Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

غلط تاویلیں کرنے والوں سے نہ ملو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قرآن کو اور جس ہدایت و بیان کو تو اللہ عالی کی طرف سے لایا ہے اور جسے تیری قوم قریش جھتلا رہی ہے حقیقتاً وہ سرا سر حق ہے بلکہ اس کے سوا اور کوئی حق ہے ہی نہیں ان سے کہہ دیجئے میں نہ تو تمہارا محافظ ہوں نہ تم پر وکیل ہوں ، جیسے اور آیت میں ہے کہدے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے نہ مانے ، یعنی مجھ پر صرف تبلیغ کرنا فرض ہے ، تمہارے ذمہ سننا اور ماننا ہے ماننے والے دنیا اور آخرت میں نیکی پائیں گے اور نہ ماننے والے دونوں جہان میں بد نصیب رہیں گے ، ہر خبر کی حقیقت ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے اس کا وقت مقرر ہے ، تمہیں عنقریب حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ، واقعہ کا انکشاف ہو جائے گا اور جان لو گے ، پھر فرمایا جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے اور جب تک وہ اپنی شیطانیت سے باز نہ آ جائیں تو ان کے ساتھ نہ اٹھو نہ بیٹھو ، اس آیت میں گو فرمان حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن حکم عام ہے ۔ آپ کی امت کے ہر شخص پر حرام ہے کہ وہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بےجا تاویلیں کرتے ہوں ، اگر بالفرض کوئی شخص بھولے سے ان میں بیٹھ بھی جائے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطا اور بھول سے درگزر فرما لیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبر دستی مجبور کر کے کرائے جائیں ۔ اس آیت کے اسی حکم کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے آیت ( وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَهْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖٓ ) 4 ۔ النسآء:140 ) یعنی تم پر اس کتاب میں یہ فرمان نازل ہو چکا ہے کہ جب اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا سنو تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی اس صورت میں ان جیسے ہی ہو جاؤ گے ہاں جب وہ اور باتوں میں مشغول ہوں تو خیر ، مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے اور ان کی باتوں کو برداشت کر لیا تو تم بھی ان کی طرح ہی ہو ، پھر فرمان ہے کہ جو لوگ ان سے دوری کریں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں ان کی ایسی مجلسوں سے الگ رہیں وہ بری الذمہ ہیں ان پر ان کا کوئی گناہ نہیں ، ان پر اس بدکرداری کا کوئی بوجھ ان کے سر نہیں ، دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھیں لیکن جبکہ ان کے کام میں اور ان کے خیال میں ان کی شرکت نہیں تو یہ بےگناہ ہیں لیکن یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم سورۃ نساء مدنی کی آیت ( اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ) 4 ۔ النسآء:140 ) سے منسوخ ہے ۔ ان مفسرین کی اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے تمہیں ان سے الگ رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ انہیں عبرت حاصل ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے باز آ جائیں اور ایسا نہ کریں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6  6 ۔ 1 بہ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب فتح القدیر 66۔ 1 یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکھف) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یہاں ھو سے مراد قرآن اور اس کی آیات بھی ہوسکتی ہیں، کفار سے عذاب کا وعدہ بھی اور روز آخرت بھی۔ کیونکہ یہ سب چیزیں اٹل حقائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتے ہیں کہ انہیں کہہ دیجئے کہ اگر تم ان حقائق پر ایمان نہیں لاتے اور تمہیں یہ یقین نہیں آتا تو میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں یہ باتیں ہر ممکن طریقہ سے تم سے منوا کر چھوڑوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ : تیری قوم نے اسے جھٹلا دیا۔ اس ” بہ “ کی ضمیر سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور اوپر کی آیات میں مذکور عذاب بھی۔ (قُلْ لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ ) یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ تمہارے جھٹلا دینے اور بد تمیزی کرنے پر خود عذاب نازل کر دوں، میرا کام تو صرف یہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دوں اور نہ ماننے والوں کو اس کی سزا بتادوں، اس کے بعد عذاب بھیجنا یا نہ بھیجنا اللہ کے اختیار میں ہے اور اس سے بچنے کی فکر کرنا تمہارا کام ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برادری یعنی قریش مکہ کی مخالفت حق کا ذکر کرکے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ یہ لوگ جو آپ سے وقوع عذاب کا معیّن وقت پوچھتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرما دیں کہ میں اس کام کے لئے مسلط نہیں کیا گیا، بلکہ ہر بات کا ایک وقت اللہ کے علم میں مقرر ہے، وہ اپنے وقت پر ہو کر رہے گی، اور اس کا نتیجہ تمہارے سامنے آجائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذَّبَ بِہٖ قَوْمُكَ وَہُوَالْحَقُّ۝ ٠ۭ قُلْ لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۝ ٦٦ۭ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٦) مگر قریش نے قرآن کریم کی تکذیب کی، آپ فرما دیجیے کہ میں تمہارے اوپر تعینات نہیں کیا گیا کہ تمہیں مسلمان ہی بنا کر چھوڑوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَہُوَ الْحَقُّ ط) ۔- یہاں بِہٖ سے مراد قرآن ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ‘ اس سورة کا عمود یہ مضمون ہے کہ مشرکین کے مطالبے پر کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا ‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اصل معجزہ یہ قرآن ہے۔ اسی لیے اس مضمون کی تفصیل میں بِہٖکی تکرار کثرت سے ملے گی۔- (قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ) ۔- اب میں نہیں کہہ سکتا کہ کب اللہ کے عذاب کا دروازہ کھل جائے اور عذاب ہلاکت تم پر ٹوٹ پڑے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :43 یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے ہو وہ زبر دستی تمہیں دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے ہو وہ بزور تمہاری سمجھ میں اتار دوں ۔ اور میرا یہ کام بھی نہیں ہے کہ اگر تم نہ دیکھو اور نہ سمجھو تو تم پر عذاب نازل کر دوں ۔ میرا کام صرف حق اور باطل کو ممیز کر کے تمہارے سامنے پیش کردینا ہے ۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس برے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آجائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: یعنی یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ تمہارا ہر مطالبہ پورا کروں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے جس میں تم لوگوں کو عذاب دینا بھی داخل ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو تمہیں خود پتہ لگ جائے گا۔