Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

82۔ 1 آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام ظلم کا عام مطلب (کوتاہی اور غلطی، گناہ اور زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر کہنے لگے، ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ظلم سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے جس طرح حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو کہا ( اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31 ۔ لقمان :13) یقینا شرک ظلم عظیم ہے (صحیح بخاری) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٥] ظلم معنی شرک :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ پر بہت گراں گزری (کیونکہ انہوں نے ظلم کو اس کے عام معنوں، معصیت یا زیادتی پر محمول کیا تھا) اور رسول اللہ سے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے کبھی ظلم نہ کیا ہو ؟ آپ نے انہیں بتایا کہ یہاں ظلم کا لفظ اپنے خاص معنوں یعنی شرک کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورة لقمان میں آیا ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹا کبھی شرک نہ کرنا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، نیز کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم نیز کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا )- [ منکرین حدیث اور اہل قرآن کا ردّ :۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کی زبان بھی اگرچہ عربی زبان تھی اور قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا تھا۔ تاہم بعض دفعہ انہیں آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آجاتی تھی۔ اور یہی مطلب ہے (وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ ١٢٩؀ ) 2 ۔ البقرة :129) کا۔ مگر مسلمانوں میں سے ہی بعض لوگ ایسے ہیں جو حدیث رسول اللہ سے بےنیاز ہو کر محض لغت کی مدد سے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اپنے اس نظریہ کا انجام سوچ لینا چاہیے اس آیت کے متعلق دو اقوال ہیں ایک یہ کہ یہ جملہ بھی سیدنا ابراہیم کا ہی قول ہے اور ان کی اس بحث کا حصہ ہے جو وہ اپنی قوم سے کر رہے تھے۔ کیونکہ اس سے پہلی آیت میں بھی امن و سلامتی کا ذکر ہے اور اس آیت میں بھی۔ اور یہ امن و سلامتی صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو شرک سے اجتناب کرتے ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے جو ایک حقیقت کے طور پر یہاں سیدنا ابراہیم کے قصہ کے درمیان بیان کردیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا۔۔ : یہ آیت اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہوسکتا ہے اور ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کو مکمل کرنے والا حصہ بھی۔ - تنوین اکثر تنکیر کے لیے ہوتی ہے، اس سے لفظ عام ہوجاتا ہے اور اس کا ہر فرد اس میں شامل ہوجاتا ہے، جیسے اس آیت میں مذکور ” بِظُلْمٍ “ کی تنوین کو تنکیر کے لیے لیں تو معنی ہوگا : ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو کسی ظلم کے ساتھ نہیں ملایا “ اور بعض اوقات وہ دوسرے معانی کے لیے بھی ہوتی ہے، جن میں سے ایک معنی تعظیم بھی ہے، جس سے اس لفظ کا بڑا فرد مراد ہوتا ہے۔ جیسے اسی آیت میں ” بِظُلْمٍ “ کی تنوین کو تعظیم کے معنی میں لیا جائے تو مطلب ہوگا : ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بہت بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ) [ الأنعام : ٨٢ ] تو صحابہ کرام (رض) پر اس آیت کا مضمون شاق گزرا۔ انھوں نے عرض کیا : ” ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے نفس پر ( کوئی) ظلم ( یعنی گناہ ) نہیں کیا ؟ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو تم سمجھ رہے ہو وہ بات نہیں، کیا تم نے لقمان کا قول نہیں سنا، جو وہ اپنے بیٹے سے کہہ رہے تھے : (ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) [ لقمان : ١٣ ] ” یقیناً شرک ظلم عظیم ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ ) : ٤٦٢٩۔- مسلم : ١٢٤ ] آپ دیکھیں کہ صحابہ کرام (رض) اہل زبان ہونے کے باوجود ” بِظُلْم “ کی تنوین کو تنکیر کے لیے سمجھ کر پریشان ہوگئے کہ کون ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لقمان کا قول ذکر کر کے انھیں بتایا کہ یہ تنوین تعظیم کے لیے ہے، نہ کہ تنکیر کے لیے اور معنی یہ نہیں کہ کسی ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، بلکہ معنی یہ ہے کہ بہت بڑے ظلم، یعنی شرک کے ساتھ نہیں ملایا۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ قرآن سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان جاننا کافی نہیں، کئی مقامات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تفسیر بھی ضروری ہے، اس لیے قرآن کو حدیث کے بغیر سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے واضح گمراہ ہیں۔ - اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ امن و سکون اور ہدایت ایسے خالص ایمان ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں جس میں توحید کے ساتھ کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ کی گئی ہو، جو قوم خالص ایمان اور خالص توحید سے محروم اور کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو اسے کسی صورت امن و چین اور ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ افسوس کہ مسلمانوں نے خالص توحید کو چھوڑا اور قبروں اور آستانوں کی پرستش شروع کردی (الا ما شاء اللہ) جس کے نتیجے میں پورا عالم اسلام ذلت و مسکنت کا نشانہ بن گیا۔ اب نہ کہیں امن ہے نہ ہدایت جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے احکام کی حکمرانی کا نام ہے۔ اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ خالص توحید کی طرف پلٹے اور صرف اپنے رب کے آستانے پر جمی رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جو لوگ (اللہ پر) ایمان رکھتے ہیں اور اپنے (اس) ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے (قیامت میں) امن ہے اور وہی (دنیا میں) راہ (راست) پر چل رہے ہیں (اور وہ صرف موحدین ہیں بخلاف مشرکین کے کہ گو بالمعنی اللغوی خدا پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ خدا کے قائل ہیں، لیکن شرک بھی کرتے ہیں جس سے ایمان شرعی منفی ہوجاتا ہے، جب موحدین قابل امن ہیں سو اس صورت میں خود تم ڈرو نہ کہ مجھ کو ڈراتے رہو، حالانکہ نہ تمہارے آلہہ ڈرنے کے قابل نہ میں نے کوئی کام ڈر کا کیا اور نہ دنیا کا خوف قابل اعتبار، اور تمہاری حالت تینوں اعتبار سے محل خوف ہے) اور یہ (حجت جو ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید پر قائم کی تھی) ہماری (دی ہوئی) حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی (جب ہماری دی ہوئی تھی تو یقینا اعلیٰ درجہ کی تھی اور ابراہیم (علیہ السلام) کی کیا تخصیص ہے) ہم (تو) جس کو چاہتے ہیں (علمی و عملی) مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں (چنانچہ سب انبیاء کو یہ رفعت درجات عطا فرمائی) بیشک آپ کا رب بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے (کہ ہر ایک کا حال اور استعداد جانتا ہے اور ہر ایک کے مناسب اس کو کمال عطا فرماتا ہے) اور (ہم نے جیسا ابراہیم (علیہ السلام) کو کمال ذاتی علم و عمل دیا، اسی طرح کمال اضافی بھی دیا کہ ان کے اصول اور فروع سے بہتوں کو کمال دیا چنانچہ) ہم نے ان کو ( ایک بیٹا) اسحاق دیا اور (ایک پوتا) یعقوب (دیا اور اس سے دوسری اولاد کی نفی نہیں ہوتی اور دونوں صاحبوں میں سے) ہر ایک کو (طریقِ حق کی) ہم نے ہدایت کی، اور (ابراہیم سے) پہلے زمانہ میں ہم نے نوح (علیہ السلام) کو (جن کا ابراہیم (علیہ السلام) کے اجداد میں ہونا مشہور ہے اور اصل کی فضیلت فرع میں بھی مؤ ثر ہوتی ہے طریق حق کی) ہدایت کی اور ان (ابراہیم علیہ السلام) کی اولاد (لغوی یا عرفی یا شرعی) میں سے (اخیر تک جتنے مذکور ہیں سب کو طریق حق کی ہدایت کی یعنی) داؤد (علیہ السلام) کو اور (ان کے صاحبزادہ) سلیمان (علیہ السلام) کو اور ایوب (علیہ السلام) کو اور یوسف (علیہ السلام) کو اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اور ہارون (علیہ السلام) کو (طریقِ حق کی ہدایت کی) اور (جب یہ ہدایت پر چلے تو ہم نے ان کو جزائے خیر بھی دی مثل ثواب و زیادہ قرب کے اور جس طرح نیک کاموں پر ان کو جزاء دی) اسی طرح (ہماری عادت ہے کہ) ہم نیک کام کرنے والوں کو (مناسب) جزاء دیا کرتے ہیں اور نیز (ہم نے طریق حق کی ہدایت کی) زکریا (علیہ السلام) کو اور (ان کے صاحبزادہ) یحییٰ (علیہ السلام) کو اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور الیاس (علیہ السلام) کو (اور یہ) سب (حضرات) پورے شائستہ لوگوں میں تھے اور نیز (ہم نے طریق حق کی ہدایت کی) اسماعیل (علیہ السلام) کو اور یسع (علیہ السلام) کو اور یونس (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو اور (ان میں سے) ہر ایک کو (ان زمانوں کے) تمام جہان والوں پر (نبوت سے) ہم نے فضیلت دی اور نیز ان (حضرات مذکورین) کے کچھ باپ داداوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو، (طریقِ حق کی ہم نے ہدایت کی) اور ہم نے ان (سب) کو راہ راست (یعنی دین حق) کی ہدایت کی (اور وہ دین جس کی ان سب کو ہدایت ہوئی تھی) اللہ کی (جانب سے جو) ہدایت (ہوتی ہے) وہ یہی (دین) ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت (یعنی منزل پر پہنچانے کی صورت میں) کرتا ہے (چنانچہ اب جو لوگ موجود ہیں ان کو بھی اسی کی ہدایت اس معنی سے ہوئی کہ ان کو صحیح راستہ دکھا دیا، پھر منزل پر پہنچانا نہ پہنچنا ان کا کام ہے، مگر ان میں سے بعض نے اس کو چھوڑ کر شرک اختیار کرلیا) اور (شرک اس قدر ناپسند چیز ہے کہ غیر انبیاء تو کس شمار میں ہیں) اگر فرضاً یہ حضرات (انبیاء مذکورین) بھی (نعوذ باللہ) شرک کرتے تو جو کچھ یہ (نیک) اعمال کیا کرتے تھے ان میں سب اکارت ہوجاتے (آگے مسئلہ نبوت کی طرف اشارہ ہے کہ) یہ (جتنے مذکور ہوئے) ایسے تھے کہ ہم نے ان (کے مجموعہ) کو کتاب (آسمانی) اور حکمت (کے علوم) اور نبوت عطاء کی تھی (تو نبوت امر عجیب نہیں جو یہ کافر لوگ آپ کے منکر ہو رہے ہیں، کیونکہ نظائر موجود ہیں) سو اگر (نظیر موجود ہونے پر بھی) یہ لوگ (آپ کی) نبوت کا انکار کریں تو (آپ غم نہ کیجئے کیونکہ) ہم نے اس کے (ماننے کے) لئے ایسے بہت لوگ مقرر کر دئیے ہیں (یعنی مہاجرین و انصار) جو اس کے منکر نہیں ہیں۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ سے پہلی آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مناظرہ اپنے باپ آزر اور پوری قوم نمرود کے ساتھ مذکور تھا، جس میں ان کی بت پرستی اور نجوم پرستی کے خلاف یقینی شہادتیں پیش کرنے کے بعد آیات مذکورہ میں اپنی قوم کو خطاب فرمایا کہ تم مجھے اپنے بتوں سے ڈراتے ہو کہ میں ان کا انکار کروں گا تو یہ مجھے برباد کردیں گے، حالانکہ نہ بتوں میں اس کی قدر ہے اور نہ میں نے کوئی کام ایسا کیا ہے جس کے نتیجہ میں مجھے کوئی مصیبت پہنچے، بلکہ ڈرنا تمہیں چاہئے کہ تم نے جرم بھی ایسا سخت کیا ہے کہ اللہ کی مخلوق بلکہ مخلوق کی مصنوعات کو خدا کا شریک اور برابر کردیا، اور پھر خدا تعالیٰ کا علیم وخبیر اور قادر مطلق ہونا بھی کسی عقل والے سے مخفی نہیں تو اب تم خود سوچ کر بتلاؤ کہ امن اور اطمینان کا مستحق کون ہے، اور ڈرنا کسی کو چاہئے ؟- ان آیات میں سے پہلی آیت میں یہ مضمون ارشاد فرمایا کہ عذاب سے مامون و مطمئن صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں، اور پھر اپنے ایمان میں کسی ظلم کی ملاوٹ نہ کریں، حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام سہم گئے، اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے کوئی ظلم اپنی جان پر بذریعہ گناہ کے نہیں کیا، اور اس آیت میں عذاب سے مامون ہونے کی یہ شرط ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی ظلم نہ کیا ہو، تو پھر ہماری نجات کی کیا سبیل ہے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم آیت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھتے، آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے : (آیت) ان الشرک لظلم عظیم، اس لئے مراد آیت کی یہ ہے کہ جو شخص ایمان لائے اور پھر اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے وہ عذاب سے مامون اور ہدایت یافتہ ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ بتوں، پتھروں، درختوں، ستاروں، دریاؤں کو پوجنے والی مخلوق اپنی بیوقوفی سے ان چیزوں کو بااختیار سمجھتی ہے، اور ان کی عبادت چھوڑنے سے اس لئے ڈرتی ہے کہ کہیں یہ چیزیں ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا دیں، حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام نے گُر کی بات ان کو بتلائی کہ خدائے قدوس جو تمہارے ہر کام سے باخبر بھی ہے اور تمہارے ہر بھلے برے پر پوری طرح قادر بھی ہے اس سے تو تم ڈرتے نہیں کہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے کوئی مصیبت آجائے اور جن چیزوں میں نہ علم ہے نہ قدرت اس سے ایسے ڈرتے ہو ؟ یہ سوائے بےعقلی کے اور کیا ہے، ڈرنا صرف اللہ تعالیٰ سے چاہئے، اور جس کا اس پر ایمان ہو وہ کسی خطرہ میں نہیں۔- اس آیت میں وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ فرمایا ہے، اس میں ظلم سے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصریح کے موافق شرک مراد ہے، عام گناہ مراد نہیں، لیکن لفظ بظلم کو نکرہ لا کر عربی زبان کے قواعد کے مطابق عام کردیا جو ہر قسم کے شرک کو شامل ہے، اور لفظ لم یلبسوا لبس سے بنا ہے جس کے ایک معنی ہیں اوڑہنا یا خلط ملط کردینا۔ اور مراد آیت کی یہ ہے کہ جو آدمی اپنے ایمان میں کسی قسم کا شرک ملا دے یعنی خدا تعالیٰ کو تمام صفات کمال کے ساتھ ماننے کے باوجود غیر اللہ کو بھی ان میں سے بعض صفات کا حامل سمجھے وہ اس امن و ایمان سے خارج ہے۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ شرک صرف یہی نہیں کہ کھلے طور پر مشرک و بت پرست ہوجائے، بلکہ وہ آدمی بھی مشرک ہے جو اگرچہ کسی بت کی پوجا پاٹ نہیں کرتا اور کلمہ اسلام پڑھتا ہے، مگر کسی فرشتہ یا رسول یا کسی ولی اللہ کو اللہ کی بعض صفات خاصہ کا شریک ٹھہرائے اس میں ان عوام کے لئے سخت تنبیہ ہے جو اولیاء اللہ اور ان کے مزار کو حاجت روا سمجھتے ہیں اور عملاً ان کو ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا خدائی کے اختیارات ان کے حوالے کردیئے گئے ہیں، نعوذ باللہ منہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝ ٨٢ۧ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٢) اگر خبر رکھتے ہو تو بتلاؤ مگر وہ کچھ بھی نہ بتلا سکے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے امن والی جماعت کو بیان فرما دیا کہ جو اپنے ایمان کو شرک ونفاق کے ساتھ نہیں ملاتا، وہ ہی اپنے معبود کی جانب سے امن والے ہیں، یا وہی لوگ قیامت کے دن امن والے ہوں گے اور ان ہی کو صحیح محبت کی طرف رہنمائی حاصل ہوگی۔- شان نزول : (آیت) ” الذین امنوا ولم “۔ (الخ)- اب ابی حاتم (رح) نے بواسطہ عبداللہ بن زجر، بکربن سوادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ دشمنوں کے ایک شخص نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک کو شہید کردیا اور پھر دوبارہ حملہ کرکے دوسرے کو شہید کردیا اور تیسری مرتبہ حملہ کیا تو تیسرے شخص کو بھی شہید کردیا، اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ ان افعال کے بعد اب کیا ایمان مجھے سود مند ہوگا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ہاں فائدہ دے گا تو اس نے اپنے گھوڑے کو مار ڈالا اور اس کے بعد اپنے ساتھیوں پر حملہ کرکے یکے بعد دیگرے تین آدمیوں کو ہلاک کردیا اور پھر خود بھی شہید ہوگئے راوی کہتے ہیں، سب کا یہی خیال ہے کہ یہ آیت ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ ) - یہاں لفظ ظلم قابل توجہ ہے۔ ظلم کسی چھوٹے گناہ کو بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی لیے اس لفظ پر صحابہ کرام (رض) گھبرا گئے تھے کہ حضور کون شخص ہوگا جس نے کبھی کوئی ظلم نہ کیا ہو ؟ اور نہیں تو انسان اپنے اوپر تو کسی نہ کسی حد تک ظلم کرتا ہی ہے۔ گویا اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ کوئی شخص بھی اس شرط پر پورا نہیں اتر سکتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں ‘ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے ‘ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة لقمان کی وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں شرک کو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہے : (وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ باللّٰہِط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۔ ) ۔ چناچہ یہاں پر (لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ ) کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان ایسا ہو جو شرک کی ہر آلودگی سے پاک ہو۔ لیکن شرک کا پہچاننا آسان نہیں ‘ یہ طرح طرح کے بھیس بدلتا رہتا ہے۔ شرک کیا ہے اور شرک کی قسمیں کون کون سی ہیں اور یہ زمانے اور حالات کے مطابق کیسے کیسے بھیس بدلتا رہتا ہے ‘ یہ سب کچھ جاننا ایک مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے ‘ تاکہ جس بھیس اور شکل میں بھی یہ نمودار ہو اسے پہچانا جاسکے۔ بقول شاعر : ؂- بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش - من انداز قدت را می شناسم - (تم چاہے کسی بھی رنگ کا لباس پہن کر آجاؤ ‘ میں تمہیں تمہارے قد سے پہچان لیتا ہوں۔ ) - حقیقت و اقسام شرک کے موضوع پر میری چھ گھنٹوں پر مشتمل طویل تقاریر آڈیو ‘ ویڈیو کے علاوہ کتابی شکل میں بھی موجود ہیں ‘ ان سے استفادہ کرنا ‘ ان شاء اللہ ‘ بہت مفید ہوگا۔- (اُولٰٓءِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ ) ۔- امن اور ایمان اسلام اور سلامتی کا لفظی اعتبار سے آپس میں بڑا گہرا ربط ہے۔ یہ ربط اس دعا میں بہت نمایاں ہوجاتا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نیا چاند دیکھنے پر مانگا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِا لْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ ) اے اللہ ( یہ مہینہ جو شروع ہو رہا ہے اس نئے چاند کے ساتھ ) اسے ہم پر طلوع فر ما امن اور ایمان ‘ سلامتی اور اسلام کے ساتھ۔۔ قرآن اور امن عالم کے نام سے میرا ایک چھوٹا سا کتابچہ اس موضوع پر بڑی مفید معلومات کا حامل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :55 یہ پوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ وہ قوم اللہ فاطر السّمٰوات و الارض کی ہستی کی منکر نہ تھی بلکہ اس کا اصلی جرم اللہ کے ساتھ دوسروں کو خدائی صفات اور خداوندانہ حقوق میں شریک قرار دینا تھا ۔ اول تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خود ہی فرما رہے ہیں کہ تم اللہ کے ساتھ دوسری چیزوں کو شریک کرتے ہو ۔ دوسرے جس طرح آپ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ کا ذکر فرماتے ہیں ، یہ انداز بیان صرف انہی لوگوں کے مقابلہ میں اختیار کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے نفس وجود سے منکر نہ ہوں ۔ لہٰذا ان مفسرین کی رائے درست نہیں ہے جنھوں نے اس مقام پر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ میں دوسرے مقامات پر قرآن کے بیانات کی تفسیر اس مفروضہ پر کی ہے کہ قوم ابراہیم علیہ السلام اللہ کی منکر یا اس سے ناواقف تھی اور صرف اپنے معبودوں ہی کو خدائی کا بالکلیہ مالک سمجھتی تھی ۔ آخری آیت میں یہ جو فقرہ ہے کہ ”جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا“ ، اس میں لفظ ظلم سے بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ شاید اس سے مراد معصیت ہے ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصریح فرمادی کہ دراصل یہاں ظلم سے مراد شرک ہے ۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کو مانیں اور اپنے اس ماننے کو کسی مشرکانہ عقیدہ و عمل سے آلودہ نہ کریں ، امن صرف انہی کے لیے ہے اور وہی راہ راست پر ہیں ۔ اس موقع پر یہ جان لینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ واقعہ جو حضرت ابرہیم علیہ السلام کی عظیم الشان پیغمبرانہ زندگی کا نقطہ آغاز ہے ، بائیبل میں کوئی جگہ نہیں پا سکا ہے ۔ البتہ تَلمُود میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ لیکن اس میں دو باتیں قرآن سے مختلف ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی جستجوئے حقیقت کو سورج سے شروع کر کے تاروں تک اور پھر خدا تک لے جاتی ہے ۔ دوسرے اس کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سورج کو ھٰذَا رَبِّیْ کہا تو ساتھ ہی اس کی پرستش بھی کر ڈالی اور اسی طرح چاند کو بھی انہوں نے ھٰذَا رَبِّیْ کہہ کر اس کی پرستش کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: ایک صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت میں لفظ ’’ ظلم‘‘ کی تشریح شرک سے فرمائی ہے، کیونکہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے۔