Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خلیل الرحمن کو بشارت اولاد اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ خلیل الرحمن کو اس نے ان کے بڑھاپے کے وقت بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسحق ہے اس وقت آپ بھی اولاد سے مایوس ہو چکے تھے اور آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ بھی مایوس ہو چکی تھیں جو فرشتے بشارت سنانے آتے ہیں وہ قوم لوط کی ہلاکت کیلئے جا رہے تھے ۔ ان سے بشارت سن کر مائی صاحبہ سخت متعجب ہو کر کہتی ہیں میں بڑھیا کھوسٹ ہو چکی میرے خاوند عمر سے اتر چکے ہمارے ہاں بچہ ہونا تعجب کی بات ہے ۔ فرشتوں نے جواب دیا اللہ کی قدرت میں ایسے تعجبات عام ہوتے ہیں ۔ اے نبی کے گھرانے والو تم پر رب کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں اللہ بڑی تعریفوں والا اور بڑی بزرگیوں والا ہے اتنا ہی نہیں کہ تمہارے ہاں بچہ ہو گا بلکہ وہ نبی زادہ خود بھی نبی ہو گا اور اس سے تمہاری نسل پھیلے گی اور باقی رہے گی ، قرآن کی اور آیت میں بشارت کے الفاظ میں نبیا کا لفظ بھی ہے پھر لطف یہ ہے کہ اولاد کی اولاد بھی تم دیکھ لو گے اسحاق کے گھر یعقوب پیدا ہوں گے اور تمہیں خوشی پر خوشی ہو گی اور پھر پوتے کا نام یعقوب رکھنا جو عقب سے مشتق ہے خوشخبری ہے اس امر کی کہ یہ نسل جاری رہے گی ۔ فی الواقع خلیل اللہ علیہ السلام اس بشارت کے قابل بھی تھے قوم کو چھوڑ ان سے منہ موڑا شہر کو چھوڑا ہجرت کی ، اللہ نے دنیا میں بھی انعام دیئے ، اتنی نسل پھیلائی جو آج تک دنیا میں آباد ہے ۔ فرمان الہی ہے کہ جب ابراہیم نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑا تو ہم نے انہیں اسحاق و یعقوب بخشا اور دونوں کو نبی بنایا ، یہاں فرمایا ان سب کو ہم نے ہدایت دی تھی اور ان کی بھی نیک اولاد دنیا میں باقی رہی ، طوفان نوح میں کفار سب غرق ہو گئے پھر حضرت نوح کی نسل پھیلی انبیاء انہی کی نسل میں سے ہوتے رہے ، حضرت ابراہیم کے بعد تو نبوت انہی کے گھرانے میں رہی جیسے فرمان ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ) 29 ۔ العنکبوت:27 ) ہم نے ان ہی کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی اور آیت میں ہے آیت ( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید:26 ) یعنی ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر پھر ان ہی دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب کر دی اور آیت میں ہے یہ ہیں جن پر انعام الہی ہوا ۔ نبیوں میں سے آدم کو اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں لے لیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی اور پسند کر لیا تھا ان پر جب رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو روتے گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے پھر فرمایا ہم نے اس کی اولاد میں سے داؤد و سلیمان کو ہدایت کی ، اس میں اگر ضمیر کا مرجع نوح کو کیا جائے تو ٹھیک ہے اس لئے کہ ضمیر سے پہلے سب سے قریب نام یہی ہے ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ہے بھی یہ بالکل ظاہر جس میں کوئی اشکال نہیں ہاں اسے حضرت ابراہیم کی طرف لوٹانا بھی ہے تو اچھا اس لئے کہ کالم انہی کے بارے میں ہے قصہ انہی کا بیان ہو رہا ہے لیکن بعد کے ناموں میں سے لوط کا نام اولاد آدم میں ہونا ذرا مشکل ہے اس لئے کہ حضرت لوط خلیل اللہ کی اولاد میں نہیں بلکہ ان کے والد کا نام ماران ہے وہ آزر کے لڑکے تھے تو وہ آپ کے بھتیجے ہوئے ہاں اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ باعتبار غلبے کے انہیں بھی اولاد میں شامل کر لیا گیا جیسے کہ آیت ( اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ) 2 ۔ البقرۃ:133 ) میں حضرت اسمعیل کو جو اولاد یعقوب کے چچا تھا باپوں میں شمار کر لیا گیا ہے ، ہاں یہ بھی خیال رہے کہ حضرت عیسیٰ کو اولاد ابراہیم یا اولاد نوح میں گننا اس بنا پر ہے کہ لڑکیوں کی اولاد یعنی نواسے بھی اولاد میں داخل ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ، روایت میں ہے حجاج نے حضرت یحییٰ بن یعمر کے پاس آدمی بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو حسن حسین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں گنتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرآن سے ثابت ہے لیکن میں تو پورے قرآن میں کسی جگہ یہ نہیں پاتا ، آپ نے جواب دیا کیا تونے سورۃ انعام میں آیت ( وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ) 6 ۔ الانعام:84 ) نہیں پڑھا اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھا ہے کہا پھر دیکھو اس میں حضرت عیسیٰ کا نام ہے اور ان کا کوئی باپ تھا ہی نہیں تو معلوم ہوا کہ لڑکی کی اولاد بھی اولاد ہی ہے حجاج نے کہا بیشک آپ سچے ہیں اسی لئے مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ذریت کے لئے وصیت کرے یا وقف کرے یا ہبہ کرے تو لڑکیوں کی اولاد بھی اس میں داخل ہے ہاں اگر اس نے اپنے لڑکوں کو دیا ہے یا ان پر وقف کیا ہے تو اس کے اپنے صلبی لڑکے اور لڑکوں کے لڑکے اس میں شامل ہوں گے اس کی دلیل عربی شاعر کا یہ شعر سنئے ۔ بنو نا بنوا ابنا ئنا و بنا تنا بنو ھن ابناء الرجال الا جانب یعنی ہمارے لڑکوں کے لڑکے تو ہمارے لڑکے ہیں اور ہماری لڑکیوں کے لڑکے اجنبیوں کے لڑکے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لڑکے بھی ان میں داخل ہیں کیونکہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنمہا کی نسبت فرمایا میرا یہ لڑکا سید ہے اور ان شاء اللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ صلح کرا دے گا ، پس نواسے کو اپنا لڑکا کہنے سے لڑکیوں کی اولاد کا بھی اپنی اولاد میں داخل ہونا ثابت ہوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ مجاز ہے ، اس کے بعد فرمایا ان کے باپ دادے ان کی اولادیں ان کے بھائی الغرض اصول و فروع اور اہل طبقہ کا ذکر آ گیا کہ ہدایت اور پسندیدگی ان سب کو گھیرے ہوئے ہے ، یہ اللہ کی سچی اور سیدھی راہ پر لگا دیئے گئے ہیں ۔ یہ جو کچھ انہیں حاصل ہوا یہ اللہ کی مہربانی اس کی توفیق اور اس کی ہدایت سے ہے ۔ پھر شرک کا کامل برائی لوگوں کے ذہن میں آ جائے اس لئے فرمایا کہ اگر بالفرض نبیوں کا یہ گروہ بھی شرک کر بیٹھے تو ان کی بھی تمام تر نیکیاں ضائع ہو جائیں جیسے ارشاد ہے آیت ( وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 39 ۔ الزمر:65 ) تجھ پر اور تجھ سے پہلے کے ایک ایک نبی پر یہ وحی بھیج دی گئی کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرے اعمال اکارت ہو جائیں گے یہ یاد رہے کہ یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا ہی ضروری نہیں جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ ) 43 ۔ الزخرف:81 ) یعنی اگر اللہ کی اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے ماننے والا بن جاؤں اور جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:17 ) یعنی اگر کھیل تماشا بنانا ہی چاہتے ہو تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اور فرمان ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ) 39 ۔ الزمر:4 ) اگر اللہ تعالیٰ اولاد کا ہی ارادہ کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اور وہ یکتا اور غالب ہے ، پھر فرمایا بندوں پر رحمت نازل فرمانے کیلئے ہم نے انہیں کتاب حکمت اور نبوت عطا فرمائی پس اگر یہ لوگ یعنی اہل مکہ اس کے ساتھ یعنی نبوت کے ساتھ یا کتاب و حکمت و نبوت کے ساتھ کفر کریں یہ اگر ان نعمتوں کا انکار کریں خواہ قریش ہوں خواہ اہل کتاب ہوں خواہ کوئی اور عربی یا عجمی ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ ہم نے ایک قوم ایسی بھی تیار کر رکھی ہے جو اس کے ساتھ کبھی کفر نہ کرے گی ۔ یعنی مہاجرین انصار اور ان کی تابعداری کرنے والے ان کے بعد آنے والے یہ لوگ نہ کسی امر کا انکار کریں گے نہ تحریف یا ردوبدل کریں گے بلکہ ایمان کامل لے آئیں گے ہر ہر حرف کو مانیں گے محکم متشابہ سب کا اقرار کریں گے سب پر عقیدہ رکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان ہی باایمان لوگوں میں کر دے ، پھر اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے جن انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا اور جو مجمل طور پر ان کے بڑوں چھوٹوں اور لواحقین میں سے مذکور ہوئے یہی سب اہل ہدایت ہیں تو اپنے نبی آخر الزمان ہی کی اقتدا اور اتباع کرو اور جب یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کی امت بطور اولی اس میں داخل ہے صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حدیث لائے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے آپ کے شاگرد رشید حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ نے سوال کیا کہ کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہے پھر آپ نے یہ یہ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تابعداری کا حکم ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ان میں اعلان کر دو کہ یہ میں تو قرآن پہنچانے کا کوئی معاوضہ یا بدلہ یا اجرت تم سے نہیں چاہتا ۔ یہ تو صرف دنیا کیلئے نصیحت ہے کہ وہ اندھے پن کو چھوڑ کر آنکھوں کا نور حاصل کرلیں اور برائی سے کٹ کر بھلائی پا لیں اور کفر سے نکل کر ایمان میں آ جائیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورة ہود آیت 72، 73 میں ہے پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (علیہ السلام) ہوگا، جس کے معنی یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے یہ عقب (پیچھے سے) مشتق ہے۔ 84۔ 2 ذریتہ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو اور بعض نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لیے کہ ساری گفتگو انہی کے ضمن میں ہو رہی ہے لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (علیہ السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (علیہ السلام) میں سے نہیں ہیں وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) لوط (علیہ السلام) کے باپ نہیں چچا ہیں لیکن بطور تغلیب انھیں بھی ذریت ابراہیم (علیہ السلام) میں شمار کرلیا گیا ہے اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے جہاں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اولاد یعقوب (علیہ السلام) کے آباء میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے دیکھیے سورة بقرہ آیت 133

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كُلًّا هَدَيْنَا ۚ: یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کی راہ پر لگایا اور نبوت عطا کی۔ دیکھیے سورة مریم (٤٩) ۔- وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ “ ْ ذُرِّيَّتِهٖ میں موجود ضمیر سے مراد نوح (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ مذکور نبیوں میں سب سے قریب نوح (علیہ السلام) ہی ہیں، امام ابن جریر (رض) نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ یہ ضمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور کلام کے سیاق کے پیش نظر اس کو ترجیح دی جاسکتی ہے، مگر اس کے تحت مذکور انبیاء میں سے لوط (علیہ السلام) کے ذکر سے اشکال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے نہیں تھے، بلکہ ان کے بھتیجے تھے، مگر ہوسکتا ہے کہ بھتیجے کو بھی اولاد میں شمار کرلیا ہو، جیسا کہ سورة بقرہ (١٣٣) میں اسماعیل (علیہ السلام) کو یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کے آباء میں ذکر کیا ہے۔ (ابن کثیر) - عیسیٰ (علیہ السلام) کو نوح (علیہ السلام) اور دوسرے قول کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے شمار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بیٹیوں کی اولاد بھی آدمی کی اولاد میں سے شمار ہوتی ہے، کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت صرف ماں کی طرف سے ہے، ان کا باپ نہیں تھا۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد کی چھ آیتوں میں سترہ انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست شمار کی گئی ہے جن میں سے بعض حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کے آباء و اجداد ہیں، اور اکثر ان کی اولاد ہیں، اور بعض ان کے بھائی بھتیجے ہیں، ان آیتوں میں ایک طرف تو ان حضرات کا ہدایت پر ہونا، صالحین ہونا، صراط مستقیم پر ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ اور یہ بتلایا گیا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے دین کی خدمت کے لئے منتخب اور قبول فرما لیا ہے، اور دوسری طرف یہ جتلایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں اپنے باپ اور برادری اور وطن کو چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آخرت کے درجات عالیہ اور دائمی اور بےمثال راحتوں سے پہلے دنیا میں بھی ان کو اپنی برادری سے بہتر برادری اور وطن سے بہتر وطن عطا فرمایا، اور یہ شرف عظیم عطا فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد قیامت تک جتنے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے گئے وہ سب ان کی اولاد میں ہیں، ایک شاخ جو حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے چلی اس میں سید الاولین و الآخرین نبی الانبیاء خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے، اور یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریّت ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرچہ عزت و ذلت اور نجات و عذاب کا اصل مدار انسان کے اپنے ذاتی اعمال پر ہے، لیکن آباء و اجداد میں کسی نبی، ولی کا ہونا یا اولاد میں علماء صلحاء کا ہونا بھی ایک بڑی نعمت ہے، اور اس سے بھی انسان کو فائدہ پہنچتا ہے۔- ان سترہ انبیاء (علیہم السلام) میں جن کی فہرست آیات مذکورہ میں دی گئی ہے ایک حضرت نوح (علیہ السلام) تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں، باقی سب کو ان کی ذریت فرمایا ہے۔ (آیت) ومن ذریتہ داود و سلیمٰن الآیة، اس میں ایک اشکال تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دختری اولاد میں سے ہیں، یعنی پوتے نہیں بلکہ نواسے ہیں، تو ان کو ذریت کہنا کیسے صحیح ہوگا ؟ اس کا جواب عامہ علماء و فقہاء نے یہ دیا ہے کہ لفظ ذریت پوتوں اور نواسوں دونوں کو شامل ہے، اور اسی سے استدلال کیا ہے کہ حضرات حسنین (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذریت میں داخل ہیں۔- دوسرا اشکال حضرت لوط (علیہ السلام) کے متعلق ہے کہ وہ اولاد میں نہیں بلکہ بھتیجے ہیں، لیکن اس کا جواب بھی واضح ہے کہ عرب میں چچا کو باپ اور بھتیجے کو بیٹا کہنا بہت ہی متعارف ہے۔- آیات مذکورہ میں حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام پر انعامات الٓہیہ بیان فرما کر ایک طرف تو یہ قانون قدرت بتلا دیا گیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی محبوب چیزوں کو قربان کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں بھی اس سے بہتر چیزیں عطا فرما دیتے ہیں، دوسری طرف مشرکین مکہ کو یہ حالات سنا کر اس طرف ہدایت کرنا مقصود ہے کہ تم لوگ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات نہیں مانتے تو دیکھو جن کو تم بھی سب بڑا مانتے ہو یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کا پورا خاندان وہ سب یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ قابل عبادت صرف ایک ذات حق تعالیٰ ہے، اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک کرنا یا اس کی مخصوص صفات کا ساجھی بتلانا کفر و گمراہی ہے، تم لوگ خود اپنے مسلمات کی رو سے بھی ملزم ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝ ٠ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۝ ٠ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝ ٠ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٨٤ۙ- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٤۔ ٨٥۔ ٨٦) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم نے لڑکا اور پوتا دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) واسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کو نبوت واسلام کے ساتھ اعزاز عطا کیا اور ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے نوح (علیہ السلام) کو بھی نبوت واسلام کے ذریعے اعزاز عطا کیا اور ان کی اولاد میں سے بھی یا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بھی اخیر تک اور داؤد (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) سب کو ہم نے نبوت واسلام عطا کیا، اسی طرح قول وفعل کے ساتھ ہم محسنین یا یہ کہ موحدین کو بدلا دیتے ہیں اور زکریا (علیہ السلام) یحییٰ (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) الیاس (علیہ السلام) سب ہی کو نبوت واسلام کی دولت عطا کی اور یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے اور سب ہی رسول تھے۔- اور ان انبیاء کرام میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام جہان والوں پر خواہ مسلمان ہوں یا کافر، نبوت واسلام کے ذریعے فضیلت عطا کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَط کُلاًّ ہَدَیْنَاج وَنُوْحًا ہَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہٰرُوْنَط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ) - یعنی یہ لوگ ایمان کی اس بلند ترین منزل پر فائز تھے جس کے بارے میں ہم سورة المائدۃ میں پڑھ آئے ہیں : (ثُمَّ اتَّقَوْا وَاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani