Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہوسکتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کئی معبودوں کی پرستش کرتی تھی، جن میں بت، سورج، چاند اور ستارے بھی تھے بلکہ بادشاہ بھی ان کا رب تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سب چیزوں کے معبود نہ ہونے کے ایسے زبردست دلائل پیش کیے، جن کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ بتوں کے معبود نہ ہونے کو انھوں نے بت توڑ کر ثابت کیا۔ بادشاہ سے ایسی مدلل بات کی کہ آخر وہ ” فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ ۭ“ بالکل لاجواب ہوگیا۔ یہاں زیر تفسیر آیات میں ان کا اپنی قوم کے ساتھ سورج، چاند اور ستاروں کے معبود نہ ہونے پر مناظرے کا ذکر ہے۔ چناچہ ایک رات ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک بہت چمکتا ہوا ستارہ دیکھ کر کہا : ” یہ میرا رب ہے۔ “ یقیناً وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے ہوں گے، مگر یہ تو توحید کے منکروں کو گھیر کر مارنے کی عظیم تدبیر تھی۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک محال چیز کو مفروضہ کے طور پر تسلیم کیا، تاکہ دل نشین طریقے سے انھیں قائل کیا جائے۔ چناچہ جب وہ غروب ہوا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : ” میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ “ پھر چاند کو اپنا رب کہا، جب وہ بھی غروب ہوگیا تو فرمایا : ” میرے رب نے اگر مجھے ہدایت نہ دی تو یقیناً میں بھی گمراہوں سے ہوجاؤں گا۔ “ اس میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ میں جس ہدایت پر ہوں وہ میری ذاتی سوچ اور فکر نہیں ہے اور نہ یہ میری ذاتی اور شخصی دعوت ہے، یہ میرے رب کی عنایت اور اسی کا احسان ہے، اس لیے میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ پھر سورج کو چمکتے ہوئے دیکھا اور کہا : ” یہ سب سے بڑا ہے، اس لیے یہی میرا رب ہے۔ “ قوم کو امید پیدا ہوئی ہوگی کہ چلو ہمارے کسی معبود کو ماننے پر تو تیار ہوگیا ہے، مگر سورج کے غروب ہونے پر ان کے تمام معبودوں سے بےزاری کا اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے ایک ہی معبود برحق کا اعلان کیا تو قوم جھگڑے پر اتر آئی، جھگڑے کے ساتھ اپنے خداؤں کے غضب سے ڈرانے لگی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : ” میں تمہارے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں، اللہ تعالیٰ کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو وہ پہنچا سکتا ہے۔ “ - بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت اور پرورش ایک غار کے اندر ہوئی تھی، تاکہ بادشاہ اپنے ایک خواب کی وجہ سے انھیں قتل نہ کر دے۔ جب باہر آئے تو اپنا رب ڈھونڈنے کے لیے غور و فکر کے یہ مراحل طے کیے اور آخر کار اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئے، حالانکہ ان آیات میں صاف ذکر ہے کہ قوم کی مجلس میں یہ سب باتیں ہوئی ہیں جن کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو لاجواب کیا ہے۔ پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود یہاں فرمایا : ( وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ اٰتَيْنٰهَآ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰي قَوْمِهٖ ۭ ) [ الأنعام : ٨٣ ] ” یہ تمام باتیں ہم نے دلیل کے طور پر ابراہیم کو قوم کے مقابلے میں عطا فرمائی تھیں۔ “ اور جب انھوں نے اللہ کے حکم کے مطابق قوم کو اس دلیل کے ذریعے سے سورج، چاند اور ستارے کے رب نہ ہوسکنے کی بات سمجھائی تو وہ جھگڑے پر اتر آئے، جو ان کے لاجواب ہونے کی دلیل تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تبلیغ و دعوت میں حکمت و تدبیر سے کام لینا سنت انبیاء ہے - فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا، یعنی ایک رات میں جب تاریکی چھاگئی اور ایک کو کب یعنی ستارہ پر نظر پڑی تو اپنی قوم کو سنا کر کہا کہ یہ ستارہ میرا رب ہے، مطلب یہ تھا کہ تمہارے خیالات و عقائد کی رو سے یہی میرا اور تمہارا رب یعنی پالنے والا ہے، اب تھوڑی دیر میں اس کی حقیقت دیکھ لینا۔ چناچہ کچھ دیر کے بعد وہ غروب ہوگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قوم پر حجت قائم کرنے کا واضح موقعہ ہاتھ آیا، اور فرمایا لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ ، آفلین کا یہ لفظ افول سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں غروب ہونا۔- مطلب یہ ہے کہ میں غروب ہوجانے والی چیزوں سے محبت نہیں رکھتا، اور جس کو خدا یا معبود بنایا جائے ظاہر ہے کہ وہ سب سے زیادہ محبت و عظمت کا مستحق ہونا چاہئے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے ایک شعر میں اسی واقعہ کو بیان فرمایا ہے - خلیل آسادر ملک یقیں زن - نوائے لا احب الآفلین زن - اس کے بعد پھر کسی دوسری رات میں چاند چمکتا ہوا نظر آیا تو پھر اپنی قوم کو سنا کر وہی طریقہ اختیار فرمایا اور کہا کہ (تمھارے عقائد کے مطابق) یہ میرا رب ہے، مگر اس کی حقیقت بھی کچھ دیر کے بعد سامنے آجائے گی، چناچہ جب چاند غروب ہوگیا تو فرمایا اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ کرتا رہتا تو میں بھی تمہاری طرح گمراہوں میں داخل ہوجاتا، اور چاند ہی کو اپنا رب اور معبود سمجھ بیٹھتا۔ لیکن اس کے طلوع و غروب کے بدلنے والے حالات نے مجھے متنبہ کردیا کہ یہ ستارہ بھی قابل عبادت نہیں۔- اس آیت میں اس کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ میرا رب کوئی دوسری شے ہے، جس کی طرف سے مجھے ہدایت ہوتی رہتی ہے۔- اس کے بعد ایک روز آفتاب کو نکلتے ہوئے دیکھا تو پھر قوم کو سنا کر اسی طریقہ پر فرمایا کہ (تمھارے خیال کے مطابق) یہ میرا رب ہے، اور یہ تو سب سے بڑا ہے، مگر اس بڑے کی حقیقت و حیثیت بھی عنقریب تمہارے سامنے آجائے گی۔ چناچہ آفتاب بھی اپنے وقت پر غروب ہوگیا، تو قوم پر آخری حجت تمام کرنے کے بعد اب اصل حقیقت کو واضح طور پر بیان فرما دیا کہ اے میری قوم میں تمہارے ان مشرکانہ خیالات سے بیزار ہوں، کہ تم نے خدا تعالیٰ کی مخلوقات کو ہی خدا کا شریک بنا رکھا ہے۔- اس کے بعد اس حقیقت کو بتلا دیا کہ میرا اور تمہارا رب (پالنے والا) ان تمام مخلوقات میں سے کوئی نہیں ہوسکتا، جو خود اپنے وجود میں دوسرے کی محتاج ہیں، اور ہر وقت ہر آن عروج و نزول اور طلوع و غروب کے تغیرات میں گھری ہوئی ہیں، بلکہ ہمارا سب کا رب وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان میں پیدا ہونے والی تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے، اس لئے میں اپنا رخ تمہارے سب خود تراشیدہ بتوں اور تغیرات و تاثرات میں گھرے ہوئے ستاروں سے پھیر کر صرف ایک خدائے وحدہ لا شریک لہ کی طرف کرلیا ہے، اور میں تمہاری طرح مشرکین میں سے نہیں ہوں۔- اس واقعہ مناظرہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیغمبرانہ حکمت و موعظت سے کام لے کر یکبارگی ان کی نجوم پرستی کو غلط یا گمراہی نہیں فرمایا، بلکہ ایک ایسا انداز قائم کیا، جس سے ہر ذی عقل انسان کا قلب و دماغ خود متاثر ہو کر حقیقت کو پہچان لے، ہاں بت پرسی کے خلاف بات کرنے میں اوّل ہی شدت اختیار فرمائی، اور اپنے باپ اور پوری قوم کا گمراہی پر ہونا صاف طور پر بیان کردیا، وجہ یہ تھی کہ بت پرستی کا نامعقول گمراہی ہونا بالکل واضح اور کھلا ہوا تھا، بخلاف نجوم پرستی کے کہ اس کی گمراہی اتنی واضح اور جلی نہیں تھی۔ - یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نجوم پرستی کے خلاف اپنی قوم کے سامنے جو استدلال بیان فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جو چیز تغیر پذیر ہو اور اس کے حالات اول بدل ہوتے رہتے ہوں، اور وہ اپنی حرکات میں کسی دوسری طاقت کے تابع ہو وہ ہرگز اس لائق نہیں کہ اس کو اپنا رب قرار دیں، اس استدلال میں سیاروں کے طلوع و غروب اور درمیانی تمام حالات سے استدلال کے لئے ان سیاروں کے غروب کو پیش کیا، کیونکہ ان کا غروب عوام کی نظروں میں ایک طرح سے ان کا زوال سمجھا جاتا ہے، اور انبیاء (علیہم السلام) کا عام طرز استدلال وہ ہوتا ہے جو عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہو، وہ فلسفیانہ حقائق کے پیچھے زیادہ نہیں پڑتے، بلکہ عام ذہنوں کے مطابق خطاب فرماتے ہیں، اس لئے ان سیاروں کی بےبسی اور بےاثری ثابت کرنے کے لئے ان کے غروب کو پیش کیا، ورنہ ان کے بےبس اور بےقدرت ہونے پر تو طلوع سے بھی استدلال ہوسکتا تھا، اور اس کے بعد غروب سے پہلے تک جتنے تغیرات پیش آتے ہیں ان سے بھی اس پر دلیل پکڑی جاسکتی ہے۔- مبلغین اسلام کے لئے چند ہدایات - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس طرز مناظرہ سے علماء و مبلغین کے لئے چند اہم ہدایات حاصل ہوئیں : اول یہ کہ قوموں کی تبلیغ و اصلاح میں نہ ہر جگہ سختی مناسب ہے نہ ہر جگہ نرمی، بلکہ ہر ایک کا ایک موقعہ اور ایک حد ہے، چناچہ بت پرستی کے معاملہ میں حضرت خلیل اللہ نے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں، کیونکہ اس کی گمراہی مشاہدہ میں آنے والی چیز ہے، اور نجوم پرستی کے معاملہ میں ایسے سخت الفاظ استعمال نہیں فرمائے، بلکہ ایک خاص تدابیر سے معاملہ کی حقیقت کو قوم کے ذہن نشین فرمایا، کیونکہ سیاروں اور ستاروں کا بےبس اور بےاختیار ہونا اتنا واضح اور کھلا ہوا نہیں تھا جتنا خود تراشیدہ بتوں کا، اس سے معلوم ہوا کہ عوام اگر کسی ایسی غلطی میں مبتلا ہوں جس کا غلطی اور گمراہی ہونا عام نظروں میں واضح نہ ہو تو عالم اور مبلغ کو چاہئے کہ تشدد کے بجائے ان کے شبہات کو دور کرنے کی تدبیر کرے۔- دوسری ہدایت اس میں یہ ہے کہ اظہار حق و حقیقت کے لئے اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو یوں خطاب نہیں کیا کہ تم ایسا کرو، بلکہ اپنا حال بتلا دیا کہ میں تو ان طلوع و غروب کے چکر میں رہنے والی چیزوں کو معبود قرار نہیں دے سکتا، اس لئے میں نے اپنا رخ ایک ایسی ہستی کی طرف کرلیا جو ان سب چیزوں کو پیدا کرنے والی اور پالنے والی ہے، مقصد تو یہی تھا کہ تم کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ مگر حکیمانہ انداز میں صریح خطاب سے پرہیز فرمایا، تاکہ وہ ضد پر نہ آجائیں، اس سے معلوم ہوا کہ مصلح اور مبلغ کا صرف یہ کام نہیں کہ حق بات کو جس طرح چاہے کہہ ڈالے، بلکہ اس پر لازم ہے کہ ایسے انداز سے کہے جو لوگوں کے لئے موثر ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْہِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا۝ ٠ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۝ ٠ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ۝ ٧٦- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جنَ ( ڈهانپ لينا)- أصل الجِنِّ : ستر الشیء عن الحاسة، يقال : جَنَّه اللیل وأَجَنَّهُ وجَنَّ عليه، فَجَنَّهُ : ستره، وأَجَنَّه جعل له ما يجنّه، کقولک : قبرته وأقبرته، وسقیته وأسقیته، وجَنَّ عليه كذا : ستر عليه، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76]- ( ج ن ن ) الجن ۔ ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو حواس سے پوشیدہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ جنہ اللیل واجنہ اسے رات نے چھپالیا جن علیہ اسے جنون ہوگیا ۔ بس جنہ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور اجنہ کے معنی چھپانے کے لئے کوئی چیز دینے کے ہیں جیسے ۔ قبرتہ واقبرتہ وسقیتہ واسقیتہ جن علیہ کذا ۔ کسی چیز نے اسے چھیالیا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76] جب رات نے ان کو ( پردہ تاریکی سی) چھپا دیا تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا ۔ - كب - الْكَبُّ : إسقاط الشیء علی وجهه . قال عزّ وجل : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ- [ النمل 90] . والإِكْبَابُ : جعل وجهه مَكْبُوباً علی العمل . قال تعالی: أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] - والکَبْكَبَةُ :- تدهور الشیء في هوّة . قال : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] . يقال كَبَّ وكَبْكَبَ ، نحو : كفّ وكفكف، وصرّ الرّيح وصرصر .- والکَوَاكِبُ :- النّجوم البادية، ولا يقال لها كواکب إلّا إذا بدت . قال تعالی: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76] ، وقال : كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] ، إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] ، وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] ويقال : ذهبوا تحت کلّ كوكب : إذا تفرّقوا، وكَوْكَبُ العسکرِ : ما يلمع فيها من الحدید .- ( ک ب ب ) الکب ( ن ) کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ النمل 90] تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ الاکباب ۔ کسی چیز پر منہ کے بل گرجانا ۔ ( اور کنایہ ازہمہ تن مشغول شدن درکا ر ے ) اسی سے قرآن میں ہے : أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گرگر پڑتا ہو ۔ وہ سیدھے رستے پر ہے ۔ یعنی جو غلط روش پر چلتا ہے ۔ الکبکبۃ کسی چیز کو اوپر سے لڑھا کر گڑھے میں پھینک دینا۔ قرآن میں ہے : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] تو وہ اور گمراہ ( یعنی بت اور بت پرست ) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ کب وکبکب ( ثلاثی درباعی ، دونوں طرح آتا ہے مثل ۔ کف وکفکف وصرالریح وصر صر الکواکب ظاہر ہونے والے ستارے ، ستاروں کو کواکب اسی وقت کہاجاتا ۔۔۔ جب نمودار اور ظاہر ہوں ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76]( یعنی ) جب رات نے ان کو ( پردہ تاریکی سے ) ڈھانپ لیا ( تو آسمان میں ) ایک ستارہ نظر پڑا ۔ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] گویا وہ موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ۔ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت س مزین کیا ۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] اور جب ( آسمان کے ) ستارے جھڑ پڑیں گے ۔ محاورہ ہے : ذھبوا تحت کل کوکب وہ منتشر ہوگئے ۔ کوکب العسکر لشکر میں اسلہ کی چمک - أفل - الأُفُول : غيبوبة النّيّرات کالقمر والنجوم، قال تعالی: فَلَمَّا أَفَلَ قالَ لا أُحِبُّ الْآفِلِينَ- [ الأنعام 78] ، وقال : فَلَمَّا أَفَلَتْ [ الأنعام 76] ، والإِفَال : صغار الغنم، والأَفِيل : الفصیل الضئيل .- ( ا ف ل ) الافول کے معنی ماہتاب اور نجوم ( وغیرہ تیرات) کے غروب ہونے کے ہیں۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ ( سورة الأَنعام 76) جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانے والے پسند نہیں ۔ فَلَمَّا أَفَلَتْ ( سورة الأَنعام 78) مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا ۔ بھیڑ بکری کے چھوٹے بچوں کو افال اور اونٹ کے کمزور اور چھوٹے بچے کو افیل کہا جاتا ہے ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ابراہیم (علیہ السلام) کی جستجوئے حق - قول باری ہے ( فلما جن علیہ اللیل دای کوکبا قال ھذا ربی چناچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے) اس کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دفعہ تارے پر نظر پڑنے کی حالت میں یہ بات کہی تھی، اور جو بات پہلے سے ان کے وہم میں تھی نیز ان کے گمان میں چھائی ہوئی تھی اس پر استدلال کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا اس لیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ستاروں کے نام پر بت بنا کر اس کی پرستش کرتی تھی ۔ وہ کہتے ” یہ زحل کا بت ہے، یہ سورج کا، یہ مشتری کا “ وغیرہ وغیرہ ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات بالغ ہونے سے پہلے فرمائی تھی یعنی اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے ابھی آپ کی عقل اور سمجھ بوجھ میں وہ پختگی نہیں پیدا کی تھی جس کی بنا پر ایک شخص مکلف قرار پاتا ہے ۔ - جب آپ نے اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرنے والے واقعات و احوال کا مشاہدہ کیا اور آپ کے قلب و ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے۔ نیز دل و دماغ میں ابھرنے والے خیالات و احساسات نے آپ کے اندر غورو فکر کا زبردست داعیہ پیدا کردیا تو اس وقت آپ نے یہ فقرہ کہا تھا۔ روایت میں ہے کہ آپ نے والدہ نے نمرود کے خوف سے ایک غار کے اندر آپ کو جنم دیا تھا، نمرود اس زمانے میں پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کروا دیا کرتا تھا ۔ جب آپ کی والدہ آپ کو غار سے باہر لے کر آئیں اور آپ نے اپنی آنکھوں سے آسمان پر بکھرے ہوئے تارے دیکھے تو اس وقت یہ فقرہ ادا کیا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ یہ بات اپنی قوم کی بت پرستی کی تردید کرتے ہوئے نیز اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمائی تھی۔ فقرے سے ہمزہ استفہام حذف کردیا گیا ہے اور اصل فقرہ یہ ہے۔ (کیا یہ میرا رب ہے ؟ ) شاعر کا قول ہے - کذبتک و عینک ام رایت بواسط غلس الظلام من الرباب خیالا - کیا تیری آنکھوں نے تجھ سے جھوٹ کہا یا تو نے واسط شہر میں تاریکی کے پردے میں رباب ( محبوبہ کا نام ) کی کوئی پرچھائیں دیکھی۔ - کذبتک کے معنی ہیں ” اکذ بتک “ ایک اور شاعر کا شعر ہے۔- رفونی و قالوا یا خویلد لاترع فقلت وانکرت الوجوہ ھم ھم - انہوں نے میرے دل سے ڈر دورکر دیا اور کہنے لگا خویلد خوفزدہ نہ ہو، میں نے نا آشنا چہرے دیکھ کر کہا، آیا یہ لوگ وہی ہیں۔ ” ھم ھم “ کے معنی ہیں ” اھم ھم “ ( کیا یہ لوگ وہی ہیں) قول باری ہے ( لا احب الآفلین، ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں) آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تارا رب نہیں ہے۔ اگر یہ رب ہوتا تو میں اس کا گرویدہ ہوجاتا اور اس کی تعظیم کرتا جس طرح رب کی تعظیم کی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے استدلال کا جو طریقہ اپنا یا تھا وہ درست ترین اور واضح ترین طریقہ تھا۔ وہ اس طرح کہ جب آپ نے تارے کی بلندی اور اس کی روشنی دیکھی تو آپ کا ذہن اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کے متعلق آپ کی سوچ کا دھارا دو حصوں میں بٹ گیا یعنیی آپ یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس پر کیا حکم لگایا جائے۔ - آیا اسے خالق اور رب مان لیا جائے یا اسے مخلوق اور مربوب کا درجہ دیا جائے۔ لیکن جب آپ نے اسے طلوع ہو کر غروب ہوتا ہوا دیکھا نیز حرکت کرتا ہوا اور ایک مقام پر پہنچ کر مٹتا ہوا پایا تو فوراً یہ فیصلہ دے دیا کہ یہ حادث ہے اس لے کہ حددث پر دلالت کرنے والی کیفیات اس کے اندر موجود نہیں، یہ رب نہیں ہوسکتا تھا، آپ کو اس بات کا علم تھا کہ جو خود حادث ہو وہ دوسرے اجسام کو وجود میں لانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس کے لیے ایسا کرنا محال ہوتا ہے۔ جس طرح اس تارے کے لیے حادث ہونے کی بنا پر ایسا کرنا محال تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی سوچ کے نتیجے میں اس تارے پر یہ حکم لگا دیا کہ حادث ہونے نیز رب اور خالق نہ ہونے کے لحاظ سے وہ ان کی طرح تھا۔ پھر جب چاند طلوع ہوا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی جسامت ، اس کی چمک، اور اس کی ضیا پاشی ستارے سے بالکل مختلف پائی تو آپ کا ذہن اس نکتے پر آ کر رک گیا کہ یہ میرا رب ہے، چناچہ آپ نے زبان سے بھی فقرہ ادا کیا۔ لیکن جب آپ نے اس کی کیفیات کو بغور دیکھا اور اس کے احوال کا مشاہدہ کیا تو اسے بھی اس لحاظ سے تارے کا ہم جنس پایا کہ اس میں بھی حادث کی صفات یعنی طلوع و غروب، زوال اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اتنقال وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ - یہ دیکھ کر آپ نے اس پر بھی وہی حککم لگا دیا جو اس سے پہلے تارے پر لگا چکے تھے اگر چاند ستارے کے مقابلہ میں زیادہ بڑا اور زیادہ روشن تھا۔ جسامت اور ضیاپاشی میں ان دونوں کا فرق چاند پر حدوث کا حکم لگانے سے مانع نہیں ہوا اس لیے کہ آپ نے اس میں حدوث کی نشانیاں دیکھ لی تھیں۔ پھر جب آپ نے صبح کے وقت سورج کو پورے آب و تاب سے طلوع ہوتے دیکھا، اس کی جسامت ، چمک اور تابانی دیکھی تو پکار اٹھے کہ یہ میرا رب ہے، اس لیے کہ ان اوصاف کے لحاظ سے وہ تارے اور چاند سے یکسر مختلف تھا۔ لیکن جب اسے ڈوبتا ہوا نیز ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا ہوا دیکھ لیا تو اس پر بھی حدود کا حکم عائد کردیا اور اعلان کر دییا کہ یہ بھی ستارے اور چاند کی طرح ہے اس لیے کہ حدوث کی نشانیاں ان تینوں میں پائی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس فکری سفر کا حال بتانے کے بعد فرمایا ( وتلک حجتنا اتینا ھا ابراہیم علی قومہ، یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قول کے مقابل میں عطا کی) اس میں توحید پر استدلال کے وجوب کی واضح ترین دلالت موجود ہے، نیز اس اس میں ان لوگوں کے قول کا بطلان بھی موجود ہے جو علم سے عاری ہونے کی بنا پر تقلید کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی کے لیے تقلید پر اکتفا کرلینا جائز ہوتا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان لوگوں سے بڑھ کر اس کے مستحق قرار پاتے۔ - اگر تقلید بودے شیوہ خوب پیمبر ہم رہ اجرا در فتے ( اقبال (رح) ) - للیکن جب آپ نے توحید باری پر استدلال کیا اور اپنی قوم کے مقابلہ میں اسے حجت کے طور پر پیش کیا تو اس سے ییہ بات ثابت ہوگئی کہ ہمارے لیے بھی یہی بات لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاء کرام کے ساتھ حضرت ابراہیم کا ذکر کرتے ہوئے سلسلہ تلاوت میں فرمایا ( اولئک الذین ھدی اللہ فبھدھم اقتدہ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو) اس کے ذریعے اللہ نے ہمیں بھیی توحید پر استدلال کرنے اور کافروں کے مقابلہ میں اسے حجت اور دلیل کے طورپ پیش کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ اپنانے کا حکم دے دیا۔- مذکورہ بالا اجرم فلکی کے احوال جس طرح اس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ مخلوق ہیں خالق نہیں ہیں، ربوب ہیں، رب نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ اس پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ کائنات میں جو چیز بھی ان جیسی صفات کی حالم ہوگی ، یعنی ایک حالت پر اس کا دوام نہیں ہوگا بلکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال ، نیز آنے جانے اور گھٹنے بڑھنے کی کیفیات پائی جائیں گی، اسے خالق اور رب کے نام سے موسوم کرنا جائز نہیں وہ گا، بلکہ وہ مخلوق و مربوب ہوگی۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ کی ذات کی طرف ایک حالت سے دورسری حالت کی طرف انتقال نیز آنے جانے اور گھٹنے بڑھنے کی نسبت جائز نہیں اس لیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے استدلال کا نتیجہ صریحہ یہ ہے کہ جو چیز ان صفات کی حامل ہوگی وہ حادث ہوگی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص بھی ان کیفیات کی حامل ذات کی پرستش کرے گا وہ اللہ کی ذات و صفات سے بیخبر قرار پائے گا اس کی حیثیت ان لوگوں کی طرح ہوگی۔ - جنہوں نے کسی ستارے یا کسی مخلوق کی پرستش کی ، اس پورے واقعہ میں یہ دلالت بھی موجود ہے کمال عقل کی بنا پر پیغمبروں کی آمد سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت واجب تھی اس لیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلم نے انبیا (علیہم السلام) کے دلائل کی سماعت سے پہلے ہی اللہ کی ذات کی معرفت پر استدلال کرلیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٦) جب رات کی تاریکی چھا گئی تو انہوں نے ایک چمکتا ہوا ستارہ دیکھا تو قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تمہارے زعم میں یہ میرا اللہ ہوسکتا ہے اور جب وہ غروب ہوگیا اور اس کی حالت تبدیل ہوگئی تو فرمایا کہ یہ تو اللہ ہو ہی نہیں سکتا، جسے بقاء نہ ہو

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ (فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ رَاٰکَوْکَبًاج قالَ ہٰذَا رَبِّیْ ج) - یہ سوالیہ انداز بھی ہوسکتا ہے ‘ گویا کہہ رہے ہو کیا یہ میرا رب ہے ؟ اور استعجابیہ انداز بھی ہوسکتا ہے۔ گویا لوگوں کو چونکانے کے لیے ایسے کہا ہو۔- (فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ) ۔- میں اس کو اپنا خدا کیسے مان لوں ؟ یہ قوم جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھیجے گئے تھے ستارہ پرست بھی تھی ‘ بت پرست بھی تھی اور شاہ پرست بھی تھی۔ تینوں قسم کے شرک اس قوم میں موجود تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (آج کا عراق) کے شہر ار میں پیدا ہوئے۔ اس شہر کے کھنڈرات بھی اب دریافت ہوچکے ہیں۔ پھر وہاں سے ہجرت کر کے فلسطین گئے ‘ وہاں سے حجاز گئے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو وہاں آباد کیا۔ جب کہ اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو فلسطین میں آباد کیا۔ اس وقت عراق میں شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تھے۔ وہ لوگ بت پرستی اور ستارہ پرستی کے ساتھ ساتھ نمرود کی پرستش بھی کرتے تھے ‘ جو دعویٰ کرتا تھا کہ میں خدا ہوں۔ نمرود کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ محاجہ (مکالمہ ) ہم سورة البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں ‘ اس میں اس نے کہا تھا : اَنَا اُحْیَٖ واُمِیْتُ کہ میں بھی یہ اختیار رکھتا ہوں کہ جس کو چاہوں زندہ رکھوں ‘ جس کو چاہوں مار دوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے جس علاقے نینوا میں پیدا ہوئے تھے وہاں کے لوگ بتوں اور ستاروں کو خدا مان کر ان کی عبادت کرتے تھے، ان کا باپ آزر بھی نہ صرف اسی عقیدے کا تھا بلکہ خود بت تراشا کرتا تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شروع ہی سے توحید پر ایمان رکھتے تھے اور شرک سے بیزار تھے، لیکن انہوں نے اپنی قوم کو غور وفکر کی دعوت دینے کے لئے یہ لطیف طریقہ اختیار فرمایا کہ چاند ستاروں اور سورج کو دیکھ کر پہلے اپنی قوم کی زبان میں بات کی، مقصد یہ تھا کہ یہ ستارہ تمہارے خیال میں پروردگار ہے، آؤ دیکھتے ہیں کہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ چنانچہ جب ستارہ بھی ڈوبا اور چاند بھی اور آخر میں سورج بھی تو ہر موقع پر انہوں نے اپنی قوم کو یاد دلایا کہ یہ توناپائیدار اور تغیر پذیر چیزیں ہیں، جو چیز خود ناپائدار ہو اور اس پر تغیرات طاری ہوتے رہتے ہوں، اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ پوری کائنات کی پرورش کررہی ہے، کیسی غیر معقول بات ہے، لہذا انہوں نے چاند ستاروں یا سورج کو جو یہ کہا تھا کہ یہ میرا رب ہے وہ اپنے عقیدے کے مطابق نہیں بلکہ اپنی قوم کے عقیدے کی لغویت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا تھا۔