Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 آیت میں ردوا (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے۔ یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی تشریح بعض مفسرین نے اسطرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا) 039:042 اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے " اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے (ـ قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ ) 032:011 کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتہ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورة نساء آیت 97 اور الانعام آیت 93 میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل امر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں وہ رگوں شریانوں پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاٹنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کر کے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے (تفسیر روح المعانی جلد 5) حافظ ابن کثیر امام شوکانی اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورة الم السجدہ کی آیت سے اور مسند احمد میں حضرت براء بن عازب (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان و انصار ہیں اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے تفسیر ابن کثیر واللہ اعلم

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٨] موت کے بعد کے احوال اور قبر میں سوال و جواب :۔ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مختصراً یہ کہ جب فرشتے انسان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو فرشتوں کے رویہ سے ہی مرنے والے کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل جنت سے ہے یا اہل دوزخ سے۔ جنتی کی روح کو ریشم کے کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو اس روح کی خاصی پذیرائی ہوتی ہے اور آسمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے پھر اسے عزت و اکرام سے واپس بھیج دیا جاتا ہے اور یہ روح اپنی میت کے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور پکارتی رہتی ہے کہ مجھے جلدی جلدی تدفین کے لیے لے چلو۔ پھر تدفین کے بعد قبر میں جب سوال و جواب ہو چکتے ہیں تو اسے مقام علیین پہنچا دیا جاتا ہے اور دوزخی کی روح کو فرشتے بدبودار کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو اس کے لیے دروازہ ہی نہیں کھلتا پھر اسے وہاں سے اپنی میت کی طرف پھینک دیا جاتا ہے اور وہ پکار پکار کر کہتی ہے کہ مجھے تدفین کے لئے نہ لے جاؤ۔ پھر جب تدفین کے بعد قبر میں سوال و جواب ہوتے ہیں اور وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو مقام سجین میں قیامت تک کے لیے قید کردیا جاتا ہے۔- [٦٩] یعنی عذاب وثواب کا سلسلہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے پھر قبر میں جنتی کے لیے جنت کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور وہ قیامت تک ایسے اکرام اور مسرت کی نیند سوتا ہے جیسے کوئی دلہن سوتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے طرح طرح کا عذاب شروع ہوجاتا ہے اور یہ عذاب وثواب قیامت کے بعد کے عذاب وثواب کی نسبت بہت ہلکے ہوتے ہیں۔ قیامت کو حساب و کتاب کے بعد دوزخی کو جو عذاب ہوگا وہ اس سے شدید تر ہوگا۔ اسی طرح جنتی پر جو انعامات ہوں گے وہ قبر کے انعام سے بہت زیادہ ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ پھر اللہ تعالیٰ جو ان کا سچا مالک ہے، جس نے اپنے حکم سے انھیں دنیا میں بھیجا تھا، اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللہِ مَوْلٰىہُمُ الْحَقِّ۝ ٠ۭ اَلَا لَہُ الْحُكْمُ۝ ٠ۣ وَہُوَاَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ۝ ٦٢- ثمَ- ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و :- ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] فهو في موضع المفعول - ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) پھر قیامت کے دن ان کا مالک حقیقی عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا یا یہ کہ ان کا معبود حقیقی مگر انہوں نے جیسا کہ معبود حقیقی کی عبادت کا حق تھا اس کی عبادت نہیں کی اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو بھی جس کے معبود ہیں وہ سب باطل ہیں، قیامت کے دن بندوں کے درمیان وہی فیصلہ فرمائے گا جس وقت وہ حساب لینا شروع فرمائے گا تو اس کا حساب بہت جلدی ہوجائے گا ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ ( ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰٹہُمُ الْحَقِّ ط) (اَلاَ لَہُ الْحُکْمُقف وَہُوَ اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ ۔ ) - حقیقی حاکمیت صرف اللہ ہی کی ہے۔ یہ بات یہاں دوسری دفعہ آئی ہے۔ اس سے پہلے آیت ٥٧ میں ہم پڑھ آئے ہیں : (اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ) کہ فیصلے کا اختیار کلیتاً اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مزید فرمایا کہ وہ سب سے زیادہ تیز حساب چکانے والا ہے۔ اسے حساب چکانے میں کچھ دیر نہیں لگے گی ‘ صرف حرف کن کہنے سے آن واحد میں وہ سب کچھ ہوجائے گا جو وہ چاہے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani