85۔ 1 عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر حضرت نوح (علیہ السلام) یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں اس لئے کہا گیا (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شامل ہوتی ہے۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسن (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا ان ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین (صحیح بخاری) (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) ۔
[٨٣] شرک کو ختم کرنا سب سے بڑا جہاد ہے :۔ قرآن میں اکثر مقامات پر جب انبیائے کرام کا ذکر ہوا تو اس میں ترتیب زبانی بھی پائی جاتی ہے لیکن یہاں غالباً اس صفت کو زیادہ تر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان میں سے کس نے شرک کے خلاف سب سے زیادہ جہاد کیا تھا یا بعض دوسری صفات کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو ان میں سے سرفہرست سیدنا ابراہیم کا ہی ذکر کیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسی صفت کی بنا پر (اُمَّۃً قَانِۃً ) فرمایا اور اپنا دوست بنایا۔ پھر سیدنا ابراہیم پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بیٹے اسحاق اور پھر ان کے بیٹے یعقوب کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آئندہ کے لیے نبوت انہیں کی اولاد سے مختص کردی، بعد ازاں سیدنا نوح کا ذکر فرمایا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ شرک ہی کے خلاف جہاد میں گزارا تھا۔ حالانکہ ان کا زمانہ سیدنا ابراہیم سے بہت پہلے کا ہے۔ ان پر انعام یہ ہوا کہ ان کے بعد نبوت آپ کی اولاد میں مختص ہوگئی تھی پھر اس کے بعد سیدنا داؤد اور ان کے بیٹے سیدنا سلیمان کا ذکر فرمایا۔ جنہیں نبوت کے علاوہ حکومت بھی عطا ہوئی تھی اور انہوں نے بزور شمشیر شرک کے زور کو توڑا تھا۔ پھر سیدنا ایوب کا ذکر کیا جنہوں نے اس حق و باطل کی کشمکش میں کمال صبر کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ( ۭاِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا 44) 38 ۔ ص :44) کا خطاب دیا اور سیدنا یوسف کے صبر کی تعریف رسول اللہ نے بھی فرمائی آپ سات سال بےقصور قید میں پڑے رہے پھر جب شاہ مصر کی طرف سے بلاوا آیا تو آپ نے قاصد سے کہا کہ پہلے بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں اتنی مدت قید میں پڑا ہوتا تو قاصد سے کچھ کہے بغیر ہی اس کے ساتھ ہو لیتا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب لقد کان فی یوسف۔۔ ) اللہ نے انہیں بھی حکومت عطا فرمائی تھی اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ سب سے مکرم کون ہے ؟ آپ نے فرمایا یوسف جو خود بھی نبی تھے۔ ان کا باپ بھی نبی، دادا بھی نبی اور پڑدادا (سیدنا ابراہیم) بھی نبی تھے۔ اس کے بعد موسیٰ اور ہارون کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ کلیم اللہ تھے اور انہی کی درخواست پر سیدنا ہارون کو نبوت ملی تھی تاکہ صدیوں سے بگڑے ہوئے بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کے لیے ان کا ہاتھ بٹائیں۔ انہوں نے بھی ساری زندگی بنی اسرائیل کے ہاتھوں تکلیفیں ہی اٹھائیں۔ پھر ان کے بعد سیدنا زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے دو کو تو بنی اسرائیل نے دعوت حق دینے کی پاداش میں قتل کروا دیا تھا اور تیسرے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر لٹکوانے کی کوشش کی۔ پھر سیدنا الیاس، اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط کا ذکر فرمایا پھر سب انبیاء کے متعلق ایک یکساں تبصرہ فرمایا۔ یہ سب لوگ صالح تھے اور اپنے اپنے وقت میں تمام اقوام عالم اور افراد سے افضل تھے اس لیے کہ انہوں نے شرک کے خلاف جہاد کیا اور توحید کا بول بالا کرنے کے لیے اور دعوت حق کی خاطر تکلیفیں اٹھائی تھیں۔
وَزَكَرِيَّا وَيَحْيٰى وَعِيْسٰي وَاِلْيَاسَ ٠ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ٨٥ۙ- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔