالے ہوئے کو ضائع نہیں کیا کرتا، پھر لفظ رب نے جس رحمت کی طرف اشارہ کیا تھا اس کو صراحةً بھی ذکر فرما دیا، اور وہ بھی اس عنوان سے کہ تمہارے رب نے رحمت کرنے کو اپنے ذمہ لکھ لیا ہے، اور ظاہر ہے کہ کسی شریف بھلے انسان سے بھی وعدہ خلافی صادر نہیں ہوتی تو رب العالمین سے کیسے ہو سکتی ہے۔ خصوصاً جب کہ اس وعدہ کو بصورت معاہدہ لکھ لیا گیا ہو۔ - صحیح بخاری، مسلم، مسند احمد میں بروایت ابوہریرہ (رض) مذکور ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا اور ہر ایک کی تقدیر کا فیصلہ فرمایا تو ایک کتاب میں جو عرش پر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے یہ لکھا کہ ان رحمتی غلبت غضبی، ” یعنی میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے “۔- اور حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے تورات میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان زمین اور ان کی ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا، تو صفت رحمت کے سو حصے کرکے اس میں سے ایک حصہ ساری مخلوقات کو تقسیم کردیا، اور آدمی اور جانور اور دوسری مخلوقات میں جہاں بھی کوئی اثر رحمت کا پایا جاتا ہے وہ اسی حصہ تقسیم شدہ کا اثر ہے، ماں باپ اور اولاد میں، باہمی ہمدردی اور محبت و رحمت کے تعلقات مشاہدہ کئے جاتے ہیں، وہ سب اسی ایک حصہ رحمت کے نتائج ہیں، باقی ننانوے حصے رحمت کے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لئے رکھے ہیں، اور بعض روایات میں اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کی حیثیت سے بھی روایت کیا گیا ہے اس سے انسان کچھ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوق پر کیسی اور کس درجہ ہے۔- اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی انسان بلکہ فرشتہ بھی اللہ جل شانہ، کے شایان شان عبادت و اطاعت تو ادا کر نہیں سکتا، اور جو اطاعت خلاف شان ہو وہ دنیا کے لوگوں کی نظر میں بجائے سبب انعام ہونے کے باعث ناراضگی سمجھی جاتی ہے، یہ حال تو ہماری اطاعت و عبادت اور حسنات کا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ، کی بارگاہ عالی کی نسبت سے دیکھا جائے تو سیئات سے کم نہیں، پھر اس پر مزید یہ کہ حقیقی سیئات اور معاضی سے بھی کوئی بشر خالی نہیں۔ الا من عصمہ اللّٰہ ان حالات میں تقاضائے انصاف تو یہ تھا کہ کوئی بھی عذاب سے نہ بچتا، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہر انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہر وقت برس رہی ہیں، یہ سب اسی رحمت کا نتیجہ ہے جو پروردگار عالم نے اپنے ذمہ لکھ لی ہے۔- توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے - اس کے بعد رحمت کاملہ کی تشریح ایک ضابطہ کی صورت میں اس طرح بیان فرمائی اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءً یعنی جو آدمی جہالت سے کوئی برا کام کر بیٹھے اور اس کے بعد وہ توبہ کرلے اور اپنے عمل کو درست کرے تو اللہ تعالیٰ بہت مغفرت کرنے والے ہیں، اس کے گناہ کو معاف فرما دیں گے، اور بہت رحمت کرنے والے ہیں کہ صرف معافی پر کفایت نہ ہوگی، بلکہ انعامات سے بھی نوازا جائے گا۔- اس آیت میں لفظ جہالت سے بظاہر کسی کو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ گناہ کی معافی کا وعدہ صرف اس صورت میں ہے کہ ناواقفیت اور جہل کے سبب کوئی گناہ سرزد ہوجائے جان بوجھ کر گناہ کرنے والا اس حکم میں داخل نہیں، لیکن حقیقت یہ نہیں، کیونکہ جہالت سے مراد اس جگہ عمل جہالت ہے یعنی ایسا کام کر بیٹھے جیسا نتیجہ سے جاہل وبے خبر کیا کرتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہ واقع میں جاہل ہو، اس کی تائیید خود لفظ جہالت سے بھی ہوتی ہے کہ یہاں لفظ جہل کے بجائے جہالت کا لفظ شاید اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہی استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ جہل تو علم کا مقابل ہے، اور جہالت حلم و وقار کے مقابل ہے۔ یعنی لفظ جہالت محاورات میں بولا ہی جاتا ہے عملی جہالت کے لئے، اور غور کیا جائے تو گناہ بھی کسی سے سرزد ہوتا ہے تو اس عملی جہالت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی لئے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ جو شخص اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ جاہل ہے، مراد اس سے یہی عملی جہالت ہے ناواقف اور بےعلم ہونا ضروری نہیں، کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی بیشمار نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں کہ توبہ کرنے سے ہرگنا معاف ہوسکتا ہے۔ خواہ غفلت و جہل کی وجہ سے سرزد ہوا ہو، یا جان بوجھ کر شرارت نفس اور اتباع ہوی کی وجہ سے۔- اس جگہ یہ بات خاص طور پر قابل نظر ہے کہ اس آیت میں گناہگاروں سے مغفرت اور رحمت کا جو وعدہ فرمایا گیا ہے وہ دو چیزوں کے ساتھ مشروط ہے، ایک تو بہ دوسرے اصلاح عمل، توبہ کے معنی ہیں گناہ پر ندامت کے، حدیث میں ارشاد ہے : ان التوبة الندم، ” یعنی توبہ نام ہے ندامت کا “۔- دوسرے آئندہ کے لئے اصلاح عمل اس اصلاح عمل میں یہ بھی داخل ہے کہ آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا عزم اور پورا اہتمام کرے، اور یہ بھی شامل ہے کہ سابقہ گناہ سے جو حقوق کسی کے ضائع ہوئے ہیں تاحد اختیار ان کو ادا کرے خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد۔ حقوق اللہ کی مثال نماز، روزہ، زکوٰة حج وغیرہ فرائض میں کوتاہی کرنا ہے، اور حقوق العباد کی مثال کسی کے مال پر ناجائز قبضہ و تصرف کرنا۔ کسی کی آبرو پر حملہ کرنا، کسی کو گالی گلوچ کے ذریعہ یا کسی دوسری صورت سے ایذاء پہنچانا ہے۔- اس لئے تکمیل توبہ کے لئے جس طرح یہ ضروری ہے کہ گزشتہ گناہ پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے، اور آئندہ کے لئے اپنے عمل کو درست رکھے، اس گناہ کے پاس نہ جائے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جو نمازیں یا روزے غفلت سے ترک ہوگئے ہیں ان کی قضاء کرے، جو زکوٰة نہیں دی گئی وہ اب ادا کرے، قربانی، صدقة الفطر کے واجبات میں کوتاہی ہوئی ہے تو ان کو ادا کرے۔ حج فرض ہونے کے باوجود ادا نہیں کیا تو اب ادا کرے اور خود نہ کرسکے تو حج بدل کرائے، اور اگر اپنے سامنے حج بدل اور دوسری قضاؤں کا موقع پورا نہ ملے تو وصیت کرے، کہ اس کے وارث اس کے ذمہ عائد شدہ واجبات کا فدیہ حج بدل کا انتظام کرلیں، خلاصہ یہ ہے کہ اصلاح عمل کے لئے صرف آئندہ کا عمل درست کرلینا کافی نہیں، پچھلے فرائض و واجبات کو ادا کرنا بھی ضروری ہے۔- اسی طرح حقوق العباد میں اگر کسی کا مال ناجائز طور پر لیا ہے تو اس کو واپس کرے یا اس سے معاف کرائے اور کسی کو ہاتھ یا زبان سے ایذاء پہنچائی ہے تو اس سے معاف کرائے، اور اگر اس سے معاف کرانا اختیار میں نہ ہو، مثلاً وہ مرجائے، یا ایسی جگہ چلا جائے جس کا اس کو پتہ معلوم نہیں، تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرتے رہنے کا التزام کرے، اس سے امید ہے کہ صاحب حق راضی ہوجائے گا اور یہ شخص سبکدوش ہوجائے گا۔
وَاِذَا جَاۗءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ٠ۙ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْۗءًۢ ابِجَــہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ ٠ۙ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ٥٤- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سلام - السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ- [ الشعراء 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها - [ البقرة 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی - __________- عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ- [ النور 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض .- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء - 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة - 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ - كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَُِّ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔
(٥٤) ان لوگوں کو غلام دے کر آزمایش میں ڈال رکھا تھا تاکہ یہ عینیہ بن حصن وغیرہ کہیں کہ کیا سلمان فارسی (رض) اور ان کے ساتھیوں کو تو اللہ تعالیٰ نے دولت ایمان سے بہرہ ور کیا ہے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو خوب جانتا ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :37 جو لوگ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان میں بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانہ جاہلیت میں بڑے بڑے گناہ ہو چکے تھے ۔ اب اسلام قبول کرنے کے بعد اگرچہ ان کی زندگیاں بالکل بدل گئی تھیں ، لیکن مخالفین اسلام ان کو سابق زندگی کے عیوب اور افعال کے طعنے دیتے تھے ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ اہل ایمان کو تسلی دو ۔ انہیں بتاؤ کہ جو شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے اس کے پچھلے قصوروں پر گرفت کرنے کا طریقہ اللہ کے ہاں نہیں ہے ۔