Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احسان فراموش نہ بنو اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرماتا ہے کہ جب تم خشکی کے بیابانوں اور لق و دق سنسان جنگلوں میں راہ بھٹکے ہوئے قدم قدم پر خوف و خطر میں مبتلا ہوتے ہو اور جب تم کشتیوں میں بیٹھے ہوئے طوفان کے وقت سمندر کے تلاطم میں مایوس و عاجز ہو جاتے ہو ۔ اس وقت اپنے دیوتاؤں اور بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی آیت ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ) 17 ۔ الاسراء:67 ) میں اور آیت ( ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ) 10 ۔ یونس:22 ) میں اور آیت ( اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 27 ۔ النمل:63 ) میں بھی بیان ہوا ہے ۔ تصرعا و خفیتہ کے معنی جھرا او سرا یعنی بلند آواز اور پست آواز کے ہیں ۔ الغرض اس وقت صرف اللہ کو ہی پکارتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس وقت سے نجات دے گا تو ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے باوجود اس عہد و پیمان کے ادھر ہم نے انہیں تنگی اور مصیبت سے چھوڑا اور ادھر یہ آزاد ہوتے ہی ہمارے ساتھ شرک کرنے لگے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو پھر پکارنے لگے ، پھر فرماتا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس وقت آفت میں ڈالا تھا وہ اب بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی اور عذاب اوپر سے یا نیجے سے لے آئے جیسے کہ سورۃ سبحان میں آیت ( رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا ) 17 ۔ الاسراء:66 ) تک بیان فرمایا ۔ یعنی تمہارا پروردگار وہ ہے جو دریا میں تمہارے لئے کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل حاصل کرو اور وہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ۔ لیکن جب تمہیں دریا میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جن کی تم عبادت کرتے رہتے تھے وہ سب تمہارے خیال سے نکل جاتے ہیں اور صرف اللہ ہی کی طرف لو لگ جاتی ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو فی الواقع انسان بڑا ہی ناشکرا ہے کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ وہ تمہیں خشکی میں ہی دھنسا دے یا تم پر آندھی کا عذاب بھیج دے پھر تم کسی کو بھی اپنا کار ساز نہ پاؤ ۔ کیا تم اس بات سے بھی نڈر ہو کہ وہ تمہیں پھر دوبارہ دریا میں لے جائے اور تم پر تندو تیز ہوا بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کے باعث غرق کر دے تو پھر کسی کو نہ پاؤ جو ہمارا پیچھا کر سکے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اوپر نیچے کے عذاب مشرکوں کیلئے ہیں حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس آیت میں اسی امت کو ڈریا گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے معافی دے دی ۔ ہم یہاں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں اور آثار بیان کرتے ہیں ملاحظہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ پر ہمارا بھروسہ ہے اور اس سے ہم مدد چاہتے ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے یلبسکم کے معنی یخلطکم کے ہیں یہ لفظ التباس سے ماخوذ ہے شیعا کے معنی فرقا کے ہیں ۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ اللہ قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ یا اللہ میں تیرے پر عظمت و جلال چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں اور جب یہ سنا کہ نیچے سے عذاب لے آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ۔ پھر یہ سن کر کہ یا وہ تم میں اختلاف ڈال دے اور تمہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے تو حضور نے فرمایا یہ بہت زیادہ ہلکا ہے ، ابن مردویہ کی اس حدیث کے آخر میں حضرت جابر کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ اگر اس آپ کی ناچاقی سے بھی پناہ مانگتے تو پناہ مل جاتی ۔ مسند میں ہے حضور سے جب اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ تو ہونے والا ہی ہے اب تک یہ ہوا نہیں ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ، مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ رہے تھے آپ مسجد بنی معاویہ میں گئے اور دور رکعت نماز ادا کی ہم نے بھی آپ کے ساتھ پڑھی پھر آپ نے لمبی مناجات کی اور فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں طلب کیں ایک تو یہ کہ میری تمام امت کو ڈبوئے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ چیز عطا فرمائی ، پھر میں نے دعا کی کہ میرے عام امت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی ۔ پھر میں نے دعا کی کہ میری عام امت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی پھر میں نے دعا کی کہ ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے میری یہ دعا قبول نہ ہوئی ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عبداللہ فرماتے ہیں ہمارے پاس عبداللہ بن عمر بنی معاویہ کے محلے میں آئے اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو تمہاری اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کس جگہ پڑھی ؟ میں نے مسجد کے ایک کونے کو دکھا کر کہا یہاں پھر پوچھا جانتے ہو یہاں تین دعائیں حضور نے کیا کیا کیں؟ میں نے کہا ایک تو یہ کہ آپ کی امت پر کوئی غیر مسلم طاقت اس طرح غالب نہ آ جائے کہ ان کو پیس ڈالے دوسرے یہ کہ ان پر عام قحط سالی ایسی نہ آئے کہ یہ سب تباہ ہو جائیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں پھر تیسری دعا یہ کی کہ ان میں آپس میں لڑائیاں نہ ہوں لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی یہ سن کر حضرت عبداللہ نے فرمایا تم نے سچ کہا یاد رکھو قیامت تک یہ آپس کی لڑائیاں چلی جائیں گی ، ابن مردویہ میں ہے کہ حضور علیہ السلام بنو معاویہ کے محلے میں گئے اور وہاں آٹھ رکعت نماز ادا کی ، بڑی لمبی رکعت پڑھیں پھر میری طرف توجہ فرما کر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں اللہ پاک نے دو تو دیں اور ایک نہ دی ، میں نے سوال کیا کہ میری امت پر ان کے دشمن اس طرح نہ چھا جائیں کہ انہیں برباد کر دیں اور ان سب کو ڈبو یا نہ جائے ، اللہ نے ان دونوں باتوں سے مجھے امن دیا پھر میں نے آپ سے لڑائیاں نہ ہونے کی دعا کی لیکن اس سے مجھے منع کر دیا ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ تشریف لے گئے اب دریافت کرتا کرتا حضور جہاں تھے وہیں پہنچا دیکھا تو آپ نماز پڑھ رہے ہیں میں بھی آپ کے پیچھے نماز میں کھڑا ہو گیا ، آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی ، جب فارغ ہوئے تو میں کہا حضور بڑی لمبی نماز تھی پھر آپ نے اپنی تینوں دعاؤں کا ذکر کیا ، نسائی وغیرہ میں حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک سفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کی آٹھ ٩ رکعت پڑھیں اور حضرت انس کے سوال پر اپنی دعاؤں کا ذکر کیا اس میں عام قحط سالی کا ذکر ہے ، نسائی وعیرہ میں ہے کہ حضور نے ایک مرتبہ ساری رات نماز میں گزار دی صبح کے وقت سلام پھیرا تو حضرت خباب بن ارث رضی اللہ عنہ نے جو بدری صحابی ہیں پوچھا کہ ایسی طویل نماز میں تو میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا آپ نے اس کے جواب میں وہی فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ، اس میں ایک دعا یہ ہے کہ اگلی امتوں پر جو عام عذاب آئے وہ میری امت پر عام طور پر نہ آئیں ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضور نے نماز پڑھی جس کے رکوع سجود پورے تھے اور نماز ہلکی تھی پھر سوال و جواب وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے مسند احمد میں ہے رسول اکرام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے لئے زمین لپیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرقین مغربین دیکھ لئے جہاں جہاں تک یہ زمین میری لئے لپیٹ دی گئی تھی وہاں وہاں تک میری امت کی بادشاہت پہنچے گی ، مجھے دونوں خزانے دیئے گئے ہیں سفید اور سرخ ، میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا کہ میری امت کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کر اور ان پر کوئی ان کے سوا ایسا دشمن مسلط نہ کر جو انہیں عام طور پر ہلاک کر دے یہاں تک کہ یہ خود آپس میں ایک دوسروں کو ہلاک کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قتل کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قید کرنے لگیں اور حضور نے فرمایا میں اپنی امت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتا بجز گمراہ کرنے والے اماموں کے پھر جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب آپ لوگوں میں نماز پڑھتے تو نماز ہلکی ہوتی ، رکوع و سجود پورے ہوتے ایک روز آپ بہت دیر تک بیٹھے رہے یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کو اشارے سے سمجھا دیا کہ شاید آپ پر وحی اتر رہی ہے کاموشی سے بیٹھے رہو ۔ جب آپ فارغ ہوئے تو بعض لوگوں نے کہا حضور آج تو اس قدر زیادہ دیر تک آپ کے بیٹھے رہنے سے ہم نے یہ خیال کیا تھا اور آپس میں ایک دوسرے کو اشارے سے یہ سمجھایا تھا کہ آپ نے فرمایا نہیں یہ بات تو نہ تھی بلکہ میں نے یہ نماز بڑی رغبت و یکسوئی سے ادا کی تھی ، میں نے اس میں تین چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے طلب کی تھیں جن میں سے دو تو اللہ تعالیٰ نے دے دیں اور ایک نہیں دی ۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ تمہیں وہ عذاب نہ کرے جو تم سے پہلی قوموں کو کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کیا میں نے پھر کہا کہ یا اللہ میری امت پر کوئی ایسا دشمن چھا نہ جائے جو ان کا صفایا کر دے تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ مراد بھی پوری کر دی ، پھر میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تم میں پھوٹ نہ ڈالے کہ ایک دوسرے کو ایذاء پہنچائیں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہ فرمائی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے چار دعائیں کیں تو تین پوری ہوئیں اور ایک رد ہو گئی ۔ چوتھی دعا اس میں یہ ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو جائے اور حدیث میں ہے دو چیزیں اللہ نے دیں دو نہ دیں آسمان سے پتھروں کا سب پر برسانا موقوف کر دیا گیا زمین کے پانی کے طوفان سے سب کا غرق ہو جانا موقوف کر دیا گیا لیکن قتل اور آپس کی لڑائی موقوف نہیں کی گئی ( ابن مردویہ ) ابن عباس فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر کے اٹھ کھرے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری امت پر نہ تو ان کے اوپر سے عذاب اتار نہ نیچے سے انہیں عذاب چکھا اور نہ ان میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کی مصیبت پہنچا ، اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام اترے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو اس سے پناہ دے دی کہ ان کے اوپر سے یا ان کے نیچے سے ان پر عام عذاب اتارا جائے ( ابن مردویہ ابن ابی کعب سے مروی ہے کہ دو چیزیں اس امت سے ہٹ گئیں اور دور رہ گئیں اوپر کا عذاب یعنی پتھراؤ اور نیچے کا عذاب یعنی زمین کا دھنساؤ ہٹ گیا اور آپس کی پھوٹ اور ایک کا ایک کو ایذائیں پہنچانا رہ گیا ، آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے جن میں سے دو تو حضور کی وفات کے پجیس سال بعد ہی شروع ہو گئیں یعنی پھوٹ اور آپس کی دشمنی ۔ دو باقی رہ گئیں وہ بھی ضرور ہی آنے والی ہیں یعنی رجم اور خسف آسمان سے سنگباری اور زمین میں دھنسایا جانا ( احمد ) حضرت حسن اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں گناہ سے لوگ بچے ہوئے تھے عذاب رکے ہوئے تھے جب گناہ شروع ہوئے عذاب اتر پڑے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ با آواز بلند مجلس میں یا منبر پر فرماتے تھے لوگو تم پر آیت ( قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ) 6 ۔ الانعام:65 ) اتر چکی ہے اگر آسمانی عذاب آ جائے ایک بھی باقی نہ بچے اگر تمہیں وہ زمین میں دھنسا دے تو تم سب ہلاک ہو جاؤ اور تم میں سے ایک بھی نہ بچے لیکن تم پر آپس کی پھوٹ کا تیسرا عذاب آ چکا ہے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ اوپر کا عذاب برے امام اور بد بادشاہ ہیں نیچے کا عذاب بد باطن غلام اور بد دیانت نو کر چاکر ہیں یہ قول بھی گو صحیح ہو سکتا ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر اور قوی ہے ، اس کی شہادت میں آیت ( ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ ) 67 ۔ الملک:16 ) پیش ہو سکتی ہے ، ایک حدیث میں ہے میری امت میں سنگ باری اور زمین میں دھنس جانا اور صورت بدل جانا ہو گا ، اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جو قیامت کے قرب کی علامتوں کے بیان میں اس کے موقعہ پر جابجا آئیں گی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آپس کی پھوٹ سے مراد فرقہ بندی ہے ، خواہشوں کو پیشوا بنانا ہے ، ایک حدیث میں ہے یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے ، ایک دوسرے کی تکلیف کا مزہ چکھے اس سے مراد سزا اور قتل ہے ، دیکھ لے کہ ہم کس طرح اپنی آیتیں وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں ۔ تاکہ لوگ غورو تدبر کریں سوچیں سمجھیں ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو میرے بعد کافر بن کر نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسروں کی گردنوں پر تلواریں چلانے لگو ، اس پر لوگوں نے کہا حضور کیا ہم اللہ کی واحدانیت اور آپ کی رسالت کو مانتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں یہی ہو گا ۔ کسی نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے مسلمانوں ہی کو قتل کریں اس پر آیت کا آخری حصہ اور اس کے بعد کی آیت ( وکذب بہ ) الخ ، اتری ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٠] یعنی خواہ تم کسی سمندر کا سفر طے کر رہے ہو یا خشکی کے مقام پر ہو تو کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے جس سے تمہیں موت سامنے کھڑی نظر آنے لگے تو اس بےبسی کے عالم میں کبھی تو تم بےاختیار ہو کر لاشعوری طور پر اللہ کو پکارنے لگتے ہو اور کبھی دل ہی دل میں گڑگڑا کر اللہ کے حضور فریاد کرنے لگتے ہو کہ آج اگر اللہ نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم ضرور اللہ کے فرمانبردار بن جائیں گے۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان کو اپنی زندگی میں متعدد بار پیش آتی رہتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ ۔۔ : یہ حالت ان مشرکوں کی تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھے، ہمارے زمانے میں مسلمان کہلانے والے کئی ایسے لوگ ہیں جو مشکل میں پھنسے ہوئے بھی دوسروں کو پکارتے ہیں۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان لوگوں سے) کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات (یعنی شدائد) سے اس حالت میں نجات دے دیتا ہے کہ تم اس کو (نجات دینے کے لئے) پکارتے ہو (کبھی) تذلل ظاہر کرکے اور (کبھی) چپکے چپکے (اور یوں کہتے ہو) کہ (اے اللہ) اگر آپ ہم کو ان (ظلمات) سے (اب کے) نجات دیدیں تو (پھر) ہم ضرور حق شناسی (پر قائم رہنے) والوں میں سے ہوجاویں (یعنی آپ کی توحید کے کہ بڑی حق شناسی ہے قائل رہیں، اور اس سوال کا جواب چونکہ متعین ہے اور وہ لوگ بھی کوئی دوسرا جواب نہ دیں گے اس لئے) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے (جب کبھی نجات ملتی ہے) اور (ان ظلمات مذکورہ کی کیا تخصیص ہے بلکہ) ہر غم سے (وہی نجات دیتا ہے مگر) تم (ایسے ہو کہ) پھر بھی (بعد نجات پانے کے بدستور) شرک کرنے لگتے ہو (جو کہ اعلیٰ درجہ کی ناحق شناسی ہے، اور وعدہ کیا تھا حق شناسی کا، غرض یہ کہ شدائد میں تمہارے اقرار سے توحید کا حق ہونا ثابت ہوجاتا ہے، پھر انکار کب قابل التفات ہے) ۔- معارف و مسائل - علم الٓہی اور قدرت مطلقہ کے کچھ مظاہر - پچھلی آیتوں میں اللہ جل شانہ کے علم وقدرت کا کمال اور ان کی بےمثال وسعت بیان کی گئی تھی، مذکورہ آیات میں اسی علم وقدرت کے کچھ آثار اور مظاہر کا بیان ہے۔- پہلی آیت میں لفظ ظلمات، ظلمة کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں اندھیری، ظلمات البر والبحر کے معنی خشکی اور دریا کی اندھیریاں ہے۔ چونکہ اندھیری کی مختلف قسمیں ہیں رات کی اندھیری، گھٹا بادل کی اندھیری، گردوغبار کی اندھیری، ان تمام قسموں کو شامل کرنے کے لئے لفظ ظلمات جمع استعمال فرمایا گیا ہے۔- اگرچہ انسان کے سونے اور آرام کرنے کے لئے اندھیرا بھی ایک نعمت ہے، لیکن عام حالات میں انسان کا کام روشنی ہی سے چلتا ہے، اور اندھیری سب کاموں سے معطل کرنے کے علاوہ بہت سے مصائب اور آفات کا سبب بن جاتی ہے، اس لئے عرب کے محاورہ مفسرین کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔ - مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اللہ جل شانہ نے مشرکین مکہ کو تنبیہ اور ان کی غلط کاری پر آگاہ کرنے کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں سے یہ سوال کریں کہ برّی اور بحری سفروں میں جب بھی وہ کسی مصیبت میں گھر جاتے ہیں، اور اس وقت تمام بتوں کو بھول کر صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں، کبھی علانیہ طور پر اپنی ذلت و عاجزی کا اعتراف کرتے ہیں، اور کبھی دل دل میں اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس مصیبت سے تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں بچا سکتا، اور اس خیال کے ساتھ یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دیتو ہم شکر و حق شناسی کو اپنا شیوہ بنالیں گے، یعنی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں گے، اسی کو اپنا کارساز سمجھیں گے، اس کے سوا کسی کو اس کا شریک نہ سمجھیں گے کیونکہ جب ہماری مصیبت میں کوئی کام نہ آیا تو ہم ان کی پوجا پاٹ کیوں کریں، تو اب آپ ان سے پوچھئے کہ ان حالات میں کون ان کو مصائب اور ہلاکت سے نجات دیتا ہے ؟ چونکہ ان کا جواب متعین اور معلوم تھا کہ وہ اس ہدایت کا انکار نہیں کرسکتے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بت یا دیوتا اس حالت میں ان کے کام نہیں آیا، اس لئے دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے خود ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کہہ دیجئے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تمہیں اس مصیبت سے نجات دیں گے، بلکہ تمہاری ہر تکلیف و پریشانی اور بےچینی کو وہی دور فرمائیں گے، مگر ان سب کھلی ہوئی نشانیوں کے باوجود پھر جب تم کو نجات اور آرام مل جاتا ہے تو تم پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو، اور بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ جاتے ہو، یہ کیسی غداری اور مہلک قسم کی جہالت ہے۔- ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان بھی ہے کہ ہر انسان کو ہر مصیبت اور تکلیف سے نجات دینے پر اس کو پوری قدرت ہے، اور یہ بھی کہ ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور کرنا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، اور یہ بھی کہ یہ ایک ایسی کھلی ہوئی حقیقت اور ہدایت ہے کہ ساری عمر بتوں اور دیوتاؤں کو پوجنے اور پکارنے والے بھی جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس وقت وہ بھی صرف خدا تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔- عبرت - مشرکین کا یہ طرز عمل ان کی غداری کے اعتبار سے کتنا ہی بڑا جرم ہو، مگر مصیبت پڑنے کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور حقیقت کا اعتراف ہم مسلمانوں کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے باوجود مصیبتوں کے وقت بھی خدا تعالیٰ کو یاد نہیں کرتے، بلکہ ہمارا سارا دھیان مادّی سامانوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے، ہم اگرچہ مورتوں اور تصویری بتوں کو اپنا کارساز نہیں سمجھتے، مگر یہ مادّی سامان اور اسباب و آلات بھی ہمارے لئے بتوں سے کم نہیں، جن کی فکروں میں ہم ایسے گم ہیں کہ خدا تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی طرف کبھی دھیان نہیں ہوتا۔- حوادث و مصائب کا اصلی علاج - ہم ہر بیماری میں صرف ڈاکٹروں اور دواؤں کو اور ہر طوفان اور سیلاب کے وقت صرف مادّی سامانوں کو اپنا کارساز سمجھ کر اسی کی فکر میں ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ مالک کائنات کی طرف دھیان تک نہیں جاتا، حالانکہ قرآن کریم نے بار بار واضح الفاظ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ دنیا کے مصائب اور حوادث عموماً انسانوں کے اعمالِ بد کے نتائج اور آخرت کی سزا کا ہلکا سا نمونہ ہوتے ہیں، اور اس لحاظ سے یہ مصائب مسلمانوں کے لئے ایک طرح کی رحمت ہوتے ہیں، کہ ان کے ذریعہ غافل انسانوں کو چونکایا جاتا ہے، تاکہ وہ اب بھی اپنے اعمال بد کا جائزہ لے کر ان سے باز آنے کی فکر میں لگ جائیں، اور آخرت کی بڑی اور سخت سزا سے محفوظ رہیں، اسی مضمون کے لئے قرآن کریم کا ارشاد ہے :- (آیت) ولنذیقنھم من العذاب الادنی ” یعنی ہم لوگوں کو تھوڑا سا عذاب قریب دنیا میں چکھا دیتے ہیں آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ اپنی غفلت اور برائیوں سے باز آجائیں “۔- قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ہے :- (آیت) وما اصابکم من مصیبة (شوری) ” یعنی جو مصیبت تم کو پہنچی ہے وہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ ہے اور بہت سے برے اعمال کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں “۔- اس آیت کے بیان میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کسی انسان کو جو کسی لکڑی سے معمولی خراش لگتی ہے، یا قدم کو کہیں لغزش ہوجاتی ہے، یا کسی رگ میں خلش ہوتی ہے یہ سب کسی گناہ کا اثر ہوتا ہے، اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں وہ بہت ہیں “۔- بیضاوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ مجرموں اور گناہگاروں کو جو امراض اور آفات پیش آتے ہیں وہ سب گناہوں کے آثار ہوتے ہیں اور جو لوگ گناہوں سے معصوم یا محفوظ ہیں ان کے امراض اور آفات ان کے صبر استقلال کے امتحان اور جنت کے بلند درجات عطا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ - خلاصہ یہ ہے کہ عام انسان جو گناہوں سے خالی نہیں ان کو جو بھی بیماریاں اور حوادث و مصائب یا تکلیف اور پریشانی پیش آتی ہے وہ سب گناہوں کے نتائج اور آثار ہیں۔- اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ تمام مصائب اور پریشانیوں کا اور ہر قسم کے حوادث اور آفات کا اصلی اور حقیقی علاج یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی طرف رجوع کیا جائے، پچھلے گناہوں سے استغفار اور آئندہ ان سے پرہیز کرنے کا پختہ ارادہ کریں، اور اللہ تعالیٰ ہی سے رفع مصائب کی دعاء کریں۔- اس کے یہ معنی نہیں کہ مادّی اسباب دواء، علاج اور مصائب سے بچنے کی مادّی تدبیریں بےکار ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل کارساز حق تعالیٰ کو سمجھیں اور مادّی اسباب کو بھی اسی کا انعام سمجھ کر استعمال کریں کہ سب اسباب اور آلات اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اسی کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، اور اسی کے حکم اور مشیت کے تابع انسان کی خدمت کرتے ہیں، آگ، ہوا، پانی، مٹی اور دنیا کی تمام طاقتیں سب اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہیں، بغیر اس کے ارادہ کے نہ آگ جلا سکتی ہے، نہ پانی بجھا سکتا ہے، نہ کوئی دوا نفع دے سکتی ہے نہ کوئی غذا نقصان پہنچا سکتی ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا - خاک و باد و آب و آتش بندہ اند - بامن و تو مردہ، با حق زندہ اند - تجربہ شاہد ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر صرف مادّی سامانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تو جوں جوں یہ سامان بڑھتے ہیں پریشانیاں اور مصائب اور بڑھتے ہیں - مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی - شخصی طور پر کسی دوا یا انجکشن کا کسی وقت مفید ثابت ہونا یا کسی مادّی تدبیر کا کامیاب ہوجانا غفلت و معصیت کے ساتھ بھی ممکن ہے، لیکن جب مجموعی حیثیت سے پوری خلق خدا کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب چیزیں ناکام نظر آتی ہیں، موجودہ زمانہ میں انسان کو راحت پہنچانے اور اس کی ہر تکلیف کو دور کرنے کے لئے کیسے کیسے آلات اور سامان ایجاد کئے گئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں کہ اب سب پچاس سال پہلے کے انسان کو ان کا وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا۔ امراض کے علاج کیلئے نئی نئی زوداثر دوائیں اور طرح طرح کے انجکشن اور بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر اور ان کے لئے جابجا شفا خانوں کی بہتات کون نہیں جانتا کہ اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کا انسان ان سب سے محروم تھا۔ لیکن مجموعی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان آلات و سامان سے محروم انسان اتنا بیمار اور کمزور نہ تھا، جتنا آج کا انسان بیماریوں کا شکار ہے، اسی طرح آج عام دباؤں کے لئے طرح طرح کے ٹیکے موجود ہیں، حوادث سے انسان کو بچانے کے لئے آگ بجھانے والے انجن اور مصیبت کے وقت فوری اطلاع اور فوری امداد کے ذرائع اور سامان کی فراوانی ہے، لیکن جتنا جتنا یہ مادی سامان بڑھتا جاتا ہے، انسان حوادث اور آفات کا شکار پہلے سے زائد ہوتا جاتا ہے، وجہ اس کے سوا نہیں کہ پچھلے دور میں خالق کائنات سے غفلت اور کھلی نافرمانی اتنی نہ تھی جتنی اب ہے، وہ سامان راحت کو خدا تعالیٰ کا عطیہ سمجھ کر شکر گزاری کے ساتھ استعمال کرتے تھے، اور آج کا انسان بغاوت کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہے، اس لئے آلات اور سامان کی بہتات اس کو مصیبت سے نہیں بچاتی۔- خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو مشرکین کے اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ مصیبت کے وقت وہ بھی خدا ہی کو دیا کرتے تھے، مومن کا کام یہ ہے کہ اپنے تمام مصائب اور تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے مادی سامان اور تدبیروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے، ورنہ انجام وہی ہوگا جو روز مشاہدہ میں آرہا ہے، کہ ہر تدبیر مجموعی حیثیت سے الٹی پڑتی ہے، سیلابوں کو روکنے اور ان کے نقصانات سے بچنے کی ہزار تدبیریں کی جاتی ہیں مگر وہ آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں، امراض کے علاج کی نئی نئی تدبیریں کی جاتی ہیں، مگر امراض روز بروز بڑھتے جاتے ہیں، اشیاء کی گرانی رفع کرنے کے لئے ہزاروں تدبیریں کی جاتی ہیں، اور وہ سطحی طور پر مؤ ثر بھی معلوم ہوتی ہیں، لیکن مجموعی حیثیت سے نتیجہ یہ ہے کہ گرانی روز بروز بڑھتی جاتی ہے، چوری، ڈکیتی، اغواء، رشوت ستانی، چور بازاری کو روکنے کے لئے کتنی مادّی تدبیریں آج ہر حکومت استعمال کر رہی ہے، مگر حساب لگائیے تو ہر روز ان جرائم میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے، کاش آج کا انسان صرف شخصی اور سطحی اور سرسری نفع نقصان کی سطح سے ذرا بلند ہو کر حالات کا جائزہ لے تو اس کو ثابت ہوگا کہ مجموعی حیثیت سے ہماری مادّی تدبیریں سب ناکام ہیں بلکہ ہمارے مصائب میں اضافہ کر رہی ہیں، پھر اس قرآنی علاج پر نظر کرے کہ مصائب سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہے، کہ خالق کائنات کی طرف رجوع کیا جائے، مادّی تدبیروں کو بھی اسی کی عطا کی ہوئی نعمت کے طور استعمال کیا جائے، اس کے سوا سلامتی کی کوئی صورت نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝ ٠ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۝ ٦٣- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - ضرع - الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ :- أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ- [ الأنعام 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ.- ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں )- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار مکہ سے فرمائیے کہ خشکی اور دریائی سختیوں اور مصیبتوں سے کون نجات دیتا ہے جس کو تم زبان ودل سے یا یہ کہ آہ وزاری اور عجز کے ساتھ پکارتے ہو کہ اللہ اگر آپ ان سختیوں ومصیبتوں اور آفتوں سے ہمیں نجات دے دیں تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ج) ۔- کبھی تم نے غور کیا جب تم سمندر میں سفر کرتے ہو ‘ وہاں گھپ اندھیرے میں جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور سمندر کی خوفناک طوفانی لہریں ہر لمحہ موت کا پیغام دے رہی ہوتی ہیں تو ایسے میں اللہ کے سوا تمہیں کون بچاتا ہے ؟ کون ہے جو تمہاری دستگیری کرتا ہے اور تمہارے لیے عافیت کا راستہ نکالتا ہے۔ اسی طرح ع اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو کے مصداق جب کوئی قافلہ صحرا میں بھٹک جاتا ہے ‘ اندھیری رات میں نہ دائیں کا پتا ہوتا ہے نہ بائیں کی خبر ‘ ہر درخت اندھیرے میں ایک آسیب معلوم ہوتا ہے ‘ ایسے خوفناک ماحول اور انتہائی مایوسی کے عالم میں سب خداؤں کو بھلا کر تم لوگ ایک اللہ ہی کو پکارتے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani