Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اس کی حیرت ناک قدرت دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے ۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے جیسے سورۃ یٰسین میں ارشاد ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ ) 36 ۔ یس:33 ) مخرج کا عطف فالق پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے ، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے ۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے ۔ وغیرہ ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھر جاتے ہو؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو؟ وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے ۔ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے ، جیسے فرمان ہے وہی دن رات چڑھاتا ہے ۔ الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بے انتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے ۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالضُّحٰى Ǻ۝ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى Ą۝ۙ ) اور جیسے اس آیت میں فرمایا آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى Ą۝ۙ ) 92 ۔ اللیل:1-2 ) اور آیت میں ہے ( وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا Ǽ۝۽ وَاللَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىهَا Ć۝۽ ) 91 ۔ والشمس:3-4 ) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے حضرت صہیب رومی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لئے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند حضرت صہیب کے لئے وہ بھی آرام کی نہیں اس لئے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں ۔ جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آ جاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ) 10 ۔ یونس:5 ) اسی اللہ نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے ان کی منزلیں مقرر کر دی ہیں اور آیت میں ہے ( لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ) 36 ۔ یس:40 ) نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات دن پر سبق لے سکتی ہے ہر ایک اپنے فلک میں تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ما تحت ہیں ۔ یہاں فرمایا یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں ۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں ۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے جیسے اس آیت میں اور ( واٰیتہ لھم اللیل ) میں اور سورۃ حم سجدہ کی شروع کی آیت ( وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ) 41 ۔ فصلت:12 ) میں ۔ پھر فرمایا ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لئے ہیں بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے، فرمایا :۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گھٹلی کو، جسے کاشتکار زمین کی طے میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے پانی بھی جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں، اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلو اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرماتا دیتا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کر سکتا ہو ؟ 95۔ 2 یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا پھیلتا ہے اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبو دار رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر یا سونگھ کر انسان فرحت و انبسات محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔ 95۔ 3 یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کردیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧۔ ١] نباتات کی روئیدگی میں اللہ کی قدرتیں :۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک اور قادر مطلق ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ ہر قسم کے غلوں کے دانوں یا بیج کو اور ہر قسم کے پھلوں کی گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے غلہ کے بیج یا پھل کی گٹھلی کو جب زمین میں دبا دیا جاتا ہے پھر جب اس زمین کو سیراب کیا جاتا ہے تو یہ بیج یا گٹھلی پھٹ کردو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور دو شاخیں نکلتی ہیں۔ ایک شاخ تو زمین کے اندر جڑ کی صورت میں نیچے کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور دوسری شاخ کونپل بن کر زمین کو پھاڑ کر اس سے باہر نکل آتی ہے پھر اسی سے برگ و بار اور پھل پھول نکلنے شروع ہوجاتے ہیں اور اس بات کے باوجود کہ تخم ایک ہوتا ہے۔ زمین ایک، پانی ایک اور طبیعت ایک مگر زمین سے باہر نکلنے والی شاخ کے اثرات زمین کے اندر جانے والی شاخ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور باہر نکلنے والی شاخ کے آثار بھی کئی طرح کے ہیں۔ پتوں کی شکل اور ہے پھولوں کی اور پھلوں کی اور اور ہر بیج یا گٹھلی اسی پودے کے برگ و بار پیدا کرتا ہے جس کا وہ بیج یا گٹھلی ہوتی ہے یہ سب باتیں اللہ کی قدرت کی کمال کاریگری پر دلالت کرتی ہیں۔- [٩٨] آخروی زندگی پر دلیل :۔ یہ اللہ کے خالق ومالک اور قادر مطلق ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ وہ زندہ چیز سے مردہ اور مردہ چیز سے زندہ چیز پیدا کرتا ہے کوئی انسان یا کوئی دوسری مخلوق یہ دونوں کام نہیں کرسکتی۔ پھر جب صورت حال یہ ہے تو دوسرے اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک کیسے بن جاتے ہیں۔ پھر مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کرنے کی بھی کئی صورتیں ہیں مثلاً اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا جو بےجان چیز ہے پھر اس کی تمام ضروریات اسی مٹی یا زمین سے وابستہ کردیں۔ پھر یہ زندہ انسان مرنے کے بعد اسی مردہ مٹی میں چلا جاتا ہے۔ اسی حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے معاد پر استدلال فرمایا ہے مثلاً زمین سے پودے اور درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں زندگی کے آثار موجود ہوتے ہیں پھر یہی چیزیں زمین میں مل کر پھر مردہ بن جاتی ہیں۔ یا مثلاً مرغی سے انڈا پیدا ہوتا ہے پھر انڈا سے مرغی پیدا ہوتی ہے گویا زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا ہونے کی بیشمار مثالیں اس دنیا میں موجود ہیں اور یہ سب کام ایسے ہیں جو کسی انسان یا کسی دوسری ہستی کے بس کا روگ نہیں۔ اسی پر اخروی زندگی کو قیاس کیا جاسکتا ہے اور یہ سمجھنے میں کچھ دقت پیش نہیں آتی کہ انسان کے جسم کا مٹی میں مل کر مٹی بن جانے کے بعد اللہ اسے مٹی سے ہی دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى ۭ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس سے تعلق رکھنے والی کچھ چیزیں بیان کرنے کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور کمال قدرت و علم کا بیان شروع کیا جو اس سورت کا اصل موضوع ہے۔ - ” َالنَّوٰى ۭ“ یہ ” نَوَاۃٌ“ کی جمع ہے، اس لیے ترجمہ ” گٹھلیاں “ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ زمین کے اندر دانے کو پھاڑ کر لہلہاتا ہوا پودا اور گٹھلی کو پھاڑ کر کھجور کا ہرا بھرا درخت نکالتا ہے۔ اس کی کاری گری دیکھیے کہ مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، نطفے اور انڈے سے جان دار، دانے اور گٹھلی سے زندہ درخت اور کافر سے مسلمان کو پیدا کرتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے، جیسے حیوان اور پرندے سے نطفہ اور انڈا، پودوں اور درختوں سے دانے اور گٹھلیاں اور مسلمان سے کافر پیدا کرتا ہے۔ یہ ہے اللہ جو تمہاری عبادت کا حق دار ہے، پھر کیسی عجیب بات ہے کہ تم شیطان کے بہکاوے میں آکر اس کے غیر کی عبادت کرنے لگتے ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو (یعنی زمین میں دبانے کے بعد جو دانہ یا گٹھلی پھوٹتی ہے یہ اللہ ہی کا کام ہے) وہ جاندار (چیز) کو بےجان (چیز) سے نکال لاتا ہے (جیسے نطفہ سے آدمی پیدا ہوتا ہے) اور وہ بےجان (چیز) کو جاندار (چیز) سے نکالنے والا ہے (جیسے آدمی کے بدن سے نطفہ ظاہر ہوتا ہے) اللہ یہ ہے (جس کی ایسی قدرت ہے) سو تم (اس کی عبادت چھوڑ کر) کہاں ( غیر اللہ کی عبادت کی طرف) الٹے چلے جا رہے ہو وہ (اللہ تعالیٰ ) صبح (صادق) کا (رات میں سے) نکالنے والا ہے (یعنی رات ختم ہوجاتی ہے اور صبح صادق ظاہر ہوتی ہے) اور اس نے رات کو راحت کی چیز بنائی ہے (کہ سب تھکے تھکائے سو کر آرام پاتے ہیں) اور سورج اور چاند (کی رفتار) کو حساب سے رکھا ہے، (یعنی ان کی رفتار منضبط ہے جس سے اوقات کے انضباط میں سہولت ہو) یہ (کہ حساب سے ان کی رفتار ہو) ٹھہرائی ہوئی بات ہے ایسی ذات کی جو کہ قادر (مطلق) ہے (کہ اس طرح حرکت پیدا کرنے پر اس کو قدرت ہے اور) بڑے علم والا ہے (کہ اس رفتار کی مصلحتیں اور حکمتیں جانتا تھا اس لئے اس خاص طرح پر ٹھہرا دیا) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے (فائدہ کے) لئے ستاروں کو پیدا کیا (اور وہ فائدہ یہ ہے) تاکہ تم ان کے ذریعہ سے (رات کے) اندھیروں میں خشکی میں بھی اور دریا میں بھی راستہ معلوم کرسکو، بیشک ہم نے (یہ) دلائل (توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں (اور گو پہنچیں گے سب کو مگر نافع) ان (ہی) لوگوں کیلئے (ہوں گے) جو (بھلے برے کی کچھ) خبر رکھتے ہیں (کیونکہ غور ایسے ہی لوگ کیا کرتے ہیں) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تم (سب) کو (اصل میں) ایک شخص سے (کہ آدم (علیہ السلام) ہیں) پیدا کیا پھر (آگے تو توالد و تناسل کا اس طرح سلسلہ جاری چلا آرہا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کے لئے مرتبہ مادہ میں) ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے، (یعنی ماں کا رحم) اور ایک جگہ چندے رہنے کی (یعنی باپ کی پشت لقولہ تعالیٰ (آیت) (من بین الصلب) بیشک ہم نے (یہ) دلائل (بھی توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں (عام طور پر مگر ان کا نفع بھی مثل سابق) ان (ہی) لوگوں کے لئے (ہوگا) جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں (یہ تفصیل ہوگئی يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ الخ کی) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیات میں کفار و مشرکین کی ہٹ دھرمی اور حقائق و نتائج سے غفلت کا تذکرہ تھا، اور ان سب خرابیوں کی اصل بنیاد خدا تعالیٰ اور اس کے بےمثال علم وقدرت سے بیخبر ی ہے، اس لئے مذکورہ چار آیات میں حق تعالیٰ نے غافل انسان کے اس روگ کا علاج اس طرح فرمایا ہے کہ اپنے وسیع علم اور عظیم قدرت کے چند نمونے اور انسان پر اپنے انعامات و احسانات کا ایک سلسلہ ذکر فرمایا، جن میں ادنیٰ غور کرنے سے ہر سلیم الفطرت انسان خالق کائنات کی عظمت اور بےمثال قدرت کا اور اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ عظیم الشان کارنامے ساری کائنات میں سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کی قدرت میں نہیں۔- پہلی آیت میں ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ یعنی اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو، اس میں قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ بتلایا گیا ہے کہ خشک دانہ اور خشک گٹھلی کو پھاڑ کر اس کے اندر سے ہرا بھرا درخت نکال دینا صرف اسی ذات پاک کا فعل ہے جو خالق کائنات ہے، انسان کے سعی و عمل کو اس میں کوئی دخل نہیں، کاشتکار کی ساری کوششوں کا حاصل اس سے زائد نہیں ہوتا کہ دانہ اور گٹھلی کے اندر سے جو نازک کونپل قدرت خداوندی نے نکالی ہے اس کی راہ سے موانع اور مضر چیزوں کو دور کردے، زمین کو ہل وغیرہ کے ذریعہ نرم کرنا پھر کھاد ڈالنا پانی دینا ان سب اعمال کا اثر زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ نکلنے والی نازک کونپل کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، باقی اصل کام کہ دانہ اور گٹھلی پھٹ کر اس میں سے درخت کی کونپل نکلے اور پھر اس میں رنگ برنگ کے عجیب و غریب پتے اور پھر ایسے پھل پھول لگیں کہ انسان کی عقل و دماغ اس کا ایک پتہ یا ایک پنکھڑی بنانے سے عاجز ہے، اس میں ظاہر ہے کہ کسی انسانی عمل کو دخل نہیں، اسی لئے قرآن میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : (آیت) افرایتم ما تحرثون، یعنی کیا تم ان دانوں کو نہیں دیکھتے جن کو تم مٹی میں ڈال دیتے ہو کہ ان کو تم نے بویا اور بنایا ہے یا ہم نے۔- دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی بےجان چیزوں میں سے جاندار چیزوں کو پیدا کرتا ہے، بےجان سے مراد نطفہ یا انڈا ہے، جن سے انسان اور حیوانات کی تخلیق ہوتی ہے، اسی طرح جانداروں سے بےجان چیزیں نکال دیتا ہے، یہاں بےجان چیزوں سے مراد وہی نطفہ اور انڈا ہے کہ وہ جاندار چیزوں سے نکلتا ہے۔ - اس کے بعد فرمایا : ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤ ْفَكُوْنَ ، یعنی یہ سب کام صرف ایک اللہ تعالیٰ کے لئے اور بنائے ہوئے ہیں، پھر یہ جانتے بوجھتے ہوئے تم کس طرف بہکے چلے جا رہے ہو کہ خود تراشیدہ بتوں کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا معبود کہنے لگے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى۝ ٠ۭ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ۝ ٠ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۝ ٩٥- فلق - الفَلْقُ : شقّ الشیء وإبانة بعضه عن بعض . يقال : فَلَقْتُهُ فَانْفَلَقَ. قال تعالی: فالِقُ الْإِصْباحِ- [ الأنعام 96] ، إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] ، فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، وقیل للمطمئنّ من الأرض بين ربوتین : فَلَقٌ ، وقوله : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق 1] ، أي : الصّبح، وقیل : الأنهار المذکورة في قوله : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل 61] ، وقیل : هو الکلمة التي علّم اللہ تعالیٰ موسیٰ فَفَلَقَ بها البحر، والْفِلْقُ : الْمَفْلُوقُ ، کالنّقض والنّكث للمنقوض والمنکوث، وقیل الْفِلْقُ : العجب، والْفَيْلَقُ كذلك، والْفَلِيقُ والْفَالِقُ : ما بين الجبلین وما بين السّنامین من ظهر البعیر .- ( ف ل ق ) الفلق ( ض ) کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے سے الگ کرنے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ فلقتہ میں اسے پھاڑ دیا فانفلق چناچہ وہ چیز پھٹ گئ۔ قرآن میں ہے : فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام 96] وہی رات کے اندھیرے سے ) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے ۔إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] بیشک خدا ہی والے اور کٹھلی کو پھاڑ کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا ہے ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑہ یوں ہوگیا یا بڑا پہاڑ ہے ۔ اور دوٹیلوں کے درمیان پست جگہ کو بھی فلق کہاجاتا ہ اور آیت کریمہ : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق 1] کہو کہ میں صبح پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔ میں فلق سے مراد صبح ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے نہریں مراد ہیں جن کا آیت کریمہ : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل 61] بھلا کس نے زمین کو قراسگاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں ۔ میں تذکرہ پایا جاتا ہے ۔ اور بعض نے وہ کلمہ مراد لیا ہے جس کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم دی تھی اور انہوں نے اس کی برکت سے سمندر پھاڑ دیا تھا اور فلق بمعنی مفلوق ہے جس طرح کہ نقض بمعنی منقوض اور نکث بمعنی منکوث آتا ہے بعض نے کہا ہے کہ فلق اور فیلق کے معنی تعجب کے ہیں اور دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ کو فیلق وفالق کہاجاتا ہے اور اونٹ کی دوکہاں کے درمیانی حصہ کو بھی فلیق وفالق کہتے ہیں ۔- حب ( دانه)- الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» - ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔- ( النوی)- ، جمع نواة، اسم جامد لبذر التمر ونحوه، والألف فيه منقلبة عن ياء أصله النوي بياء في آخره، جاءت متحرکة بعد فتح قلبت ألفا، وزنه فعل بفتحتین .- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] - ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٥) یعنی اللہ تعالیٰ ہر قسم کے دانوں کا پیدا کرنے والا ہے یا یہ کہ ان چیزوں کا خالق ہے جو دانوں اور گٹھلیوں میں ہے وہ گوشت کے لوتھڑے اور جانوروں کو نطفہ سے پیدا کرتا ہے پرندوں کو انڈے سے یا یہ کہ پھلوں اور بالوں کی گٹھلی اور دانہ سے جس کو ان تمام باتوں پر قدرت ہے وہی اللہ ہے اللہ ایسا نہیں کرتے تو پھر تم جھوٹ کیوں بولتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (اِنَّ اللّٰہَ فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط) ۔- عالم خلق کے اندر جو امور اور معاملات معمول کے مطابق وقوع پذیر ہو رہے ہیں ‘ یہاں ان کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی زمین میں دبائی گئی ‘ کچھ دیر کے بعد وہ گٹھلی پھٹی اور اس میں سے دو پتے نکلے۔ اسی طرح پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ بظاہر یہ سب کچھ خود بخود ہوتا نظر آرہا ہے ‘ مگر حقیقت میں یہ سب کچھ ان فطری قوانین کے تحت ہو رہا ہے جو اللہ نے اس دنیا میں فزیکل اور کیمیکل تبدیلیوں کے لیے وضع کردیے ہیں۔ اس لیے اس کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا ذکر شیخ عبدالقادر جیلانی (رض) نے اپنے وصایا میں کیا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے بچے اس حقیقت کو ہر وقت مستحضر رکھنا کہ لَا فاعلَ فی الحقیقۃ ولا مؤثِّر اِلّا اللّٰہ یعنی حقیقت میں فاعل اور مؤثر اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اشیاء میں جو تاثیر ہے وہ اسی کی عطا کردہ ہے ‘ اسی کے اذن سے ہے۔ تم کسی فعل کا ارادہ تو کرسکتے ہو لیکن فعل کا بالفعل انجام پذیر ہونا تمہارے اختیار میں نہیں ہے ‘ کیونکہ ہر فعل اللہ کے حکم سے انجام پذیرہو تا ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :62 یعنی زمین کی تہوں میں بیج کو پھاڑ کر اس سے درخت کی کونپل نکالنے والا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :63 زندہ کو مردہ سے نکالنے کا مطلب بے جان مادہ سے زندہ مخلوقات کو پیدا کرنا ہے ، اور مردہ کو زندہ سے خارج کرنے کا مطلب جاندار اجسام میں سے بے جان مادوں کو خارج کرنا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: بے جان سے جاندار کو نکالنے کی مثال یہ ہے کہ انڈے سے مرغی نکل آتی ہے اور جاندار سے بے جان کے نکلنے کی مثال جیسے مرغی سے انڈا 36: اس ترجمے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ بظاہر قرآن کریم میں ’’ لوگوں ‘‘ کا لفظ نظر نہیں آ رہا، لیکن در حقیقت یہ ذلکم میں جمع مخاطب کی ضمیر کا ترجمہ ہے۔ عربی کے قاعدے سے یہ جمع کی ضمیر مشار الیہ کی جمع نہیں ہوتی، بلکہ مخاطب کی جمع ہوتی ہے۔ دوسرے ’’ کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لیے جا رہا ہے‘‘ اس ترجمے میں ’’ توفکون‘‘ کے صیغہ مجہول کی رعایت کی گئی ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ ان کی خواہشات ہیں جو انہیں گمراہ کر رہی ہیں۔