قدرت کی نشانیاں فرماتا ہے کہ تم سب انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تن واحد یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے جیسے اور آیت میں ہے لوگو اپنے اس رب سے ڈور جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کی اسی سے اس کا جوڑ پیدا کیا پھر ان دونوں سے مرد و عورت خوب پھیلا دیئے مستقر سے مراد ماں کا پیٹ اور مستودع سے مراد باپ کی پیٹھ ہے اور قول ہے کہ جائے قرار دنیا ہے اور سپردگی کی جگہ موت کا وقت ہے ۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں ماں کا پیٹ ، زمین اور جب مرتا ہے سب جائے قرار کی تفسیر ہے ، حسن بصری فرماتے ہیں جو مر گیا اس کے عمل رک گئے یہی مراد مستقر سے ہے ۔ ابن مسعود کا فرمان ہے مستقر آخرت میں ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، واللہ اعلم ، سمجھداروں کے سامنے نشان ہائے قدرت بہت کچھ آ چکے ، اللہ کی بہت سی باتیں بیان ہو چکیں جو کافی وافی ہیں ۔ وہی اللہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا نہایت صحیح اندازے سے بڑا با برکت پانی جو بندوں کی زندگانی کا باعث بنا اور سارے جہاں پر اللہ کی رحمت بن کر برسا ، اسی سے تمام تر تروتازہ چیزیں اگیں جیسے فرمان ہے آیت ( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:30 ) پانی سے ہم نے ہر چیز کی زندگانی قائم کر دی ۔ پھر اس سے سبزہ یعنی کھیتی اور درخت اگتے ہیں جس میں سے دانے اور پھل نکلتے ہیں ، دانے بہت سارے ہوتے ہیں گتھے ہوئے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے اور کجھور کے خوشے جو زمین کی طرف جھکے پڑتے ہیں ۔ بعض درخت خرما چھوٹے ہوتے ہیں اور خوشے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ قنوان کو قبیلہ تمیم قنیان کہتا ہے اس کا مفرد قنو ہے ، جیسے صنوان صنو کی جمع ہے اور باغات انگوروں کے ۔ پس عرب کے نزدیک یہی دنوں میوے سب میوں سے اعلیٰ ہیں کھجور اور انگور اور فی الحقیقت ہیں بھی یہ اسی درجے کے ۔ قرآن کی دوسری آیت ( وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ) 16 ۔ النحل:67 ) میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر فرما کر اپنا احسان بیان فرمایا ہے اس میں جو شراب بنانے کا ذکر ہے اس پر بعض حضرات کہتے ہیں کہ حرمت شراب کے نازل ہونے سے پہلے کی یہ آیت ہے اور آیت میں بھی باغ کے ذکر میں فرمایا کہ ہم نے اس میں کھجور و انگور کے درخت پیدا کئے تھے ۔ زیتون بھی ہیں انار بھی ہیں آپس میں ملتے جلتے پھل الگ الگ ، شکل صورت مزہ حلاوت فوائد و غیرہ ہر ایک کے جدا گانہ ، ان درختوں میں پھلوں کا آنا اور ان کا پکنا ملاحظہ کر اور اللہ کی ان قدرتوں کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرو کہ لکڑی میں میوہ نکالتا ہے ۔ عدم وجود میں لاتا ہے ۔ سوکھے کو گیلا کرتا ہے ۔ مٹھاس لذت خوشبو سب کچھ پیدا کرتا ہے رنگ روپ شکل صورت دیتا ہے فوائد رکھتا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ پانی ایک زمین ایک کھیتیاں باغات ملے جلے لیکن ہم جسے چاہیں جب چاہیں بنا دیں کھٹاس مٹھاس کمی زیادتی سب ہمارے قبضہ میں ہے یہ سب خالق کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے ایماندار اپنا عقیدہ مضبوط کرتے ہیں ۔
98۔ 1 اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَر، سے رحم مادر اور مُسْتِوْدَع، سے صلب پدر مراد ہے (فتح القدیر)
[١٠١] وجود باری تعالیٰ پر دلائل :۔ سیدنا آدم کو مٹی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح سے پھونکا تو اس میں عقل، قوت تمیز اور ارادہ و اختیار پیدا کیا جو دوسرے جانداروں اور جانوروں میں نہیں پایا جاتا۔ پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا پھر تناسل و توالد کے ذریعہ لاتعداد مرد اور عورت پیدا کردیئے یہ بھی اللہ ہی کا کارنامہ ہے۔ کوئی انسان یا کوئی دوسری ہستی ایک آدمی بھی نہیں بنا سکتی پھر ان مردوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار اور ایک سپردگی کا مقام ہے۔ اکثر علماء کے خیال کے مطابق جائے قرار سے مراد روئے زمین پر اس کی زندگی کی مدت ہے اور مستودع سے مراد اس کی قبر ہے یا وہ جگہ جہاں سے مرنے کے بعد ٹھکانے لگایا جاتا ہے یہ دونوں باتیں اٹل حقیقت ہونے کے باوجود کسی کو معلوم نہیں کہ وہ روئے زمین پر کتنا عرصہ رہے گا اور کہاں اور کب مرے گا اور کہاں دفن ہوگا ؟ بعض علماء کے نزدیک ان سے مراد زندگی اور موت کے چاروں مراحل ہیں ایک مرحلہ اگر مستقر ہے تو دوسرا مرحلہ اس کا مستودع ہے علیٰ ہذا القیاس۔
وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۔۔ : یعنی اسی نے تمہیں ایک جان آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا، پھر اس کے لیے ٹھہرنے کی جگہ بنائی اور سونپے جانے کی جگہ بنائی۔ ٹھہرنے کی جگہ ماں کا رحم اور سونپے جانے کی جگہ باپ کی پشت۔ مفسرین کی ایک جماعت سے اس کے برعکس بھی منقول ہے، یعنی ” فَمُسْتَقَرٌّ“ باپ کی پشت اور ” َّمُسْـتَوْدَعٌ ۭ“ ماں کا رحم۔ بعض نے ان سے دنیا اور آخرت یا قبر مراد لی ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اول ماں کے پیٹ میں سپرد ہوتا ہے، تاکہ آہستہ آہستہ دنیا میں رہنے کی صلاحیت حاصل کرلے، پھر دنیا میں آکر ٹھہرتا ہے، پھر سپرد ہوگا، قبر میں تاکہ آہستہ آہستہ آخرت کا اثر قبول کرسکے، پھر جا ٹھہرے گا جنت یا دوزخ میں۔ (موضح) - لِقَوْمٍ يَّفْقَهُوْنَ : پہلے آفاقی دلائل بیان فرمائے، جو انسان کی ذات سے باہر کی دنیا ہے، دوسری آیت میں انفسی دلائل کی طرف اشارہ ہے، جو انسان کی ذات میں موجود ہیں۔ دلائل آفاقی سے دلائل انفسی کا سمجھنا ذرا زیادہ غور کا محتاج ہے، اس لیے یہاں سمجھ کا لفظ فرمایا اور پہلے کے متعلق علم کا۔ (واللہ اعلم)
چوتھی آیت میں ارشاد ہے وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ مستقر قرار سے بنا ہے اس جگہ کو مستقر کہتے ہیں جو کسی چیز کے لئے جائے قرار ہو، اور مستودع، ودیعت سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کسی چیز کو کسی کے پاس عارضی طور سے چند روز رکھ دینے کے، تو مستودع اس جگہ کو کہا جائے گا جہاں کوئی چیز عارضی طور پر چند روز رکھی جائے۔- یعنی اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات پاک ہے جس نے انسان کو ایک جان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا، پھر اس کے لئے ایک مستقر یعنی مدت تک رہنے کی جگہ بنادی، اور ایک مستودع یعنی چند روزہ رہنے کی جگہ۔- قرآن کریم کے الفاظ تو یہی ہیں، ان کی تعبیر و تفسیر میں بہت سے احتمال ہیں، اسی لئے علماء تفسیر کے اقوال اس میں مختلف ہیں، کسی نے فرمایا مستودع ماں کا پیٹ، اور مستقر یہ دنیا ہے، کسی نے فرمایا کہ مستودع قبر ہے اور مستقر دار آخرت، اور بھی متعدد اقوال ہیں، اور الفاظ قرآنی میں سب کی گنجائش ہے، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اس کو ترجیح دی کہ مستقر دا رالآخرت کا مقام جنت یا دوزخ ہے، اور انسان کی ابتداء آفرینش سے آخرت تک جتنے مراحل اور درجات ہیں وہ سب مستودع یعنی چند روزہ قیام کی جگہ ہیں، خواہ شکم مادر ہو یا زمین پر رہنے سہنے کی جگہ یا قبر و برزخ، قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی اس کی ترجیح معلوم ہوتی ہے، جس میں فرمایا : (آیت) لترکبن طبقا عن طبق، یعنی تم ایک درجہ سے دوسرے درجہ کی طرف ہمیشہ چڑھتے رہو گے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دار آخرت سے پہلے پہلے انسان اپنی پوری زندگی میں ایک مسافر کی حیثیت رکھتا ہے، جو ظاہری سکون وقرار کے وقت بھی درحقیقت سفر عمر کے منازل طے کر رہا ہے - مسافر ہوں کہاں جانا ہے، ناواقف ہوں منزل سے - اول سے پھرتے پھرتے گورنگ پہنچا ہوں مشکل سے - اس آخری آیت میں ظاہری ٹیپ ٹاپ اور مخلوقات کی نیر نگیوں میں مشغول ہو کر اپنے اصلی مستقر اور خدا وآخرت سے غافل ہوجانے والے کی آنکھیں کھول دی گئی ہیں، تاکہ وہ حقیقت کو پہچانے اور دنیا کے دھوکہ و فریب سے نجات پائے، مولانا جامی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا کہ - ہمہ اندر زمین ترازین است - کہ تو طفلی و خانہ رنگین است
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ ٠ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّفْقَہُوْنَ ٩٨- نشأ - النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى.- ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- اسْتَقَرَّ- فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ.- استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے - فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
(٩٨) اور اسی ذات نے تمہیں ایک شخص آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا، اس کے بعد ماؤں کے رحموں میں زیادہ دیر تک اور باپ کی پشت میں کم وقفہ تک یا اس کے برعکس ٹھہرایا، ہم ان دلائل کو کھول کھول کر ان لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جو حکم خداوندی اور توحید خداوندی کو سمجھتے ہیں۔
آیت ٩٨ (وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) - ظاہر ہے کہ تمام نوع انسانی ایک ہی جان سے وجود میں آئی ہے۔ اس سے حضرت آدم ( علیہ السلام) بھی مراد ہوسکتے ہیں اور اگر نظریہ ارتقاء میں کوئی حقیقت تسلیم کرلی جائے تو پھر تحقیق کا یہ سفر امیبا ( ) تک چلا جاتا ہے کہ اس ایک جان سے مختلف ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے انسان بنا۔ امیبا میں کوئی یعنی تذکیر و تانیث کا معاملہ نہیں تھا۔ دوران ارتقاء رفتہ رفتہ ظاہر ہوا تو (خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) (النساء : ١) والا مرحلہ آیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی کتاب قرآن اور علم جدید میں بہت عمدہ تحقیق کی ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے بھی اس کی تصویب کی ہے۔ جن حضرات کو دلچسپی ہو کہ ایک جان سے تمام بنی نوع انسان کو پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے ‘ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔- (فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْتَوْدَعٌ ط) - مستقر اور مستودع کے بارے میں مفسرین کے تین اقوال ہیں :- پہلا قول یہ ہے کہ مستقر یہ دنیا ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں اور مستودع سے مراد رحم مادر ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع قبر ہے۔ قبر میں انسان کو عارضی طور پر امانتاً رکھا جاتا ہے۔ یہ عالم برزخ ہے اور یہاں سے انسان نے بالآخر اپنے مستقر (آخرت ) کی طرف جانا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع دنیا ہے۔ دنیا میں جو وقت ہم گزار رہے ہیں یہ آخرت کے مقابلے میں بہت ہی عارضی ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :65 یعنی نسل انسانی کی ابتداء ایک متنفس سے کی ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :66 یعنی نوع انسانی کی تخلیق اور اس کے اندر مرد و زن کی تفریق اور تناسل کے ذریعہ سے اس کی افزائش ، اور رحم مادر میں انسانی بچہ کا نطفہ قرار پا جانے کے بعد سے زمین میں اس کے سونپے جانے تک اس کی زندگی کے مختلف اطوار پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے شمار کھلی کھلی نشانیاں آدمی کے سامنے آئیں گی جن سے وہ اس حقیقت کو پہچان سکتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے ۔ مگر ان نشانیوں سے یہ معرفت حاصل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو سمجھ بوجھ سے کام لیں ۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ، جو صرف اپنی خواہشات سے اور انہیں پورا کرنے کی تدبیروں ہی سے غرض رکھتے ہیں ، ان نشانیوں میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے ۔
37: ’’مستقر‘‘ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص باقاعدہ اپنا ٹھکانا بنالے۔ اس کے برعکس امانت رکھنے کی جگہ پر قیام عارضی قسم کا ہوتا ہے، اس لئے وہاں رہائش کا باقاعدہ انتظام نہیں کیا جاتا۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے کی گئی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ مستقر سے مراد دُنیا ہے جہاں اِنسان باقاعدہ اپنی رہائش کا ٹھکانا بنالیتا ہے، اور امانت رکھنے کی جگہ سے مراد قبر ہے جس میں اِنسان کو مرنے کے بعد عارضی طور سے رکھا جاتا ہے، پھر وہاں سے اسے آخرت میں جنت یا جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ البتہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے ان لفظوں کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ مستقر سے مراد ماں کا پیٹ ہے جس میں بچہ مہینوں ٹھہرارہتا ہے اور امانت رکھنے کی جگہ سے مراد شوہر کی صلب ہے جس میں نطفہ عارضی طور سے رہتا ہے، پھر ماں کے رحم میں منتقل ہوجاتا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کے برعکس مستقر شوہر کی صلب کو قرار دیا ہے اور امانت رکھنے کی جگہ ماں کے رحم کو، کیونکہ بچہ وہاں عارضی طور پر رہتا ہے۔(روح المعانی)