Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اسلام کے سوا سب راستوں کی منزل جہنم ہے مشرکوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہمارے دین میں آ جاؤ اور اسلام چھوڑ دو اس پر یہ آیت اتری کہ کیا ہم بھی تمہاری طرح بےجان و بےنفع و نقصان معبودوں کو پوجنے لگیں ؟ اور جس کفر سے ہٹ گئے ہیں کیا پھر لوٹ کر اسی پر آ جائیں؟ اور تم جیسے ہی ہو جائیں؟ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اب تو ہماری آنکھیں کھل گئیں صحیح راہ مل گئی اب اسے کیسے چھوڑ دیں؟ اگر ہم ایسا کرلیں تو ہماری مثال اس شخص جیسی ہو گی جو لوگوں کے ساتھ سیدھے راستے پر جا رہا تھا مگر راستہ گم ہو گیا شیطان نے اسے پریسان کر دیا اور ادھر ادھر بھٹکانے لگا اس کے ساتھ جو راستے پر تھے وہ اسے پکارنے لگے کہ ہمارے ساتھ مل جا ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں یہی مثال اس شخص کی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جان اور پہچان کے بعد مشرکوں کا ساتھ دے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی پکارنے والے ہیں اور اسلام ہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں یہ مثال اللہ تعالیٰ نے معبودان باطل کی طرف بلانے والوں کی بیان فرمائی ہے اور ان کی بھی جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں ، ایک شخص راستہ بھولتا ہے وہیں اس کے کان میں آواز آتی ہے کہ اے فلاں ادھر آ سیدھی راہ یہی ہے لیکن اس کے ساتھی جس غلط راستے پر لگ گئے ہیں وہ اسے تھپکتے ہیں اور کہتے ہیں یہی راستہ صحیح ہے اسی پر چلا چل ۔ اب اگر یہ سچے شخص کو مانے گا تو راہ راست لگ جائے گا ورنہ بھٹکتا پھرے گا ۔ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے والے اس امید میں ہوتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں لیکن مرنے کے بعد انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ نہ تھے اس وقت بہت نادم ہوتے ہیں اور سوائے ہلاکت کے کوئی چیز انہیں دکھائی نہیں دیتی ، یعنی جس طرح کسی جنگ میں گم شدہ انسان کو جنات اس کا نام لے کر آوازیں دے کر اسے اور غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں جہاں وہ مارا مارا پھرتا ہے اور بالآخر ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے اسی طرح جھوت معبودوں کا پجاری بھی برباد ہو جاتا ہے ، ہدایت کے بعد گمراہ ہونے والے کی یہی مثال ہے جس راہ کی طرف شیطان اسے بلا رہے ہیں وہ تو تباہی اور بربادی کی راہ ہے اور جس راہ کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور اس کے نیک بندے جس راہ کو سجھا رہے ہیں وہ ہدایت ہے گو وہ اپنے ساتھیوں کے مجمع میں سے نہ نکلے اور انہیں ہی راہ راست پر سمجھتا رہے اور وہ ساتھی بھی اپنے تئیں ہدایت یافتہ کہتے رہیں ۔ لیکن یہ قول آیت کے لفظوں سے مطابق نہیں کیونکہ آیت میں موجد ہے کہ وہ اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہیں پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ضلالت ہو ؟ حیران پر زبر حال ہونے کی وجہ سے ہے صحیح مطلب یہی ہے کہ اس کے ساتھی جو ہدایت پر ہیں اب اسے غلط راہ پر دیکھتے ہیں تو اس کی خیر خواہی کے لئے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جا سیدھا راستہ یہی ہے لیکن یہ بد نصیب ان کی بات پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ توجہ تک نہیں کرتا ، سچ تو یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے قبضے میں ہے ، وہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ تو چاہے ان کی ہدایت پر حرص کرے لیکن جسے اللہ بھٹکا دے اسے وہی راہ پر لا سکتا ہے ایسوں کا کوئی مددگار نہیں ، ہم سب کو یہی حکم کیا گیا ہے کہ ہم خلوص سے ساری عبادتیں محض اسی وحدہ لا شریک لہ کے لئے کریں اور یہ بھی حکم ہے کہ نمازیں قائم رکھیں اور ہر حال میں اس سے ڈرتے رہیں قیامت کے دن اسی کے سامنے حشر کیا جائے گا سب وہیں جمع کئے جائیں گے ، اسی نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہی مالک اور مدبر ہے قیامت کے دن فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گا ایک لمحہ بھی دیر نہ لگے گی یوم کا زبر یا تو وانقوہ پر عطف ہونے کی وجہ سے ہے یعنی اس دن سے ڈرو جس دن اللہ فرمائے گا ہو اور ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوم کا زبر خلق السموات والارض پر عطف ہونے کی بنا پر ہو تو گویا ابتدا پیدائش کو بیان فرما کر پھر دوبارہ پیدائش کو بیان فرمایا یہی زیادہ مناسب ہے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فعل مضمر ہو یعنی اذکر اور اس وجہ سے یوم پر زبر آیا ہو ، اس کے بعد کے دونوں جملے محلاً مجرور ہیں ، پس یہ دونوں جملے بھی محلاً مجرور ہیں ۔ ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ کا قول حق ہے رب کے فرمان سب کے سب سچ ہیں ، تمام ملک کا وہی اکیلا مالک ہے ، سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں یوم ینفخ میں یوم ممکن ہے کہ یوم یقول کا بدل ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ولہ الملک کا ظرف ہو جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ) 40 ۔ غافر:16 ) آج کس کا ملک ہے؟ صرف اللہ اکیلے غالب کا اور جیسے اس آیت میں ارشاد ہوا ہے آیت ( اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا ) 25 ۔ الفرقان:26 ) یعنی ملک آج صرف رحمان کا ہے اور آج کا دن کفار پر بہت سخت ہے اور بھی اس طرح کی اور اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں بعض کہتے ہیں صور جمع ہے صورۃ کی جیسے سورہ شہر پناہ کو کہتے ہیں اور وہ جمع ہے سورۃ کی لیکن صحیح یہ ہے کہ مراد صور سے قرن ہے جسے حضرت اسرافیل پھونکین گے ، امام بن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں حضور کا ارشاد ہے کہ حضرت اسرافیل صور کو اپنے منہ میں لئے ہوئے اپنی پیشانی جھکائے ہوئے حکم الٰہی کے منتظر ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صہابی کے سوال پر حضور نے فرمایا صور ایک نر سنگھے جیسا ہے جو پھونکا جائے گا ، طبرانی کی مطولات میں ہے حضور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے بعدصور کو پیدا کیا اور اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے لئے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف نگاہ جمائے ہوئے ہیں کہ کب حکم ہو اور میں اسے پھونک دوں ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک نرسنگھا ہے میں نے کہا وہ کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا بہت ہی بڑا ہے والالہ اس کے دائرے کی چوڑائی آسمان وہ زمین کے برابر ہے اس میں سے تین نفحے پھونکے جائیں گے ، پہلا گھبراہٹ کا دوسرا بیہوشی کا تیسرا رب العلمیں کے سامنے کھڑے ہونے کا ۔ اول اول جناب باری حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہ پھونک دیں گے جس سے آسمان و زمین کی تمام مخلوق گھبرا اٹھے گی مگر جسے اللہ چاہے یہ صور بحکم رب دیر تک برابر پھونکا جائے گا اسی طرف اشارہ اس آیت میں ہے و ما ینظر ھو لاء الا صبیحتہ واہدۃ مالھا من فوق یعنی انہیں صرف بلند زور دار چیخ کا انتظار ہے پہاڑ اس صور سے مثل بادلوں کے چلنے پھرنے لگیں گے پھر ریت ریت ہو جائیں گے زمین میں بھونچال آ جائے گا اور وہ اس طرح تھر تھرانے لگے گی جیسے کوئی کشتی دریا کے بیچ زبردست طوفان میں موجوں سے ادھر ادھر ہو رہی ہو اور غوطے کھا رہی ہو ۔ مثل اس ہانڈی کے جو عرش میں لٹکی ہوئی ہے جسے ہوائیں ہلا جلا رہی ہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے یوم ترجف الراجفتہ الخ ، اس دن زمین جنبش میں آ جائے گی اور بہت ہی ہلنے لگے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ جائے گی دل دھرکنے لگیں گے اور کلیجے الٹنے لگیں گے لوگ ادھر ادھر گرنے لگیں گے مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی ، حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے بجے بوڑھے ہو جائیں گے شیاطین مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے بھاگتے بھاگتے زمین کے کناروں پر آ جائیں گے ، یہاں سے فرشتے انہیں مار مار کر ہٹائیں گے ، لوگ پریسان حال حواس باختہ ہوں گے کوئی جائے پناہ نظر نہ آئے گی امر الٰہی سے بچاؤ نہ ہو سکے گا ایک دوسرے کو آوازیں دیں گے لیکن سب اپنی اپنی مصیبت میں پڑے ہوئے ہوں گے کہ ناگہاں زمین پھتنی شروع ہو گی کہیں ادھر سے پھٹی کہیں ادھر سے پھتی اب تو ابتر حالت ہو جائے گی کلیجہ کپکپانے لگے گا دل الٹ جائے گا اور اتنا صدرمہ اور غم ہو گا جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا ، جو آسمان کی طرف نظر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ گھل رہا ہے اور وہ بھی پھٹ رہا ہے ستارے جھڑ رہے ہیں سورج چاند بےنور ہو گیا ہے ، ہاں مردوں کو اس کا کچھ علم نہ ہو گا حضرت ابو ہریرہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ قران کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے ففذع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اللہ یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا ، اسی کا بیان آیت ( يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ) 4 ۔ النسآء:1 ) میں ہے یعنی اے لوگو اپنے رب سے ڈرویاد رکھو قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر ایک دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی ہر حمل والی کا حمل گر جائے گا تو دیکھا جائے گا کہ سب لوگ بیہوش ہوں گے حالانکہ وہ نشہ پئے ہوئے نہیں بلکہ اللہ کے سخت عذابوں نے انہیں بدحواس کر رکھا ہے یہی حالت رہے گی جب تک اللہ چاہے بہت دیر تک یہی گھبراہٹ کا عالم رہے گا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت جبرائیل کو بیہوشی کے نفحے کا حکم دے گا اس نفحہ کے پھونکتے ہی زمین و آسمان کی تمام مخلوق بیہوش ہو جائیں گی مگر جسے اللہ چاہے اور اچانک سب کے سب مر جائیں گے ۔ حضرت ملک الموت اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اے باری تعالیٰ زمین آسمان کی تمام مخلوق مر گئی مگر جسے تو نے چاہا ، اللہ تعالیٰ باوجود علم کے سوال کرے گا کہ یہ بتاؤ اب باقی کون کون ہے؟ وہ جواب دین گے تو باقی ہے تو حی و قیوم ہے تجھ پر کبھی فنا نہیں اور عرش کے اٹھانے والے فرشتے اور جبرائیل و میکائیل اس وقت عرش کو زبان ملے گی اور وہ کہے گا اے پروردگار کیا جبرئل وہ میکائل بھی مریں گے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اپنے عرش سے نیچے والوں پر سب پر موت لکھ دی ہے چنانچہ یہ دونوں بھی فوت ہو جائیں گے پھر ملک الموت رب جبار و قہار کے پاس آئیں گے اور خبر دیں گے کہ جبرائیل و میکائیل بھی انتقال کر گئے ۔ جناب اللہ علم کے باوجودہ پھر دریافت فرمائے گا کہ اب باقی کون ہے؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ باقی ایک تو تو ہے ایسی بقا ولا جس پر فنا ہے ہی نہیں اور تیرے عرش کے اٹھانے والے اللہ فرمائے گا عرش کے اٹھانے والے بھی مر جائیں گے اس وقت وہ بھی مر جائیں گے ، پھر اللہ کے حکم سے حضرت اسرافیل سے صور کو عرش لے لے گا ، ملک الموت حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ یا اللہ عرش کے اٹھانے والے فرشتے بھی مر گئے اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اب باقی کون رہا ؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ ایک تو جس پر موت ہے ہی نہیں اور ایک تیرا غلام میں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا تو بھی میری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے تجھے میں نے ایک کام کیلئے پیدا کیا تھا جسے تو کر چکا اب تو بھی مرجا چنانچہ وہ بھی مر جائیں گے ۔ اب اللہ تعالیٰ اکیلا باقی رہ جائے گا جو غلبہ والا یگانگت والا بےماں باپ اور بے اولاد کے ہے ۔ جس طرح مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے وہ یکتا اور اکیلا تھا ۔ پھر آسمانوں اور زمینوں کو وہ اس طرح لپیٹ لے گا جیسے دفتری کاغذ کو لپیٹتا ہے پھر انہیں تین مرتبہ الٹ پلٹ کرے گا اور فرمائے گا میں جبار ہوں میں کبریائی والا وہں ۔ پھر تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کا مالک کون ہے؟ کوئی نہ ہو گا جو جواب دے تو خود ہی جواب دے گا اللہ واحد وقہار ۔ قران میں ہے اس دن آسمان و زمین بدل دیئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں پھیلا دے گا اور کھینچ دے گا جس طرح چمڑا کھینچا جاتا ہے کہیں کوئی اونچ نیچ باقی نہ رہے گی ، پھر ایک الٰہی آواز کے ساتھ ہی ساری مخلوق اس تبدیل شدہ زمین میں آ جائے گی اندر والے اندر اور اوپر ولے اوپر پھر اللہ تعالیٰ اپین عرش تلے سے اس پر بارش برسائے گا پھر آسمان کو حکم ہو گا اور وہ چالیس دن تک مینہ برسائے گا یہاں تک کہ پانی ان کے اوپر بارہ ہاتھ چڑھ جائے گا ، پھر جسموں کو حکم ہو گا کہ وہ اگیں اور وہ اس طرح اگنے لگیں گے جیسے سبزیاں اور ترکاریاں اور وہ پورے پورے کامل جسم جیسے تھے ویسے ہی ہو جائیں گے پھر حکم فرمائے گا کہ میرے عرش کے اٹھانے والے فرشتے جی اٹھیں چنانچہ وہ زندہ ہو جائیں گے پھر اسرافیل کو حکم ہو گا کہ صور لے کر منہ سے لگالیں ۔ پھر فرمان ہو گا کہ جبرائیل و میکائیل زندہ ہو جائیں یہ دونوں بھی اٹھیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ روحوں کو بلائے گا مومنوں کو نورانی ارواح اور کفار کی ظلماتی روحیں آئیں گی انہیں لے کر اللہ تعالیٰ صور میں ڈال دے گا ، پھر اسرافیل کو حکم ہو گا کہ اب صور پھونک دو چنانچہ بعث کا صور پھونکا جائے گا جس سے ارواہ اس طرح نکلین گی جیسے شہید کی مکھیاں ۔ تمام خلا ان سے بھر جائے گا پھر رب عالم کا ارشاد ہو گا کہ مجھے اپنی عزت و جلال اکی قسم ہے ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے ، چنانجہ سب روحیں اپنے اپنے جسموں میں نتھنوں کے راستے چلی جائیں گی اور جس طرح زہر رگ وپے میں اثر کر جاتا ہے روہ روئیں روئیں میں دوڑ جائے گی ، پھر زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے ، سب سے پہلے میرے اوپر سے زمین شق ہو گی ، لوگ نکل کر دوڑ تے ہوئے اپنے رب کی طرف چل دیں گے ، اس وقت کافر کہیں گے کہ آج کا دن بڑا بھاری ہے ، سب ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ ہوں گے ایک میدان میں بقدر ستر سال کے کھڑے گہیں گے ، نہ ان کی طرف نگاہ اٹھائی جائے گی نہ ان کے درمیان فیصلے کئے جائیں گے ، لوگ بےطرح گریہ وزاری میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے اور خون آنکھوں سے نکلنے لگے گا ، پسینہ اس قدر آئے گا کہ منہ تک یا ٹھوریوں تک اس میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ، آپس میں کہیں گے آؤ کسی سے کہیں کہ وہ ہماری شفاعت کرے ، ہمارے پروردگار سے عرض کرے کہ وہ آئے اور ہمارے فیصلے کرے تو کہیں گے کہ اس کے لائق ہمارے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر کون ہو گا ؟ جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے ان سے باتین کیں ۔ چنانچہ سب مل کر آپ کے پا سجأایں گے اور سفاش طلب کریں گے لیکن حضرت آدم علیہ السلام صاف انکار کر جائیں گے اور فرمائیں گے مجھ میں اتنی قابلیت نہیں پھر وہ اسی طرح ایک ایک نبی کے پاس جائیں گے اور سب انکار کر دین گے ۔ حضور فرماتے ہیں پھر سب کے سب یرے پاس آئیں گے ، میں عرش کے آگے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا ، اللہ تعالیٰ میرے پاس فرشتہ بھیجے گا وہ میرا بازو تھام کر مجھے سجدے سے اٹھائے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں جواب دوں گا کہ ہاں اے میرے رب ، اللہ عزوجل باو وجد عالم کل ہونے کے مجھے سے دریافت فرمائے گا کہ کیا بات ہے؟ میں کہوں گا یا اللہ توے مجھ سے شفاعت کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اپنی مخلوق کے بارے میں میری شفاعت کو قبول فرما اور ان کے فیصلوں کے لئے تشریف لے آ ۔ رب العالمیں فرمائے گا میں نے تیری سفارش قبول کی اور میں آ کر تم میں فیصلے کئے دیتا ہوں ۔ میں لوٹ کر لوگوں کے ساتھ ٹھہر جاؤں گا کہ ناگہاں آسمانوں سے ایک بہت بڑا دھماکہ سنائی دے گا جس سے لوگ خوفزدہ ہو جائیں گے اتنے میں آسمان کے فرشتے اترنے شروع ہوں گے جن کی تعداد کل انسانوں اور سارے جنوں کے برابر ہو گی ۔ جب وہ زمین کے قریب پہنچیں گے تو ان کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی وہ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے ہم سب ان سے دریافت کریں گے کہ کیا تم میں ہمارا رب آیا ہے ؟ وہ جواب دیں گے نہیں پھر اس تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں اور فرشتے آئیں گے ۔ آخر ہمارا رب عزوجل ابر کے سائے میں نزول فرمائے گا اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں گے اس کا عرش اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس وقت عرش کے اٹھانے والے جار فرشتے ہیں ان کے قدم آخری نیچے والی زمین کی تہ میں ہیں زمین و آسمان ان کے نصف جسم کے مقابلے میں ہے ان کے کندھوں پر عرش الٰہی ہے ۔ ان کی زبانین ہر وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاکیزگی کے بیان میں تر ہیں ۔ ان کی تسبیح یہ ہے سبحان ذی العرش والجبروت سبحان ذی الملک والملکوت سبحان الحی الذی لا یموت سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت سبوح قدوس قدوس قدوس سبہان ربنا الاعلی رب الملا ئکتہ والروہ سبحان ربنا الا علی الذی یمیت الخلائق ولا یموت پھر اللہ جس جگہ چاہے گا پانی کرسی زمین پر رکھے گا اور بلند آواز سے فرمائے گا اے جنو اور انسانو میں نے تمہیں جس دن سے پیدا کیا تھا اس دن سے آج تک میں خاموش رہا تمہاری باتیں سنتا رہا تمہارے اعمال دیکھتا رہا سنو تمہارے اعمال نامے میرے سامنے پڑھے جائیں گے جو اس میں بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس میں اور کچھ پائے وہ اپنی جان کو ملامت کرے ، پھر بحکم الہ جہنم میں سے ایک دیھکتی ہوئی گردن نکلے گی اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کی اوالد کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی پوجانہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اور صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے ، شیطان نے تو بہت سی مخلوق کو گومراہ کر دیا ہے کیا تمہیں عقل نہیں؟ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے اور جسے تم جھٹلاتے رہے اے گنہگارو آج تم نیک بندوں سے الگ ہو جاؤ ، اس فرمان کے ساتھ ہی بد لوگ نیکوں سے الگ ہو جائیں گے تمام امتیں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گی جیسے قران کریم میں ہے کہ تو ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیکھے گا ہر امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں فیصلے کرے گا پہلے جانوروں میں فیصلے ہوں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا ، جب کسی کا کسی کے ذمہ کوئی دعوی باقی نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں فرمائے گا تم سب مٹی ہو جاؤ ، اس فرمان کے ساتھ ہی تمام جانور مٹی بن جائیں گے ، اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے شروع کرے گا سب سے پہلے قتل و خون کا فیصلہ ہو گا ، اللہ تعالیٰ اپنی راہ کے شہیدوں کو بھی بلائے گا ان کے ہاتھوں سے قتل شدہ لوگ اپنا سر اٹھائے ہوئے حاضر ہوں گے رگوں سے خون بہ رہا ہو گا کہیں گے کہ باری تعالیٰ دریافت فرما کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ پس باوجود علم کے اللہ عزوجل مجاہدین سے پوچھے گا کہ تم نے انہیں کیوں قتل کیا ؟ وہ جواب دیں گے اس لئے کہ تیری بات بلند ہو اور تیری عزت ہو اللہ عالی فرمائے گا تم سجے ہو اسی وقت ان کا چہرہ نورانی ہو جائے گا سورج کی طرح چمکنے لگے گا اور فرشتے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے کر جنت کی طرف چلیں گے پھر باقی کے اور تمام قاتل و مقتول اسی طرح پیش ہوں گے اور جو نفس ظلم سے قتل کیا گیا ہے اس کا بدلہ ظالم قاتل سے دلوایا جائے گا اسی طرح ہر مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا یہاں تک کہ جو شخص دودھ میں پانی ملا کر بیچتا تھا اسے فرمایا جائے گا کہ اپنے دودھ سے پانی جدا کر دے ، ان فیصلوں کے بع دایک منادی باآواز بلند ندا کرے گا جسے سب سنیں گے ، ہر عابد اپنے معبود کے پیچھے ہولے اور اللہ کے سوا جس نے کسی اور کی عبادت کی ہے وہ جہنم میں چل دے ، سنو اگر یہ سچے معبود ہوتے تو جہنم میں واردنہ ہوتے یہ سب تو جہنم میں ہی ہمیشہ رہیں گے اب صرف با ایمان لوگ باقی رہیں گے ان میں منافقین بھی شامل ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے پاس جس ہیئت میں چاہے تشریف لائے گا اور ان سے فرمائے گا کہ سب اپنے معبودوں کے پیچھے چلے گئے تم بھی جس کی عباد کرتے تھے اس کے پاس چلے جاؤ ۔ یہ جواب دیں گے کہ واللہ ہمارا تو کوئی معبود نہیں بجزالہ العالمیں کے ۔ ہم نے کسی اور کی عبادت نہیں کی ۔ اب ان کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کی تجلیاں ان پر ڈالے گا جس سے یہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں گے اور سجدے میں گر پڑیں گے لیکن منافق سجدہ نہیں کر سکیں گے یہ اوندھے اور الٹے ہو جائیں گے اور اپنی کمر کے بل گر پڑیں گے ۔ ان کی پیٹھ سیدھی کر دی جائے گی مڑ نہیں سکیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو سجدے سے اٹھنے کا حکم دے گا اور جہنم پر پل صراط رکھی جائے گی جو تلوار جیسی تیز دھار والی ہو گی اور جگہ جگہ آنکڑے اور کانٹے ہوں گے بڑی پھسلنی اور خطرانک ہو گی ایماندار تو اس پر سے اتنی سی دیر میں گذر جائیں گے جتنی دیر میں کوئی آنکھ بند کر کے کھول دے جس طرح بجلی گذرجاتی ہے اور جیسے ہوا تیزی سے چلتی ہے ۔ یا جیسے تیز روگھوڑے یا اونٹ ہوتے ہیں یا خوب بھاگنے والے آدمی ہوتے ہیں بعض صحیح سالم گذر جائیں گے بعض زخمی ہو کر پار اتر جائیں گے بعض کٹ کر جہنم میں گر جائیں گے جتنی لوگ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو کہیں گے کون ہمارے رب سے ہماری سفارش کرے کہ ہم جنت میں چلے جائیں؟ دوسرے لوگ جواب دیں گے اس کے حقدار تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے زیادہ اور کون ہوں گے؟ جنہیں رب ذوالکریم نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے باتیں کیں پس سب لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے سفارش کرانی جاہیں گے لیکن اپنا گناہ یاد کر کے جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں ، لوگ حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ وہ خلیل اللہ ہیں لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور یہی کہیں گے آپ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی جواب دیں گے اور حضرت موسیٰ کے پاس جانے کی ہدایت کریں گے کہ اللہ نے انہیں سرگوشیاں کرتے ہوئے نزدیک کیا تھا وہ کلیم اللہ ہیں ان پر توراۃ نازل فرمائی گئی تھی لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے طلب سفارش کریں گے آپ بھی اپنے گناہ کا ذکر کریں گے اور روح اللہ اور کلمتہ اللہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے پاس بھیجیں گے لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے میں اس قابل نہیں تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ حضور فرماتے ہیں پس سب لوگ میرے پاس آئیں گے ، میں اللہ کے سامنے تین شفاعتیں کروں گا میں جاؤں گا جنت کے پاس پہنچ کر دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا مجھے مرحبا کہا جائے گا اور خوش آمدید کہا جائے گا میں جنت میں جا کر اپنے رب کو دیکھ کر سجدے میں گر پڑوں گا اور وہ وہ حمد و ثنا جناب باری کی بیان کروں گا جو کسی نے نہ کی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ شفاعت کرو قبول کی جائے گی مانگو ملے گا میں سر اٹھاؤں گا اللہ تعالیٰ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے تاہم وہ دریافت فرمائے گا کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں کہوں گا اے اللہ تو نے میری شفاعت کے قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ میری شفاعت ان جنتیوں کے بارے میں قبول فرمائے گا اور انہیں جنت کے داخلے کی اجازت ہو جائے گی ۔ واللہ جیسے تم اپنے گھر سے اپنے بال بچوں سے آگاہ ہو اس سے بہت زیادہ یہ جنتی اپنی جگہ اور اپنی بیویوں سے واقف ہوں گے ہر ایک اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ جائے گا ستر ستر حوریں اور دو دو عورتیں ملیں گی ، یہ دونوں عورتیں اپنی کی ہوئی نیکیوں کے سبب پر فضیلت چہروں کی مالک ہوں گی جتنی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا جو یاقوت کے بالا خانے میں سونے کے جڑاؤ تخت پر ستر ریشمی حلے پہنے ہوئے ہو گی اس کا جسم اس قدر نورانی ہو گا کہ ایک طرف اگر جنتی اپنا ہاتھ رکھے تو دوسری طرف سے نظر آئے گا اس کی صفائی کی وجہ سے اس کی پنڈلی کا گودا گوشت پوست میں نظر آ رہا ہو گا اس کا دل اس کا آئینہ ہو گا نہ یہ اس سے بس کرے نہ وہ اس سے اکتائے ، جب کبھی اس کے پاس جائے گا باکرہ پائے گا ، نہ یہ تھکے نہ اسے تکلیف ہو ، نہ کوئی مکرو چیز ہو ، یہ اپنی اسی مشغولی میں مزے میں اور لطف و راحت میں اللہ جانے کتنی مدت گزار دے گا جو ایک آواز آئے گی کہ مانا نہ تمہارا دل اس سے بھرتا ہے نہ ان کا دل تم سے بھرے گا ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لئے اور بیویاں بھی رکھی ہوئی ہیں ۔ اب یہ اوروں کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا بےساختہ زبان سے یہی نکلے گا اللہ کی قسم کی سازی جنت میں تم سے بہتر کوئی چیز نہیں مجھے تو جنت کی تمام چیزوں سے زیادہ تم سے محبت ہے ، ہاں جنہیں ان کی بد عملیوں اور گناہوں نے تباہ کر رکھا ہے وہ جہنم میں جائیں گے اپنے اپنے اعمال کے مطابق آگ میں جلیں گے ، بعض قدموں تک بعض آدھی پنڈلی تک بعض گھٹنے تک بعض آدھے بدن تک بعض گردن تک ، صرف چہرہ باقی رہ جائے گا کیونکہ صورت کا بگاڑنا اللہ نے آگ پر حرام کر دیا ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے گنہگار دوزخیوں کی شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جنہیں پہچانو انہیں نکال لاؤ ، پھر یہ لوگ جہنم سے آزاد ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا پھر تو شفاعت کی عام اجازت مل جائے گی کل انبیاء اور شہداء شفاعت کریں گے ، جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ جس کے دل میں ایک دینار برابر بھی ایمان پاؤ اسے نکال لاؤ ، پس یہ لوگ بھی آزاد ہوں گے اور ان میں سے بھی کوئی باقی نہ رہے گا ، پھر فرمائے گا انہیں بھی نکال لاؤ جس کے دل میں دو ثلث دینار کے برابر ایمان ہو ، پھر فرمائے گا ایک ثلث والوں کو بھی ، پھر ارشاد ہو گا چوتھائی دینار کے برابر والوں کو بھی ، پھر فرمائے گا ایک قیراط کے برابر والوں کو بھی ، پھر ارشاد ہو گا انہیں بھی جہنم سے نکال لاؤ جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ، پس یہ سب بھی نکل آئیں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی باقی نہ بچے گا ، بلکہ جہنم میں ایک شخص بھی ایسا نہ رہ جائے گا جس نے خلوص کے ساتھ کوئی نیکی بھی اللہ کی فرمانبرداری کے ماتحت کی ہو ، جتنے شفیع ہوں گے سب سفارش کرلیں گے یہاں تک کہ ابلیس کو بھی امید بندھ جائے گی اور وہ بھی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھے گا کہ شاید کوئی میری بھی شفاعت کرے کیونکہ وہ اللہ کی رحمت کا جوش دیکھ رہا ہو گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین فرمائے گا کہ اب تو صرف میں ہی باقی رہ گیا اور میں تو سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہوں ، پس اپنا ہاتھ ڈال کر خود اللہ تبارک و تعالیٰ جہنم میں سے لوگوں کو نکالے گا جن کی تعداد سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا وہ جلتے جھلستے ہوئے کوئلے کی طرح ہو گئے ہوں گے ، انہیں نہر حیوان میں ڈالا جائے گا جہاں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح دانہ اگتا ہے جو کسی دریا کے کنارے بویا گیا ہو کہ اس کا دھوپ کا رخ تو سبز رہتا ہے اور سائے کا رخ زرد رہتا ہے ان کی گردنوں پر تحریر ہو گا کہ یہ رحمان کے آزاد کردہ ہیں ، اس تحریر سے انہیں دوسرے جنتی پہچان لیں گے ۔ ایک مدت تک تو یونہی رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ حروف بھی مٹ جائیں اللہ عزوجل یہ بھی مٹا دے گا یہ حدیث اور آگے بھی ہے اور بہت ہی غریب ہے اور اس کے بعض حصوں کے شواہد متفرق احادیث میں ملتے ہیں ، اس کے بعض الفاظ منکر ہیں ۔ اسماعیل بن رافع قاضی اہل مدینہ اس کی روایت کے ساتھ منفرد ہیں ان کو بعض محدثین نے تو ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہا ہے اور ان کی حدیث کی نسبت کئی ایک محدثین نے منکر ہونے کی صراحت کی ہے ، جیسے امام احمد امام ابو حاتم امام عمرو بن علی ، بعض نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ متروک ہیں ، امام ابن عدی فرماتے ہیں ان کی سب احادیث میں نظر ہے مگر ان کی حدیثیں ضعیف احادیث میں لکھنے کے قابل ہیں ، میں نے اس حدیث کی سندوں میں نے جو اختلاف کئی وجوہ سے ہے اسے علیحدہ ایک جزو میں بیان کر دیا ہے اس میں شک نہیں کہ اس کا بیان بہت ہی غریب ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سی احادیث کو ملا کر ایک حدیث بنا لی ہے اسی وجہ سے اسے منکر کہا گیا ہے ، میں نے اپنے استاد حافظ ابو الحجاج مزی سے سنا ہے کہ انہوں نے امام ولید بن مسلم کی ایک کتاب دیکھی ہے جس میں ان باتوں کے جو اس حدیث میں ہی ہیں شواہد بیان کئے ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجع اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔ 71۔ 2 مطلب یہ کہ کفر اور شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہوگیا، وہ بھٹک ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقینا اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا۔ (فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ) 16 ۔ النحل :37) جس کو وہ گمراہ کر دے۔ اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنایا ہوا ہے یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جا چکی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] الٰہ محتاج نہیں ہوسکتا :۔ اس آیت میں ایک بڑی حقیقت بیان کی جا رہی ہے جو یہ ہے کہ حقیقی معبود وہ ہستی ہوسکتی ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے اور ان کی مشکلات کو دور کرسکے۔ لیکن اپنی زندگی اور اس کی بقا کے لیے دوسروں کی محتاج نہ ہو۔ اس معیار پر اگر پرکھا جائے تو تمام معبودان باطل خواہ وہ زندہ شخصیتیں ہوں یا فوت شدہ ہوں، دیویاں ہوں یا دیوتا، پتھر ہوں یا شجر ہوں یا کوئی اور جاندار چیز ہو سب کی از خود نفی ہوجاتی ہے۔ جن، بتوں، پتھروں اور درختوں اور جانداروں کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ جن انبیاء یا بزرگوں کو یا اماموں کو یہ منصب عطا کیا جاتا ہے آپ دیکھئے کہ ان کی زندگی میں کوئی مشکل وقت آیا تھا ؟ اور اگر آیا تھا تو کیا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے بچا لیا تھا ؟ اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکے تو پھر دوسروں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ جلب منفعت یا حاجت روائیوں کے لیے بھی یہی معیار اگر آپ مدنظر رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ معبود برحق صرف اللہ ہی کی ذات ہوسکتی ہے۔- [٧٩] مشرکوں کی اپنے ساتھیوں کو دعوت :۔ جس طرح ہدایت کا راستہ صرف ایک ہے اور گمراہی کی راہیں لاتعداد ہیں اسی طرح اللہ کے پرستاروں کا حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہی ہوتا ہے اور مشرکوں کے حاجت روا اور مشکل کشا لاتعداد ہوتے ہیں۔ عرب کے دور جاہلیت کو ہی لیجئے جہاں ہر قبیلے کا حاجت روا اور مشکل کشا الگ الگ تھا کسی کا ہبل تھا کسی کا لات کسی کا منات کسی کا عزیٰ اور کسی کے اساف اور نائلہ، پھر ہندوستان اور مصر کے دیوی دیوتاؤں پر نظر ڈالیے وہ بھی ان گنت نظر آئیں گے۔ عیسائیوں کے بھی تین خدا تو عقیدہ تثلیث کی رو سے ہوئے اور چوتھا انہوں نے سیدہ مریم کو بھی اسی مقام پر فائز کردیا۔ مسلمانوں میں ہر پیر فقیر اور بزرگ ان کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اگر کسی کی ایک قبر پر نذر و نیاز چڑھانے سے حاجت روائی نہیں ہوتی تو وہ کسی دوسرے بڑے بزرگ کی قبر پر چلا جاتا ہے اور پھر کسی تیسرے کے پاس اور انہیں بھیجنے والے شیاطین ہی ہوتے ہیں۔ اب اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کرے تو کیا کرے ہر الٰہ کے پرستار اسے اپنے الٰہ کی طرف دعوت دیتے اور کہتے ہیں کہ ادھر آؤ یہاں سے تمام مرادیں بر آئیں گی۔ مشرکوں کی یہ مثال دے کر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان سے زیادہ بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں۔ انہیں بس یہی کہہ دو کہ ہمیں تو اللہ کا یہی حکم ہے کہ ہم صرف اسی کے فرمانبردار بن کر رہیں۔ ادھر ادھر ہرگز نہ دیکھیں۔ اسی سے ڈریں اور اسی کے حکم کے مطابق نماز قائم کریں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : آپ ان سے کہہ دیں کہ کیا ہم توحید کی سیدھی سڑک چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہوجائیں، اگر ہم ایسا کریں تو ہماری مثال اس شخص کی طرح ہوگی جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی صحرا سے گزر رہا ہو اور شیطانوں کے نرغے میں آجائے، جو اسے سیدھے راستے سے بھٹکا کر کسی اور طرف لے جائیں اور وہ حیران و پریشان نہ سمجھ سکے کہ کیا کرے اور اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ہماری طرف آجاؤ، سیدھی راہ ادھر ہے، لیکن وہ شیطانوں کے چکر میں ایسا پھنس گیا ہے کہ نہ وہ ساتھیوں کی پکار کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کی طرف جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہوگیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا، کیونکہ سیدھے راستے پر چلانا اسی کا کام ہے، ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور نماز قائم کریں اور اللہ سے ڈرتے رہیں، اس یقین کے ساتھ کہ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓي اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىنَا اللہُ كَالَّذِي اسْتَہْوَتْہُ الشَّيٰطِيْنُ فِي الْاَرْضِ حَيْرَانَ۝ ٠۠ لَہٗٓ اَصْحٰبٌ يَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَى الْہُدَى ائْتِنَا۝ ٠ۭ قُلْ اِنَّ ہُدَى اللہِ ہُوَالْہُدٰي۝ ٠ۭ وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٧١ۙ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - عقب - العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66]- ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - حير - يقال : حَارَ يَحَارُ حَيْرَة، فهو حَائِر وحَيْرَان، وتَحَيَّرَ واسْتَحَارَ : إذا تبلّد في الأمر وتردّد فيه، قال تعالی: كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرانَ [ الأنعام 71] ، والحائر :- الموضع الذي يتحيّر به الماء، قال الشاعر : واستحار شبابها وهو أن يمتلئ حتی يرى في ذاته حيرة، والحیرة : موضع، قيل سمّي بذلک لاجتماع ماء کان فيه .- ( ح ی ر ) حارض کے معنی کسی کام سے بہکنے اور متردد ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرانَ [ الأنعام 71] جیسے کسی کو جنات کے جنگل میں بھلا دیا ہو ( اور وہ ) حیران ہورہا ہو ۔ الحائر جانے گرواب شاعر نے کہا ہے اور اس کی جوانی بھر پور پوگئی ۔ اور استحار کے معنی پانی سے پیٹ کے اس قدر پر ہوجانے کے ہیں کہ اسے حیرت لاحق ہوجائے ۔ الحیرۃ ایک مقام کا نام ہے بعض کہتے ہیں کہ پانی کے جمع ہونے کی وجہ سے اس مقام کا نام حیرۃُ پڑگیا تھا ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے فرمادیں کہ وہ اپنے لڑکے عبدالرحمن سے کہیں کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسی چیزوں کی عبادت کی دعوت دیتے ہو جو ہمیں دنیاوی زندگی روزی ومعاش کے اندر کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر ہم ان کی عبادت کریں تو آخرت میں بھی یہ ہمیں کسی قسم کا نفع نہیں پہنچا سکتے اور اگر ہم ان کی عبادت نہ کریں تو ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتے۔- تو کیا پھر سابقہ دین کی طرف الٹے پھرجائیں، باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی طرف ہدایت کردی ہے تو ہماری مثال عبدالرحمن کے مقابلہ میں ایسی ہے، جیسا کہ شیطان نے کسی کو دین الہی سے بھٹکا دیا اور زمین میں حیران اور صحیح راستہ سے بھٹک کر گردش کھاتا پھر رہا ہے عبدالرحمن کو اس کے والدین یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کی ماں ہدایت یعنی دین اسلام اور کفر وشرک سے توبہ کی طرف بلاتے ہیں اور وہ اپنے والدین کو شرک کی دعوت دیتا ہے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ دین الہی وہ اسلام ہے اور ہمارا قبلہ کعبہ ہے اور ہم اس بات پر مامور ہیں کہ عبادت اور توحید میں پروردگار عالم کے پورے مطیع وفرمانبردار ہوجائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُنَا وَلاَ یَضُرُّنَا) - یہ بت کسی کو کچھ نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ تو خود اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے۔ خود پر بیٹھی ہوئی مکھی تک نہیں اڑا سکتے۔ ان کو پکارنے کا کیا فائدہ ؟ ان کے سامنے سجدہ کرنے سے کیا حاصل ؟ بتوں کے بارے میں تو یہ بات خیربہت ہی واضح ہے ‘ لیکن ان کے علاوہ بھی پوری کائنات میں کوئی کسی کے لیے خیر کی کچھ قدرت رکھتا ہے نہ شر کی۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ کا مفہوم یہی ہے۔ یہ یقین جب انسان کے دل کی گہرائیوں میں پوری طرح جاگزیں ہوجائے تب ہی توحید مکمل ہوتی ہے ‘ جس کے بعد انسان کسی کے آگے سر جھکا کر خواہ مخواہ اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرتا۔ اسی نکتے کی وضاحت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کو مخاطب کر کے اس طرح فرمائی تھی : اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اگر دنیا کے تمام انسان مل کر چاہیں کہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا دیں تو اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے ‘ اور اگر تمام انسان مل کر چاہیں کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا دیں تو اس کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے (١) ۔ لہٰذا یک در گیر و محکم بگیر کے مصداق مدد کے لیے پکارو تو اسی ایک اللہ کو پکارو۔ کسی غیر اللہ کو پکارنے ‘ کسی دوسرے سے سوال کرنے ‘ کسی اور سے ڈرنے ‘ التجائیں کرنے ‘ استغاثہ کرنے کا کیا فائدہ ؟- (وَنُرَدُّ عَلٰٓی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰٹنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسْتَہْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَص) (لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْہُدَی اءْتِنَا ط) - یہاں جماعتی زندگی کی برکت اور انفرادی زندگی کی قباحت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اگر آپ اکیلے ہوں ‘ کہیں بھٹک گئے ہوں ‘ تو آپ کے لیے دوبارہ سیدھے راستے پر آنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن جماعتی زندگی میں دوسرے ساتھیوں کے مشورے اور ان کی راہنمائی سے ہر فردکو اپنی سمت کے سیدھا رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جیسے کہ سورة التوبہ میں فرمایا گیا : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ ) اے اہل ایمان ‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ساتھ رہوصادقین (سچوں) کے۔ بعض اوقات انسان بڑی آزمائش میں پھنس جاتا ہے۔ وہ حرام کو حرام سمجھتا ہے اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کو اختیار کرنا انتہائی تباہ کن ہے۔ دوسری طرف اس کی مجبوریاں ہیں ‘ بچوں کی محرومیاں ہیں ‘ اہل خانہ کا دباؤ ہے۔ ایسی حالت میں اس کے لیے درست فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کیفیت میں اس کے حرام میں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ایسے وقت میں اس کو نیک دوست احباب کی معیت حاصل ہو تو وہ نہ صرف اس کو صحیح مشورہ دیتے ہیں بلکہ اس کا ہاتھ تھام کر سہارا بھی دیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani