65۔ 1 یعنی آسمان، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب یا امرا اور احکام کی طرف سے ظلم و ستم۔ 65۔ 2 جیسے دھنسا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہوجائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بدیانت اور خائن ہوجائیں۔ 65۔ 3 یَلْبِسَکُمْ ای یخلط امرکم تمہارے معاملے کو خلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاؤ ویذیق اي یقتل بعضکم بعضا فتذیق کل طائفۃ الاخری اَلَمَ الْحَرْبِ تمہارا ایک دوسرے کو قتل کرنا اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کی لڑائی کا مزہ چکھے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں 1۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے 2۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا گیا (صحیح مسلم، نمبر 2216) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف و الشقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن پاک و حدیث سے اعراض (منہ پھیرنا) ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق و کردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا ولن تجد لسنت اللہ تحویلا (فاطر)
[٧٢] عذاب کی قسمیں : حرب فجار اور حرب بعاث :۔ اس آیت میں عذاب کی تین اقسام بیان فرمائیں (١) عذاب سماوی جیسے طوفان بادو باراں، کڑک، بجلی کا گرنا، تیز آندھی، پتھروں کی بارش وغیرہ (٢) عذاب ارضی جیسے دریاؤں کا سیلاب، زلزلے اور زمین میں دھنس جانا (٣) فرقہ بازی۔ خواہ یہ مذہبی قسم کی ہو یا سیاسی یا قبائلی ہو۔ یہ تینوں قسم کے عذاب اگلی امتوں پر آتے رہے ہیں۔ تیسری قسم کا عذاب تو آپ کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھا۔ مکہ میں حرب فجار اور مدینہ میں حرب بعاث نے خاندانوں کے خاندان تباہ کردیئے تھے۔ سینکڑوں گھرانے اجڑ گئے مگر یہ قبائلی جنگیں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں اور پہلی دو قسموں کا عذاب اس وقت آیا کرتا تھا جب کسی قوم کا اس کی سرکشی کی بنا پر مکمل طور پر استیصال مقصود ہوتا۔ رسول اللہ نے ان سب قسم کے عذابوں سے پناہ مانگی اور دعا کی کہ میری امت پر ایسے عذاب نہ آئیں۔ چناچہ پہلی دو قسم کے عذابوں کے متعلق آپ کی دعا قبول ہوگئی مگر تیسری قسم کے متعلق قبول نہیں ہوئی یعنی پہلی دو قسم کا عذاب اس امت کے کلی استیصال کے لئے نہیں آئے گا البتہ جزوی طور پر آسکتا ہے۔ رہا تیسری قسم کا عذاب تو وہ اس امت میں موجود ہے جس نے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے مسلمانوں کو ایک مقہور اور مغلوب قوم بنا رکھا ہے اور یہ بھی سرکشی اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کا ہی نتیجہ ہے۔
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ ۔۔ : اوپر سے عذاب جیسے بارش کی کثرت، طوفان، بجلی، اولے اور آندھی وغیرہ، یا ظالم حکمران، یا عورت کے لیے اس پر ظلم کرنے والا خاوند اور نیچے سے عذاب، جیسے زلزلہ، قحط، زمین میں دھنس جانا، یا ایسے ماتحت جو خائن اور بددیانت ہوں، مرد کے لیے ناموافق بیوی۔ ” اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا “ یعنی مختلف گروہ بنا کر انھیں آپس میں گتھم گتھا کر دے، یہ لڑائی بھی خوفناک عذاب ہے۔ جابر (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیج دے “ تو آپ نے دعا کی : ” میں تیرے چہرے کی پناہ چاہتا ہوں۔ “ پھر یہ نازل ہوا : ” یا تمہارے نیچے سے “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی : ” میں تیرے چہرے کی پناہ چاہتا ہوں۔ “ پھر یہ نازل ہوا :” یا تمہیں گروہ بنا کر آپس میں گتھم گتھا کر دے “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ ان دونوں سے ہلکا عذاب ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( قل ھو القادر علٰی۔۔ ) : ٤٦٢٨ ]- سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں نے اپنے رب سے تین دعائیں کی ہیں :1 میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری ساری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول فرمائی۔ 2 میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میری ساری امت کو قحط میں مبتلا نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو بھی قبول فرما لیا۔ 3 میں نے دعا کی کہ میری امت کو آپس میں اختلاف اور انتشار سے بچائے تو اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول نہیں فرمایا۔ “ [ مسلم، الفتن، باب ہلاک ہذہ الأمۃ بعضھم ببعض : ٢٨٩٠ ]
خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یہ بھی) کہئے کہ (جس طرح وہ نجات دینے پر قادر ہے اسی طرح) اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر (تمہارے کفر و شرک کی وجہ سے) کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے (جیسے پتھر یا ہوا یا بارش طوفانی) یا تمہارے پاوں تلے (جو زمین ہے اس) سے (ظاہر کر دے، جیسے زلزلہ یا غرق ہوجانا اور ان عذابوں کے اسباب قریبہ تو اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں، کبھی نہ کبھی ایسا ہوگا خواہ دنیا میں یا آخرت میں) یا کہ تم کو (اغراض کے اختلاف سے مختلف) گروہ گروہ کرکے سب کو (آپس میں) بھڑا دے (یعنی لڑوا دے) اور تمہارے ایک کو دوسری کی لڑائی (کے ذریعے مزہ) چکھا دے (اور اس کا سبب قریب فعل اختیاری ہے، اور یا سب آفتیں جمع کر دے، غرض نجات دینا اور عذاب میں مبتلا کرنا دونوں اسی کے قدرت میں ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھئے تو سہی ہم کس (کس) طرح دلائل (توحید) کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وہ (لوگ) سمجھ جاویں اور (اللہ تعالیٰ کے عذاب دینے پر قادر ہونے اور کفرو شرک کے سبب عذاب ہونے کو جاننے کے باوجود) آپ کی قوم کے لوگ (قریش اور عرب بھی) اس (عذاب) کی تکذیب کرتے ہیں، (اور اس کے واقع نہ ہونے کے معتقد ہیں) حالانکہ وہ یقینی (واقع ہونے والا) ہے، (اور اس کو سن کر وہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کب ہوگا تو) آپ (یوں) کہہ دیجئے کہ میں تم پر (عذاب واقع کرنے کے لئے) تعینات نہیں کیا گیا ہوں (کہ مجھ کو مفصل اطلاع ہو یا میرے اختیار میں ہو البتہ) ہر خبر کے (مدلول) کے واقع کا ایک وقت (اللہ کے علم میں معین) ہے اور جلدی ہی تم کو معلوم ہوجائے گا (کہ یہ عذاب آیا) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیتوں میں اللہ جل شانہ کے وسیع علم اور بےمثال قدرت کا یہ اثر مذکور تھا کہ ہر انسان کی ہر مصیبت کو وہی دور کرسکتا ہے، اور مصیبت کے وقت جو اس کو پکارتا ہے اللہ تعالیٰ کی امداد اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے، کیونکہ اس کو تمام کائنات پر قدرت بھی کامل ہے اور تمام مخلوق پر رحمت بھی کامل، اس کے سوا نہ کسی کو قدرت کاملہ حاصل ہے اور نہ تمام مخلوق پر رحمت و شفقت۔- مذکورہ الصدر آیات میں قدرت کاملہ کے دوسرے رخ کا بیان ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ ہے کہ کوئی عذاب کوئی مصیبت اور کیسی ہی بڑی سے بڑی آفت ہو اس کو ٹال سکتا ہے اسی طرح اس کو اس پر بھی قدرت حاصل ہے کہ جب کسی فرد یا جماعت کو اس کی سرکشی کی سزا اور عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو ہر قسم کا عذاب اس کے لئے آسان ہے، کسی مجرم کو سزا دینے کے لئے دنیا کے حکام کی طرح اس کو نہ کسی پولیس اور فوج کی حاجت ہے اور نہ کسی مددگار کی ضرورت، اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا : قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ بھیج دے تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا تھیں مختلف پارٹیوں میں بانٹ کر آپس میں بھڑا دے اور ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے عذاب میں ہلاک کر دے۔- عذاب الٓہی کی تین قسمیں - یہاں عذاب الٓہی کی تین قسموں کا ذکر ہے، ایک جو اوپر سے آئے، دوسرے جو نیچے سے آئے، تیسرے جو اپنے اندر سے پھوٹ پڑے، پھر لفظ عذابا کو اس جگہ تنوین کے ساتھ نکرہ لاکر عربی قواعد کے اعتبار سے اس پر بھی متنبہ کردیا کہ ان تینوں قسموں میں بھی مختلف قسمیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں۔- حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اوپر سے عذاب آنے کی مثالیں پچھلی امتوں میں بہت سی گزر چکی ہیں، جیسے قوم نوح (علیہ السلام) پر بارش کا سخت سیلاب آیا اور قوم عاد پر ہوا کا طوفان مسلط ہوا، اور قوم لوط (علیہ السلام) پر اوپر سے پتھر برسائے گئے، آل فرعون پر خون اور مینڈک وغیرہ برسائے گئے، اصحاب فیل نے جب مکہ پر چڑھائی کی تو پرندوں کے ذریعہ ان پر ایسی کنکریں برسائی گئیں جس سے وہ سب کے سب کھائے ہوئے بھوسہ کی طرح ہو کر رہ گئے۔- اسی طرح نیچے سے آنے والے عذاب کی بھی پچھلی قوموں میں مختلف صورتیں گزر چکی ہیں قوم نوح (علیہ السلام) پر تو اوپر کا عذاب طوفان، بارش کے ساتھ اور نیچے کا عذاب زمین کا پانی ابلنا شروع ہوگیا، غرض اوپر اور نیچے کے دونوں عذاب میں بیک وقت گرفتار ہوگئے، اور قوم فرعون پاؤں تلے کے عذاب میں غرق کی گئی، قارون بھی مع اپنے خزانوں کے اسی عذاب میں گرفتار ہوا، اور زمین کے اندر دھنس گیا۔- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند ارشادات سے بھی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے، مشکوة شریف میں بحوالہ شعب الایمان بیہقی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے : کما تکونون کذلک یؤ مر علیکم، یعنی جیسے تمہارے اعمال بھلے یا برے ہوں گے ویسے ہی حکام اور امراء تم پر مسلط کئے جائیں گے، اگر تم نیک اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوگے تو تمہارے حکام و امراء بھی رحم دل، انصاف پسند ہوں گے، اور تم بدعمل ہوگے تو تم پر حکام بھی بےرحم اور ظالم مسلط کردیئے جائیں گے، مشہور مقولہ اعمالکم عمالکم کا یہی مفہوم ہے۔- اور مشکوة میں بحوالہ حلیہ ابی نعیم روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں سب بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں، سب بادشاہوں کے قلوب میرے ہاتھ میں ہیں، جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں اور حکام کے قلوب میں ان کی شفقت و رحمت ڈال دیتا ہوں، اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حکام کے دل ان پر سخت کردیتا ہوں، وہ ان کو ہر طرح کا برا عذاب چکھاتے ہیں، اس لئے تم حکام اور امراء کو برا کہنے میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اپنے عمل کی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ، تاکہ تمہارے سب کاموں کو درست کر دے “۔- اسی طرح ابوداؤد، نسائی میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” جب اللہ تعالیٰ کسی امیر اور حاکم کا بھلا چاہتے ہیں تو اس کو اچھا وزیر اور اچھا نائب دیدتے ہیں کہ اگر امیر سے کچھ بھول ہوجائے تو وہ اس کو یاد دلادے اور جب امیر صحیح کام کرے تو وہ اس کی مدد کرے، اور جب کسی حاکم و امیر کے لئے کوئی برائی مقدر ہوتی ہے تو برے آدمیوں کو اس کے وزراء اور ماتحت بنادیا جاتا ہے۔ (الحدیث)- ان روایات اور آیت مذکورہ کی متذکرہ تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو جو تکالیف اور مصائب اپنے حکام کے ہاتھوں پہنچتے ہیں وہ اوپر سے آنے والا عذاب ہے، اور جو اپنے ماتحتوں اور ملازموں کے ذریعہ پہنچتے ہیں وہ نیچے سے آنے والا عذاب ہے، یہ سب کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتے، بلکہ ایک قانونِ الٓہی کے تابع انسان کے اعمال کی سزا ہوتے ہیں، حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو میں اس کا اثر اپنے نوکر اور اپنی سواری کے گھوڑے اور باربرداری کے گدھے کے مزاج میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ یہ سب میری نافرمانی کرنے لگتے ہیں، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ - خلق رابا تو چنیں بدخوکنند - تاترا ناچار رو آنسو کنند - یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہارے بالا دست حکام یا ماتحت ملازموں کے ذریعہ تمہارے خلاف مزاج، تکلیف دہ معاملات کا ظاہری عذاب تم پر مسلط کرکے در حقیقت تمہارا رخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں، تاکہ تم ہوشیار ہوجاؤ اور اپنے اعمال کو درست کرکے آخرت کے عذاب اکبر سے بچ جاؤ۔- خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق حکام کا ظلم وجور اوپر سے آنے والا عذاب ہے، اور ماتحت ملازموں کی بےایمانی، کام چوری، غداری، نیچے سے آنے والا عذاب ہے، اور دونوں کا علاج ایک ہی ہے کہ سب اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور بےراہ روی سے باز آجائیں تو قدرت خود ایسے حالات پیدا کر دے گی کہ یہ مصیبت رفع ہو، ورنہ صرف مادّی تدبیروں کے ذریعہ ان کی اصلاح کی امید اپنے نفس کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں، جس کا تجربہ ہر وقت ہو رہا ہے - خویش رادیدیم و رسوائی خویش - امتحان مامکن اے شاہ بیش - اوپر اور نیچے کے عذاب کی جو مختلف تفسیریں آپ نے ابھی سنی ہیں در حقیقت ان تمام تفسیروں پر حاوی ہے، آسمان سے برسنے والے پتھر، خون، آگ اور پانی کا سیلاب اور بالادست حکام کا ظلم وجور یہ سب اوپر سے آنے والے عذاب میں داخل ہیں، اور زمین شق ہو کر کسی قوم کا اس میں دھنس جانا یا پانی زمین سے ابل کر غرق ہوجانا، یا ماتحت ملازموں کے ہاتھوں مصیبت میں مبتلا ہوجانا یہ سب نیچے سے آنے والے عذاب ہیں۔- تیسری قسم عذاب کی جو اس آیت میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا یعنی تمہاری مختلف پارٹیاں بن کر آپس میں بھڑ جائیں، اور باہم ایک دوسرے کے لئے عذاب بن جائیں، اس میں لفظ یلبسکم، لبس کے مادہ سے بنا ہے، جس کے اصلی معنی چھپالینے اور ڈھانپ لینے کے ہیں، اسی معنی سے لباس ان کپڑوں کو کہا جاتا ہے جو انسان کے بدن کو ڈھانپ لے، اور اسی وجہ سے التباس بمعنی شبہ و اشتباہ استعمال ہوتا ہے جہاں کسی کلام کی مراد مستور ہو صاف اور کھلی ہوئی نہ ہو۔ - اسی لئے آیت کا ترجمہ یہ ہوگیا کہ عذاب کی ایک قسم یہ ہے کہ قوم مختلف پارٹیوں میں بٹ کر آپس میں بھڑ جائے، اسی لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا :- لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض (اخرجہ ابن ابی حاتم عن ذید بن اسلم) مظہری۔- ” یعنی تم میرے بعد پھر کافروں جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو “۔- حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے، ہمارا گزر مسجد بنی معاویہ پر ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی دو رکعت ادا کی، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا میں مشغول ہوگئے اور بہت دیر تک دعا کرتے رہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا، ایک یہ کہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی، دوسرے یہ کہ میری امت کو قحط اور بھوک کے ذریعہ ہلاک نہ کیا جائے یہ بھی قبول فرمالی، تیسری دعا یہ کہ میری امت آپس میں جنگ و جدل سے تباہ نہ ہو، مجھے اس دعا سے روک دیا گیا (مظہری بحوالہ بغوی) ۔- اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے منقول ہے، جس میں تین دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے کہ میری امت پر کسی دشمن کو مسلط نہ فرما دے جو سب کو تباہ و برباد کردے، یہ دعا قبول ہوئی، اور آپس میں نہ بھڑ جائیں اس دعا کو منع کردیا گیا۔- ان روایات سے ثابت ہوا کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام پر اس قسم کے عذاب تو نہ آئیں گے جیسے پچھلی امتوں پر آسمان یا زمین سے آئے جس سے ان کی پوری قوم تباہ و برباد ہوگئی، لیکن ایک عذاب دنیا میں اس امت پر بھی آتا رہے گا، وہ عذاب آپس کی جنگ و جدل اور فرقوں اور پارٹیوں کا باہم تصادم ہے، اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو فرقوں اور پارٹیوں میں منقسم ہو کر باہمی آویزش اور جنگ و جدل سے منع کرنے میں انتہائی تاکید سے کام کیا ہے، اور ہر موقع پر اس سے ڈرایا ہے کہ تم پر خدا تعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں اگر آئے گا تو آپس ہی کی جنگ و جدل کے ذریعہ آئے گا۔- سورة ہود کی ایک آیت میں یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت سے آیا ہے :- (آیت) ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک (ھود)- ” یعنی لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف ہی کرتے رہیں گے بجر ان لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی “۔- اس سے واضح ہوا کہ جو لوگ آپس میں (بلا وجہ شرعی) اختلاف کرتے ہیں وہ رحمت خداوندی سے محروم یا بعید ہیں۔- ایک آیت میں ارشاد ہے : (آیت) واعتصموا بحبل اللّیة جمیعا ولا تفرقوا دوسری آیت میں ارشاد ہے : (آیت) ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا - ان تمام آیات روایات کا حاصل یہ ہے کہ اختلاف بڑی منحوس اور مذموم چیز ہے، آج دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے مسلمانوں کی پستی اور بربادی کے اسباب پر غور کیا جائے تو اکثر مصائب کا سبب یہی آپس کا اختلاف اور تشتت نظر آئے گا، ہماری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں یہ عذاب ہم پر مسلط ہوگیا، کہ وہ قوم جس کا مرکز اتحاد ایک کلمہ لا آلہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا، اس کلمہ کو ماننے والا زمین کے کسی خطہ میں ہو، کسی زبان کا بولنے والا ہو، کسی رنگ کا ہو، کسی نسل و نسب سے متعلق ہو سب بھائی بھائی تھے، کوہ دریا کی دشوار گزار منازل ان کی وحدت میں حائل نہ تھیں، نسب و خاندان، رنگ و زبان کا تفاوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ تھا، ان کی قومی و حدت صرف اس کلمہ سے وابستہ تھی، عربی، مصری، شامی، ترکی، ہندی، چینی، کی تقسیمیں صرف شناخت اور تعارف کے لئے تھیں اور کچھ نہیں، بقول اقبال مرحوم - درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی - گھر اس کا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمر قند - آج دوسری قوموں کی دسیسہ کاریوں اور مسلسل کوششوں نے پھر ان کو نسلی اور لسانی اور وطنی قومیتوں میں بانٹ دیا، اور پھر ان میں سے بھی ہر ایک قوم و جماعت اپنے اندر بھی تشتّت اور انتشار کا شکار ہو کر مختلف پارٹیوں میں بٹ گئی، وہ قوم جس کا شعار غیروں سے بھی عفو و درگزر اور ایثار تھا اور جھگڑے سے بچنے کے لئے اپنے بڑے سے بڑے حق کو چھوڑ دیتی تھی، آج اس کے بہت سے افراد ذرا ذرا سی حقیر و ذلیل خواہشات کے پیچھے بڑے سے بڑے تعلق کو قربان کردیتے ہیں، یہی وہ اغراض واہواء کا اختلاف ہے جو قوم و ملت کے لئے منحوس اور اس دنیا میں نقد عذاب ہے۔- ہاں اس جگہ یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ وہ اختلاف جس کو قرآن میں عذاب الٓہی اور رحمت خدا وندی سے محرومی فرمایا گیا ہے وہ اختلاف ہے جو اصول اور عقائد میں ہو یا نفسانی اغراض واہواء کی وجہ سے ہو، اس میں وہ اختلاف رائے داخل نہیں جو قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے اصول اجتہاد کے ماتحت فروعی مسائل میں فقہاء امت کے اندر قرن اول سے صحابہ وتابعین میں ہوتا چلا آیا ہے، جن میں فریقین کی حجت قرآن و سنت اور اجماع سے ہے، اور ہر ایک کی نیت قرآن و سنت کے احکام کی تعمیل ہے، مگر قرآن و سنت کے مجمل یا مبہم الفاظ کی تعبیر اور ان سے جزوی، فروعی مسائل کے استخراج میں اجتہاد اور رائے کا اختلاف ہے، ایسے ہی اختلاف کو ایک حدیث میں رحمت فرمایا گیا ہے۔- جامع صغیر من بحوالہ نصر مقدسی و بہیقی و امام الحرمین یہ روایت نقل کی ہے کہ :- اختلاف امتی رحمة،” تیسری امت کا اختلاف رحمت ہے “۔ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت اس لئے اختیار فرمائی گئی کہ اس امت کے علماءِ حق اور فقہاء متقین میں جو اختلاف ہوگا وہ ہمیشہ اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہوگا، اور صدق نیت اور للہیت سے ہوگا، کوئی نفسانی غرض جاہ و مال کی ان کے اختلاف کی متحرک نہ ہوگی، اس لئے وہ کسی سے جنگ و جدل کا سبب بھی نہ بنے گا، بلکہ علامہ عبد الرؤف منادی شارح جامع صغیر کی تحقیق کے مطابق فقہاء امت کے مختلف مسالک کا وہ درجہ ہوگا جو زمانہ سابق میں انبیاء (علیہم السلام) کی مختلف شرائع کا تھا کہ مختلف ہونے کے باوجود سب کی سب اللہ ہی کے احکام تھے، اسی طرح مجتہدین امت کے مختلف مسلک اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے سب کے سب احکام خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کہلائیں گے۔- اس اجتہادی اختلاف کی مثال محسوسات میں ایسی ہے جیسے شہر کی بڑی سڑکوں کو چلنے والوں کی آسانی کے لئے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے، ایک حصہ پر بسیں چلتی ہیں دوسرے پر دوسری گاڑیاں یا ٹرام، اسی طرح سائیکل سواروں اور پیادہ چلنے والوں کے لئے روڈ کا علیحدہ ایک حصہ ہوتا ہے، ایک روڈ کی کئی حصوں میں یہ تقسیم بھی اگرچہ ظاہرہ طور پر ایک اختلاف کی صورت ہے، مگر چونکہ سب کا رخ ایک ہی سمت ہے اور ہر ایک پر چلنے والا ایک ہی منزل مقصود پر پہنچے گا، اس لئے راستوں کا یہ اختلاف بجائے مضر ہونے کے مفید اور چلنے والوں کے لئے وسعت و رحمت ہے۔- یہی وجہ ہے کہ ائمہ مجتہدین اور فقہاء امّت کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی کا مسلک باطل نہیں، اور جو لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں، ان کو دوسروں کے نزدیک گنہگار کہنا جائز نہیں، ائمہ مجتہدین اور فقہاء امت کے مذاہب کے اختلاف کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ ایک مجتہد نے جو مسلک اختیار کیا ہے وہ اس کے نزدیک راجح ہے مگر اس کے مقابل دوسرے مجتہد کے مسلک کو بھی وہ باطل نہیں کہتے، بلکہ ایک دوسرے کا پورا احترام کرتے ہیں، فقہاء صحابہ وتابعین اور ائمہ اربعہ کے بیشمار حالات و واقعات اس پر شاہد ہیں کہ فقہی مسلک بہت سے مسائل میں مختلف ہونے اور علمی بحثیں جاری رہنے کے باوجود ایک دوسرے کا مکمل اعتقاد و احترام کرتے تھے، جنگ و جدل اور خصومت و عداوت کا وہاں کوئی احتمال ہی نہ تھا، مذاہب فقہاء کے متبعین اور مقلدین میں بھی جہاں تک صحیح علم و دیانت رہے ان کے بھی باہمی معاملات ایسے ہی رہے۔- یہ اختلاف ہے جو رحمت اور لوگوں کے لئے وسعت و سہولت کا ذریعہ اور بہت سے مفید نتائج کا حامل ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ فروعی مسائل میں راویوں کا اختلاف جہاں تک اپنی حد کے اندر ہے وہ کوئی مضر چیز نہیں، بلکہ مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو کھولنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں معین ہے، اور جہاں دیانت دار عقلاء جمع ہوں گے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مسئلہ میں ان کا اختلاف نہ ہو، ایسا قانون تو یا بےعقلوں میں ہوسکتا ہے جن کو کوئی سمجھ بوجھ نہ ہو، یا بےدینوں میں ہوسکتا ہے جو کسی پارٹی وغیرہ کی رعایت سے خلاف ضمیر رائے میں اتفاق کا اظہار کریں۔- اختلاف رائے جو اپنی حدود کے اندر ہو، یعنی قرآن و سنت کے قطعی اور اعتقادی مسائل اور قطعی احکام میں نہ ہو، صرف فروعی مسائل اجتہادیہ میں ہو، جن میں قرآن و سنت کی نصوص ساکت یا مبہم ہیں، اور وہ بھی جنگ و جدل اور لعن و طعن کی حد تک نہ پہنچے تو وہ بجائے مضر ہونے کے مفید اور ایک نعمت و رحمت ہے، جیسے کائنات عالم کی تمام چیزوں کا شکل و صورت، رنگ و بو اور خاصیت و منفعت میں اختلاف ہے، حیوانات میں لاکھوں مختلف قسمیں بنی نوع انسان میں مزاجوں اور پیشوں، صنعتوں اور رہن و سہن کے طریقوں میں اختلاف، یہ سب اس عالم کی رونق بڑھانے والے اور بیشمار منافع کے اسباب ہیں۔- بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہب فقہاء اور علماء حق کے فتوؤں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ علماء میں اختلاف ہے تو کدھر جائیں، حالانکہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے معاملہ میں ڈاکٹروں طبیبوں کا اختلاف رائے ہوتا ہے تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار کون ہے، بس اس کا علاج کرتے ہیں، دوسرے ڈاکٹروں کر برا نہیں کہتے، مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہوجاتا ہے، تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں، دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے، یہی اصول یہاں ہونا چاہئے، جب کسی مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہوجائیں تو مقدور بھر تحقیق کرنے کے بعد جس عالم کو علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ اور افضل سمجھیں اس کا اتباع کریں اور دوسرے علماء کو برا بھلا کہتے نہ پھریں۔- حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے کہ ماہر مفتی کا انتخاب اور درصورت اختلاف ان میں سے اس شخص کے فتوے کو ترجیح دینا جو اس کے نزدیک علم اور تقوی میں سب سے زیادہ ہو، یہ کام ہر صاحب معاملہ مسلمان کے ذمہ خود لازم ہے، اس کا کام یہ تو نہیں کہ علماء کے فتو وں میں کسی فتوے کو ترجیح دے لیکن یہ اسی کا کام ہے کہ مفتیوں اور علماء میں سے جس کو اپنے نزدیک علم اور دیانت کے اعتبار سے زیادہ افضل جانتا ہے اس کے فتوے پر عمل کرے، مگر دوسرے علماء اور مفتیوں کو برا کہتا نہ پھرے، ایسا عمل کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک وہ بالکل بری ہے، اگر حقیقةً کوئی غلطی فتویٰ دینے والے سے ہو بھی گئی تو اس کا وہی ذمہ دار ہے۔- خلاصہ کلام یہ ہے کہ نہ ہر اختلاف مطلقاً مذموم اور نہ ہر اتفاق مطلقاً محمود و مطلوب ہے۔ اگر چور، ڈاکو، باغی ایک جماعت بنا کر باہم متفق ہوجائیں تو کون نہیں جانتا کہ ان کا یہ اتفاق مذموم اور قوم کے لئے مہلک ہے اور اس کے خلاف جو سعی وعمل عوام یا پولیس وغیرہ کی طرف سے اس جماعت کی مخالفت میں ہوتا ہے وہ ہر عقلمند کی نظر میں اختلاف محمود و مفید ہے۔- معلوم ہوا کہ خرابی اختلاف رائے میں نہیں اور نہ کسی ایک رائے پر عمل کرنے میں ہے بلکہ ساری خرابیاں دوسروں کے متعلق بدگمانی اور بدزبانی سے پیش آتی ہیں جو علم و دیانت کی کمی اور اغراض واہنواء کی زیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے، اور جب کسی قوم یا جماعت میں یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے تو ان کے لئے یہ اختلاف رحمت بھی اختلاف عذاب کی صورت میں منتقل ہوجاتا ہے، اور مسلمانوں کی پارٹیاں بن کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل اور بعض اوقات قتل و قتال تک میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور ایک دوسرے کے خلاف لعن طعن اور دل آزار کلمات کو تو مذہب کی حمایت سمجھ لیا جاتا ہے، حالانکہ مذہب کا اس غلو اور زیادتی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ یہ وہی جدال ہے جس سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے، صحیح احادیث میں اس کو قوموں کی گمراہی کا سبب قرار دیا ہے (ترمذی، ابن ماجہ)
قُلْ ہُوَالْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ٠ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَفْقَہُوْنَ ٦٥- قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔- ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
(٦٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ وہ تم پر عذاب نازل کردینے پر جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر نازل کیا ہے اور تمہیں زمین میں دھنسا دینے پر جیسا کہ قارون کو دھنسایا یا تمہیں اغراض کے اختلاف سے مختلف کرکے جیسا کہ انبیاء کے بعد بنی اسرائیل کو کیا ہے، آپس میں بھڑا دینے پر قادر ہے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم قرآن کریم میں گزشتہ قوموں کے واقعات اور ان کی کارگزاریاں کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ احکام خداوندی اور توحید خداوندی کو سمجھیں۔- شان نزول : (آیت) ” قل ھو القادر “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ فرما دیجیے کہ وہ اس پر بھی قادر کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے الخ، تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد کافر مت بن جانا کہ تلواروں سے ایک دوسرے کی گردنیں اڑانا شروع کردو، صحابہ کرام (رض) نے کہا ہم تو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور آپ اس کے رسول ہیں تو بعض حضرات بولے کہ شاید یہ شان ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتی بلکہ کچھ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی گردنیں اڑائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کا اگلا حصہ نازل فرمایا یعنی آپ دیکھیے تو سہی ہم کس طرح دلائل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں، شاید وہ لوگ سمجھ جائیں ، (الخ) ۔
آیت ٦٥ (قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلآی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ ) - مثلاً آسمان کا کوئی ٹکڑا یا کوئی شہاب ثاقب ( ) گرجائے۔ آج کل ایسی خبریں اکثر سننے کو ملتی ہیں کہ اس طرح کی کوئی چیز زمین پر گرنے والی ہے ‘ لیکن پھر اللہ کے حکم سے وہ خلا میں ہی تحلیل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کی تہہ بھی اللہ تعالیٰ نے زمین اور زمین والوں کے بچاؤ کے لیے پیدا کی ہے ‘ وہ چاہے تو اس حفاظتی چھتری کو ہٹا دے۔ بہرحال آسمانوں سے عذاب نازل ہونے کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے اور اللہ جب چاہے یہ عذاب نازل ہوسکتا ہے۔- (اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ ) - یہ عذاب تمہارے قدموں کے نیچے سے بھی آسکتا ہے ‘ زمین پھٹ سکتی ہے ‘ زلزلے کے باعث شہروں کے شہر زمین میں دھنس سکتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں خبر دی گئی ہے کہ قیامت سے پہلے تین بڑے بڑے خسف ہوں گے ‘ یعنی زمین وسیع پیمانے پر تین مختلف جگہوں سے دھنس جائے گی۔ عذاب کی دو شکلیں تو یہ ہیں ‘ اوپر سے یا قدموں کے نیچے سے۔- (اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ط) - یہ خانہ جنگی کی صورت میں عذاب کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے عوام یا قوم کے مختلف گروہ آپس میں لڑپڑیں۔ جیسے پنجابی اور اردو بولنے والے آپس میں الجھ جائیں ‘ بلوچ اور پختون ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں ‘ شیعہ سنی کو مارے اور سنی شیعہ کو۔ اللہ تعالیٰ کو آسمان سے کچھ گرانے کی ضرورت ہے نہ زمین کو دھنسانے کی۔ یہ گروہ بندی اور اس کی بنیاد پر باہمی خون ریزی عذاب الٰہی کی بد ترین شکل ہے ‘ جو آج مسلمانان پاکستان پر مسلط ہے۔ تقسیم ہند سے قبل جب ہندو سے مقابلہ تھا تو مسلمان ایک قوم تھے۔ پاکستان بنا تو اس کے تمام باسی پاکستانی تھے۔ اب یہی پاکستانی قوم چھوٹی چھوٹی قومیتوں اور عصبیتوں میں تحلیل ہوچکی ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کا دشمن ہے۔ - (اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُوْنَ ) ۔- تصریف کے معنی ہیں گھمانا۔ ع اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں کے مصداق ایک ہی بات کو اسلوب بدل بدل کر ‘ مختلف انداز میں ‘ نئی نئی ترتیب کے ساتھ بیان کرنا۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :42 جو لوگ عذاب الہٰی کو اپنے سے دور پاکر حق دشمنی میں جرأت پر جرأت دکھا رہے تھے انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے عذاب کو آتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔ ہوا کا ایک طوفان تمہیں اچانک برباد کر سکتا ہے ۔ زلزلے کا ایک جھٹکا تمہاری بستیوں کو پیوند خاک کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ قبیلوں اور قوموں اور ملکوں کی عداوتوں کے میگزین میں ایک چنگاری وہ تباہی پھیلا سکتی ہے کہ سالہا سال تک خونریزی و بدامنی سے نجات نہ ملے ۔ پس اگر عذاب نہیں آرہا ہے تو یہ تمہارے لیے غفلت و مدہوشی کی پِنَک نہ بن جائے کہ مطمئن ہو کر صحیح و غلط کا امتیاز کیے بغیر اندھوں کی طرح زندگی کے راستے پر چلتے رہو ۔ غنیمت سمجھو کہ اللہ تمہیں مہلت دے رہا ہے اور وہ نشانیاں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے جن سے تم حق کو پہچان کر صحیح راستہ اختیار کر سکو ۔