Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خواتین کا طریقہ بیعت صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے جو مسلمان عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کر کے آتی تھیں ان کا امتحان اسی آیت سے ہوتا تھا جو عورت ان تمام باتوں کا اقرار کر لیتی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم زبانی فرما دیتے کہ میں نے تم سے بیعت کی یہ نہیں کہ آپ ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوں اللہ کی قسم آپ نے کبھی بیعت کرتے ہوئے کسی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا صرف زبانی فرما دیتے کہ ان باتوں پر میں نے تیری بیعت لی ، ترمذدی نسائی ابن ماجہ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت امیہ بنت رفیقہ فرماتی ہیں کئی ایک عورتوں کے ساتھ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو قرآن کی اس آیت کے مطابق آپ نے ہم سے عہد و پیمان لیا اور ہم بھلی ابتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں گی کے اقرار کے وقت فرمایا یہ بھی کہہ لو کہ جاں تک تمہاری طاقت ہے ، ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا خیال ہم سے بہت زیادہ ہے اور ان کی مہربانی بھی ہم پر خود ہماری مہربانی سے بڑھ چڑھ کر ہے پھر ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے؟ فرمایا نہیں میں غیر عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا میرا ایک عورت سے کہہ دینا سو عورتوں کی بیعت کے لئے کافی ہے بس بیعت ہو چکی ، امام تمذی اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں ، مسند احمد میں اتنی زیادتی اور بھی ہے کہ ہم میں سے کسی عورت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ نہیں کیا ، یہ حضرت امیہ حضرت خدیجہ کی بہن اور حضرت فاطمہ کی خالہ ہوتی ہیں ، مسند احمد میں حضرت سلمیٰ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں اور دونوں قبلوں کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تھی جو بنو عدی بن نجار کے قبیلہ میں سے تھیں فرماتی ہیں انصار کی عورتوں کے استھ خدمت نبوی میں بیعت کرنے کے لئے میں بھی آئی تھی اور اس آیت میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا ہم نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اس بات کا بھی اقرار کرو کہ اپنے خاوندوں کی خیانت اور ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرو گی ہم نے اس کا بھی اقرار کیا بیعت کی اور جانے لگیں پھر مجھے خیال آیا اور ایک عورت کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ دریافت کرلیں کہ خیانت و دھوکہ نہ کرنے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ اس کا مال چپکے سے کسی اور کو نہ دو ۔ مسند کی حدیث میں ہے حضرت ائشہ بنت قدامہ فرماتی ہیں میں اپنی والدہ رابطہ بنت سفیان نزاعیہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں پر بیعت لے رہے تھے اور عورتیں ان کا اقرار کرتی تھیں میری والدہ کے فرمان سے میں نے بھی اقرار کیا اور بیعت والیوں میں شامل ہوئی ، صحیح بخاری شریف میں حضرت ام عطیہ سے منقول ہے کہ ہم نے ان باتوں پر اور اس امر پر کہ ہم کسی مرے پر نوحہ نہ کریں گی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اسی اثناء میں ایک عورت نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں نوحہ کرنے سے باز رہنے پر بیعت نہیں کرتی اس لئے کہ فلاں عورت نے میرے فلاں مرے پر نوحہ کرنے میں میری مدد کی ہے تو میں اس کا بدلہ ضرور اتاروں گی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر خاموش ہو رہے اور کچھ نہ فرمایا وہ چلی گئیں لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آئیں اور بیعت کر لی ، مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور اتنی زادتی بھی ہے کہ اس شرط کو صرف اس عورت نے اور حضرت ام سلیم بنت ملحان نے ہی پورا کیا ، بخاری کی اور روایت میں ہے کہ پانچ عورتوں نے اس عہد کو پورا کیا ، ام سلیم ام علام ، ابو سبرہ کی بیٹی جو حضرت معاذ کیب یوی تھیں اور دو اور عورتیں یا ابو سبرہ کی بیٹی اور حضرت معاذ کی بیوی اور ایک عورت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن بھی عورتوں سے اس بیعت کا معاہدہ لیا کرتے تھے ، بخاری میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رمضان کی عید کی نماز میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابو بکر عمر عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ پڑھی ہے سب کے سب خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے ، پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے اترے گویا وہ نقشہ میری نگاہ کے سامنے ہے کہ لوگوں کو بٹھایا جاتا تھا اور آپ ان کے درمیان سے تشریف لا رہے تھے یہاں تک کہ عورتوں کے پاس آئے آپ کے ساتھ حضرت بلال تھے یہاں پہنچ کر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم اپنے اس اقرار پر ثابت قدم ہو ایک عورت نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کسی اور نے جواب نہیں دیا ، راوی حدیث حضرت حسن کو یہ معلوم نہیں کہ یہ جواب دینے والی کونسی عورت تھیں ، پھر آپ نے فرمایا اچھا خیرات کرو اور حضرت بلال نے اپنا کپڑا پھیلا دیا چنانچہ عورتوں نے اس پر بےنگینہ کی اور نگینہ دار انگوھٹیاں راہ اللہ ڈال دیں ، مسند احمد کی روایت میں حضرت امیمہ کی بیعت کے ذکر میں آیت کے علاوہ اتنا اور بھی ہے کہ نوحہ کرنا اور جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنا بناؤ سنگھار غیر مردوں کو نہ دکھانا ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے بھی ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرو جو اس آیت میں ہیں جو شخص اس بیعت کو نبھا دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو اس کے خلاف کر گزرے اور وہ مسلم حکومت سے پوشیدہ رہے اس کا حساب اللہ کے پاس ہے اگر چاہے بخش دے اور اگر چاہے عذاب کرے ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عقبہ اولیٰ میں ہم بارہ شخصوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور انہی باتوں پر جو اس آیت میں مذکور ہیں آپ نے ہم سے بیعت لی اور فرمایا اگر تم اس پر پورے اترے تو یقیناً تمہارے لئے جنت ہے ، یہ واقعہ جہاد کی فرضیت سے پہلے کا ہے ، ابن جریر کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ عورتوں سے کیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ان بیعت کے لئے آنے والیوں میں حضرت ہندہ تھیں جو عقبہ بن ربیعہ کی بیٹی اور حضرت سفیان کی بیوی تھیں یہی تھیں جنہوں نے اپنے کفر کے زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیٹ چیر دیا تھا اس وجہ سے یہ ان عورتوں میں ایسی حالت سے آئی تھیں کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے اس نے جب فرمان سنا تو کہنے لگی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن اگر بولوں گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہچان لیں گے اور اگر پہچان لیں گے تو میرے قتل کا حکم دے دیں گی میں اسی وجہ سے اس طرح آئی ہوں کہ نہ پہچانی جاؤں مگر اور عورتیں سب خاموش رہیں اور ان کی بات اپنی زبان سے کہنے سے انکار کر دیا ، آخر ان ہی کو کہنا پڑا کہ یہ ٹھیک ہے جب شرک کی ممانعت مردوں کو ہے تو عورتوں کو کیوں نہ ہو گی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا لیکن آپ نے کچھ نہ فرمایا پھر حضرت عمر سے کہا ان سے کہہ دو کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ چوری نہ کریں اس پرہندہ نے کہا میں ابو سفیان کی معمولی سی چیز کبھی کبھی لے لیا رتی ہوں کیا یہ بھی چوری میں دخل ہے یا نہیں؟ اور میرے لئے یہ حلال بھی ہے یا نہیں؟ حضرت ابو سفیان بھی اسی مجلس میں موجود تھے ، یہ سنتے ہی کہنے لگے میرے گھر میں جو کچھ بھی تو نے لیا ہو خواہ وہ خرچ میں آ گیا ہو یا اب بھی باقی ہو وہ سب میں تیرے لئے حلال کرتا ہوں اب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف پہچان لیا کہ یہ میرے چچا حمزہ کی قاتلہ اور اس کے کلیجے کو چیرنے والی پھر اسے چبانے والی عورت ہندہ ہے ، آپ نے انہیں پہچان کر اور ان کی یہ گفتگو دیکھ کر مسکرا دیئے اور انہیں اپنے بلایا انہوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کر معافی مانگی آپ نے فرمایا ۔ تم وہی ہندہ ہو؟ انہوں نے کہا گزشتہ گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ہیں اور بیعت کے سلسلہ میں پھر لگ گئے اور فرمایا تیسری بات یہ ہے کہ ان عورتوں میں سے کوئی بدکاری نہ کرے ، اس پر حضرت ہندہ نے کہا کیا کوئی آزاد عورت بھی بدکاری کرتی ہے؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اللہ کی قسم آزاد عورتیں اس برے کام سے ہرگز آلود نہیں ہوتیں ، آپ نے پھر فرمایا جو چوتھی بات یہ ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں ہندہ نے کہا آپ نے انہیں بدر کے دن قتل کیا ہے آپ جانیں اور وہ ، آپ نے فرمایا پانچویں بات یہ ہے کہ خود اپنی ہی طرف سے جوڑ کر بےسر پیر کا کوئی خاص بہتان نہ تراش لیں اور چھٹی بات یہ ہے کہ میری شرعی باتوں میں میری نافرمانی نہ کریں اور ساتواں عہد آپ نے ان سے یہ بھی لیا کہ وہ نوحہ نہ کریں اہل جاہلیت اپنے کسی کے مرجانے پر کپڑے پھاڑ ڈالتے تھے منہ نوچ لیتے تھے بال کٹوا دیتے تھے اور ہائے وائے کیا کرتے تھے ۔ یہ اثر غریب ہے اور اس کے بعض حصے میں نکارت بھی ہے اس لئے کہ ابو سفیان اور ان کی بیوی ہندہ کے اسلام کے وقت انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ اس سے بھی آپ نے صفائی اور محبت کا اظہار کر دیا تھا ، واللہ اعلم ، ایک اور روایت میں ہے کہ فتح مکہ والے دن بیعت والی یہ آیت نازل ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر مردوں سے بیعت لی اور حضرت عمر نے عورتوں سے بیعت لی اس میں اتنا اور بھی ہے کہ اولاد کے قتل کی ممانعت سن کر حضرت ہندہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے تو انہیں چھٹینے پال پوس کر بڑا کیا لیکن ان بڑوں کو تم نے قتل کیا اس پر حضرت عمر مارے ہنسی کے لوٹ لوٹ گئے ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ جب ہندہ بیعت کرنے آئیں تو ان کے ہاتھ مردوں کی طرح سفید تھے آپ نے فرمایا جاؤ ان کا رنگ بدل لو چنانچہ وہ مہندی لگا کر حاضر ہوئیں ، ان کے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے تھے انہوں نے پوچھا کہ ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ فرمایا جہنم کی آگ کے دوا نگارے ہیں ، ( یہ حکم اس وقت ہے جب ان کی زکوٰۃ نہ ادا کی جائے ) اس بیعت کے لینے کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا ، جب اولادوں کے قتل کی ممانعت پر ان سے عہد لیا گیا تو ایک عورت نے کہا ان کے باپ دادوں کو تو قتل کیا اور ان کی اولاد کی وصیت ہمیں ہو رہی ہے ، یہ شروع شروع میں صورت بیعت کی تھی لیکن پھر اس کے بعد آپ نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ جب بیعت کرنے کے لئے عورتیں جمع ہو جاتیں تو آپ یہ سب باتیں ان پر پیش فرماتے وہ ان کا اقرار کرتیں اور واپس لوٹ جاتیں ، پس فرمان اللہ ہے کہ جو عورت ان امور پر بیعت کرنے کے لئے آئے تو اس سے بیعت لے لو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، غیر لوگوں کے مال نہ چرانا ، ہاں اس عورت کو جس کا خاوند اپنی طاقت کے مطابق کھانے پینے پہننے اوڑھنے کو نہ دیتا ہو جائز ہے کہ اپنے خاند کے مال سے مطابق دستور اور بقدر اپنی حاجت کے لے گو خاوند کو اس کا علم نہ ہو اس کی دلیل حضرت ہندہ والی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند ابو سفیان بخیل آدمی ہیں وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولادوں کو کافی ہو سکے تو کیا میں اگر ان کی بےخبری میں اور ان کے مال میں لے لوں تو مجھے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بہ طریق معروف اس کے مال سے اتنا لے لے جو تجھے اور تیرے بال بچوں کو کفایت کرے ( بخاری و مسلم ) اور زنا کاری نہ کریں ، جیسے اور جگہ ہے ولا تفربوا الزنا انہ کان فاحشتہ وسا سبیلا زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بےحیائی ہے اور بری راہ ہے ، حضرت سمرہ والی حدیث میں زنا کی سزا اور درد ناک عذاب جہنم بیان کیا گیا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت فاطمہ بنت عقبہ جب بیعت کے لئے آئیں اور اس آیت کی تلاوت ان کے سامنے کی گئی تو انہوں نے شرم سے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا آپ کو ان کی یہ حیا اچھی معلوم ہوئی ۔ حضرت عائشہ نے فرمایا انہی شرطوں پر ہم سب نے بیعت کی ہے یہ سن کر انہوں نے بھی بیعت کر لی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے طریقے اوپر بیان ہو چکے ہیں ، اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم عام ہے ، پیدا شدہ اولاد کو مار ڈالنا بھی اسی ممانعت میں ہے جیسے کہ جاہلیت کے زمانے والے اس خوف سے کرتے تھے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے پلائیں گے ، اور حمل کا گرا دینا بھی اسی ممانعت میں ہے خواہ اس طرح ہو کہ ایسے علاج کئے جائیں جس سے حمل ٹھہر ہی نہیں یا ٹھہرے ہوئے حمل کو کسی طرح گرا دیا جائے ۔ بری غرض وغیرہ سے ، بہتان نہ باندھنے کا ایک مطلب تو حضرت ابن عباس نے یہ بیان فرمایا ہے کہ دوسرے کی اولاد کو اپنے خاوند کے سر چپکا دینا ، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ ملاعنہ کی آیت کے نازل ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت کسی قوم میں اسے داخل کرے جو اس قوم کا نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی گنتی شمار میں نہیں اور جو شخص اپنی اولاد سے انکار کر جائے حالانکہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اللہ تعالیٰ اس سے آڑ کر لے گا اور تمام اگلوں پچھلوں کے سامنے اسے رسوا و ذلیل کرے گا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں یعنی آپ کے احکام بجا لائیں اور آپ کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جایا کریں ، یہ شرط یعنی معروف ہونے کی عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے لگا دی ہے ، حضرت میمون فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فقط معروف میں رکھی ہے اور معروف ہی طاعت ہے ، حضرت ابن زید فرماتے ہیں دیکھ لو کہ بہترین خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا حکم بھی معروف میں ہی ہے ، اس بیعت والے دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کا اقرار بھی لیا تھا جیسے حضرت ام عطیہ کی حدیث میں پہلے گذر چکا ، حضرت فتادہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے ۔ اس بیعت میں یہ بھی تھا کہ عورتیں غیر محرموں سے بات چیت نہ کریں ، اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم گھر پر موجود نہیں ہوتے اور مہمان آ جاتے ہیں آپ نے فرمایا میری مراد ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت سے نہیں میں ان سے کام کی بات کرنے سے نہیں روکتا ( ابن جریر ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیعت کے موقعہ پر عورتوں کو نامحرم مردوں سے باتیں کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا بعض لوگ وہ بھی ہوتے ہیں کہ پرائی عورتوں سے باتیں کرنے میں ہی مزہ لیا کرتے ہیں یہاں تک کہ مذی نکل جاتی ہے اوپر حدیث بیان ہو چکی ہے کہ نوحہ نہ کرنے کی شرط پر ایک عورت نے کہا فلاں قبیلے کی عورتوں نے میرا ساتھ دیا ہے تو ان کے نوحے میں میں بھی ان کا ساتھ دے کر بدلہ ضرور اتاروں گی چنانچہ وہ گئیں بدلہ اتارا پھر آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ۔ حضرت ام سلیم جن کا نام ان عورتوں میں ہے جنہوں نے نوحہ نہ کرنے کی بیعت کو پورا کیا یہ ملحان کی بیٹی اور حضرت انس کی والدہ ہیں اور روایت میں ہے کہ جس عورت نے بدلے کے نوحے کی اجازت مانگی تھی خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی تھی یہی وہ معروف ہے جس میں نافرمانی منع ہے ، بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ معروف میں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے مطلب یہ ہے کہ مصیبت کے وقت منہ نہ نوچیں بال نہ منڈوائیں کپڑے نہ پھاڑیں ہائے وائے نہ کریں ، ابن جریر میں حضرت ام عطیہ سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دن آپ نے حکم دیا کہ سب انصاریہ عورتیں فلاں گھر میں جمع ہوں پھر حضرت عمر بن خطاب کو وہاں بھیجا آپ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں ہم نے کہا رسول اللہک کو بھی مرحبا ہو اور آپ کے قاصد کو بھی ، حضرت عمر نے فرمایا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں حکم کروں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرنے پر چوری اور زنا کاری سے بچنے پر بیعت کرو ہم نے کہا ہم سب حاضر ہیں اور اقرار کرتی ہیں چنانچہ آپ نے وہیں باہر کھڑے کھڑے اپنا ہاتھ اندر کی طرف بڑھا دیا اور ہم نے اپنے ہاتھ اندر سے باہر اندر ہی اندر بڑھائے ، پھر آپ نے فرمایا اے اللہ گواہ رہے ۔ پھر حکم ہوا کہ دونوں عیدوں میں ہم اپنی خانضہ عورتوں اور جوان کنواری لڑکیوں کو لے جایا کریں ، ہم پر جمعہ فرض نہیں ، ہمیں جنازوں کے ساتھ نہ جانا چاہئے ۔ حضرت اسماعیل راوی حدیث فرماتے ہیں میں نے اپنی دادی صاحبہ ام عطیہ سے پوچھا کہ عورتیں معروف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کریں اس سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا یہ کہ نوحہ نہ کریں ، بخاری و مسلم میں ہے کہ جو کوئی مصیبت کے وقت اپنے کلوں پر تھپڑ مارے دامن چاک کرے اور جاہلیت کے وقت کی ہائی وہائی مچائے وہ ہم میں سے نہیں اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہائے وائے کرے بال نوچے یا منڈوائے اور کپڑے پھاڑے یا دامن چیرے ۔ ابو علی میں ہے کہ میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جنہیں وہ نہ چھوڑیں گے حسب نسب پر فخر کرنا انسان کو اس کے نسب کا طعنہ دینا ستاروں سے بارش طلب کرنا اور میت پر نوحہ کرنا اور فرمایا نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کئے مر جائے تو اسے قیامت کے دن گندھک کا پیراہن پہنایا جائے گا اور کھجلی کی چادر اڑھائی جائے گی ۔ مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والیوں پر اور نوحے کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ نہ کرنا ہے ، یہ حدیث ترمذی کی کتاب التفسیر میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یہ بیعت اس وقت لیتے جب عورتیں ہجرت کرکے آتیں جیسا کہ صحیح بخاری تفسیر سورة ممتحنہ میں ہے علاوہ ازیں فتح مکہ والے دن بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کی عورتوں سے بیعت لی بیعت لیتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف زبان سے عہد لیتے کسی عورت کے ہاتھ کو آپ نہیں چھوتے تھے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اللہ کی قسم بیعت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا بیعت کرتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف یہ فرماتے کہ میں نے ان باتوں پر تجھ سے بیعت لے لی۔ صحیح بخاری۔ بیعت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ عہد بھی عورتوں سے لیتے تھے کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی گریبان چاک نہیں کریں گی سر کے بال نہیں نوچیں گی اور جاہلیت کی طرح بین نہیں کریں گی۔ صحیح بخاری۔ اس بیعت میں نماز روزہ حج اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر نہیں ہے اس لیے کہ یہ ارکان دین اور شعائراسلام ہونے کے اعتبار سے محتاج وضاحت نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور خاص ان چیزوں کی بیعت لی جن کا عام ارتکاب عورتوں سے ہوتا تھا تاکہ وہ ارکان دین کی پابندی کے ساتھ ان چیزوں سے بھی اجتناب کریں اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علماودعاۃ اور واعظین حضرات اپنا زور خطابت ارکان دین کے بیان کرنے میں ہی صرف نہ کریں جو پہلے ہی واضح ہیں بلکہ ان خرابیوں اور رسموں کی بھی پر زور انداز میں تردید کیا کریں جو معاشرے میں عام ہیں اور نماز روزے کے پابند حضرات بھی ان سے اجتناب نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] عورتوں کی بیعت کن باتوں پر :۔ یعنی امتحان کے بعد ان مہاجر عورتوں کو نیز عام مسلمان عورتوں کو بیعت کا حکم ہوا۔ اور یہ بیعت صرف رسول اللہ لیں گے۔ کیونکہ اس آیت کے مخاطب آپ ہی ہیں۔ اور جن گناہوں سے اجتناب پر بیعت لی جائے گی وہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑا گناہ تو شرک ہے جو بالخصوص اللہ کے حق سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرے سب گناہ حدی جرائم ہیں۔ اور حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پانچ گناہوں میں سے شرک کے علاوہ باقی چار گناہ ایسے ہیں جن پر حد لگتی ہے۔ یہ تو وہ گناہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کئی ایسے گناہ کے کاموں سے اجتناب پر بیعت لیتے تھے جن کا ذکر احادیث میں مذکور ہے۔ اور یہ سب ایسے جرائم ہیں جن کا عرب میں عام رواج تھا۔- [٢٦] جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا کہ رسمی ننگ و عار کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ یا فقر و فاقہ کے خوف کی وجہ سے لڑکیوں کے علاوہ لڑکوں کو بھی مار ڈالتے تھے۔ نیز اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے۔ خواہ یہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا۔- [٢٧] بہتان کی قسمیں :۔ اس بہتان کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو معروف و مشہور ہے یعنی کوئی عورت دوسری عورت پر کسی غیر مرد سے آشنائی کا الزام لگا دے جسے عموماً تہمت کہا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ خود زانیہ ہو، بچہ تو کسی دوسرے کا جنے اور شوہر کو یہ یقین دلائے کہ یہ تیرا ہی ہے۔ تیسری یہ کہ کسی دوسری عورت کی اولاد لے کر مکروفریب سے اپنی طرف منسوب کرلے۔- [٢٨] بیعت کا سلسلہ چونکہ نبی کی ذات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ امت کا امیر اور دوسرے بزرگ حضرات بھی بیعت لے سکتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے ساتھ معروف کی شرط بھی لگا دی۔ حالانکہ آپ سے یہ ناممکن تھا کہ آپ کسی غیر معروف یا معصیت کے کام پر بیعت لیں اس سلسلہ میں آپ نے ایک واضح قانون ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف) (متفق علیہ) یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کام ہو تو کسی کی بھی اطاعت ضروری نہیں۔ اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہوتی ہے۔ اس آیت سے دوسری بات جو مستنبط ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی ہر بات واجب الاتباع ہے خواہ اس کا ذکر قرآن میں موجود ہو یا نہ ہو۔ - [٢٩] عورتوں سے بیعت کا طریقہ :۔ آپ جب مردوں سے بیعت لیتے تو بیعت کرنے والا ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتا تھا۔ لیکن عورتوں کے لیے یہ طریقہ نہیں تھا۔ آپ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، کبھی تو آپ عورتوں سے عہد لے کر کہہ دیتے کہ بس تمہاری بیعت ہوگئی۔ اور کبھی ایک چادر کا ایک سرا آپ پکڑے دوسرا بیعت کرنے والی عورت پکڑ کر عہد کرتی اور کبھی آپ پانی کے کسی پیالہ وغیرہ میں ہاتھ ڈالتے۔ پھر بیعت کرنے والی عورت دوسرے سرے سے ڈال دیتی اور جن باتوں پر آپ عورتوں سے یا مردوں سے بیعت لیتے رہے اس کی تفصیل کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- خ بیعت سے متعلق چند احادیث :۔ ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جو عورتیں ہجرت کرکے آپ کے پاس آتیں۔ آپ اس آیت کے مطابق ان کا امتحان لیتے۔ پھر جو عورت ان شرطوں کو قبول کرتی۔ آپ زبان سے ہی فرما دیتے کہ میں نے تجھ سے بیعت کی۔ اللہ کی قسم بیعت لیتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوأ۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - خ ٢۔ میت پر نوحہ کی مخالفت :۔ سیدہ ام عطیہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے آپ سے بھی بیعت کی تو آپ نے یہی آیت سنائی۔ پھر ہم کو مردے پر نوحہ کرنے سے منع فرمایا تو ایک عورت (یہ خود ام عطیہ ہی تھی) نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور کہنے لگی : فلاں عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی میں اس کا بدلہ اتار لوں۔ یہ سن کر آپ خاموش رہے۔ وہ چلی گئی۔ پھر (نوحہ کرکے) واپس آئی تو آپ نے اس سے بیعت لے لی۔ (حوالہ ایضاً ) - ٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز نبی اکرم، ابوبکر (رض) ، عمر (رض) اور عثمان (رض) سب کے ساتھ پڑھی۔ آپ خطبہ سے پہلے نماز پڑھاتے پھر اس کے بعد خطبہ سناتے تھے۔ خطبہ کے بعد آپ منبر سے اترے گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو بٹھا رہے تھے۔ پھر ان کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے عورتوں کے پاس آئے۔ بلال (رض) آپ کے ساتھ تھے۔ اور ان کے سامنے یہ (بیعت والی) پوری آیت پڑھی۔ اس سے فراغت کے بعد عورتوں سے پوچھا : کیا ان شرطوں پر قائم ہوتی ہو ؟ ایک عورت کے سوا کسی نے کوئی جواب نہ دیا (شرما گئیں) اس عورت (اسما بنت یزید) نے کہا : ہاں یارسول اللہ اس کے بعد آپ نے ان سے کہا کہ وہ صدقہ کریں۔ بلال (رض) نے اپنا کپڑا بچھا دیا۔ اور وہ چھلے اور انگوٹھیاں بلال (رض) کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔ (حوالہ ایضاً ) - ٤۔ سیدنا عبادہ بن صامترضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے (لیلۃ العقبہ) میں ہم سے فرمایا : تم مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرتے ہو۔ ( أنْ لاَ تُشْرِکُوْا باللّٰہِ شَیْئًا وَلاَ تَزْنُوْا وَلاََ تَسْرِقُوْا) پھر جو ان شرطوں کو پورا کرے اس کا ثواب اللہ پر ہے اور جو کوئی کام کر بیٹھے پھر اس پر حد لگ جائے تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا اور اگر کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ اس کا گناہ چھپا دے تو پھر قیامت کے دن اللہ اگر چاہے تو اسے سزادے اور چاہے تو معاف کردے۔ (حوالہ ایضاً ) - بیعت کرنے کے بعد آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ ان بیعت کرنے والیوں کے حق میں دعائے مغفرت بھی کیا کریں۔ کہ ان امور میں ان سے جو کو تاہیاں پہلے ہوچکی ہیں۔ یا آئندہ اس عہد کی تعمیل میں کچھ تقصیر رہ جائے تو اللہ انہیں معاف فرما دے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ ۔۔۔۔: عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ جو مومن عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کر کے آتیں آپ ان کا امتحان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ساتھ لیتے تھے :(یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ ۔۔۔۔ غفور رحیم) تو ان مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کرلیتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے فرماتے :( قد بایعتک) ” میں نے تم سے بیعت لے لی “۔ صرف کلام کے ساتھ اور اللہ کی قسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ سے بیعت لیتے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا ، آپ ان سے صرف ان الفاظ کے ساتھ بیعت لیتے تھے :(قد بایعتک علم ذلک) (بخاری ، التفسیر ، سورة الممتحنۃ ، باب :( اذا جاء کم المومنات مھاجرات): ٤٨٩١)” میں نے ان باتوں پر تم سے بیعت لے لی “۔- امیمہ بنت رقیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں چند عورتوں کے ہمراہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ سے بیعت کرنے کے لیے آئی ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے قرآن کی اس آیت کے مطابق بیعت لی :( علی ان لا یشرکن باللہ شئاً ۔۔۔ ) اور فرمایا ( فیما استطعتن واطقتن) ” جتنی تم استطاعت اور طاقت رکھو “۔ ہم نے کہا : ” اللہ اور اس کا رسول ہم سے زیادہ ہم پر رحم کرنے والے ہیں “۔ ہم نے کہا : ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( انی لا اصافح النساء انما قولی لا مراۃ واحدۃ کقولی لمائۃ امراۃ) (اسند احمد : ٦، ٣٥٧، ح : ٢٧٠٠٩، ترمذی السیر ، باب ما جاء فی بیعۃ النساء : ١٥٩٧، وصححہ الترمذی والالبانی )” میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ، میری بات ایک عورت سے اسی طرح ہے جیسے ایک سو عورتوں سے ہو “۔- ٢۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت جیسے اہم موقع پر کسی عورت سے مصافحہ نہیں کیا تو کسی اور کے لیے غیر محرم عورت سے مصافحہ کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ کفار کی تقلید میں غیر محرم عورتوں سے مصافحے کا رواج اور تقدس کے پردے میں پیروں کا اجنبی عورتوں سے مصافحہ دونوں حرام ہیں ، کیونکہ نیت کے خلل کے ساتھ وہ زناکا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں اور سد ذرائع ( گناہ کے ذریعوں سے روکنا) شریعت کا مسلم اصول ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( فالعینا زنا ھما النظر والا ذنان زناھما الاستماع واللسان زناہ الکلام والید زناھا البطش والرجل زناھا الخطا و القلب یھوی ویتمنی ویصدق ذلک الفرج ویکذبہ) مسلم ، القدر ، باب قدر علی ابن آدمی حظہ من الزنی وغیرہ : ٢١، ٢٦٥٧١) ” پس آنکھیں ، ان کا زنا دیکھنا ہے اور کان ، ان کا زنا سننا ہ اور زبان ، اس کا زنا کلام ہے اور ہاتھ ، اس کا زنا پکڑتا ہے اور پاؤں ، اس کا زنا چلنا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور تمنا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کردیتی ہے یا اس کی تکذیب کردیتی ہے “۔- ٢۔ جاہلی معاشرے میں اللہ کے ساتھ شرک ، چوری ، زنا ، قتل اولاد اور بہتان کا رواج عام تھا، اس لیے ان کا خاص طور پر ذکر کر کے ان سے منع فرمایا ، جیسا کہ وفد عبد القیس کو خاص طور پر ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا ، جن میں شراب بنائی جاتی تھی ، کیونکہ وہ مسلمان ہوچکے تھے مگر ابھی تک ان میں شراب نوشی کا رواج باقی تھا۔ رہی دوسری منع کردہ چیزیں یا وہ چیزیں جن پر عمل کا حکم دیا ہے ، تو وہ سب ” ولا یعصینک فی معروف “ میں آگئی ہیں ۔ یہاں چونکہ عورتوں کی آمد کا ذکر ہے اس لیے ان کا نام لیا ، ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں سے بھی انہی باتوں پر بیعت لیتے تھے ۔ عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر جب آپ کے گرد آپ کے اصحاب کی ایک جماعت موجود تھی فرمایا :( با یعونی علی ان لا نشرکو ا باللہ شیئا ، ولا تسرقوا ، ولا تزنوا ، ولا تقتلوا ، اولاد کم ، ولا تاتوا ، بیھتان ، تفترونہ ، بین ایدیکم وارجلکم ولا تعصوا فی معروف ، فمن و فی منکم فاجرہ علی اللہ ، ومن اصاب من ذلک شیاء فعوقب فی الدنیا فھو کفارۃ لہ ، ومن اصاب من ذلک شیاء ثم سترہ اللہ فھو الی اللہ ، ان شاء عفا عنہ وان شاء عاقبہ ، فبایعناہ علی ذلک) (بخاری ، الایمان ، باب علامۃ الایمان حب الانصار : ١٨)” مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے اور چور ی نہیں کرو گے اور زنا نہیں کرو گے اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور کوئی بہتان نہیں لاؤ گ جسے تم اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑ کر کے لا رہے ہوگے اور کسی نیک کام میں نافرمانی نہیں کرو گے ۔ پھر تم میں سے جس نے اس عہد کو پورا کیا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جس نے ان میں سے کوئی کام کرلیا ، پھر اس دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کے لیے گناہ دور کرنے کا باعث ہے اور جس نے ان میں سے کوئی کام کیا ، پھر اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ کے سپرد ہے ، اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے سزا دے “۔ تو ہم نے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرلی “۔- حدیبیہ اور فتح مکہ کے موقع پر ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے علاوہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں سے ان باتوں پر بیعت لی ہے ، چناچہ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید الفطر کے موقع پر مردوں کو خطبہ دینے کے بعد عورتوں کی طرف آئے اور فرمایا :(یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ ۔۔۔۔۔ ) پھر جب آپ آیت کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو عورتوں کی مخاطب کر کے فرمایا :( آنتن علی ذلک ؟ ) ” کیا اس پر قائم ہو ؟ “ ان میں سے ایک عورت نے کہا ، جس کے سوا کسی نے جواب نہیں دیا :(نعم)” جی ہاں “ (بخاری ، العدین باب موعظۃ الامام النساء ، یوم العبد : ٩٧٩)- ٤۔ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ : اس میں حمل گرانا بھی شامل ہے ، خواہ جائز ہو یا ناجائز۔- ٥۔ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ :” بھنان “ کسی کے ذمے گھڑ کر لگایا ہوا جھوٹ جسے سن کر وہ مبہوت اور ششدر رہ جائے ۔ اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ کوئی عورت کسی دوسرے عورت کا بچہ لا کر خاوند اور دوسرے لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرے کہ اس کی ولادت اس کے شکم سے ہوئی ہے ، خواہ وہ کوئی گرا ہوا بچہ اٹھا کرلے آئی ہو یا کسی اور طرح سے لے آئی ہو ۔ ظاہر ہے یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب خاوند مدت تک غائب رہا ہو ، یا خاوند کے بجائے کسی اور سے بچے کو جنم دے کر اسے خاوند کا بچہ ظاہر کرے۔” بین ایدیھن وارجلھن “ ( ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان ) کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ولادت عورت کے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان ہوتی ہے ۔ مگر ” بہتان “ کو انہی صورتوں کے ساتھ خاص کرنا مشکل ہے ، کیونکہ ایک تو بہتان کا لفظ عام ہے ، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں سے بیعت لی تو ان کے لیے بھی یہ الفاظ استعمال فرمائے :(ولا تاتوا ببھتان تفترونہ بین ایدکم وارجلکم) (بخاری : ١٨) اور نہ تم کوئی بہتان لاؤ گے جو اپنے ہاتھوں اور اپنے پاؤں کے درمیان گھڑ رہے ہوں “۔ جیسا کہ پچھلے فائدے میں یہ حدیث گزری ہے۔ ظاہر ہے بہتان کی یہ صورتیں مردوں سے متعلق تصور نہیں کی جا سکتیں ۔ عربی زبان میں ” بین ایدیھم “ کا معنی ” سامنے “ ہوتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :( یعلم ما بین ایدھم) ( البقرہ : ٢٥٥)” وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے “۔ ” وارجھلم “ کا لفظ اس کی تاکید کے لیے ہے ، اس لیے اس کا سادہ مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کا وجود ہی نہیں اسے گھڑ کر پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے سامنے لا کر پیش نہ کردیا کریں ۔ اور یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اس بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہ قیامت کے دن ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف شہادت دیں گے ، وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے سامنے کسی پر بہتا ن نہ لگا دیا کریں ، بلکہ انہیں چاہیے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ چار گواہوں کی موجودگی میں بہتان لگا کر رہی ہیں ۔ اس مطلب کی تائید دوسری جگہ بہتان باندھنے والوں کے ملعون ہونے کے سلسلے میں ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کے ذکر سے ہوتی ہے ، جیسا کہ فرمایا :(اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَۃِص وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ یَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیْہِمُ اللہ ُ دِیْنَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہ ہُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ (النور : ٢٣ تا ٢٥)” بیشک وہ لوگ جو پاک دامن بیخبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔ جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اس دن اللہ انہیں ان کا صحیح بدلا پورا پورا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے ، جو ظاہر کرنے والا ہے۔ “ الغرض آیت میں بہتان کی ایک صورت نہیں بلکہ ہر قسم کے بہتان سے اجتناب کا عہد لیا گیا ہے۔- ٥۔ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ : اس جملے میں پوری شریعت پر عمل کا اقرار آگیا ۔ اس اقرار میں ” فی معروف “ کی شرط لگانے کی کئی توج ہیں ہیں ، ایک یہ کہ اس سے اس بات کی صراحت مقصود ہے کہ رسول حکم ہی معروف کا دیتا ہے ، پھر اس کی معصیت کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے۔ دوسری یہ کہ اگرچہ یہ بات ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم معروف کے سوا ہی نہیں سکتا، مگر اس کے ساتھ ” معروف “ ( نیک) ہونے کی قید اس لیے لگائی تا کہ سب کو معلوم ہوجائے کہ مخلوق کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام میں جائز نہیں ، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بھی اس طرح کے ساتھ مشروط ہے ۔ تیسری یہ کہ یہاں معاملہ عورتوں کا ہے ، انہیں مطلق اطاعت کے حکم سے کہ وہ آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کریں گی ، شیطان کسی کے دل میں گمراہی کا وسوسہ پیدا کرسکتا تھا ، اس کا راستہ روکنے کیلئے یہ قید لگا دی۔- ٧۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی کئی صورتیں مروی ہیں ، جن میں سے ایک اسلام کی بیعت ہے ، ایک جہاد کی ، ایک بعض باتوں کی پابندی کی ، مثلاً یہ کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے اور ایک کبائر سے توبہ اور اطاعت کے عہد کی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام سے یہ تو ثابت ہے کہ انہوں نے لوگوں سے اسلام لانے کی بیعت لی اور امراء سے اطاعت کی بیعت کی ، مگر خلفیہ یا امیر کے علاوہ کسی اور شخص کا لوگوں سے اپنا مرید بنانے کی بیعت لینا ، جیسا کہ صوفیہ کا طریقہ ہے ، صحابہ کرام کے دور بلکہ پورے خیر القرون میں ثابت نہیں ، کیونکہ اس سے مسلمانوں میں فرقے اور گروہ پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر یہ معاملہ نقشبندی ، سہروردی ، چشتی اور قادی تک محدود نہیں رہتا ، بلکہ ہر ایک اپنی الگ گدی اور الگ حلقہ قائم کرلیتا ہے جو صرف اس کے حکم کا پابند ہوتا ہے اور ہر پیر و مرشد کا تقاضا ہوتا ہے کہ مرید کا علم چونکہ ناقص ہے اس لیے اگر اس کا مرشد اسے شریعت کے صریح خلاف حکم دے تو وہ بھی اس کے لیے ماننا ضروری ہے ، کیونکہ اس میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ان حضرات نے ” فی معروف “ کی قید بھی اڑا دی ، چناچہ ان کے لسامن الغیب حافظ شیرازی کہہ گئے ہیں ؎- بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بیخبر نبود زراہ و رسم منزلہا - ” اگر پیر مغاں تمہیں حکم دیتا ہے تو مصلے کو شراب سے رنگ لو ، کیونکہ سالک منزلوں کے راہ و رسم سے بیخبر نہیں ہوتا “۔- حقیقت یہ ہے کہ پیری مریدی کا یہ سلسلہ امت کے کتاب و سنت سے دوری اور اس کے باہمی افتراق کا خوف ناک باعث ہے۔ آپ لاکھ قرآن و سنت سنائیں ، پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والا یہی کہے گا کہ کیا ہمارے پیر کو یہ معلوم نہیں ۔ رہی یہ بات کہ ہم بطور استاذ اور ہادی پیر کی بیعت کرتے ہیں ، تو ایک تو اس کے لیے بیعت کی ضرورت نہیں ، پھر اپنے آپ کو ایک ہی استاذ اور ہادی کے حکم کا پابند بنانا کہاں سے ثابت ہوا ؟ آپ متعدد اساتذہ اور رہنماؤں سے تعلیم اور رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور کرنی چاہیے۔ ہاں ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی ہر صورت ہی درست تھی، کیونکہ وہ نبی تھے ، ان کے ہوتے کسی اور کسی بیعت نہ تھی اور نہ ہی اس سے افتراق یا انتشار پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ پھر خلیفہ اور امیر کی بیعت درست ہے ، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا حکم دیا ہے اور ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی بیعت جائز نہیں۔- ٨۔ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہ ط اِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ : یعنی اگر وہ ان باتوں کا عہد کریں تو آپ ان کی بیعت قبول کرلیں اور اس سے پہلے ان سے جو لغزشیں ہوئیں یا آئندہ بشری کمزور ی کی بنا پر ہوں گی ان کے لیے اللہ سے استغفار کریں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

عورتوں کی بیعت :- يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ الایة، اس آیت میں مسلمان عورتوں سے ایک تفصیلی بیعت لینے کا ذکر ہے جس میں ایمان و عقائد کے ساتھ احکام شرعیہ کی پابندی کا بھی معاہدہ ہے، سابقہ آیات جن کے سیاق میں یہ آیت بیعت آئی ہے وہ اگرچہ ان مہاجرات کے ایمان کا امتحان کرنے کے سلسلے میں ہے اور یہ بیعت ان کے امتحان ایمان کی تکمیل ہے، لیکن الفاظ آیت عام ہیں، نو مسلم مہاجرات کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ سب مسلمان عورتوں کے لئے عام ہیں اور واقعہ بھی اسی طرح پیش آیا کہ بیعت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنے والی صرف نو مسلم مہاجرات ہی نہیں دوسری قدیم عورتیں بھی شریک تھیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں ام عطیہ سے اور بسند بغوی امیمہ بنت رقیہ سے منقول ہے (رح) ، حضرت امیمہ سے روایت ہے کہ میں نے چند دوسری عورتوں کی معیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی تو آپ نے جن احکام شرعیہ کی پابندی کا معاہدہ اس بیعت میں لیا اس کے ساتھ یہ کلمات بھی تلقین فرمائے کہ فیما استطعتن واقتن، یعنی ہم ان چیزوں کی پابندی کا عہد اسی حد تک کرتے ہیں جہاں تک ہماری استطاعت و طاقت میں ہے، امیمہ نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت و شفقت ہم پر خود ہماری ذات سے بھی زائد تھی کہ ہم نے تو بلا کسی قید و شرط کے عہد کرنا چاہا تھا آپ نے اس شرط کی تلقین فرما دی، تاکہ کسی اضطراری حالت میں خلاف ورزی ہوجائے تو عہد شکنی میں داخل نہ ہو (مظہری) - اور صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ نے اس بیعت نساء کے متعلق فرمایا کہ عورتوں کی یہ بیعت صرف گفتگو اور کلام کے ذریعہ ہوئی، مردوں کی بیعت میں جو ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا دستور ہے، عورتوں کی بیعت میں ایسا نہیں کیا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک نے کبھی کسی غیر محرم کے ہاتھ کو نہیں چھوا (مظہری) - اور روایات حدیث سے ثابت ہے کہ یہ بیعت نساء صرف اس واقعہ حدیبیہ کے بعد ہی نہیں بلکہ بار بار ہوتی رہی، یہاں تک کہ فتح مکہ کے روز بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کی بیعت سے فارغ ہونے کے بعد کوہ صفا پر عورتوں سے بیعت لی اور پہاڑ کے دامن میں حضرت عمر بن خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ کو دہرا کر نیچے جمع ہونے والی عورتوں کو پہنچا رہے تھے جو اس بیعت میں شریک تھیں۔- اس وقت بیعت ہونے والی عورتوں میں ابو سفیان کی بیوی ہند بھی داخل تھیں، جو شروع میں حیاء کے سبب اپنے آپ کو چھپانا چاہتی تھیں، پھر بیعت میں کچھ احکام کی تفصیل آئی تو بولنے اور دریافت کرنے پر مجبور ہوگئیں، کئی سوالات کئے، یہ واقعہ تفصیل سے تفسیر مظہری میں مذکور ہے۔- مردوں کی بیعت میں اجمال اور عورتوں کی بیعت میں تفصیل :- مردوں سے جو بیعت لی گئی وہ عموماً اسلام اور جہاد پر لی گئی ہے، عمل احکام کی تفصیل اس میں نہیں ہے، بخلاف عورتوں کی بیعت کے کہ اس میں وہ تفصیل ہے جو آگے آ رہی ہے، وجہ فرق کی یہ ہے کہ مردوں سے ایمان و اطاعت کی بیعت لینے میں یہ سب احکام داخل تھے، اس لئے تفصیل کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور عورتیں عموماً عقل و فہم میں مردوں سے کم ہوتی ہیں اس لئے ان کی بیعت میں تفصیل مناسب سمجھی گئی، یہ اس بیعت کی ابتداء ہے جو عورتوں سے شروع ہوئی مگر آگے یہ عورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں رہی، مردوں سے بھی انہی چیزوں کی بیعت لینا روایات حدیث میں ثابت ہے۔ (کماروی عن عبادة بن الصامت) (قرطبی) اس کے علاوہ جن احکام کی پابندی کا عہد عورتوں سے لیا گیا عموماً عورتیں ان میں بےراہی اختیار کرنے کی عادی ہوتی ہیں، اس لئے بھی خصوصیت سے ان کی بیعت میں مندرجہ ذیل تفصیل آتی، يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ باللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا، الآیة اس میں پہلی بات تو وہی ایمان کی اور شرک سے بچنے کی ہے، جو عام مردانہ بیعتوں میں بھی آتی ہے، دوسری بات چوری نہ کرنا، بہت سی عورتیں اپنے شوہر کے مل میں چوری کرنے کی عادی ہوتی ہیں، اس لئے ذکر کیا گیا، تیسری بات زنا سے پرہیز کرنا ہے جس میں عورتیں پختہ ہوجاویں تو مردوں کو بھی نجات آسان ہوجاوے، چوتھی بات یہ ہے کہ اپنی بچوں کو قتل نہ کریں۔- زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر کے ہلاک کردینے کا رواج تھا، اس کو روکا گیا، پانچویں بات یہ ہے کہ افتراء اور بہتان نہ باندھیں، اس بہتان کی ممانعت کے ساتھ یہ الفاظ بھی ہیں (بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ ) یعنی اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان بہتان نہ باندھیں، ان کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ قیامت کے روز انسان کے ہاتھ پاؤں ہی اس کے اعمال پر شہادت دیں گے، مطلب یہ ہوا کہ ایسے گناہ کے ارتکاب کے وقت یہ خیال رہنا چاہئے کہ میں چار گواہوں کے درمیان یہ کام کر رہا ہوں جو میرے خلاف گواہی دیں گے۔- یہاں لفظ بہتان عام ہے اپنے شوہر پر ہو یا کسی دوسرے، کیونکہ افتراء و بہتان ہر شخص پر یہاں تک کہ کافر پر بھی حرام ہے، خصوصاً اپنے شوہر پر بہتان اور بھی شدید گناہ ہے اور شوہر پر بہتان لگانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ عورت کسی اور شخص کا بچہ لے کر اس کو اپنے شوہر کا بچہ ظاہر کرلے اور اس کے نسب میں داخل کر دے اور یہ بھی کہ معاذ اللہ بدکاری کرے اور حمل رہ جائے جس کے نتیجہ میں یہ بچہ شوہر کے نسب میں داخل سمجھا جائے۔- چھٹی بات ایک عام ضابطہ ہے کہ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ ، یعنی وہ کسی نیک کام میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں گی، یہاں ” معروف “ یعنی نیک کام کی قید لگانا جب کہ یہ یقینی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی حکم معروف اور نیکی کے سوا ہو ہی نہیں سکتا، یا تو اس لئے ہے کہ عام مسلمان پوری طرح سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، یہاں تک کہ رسول کی اطاعت بھی اس شرط کے ساتھ مشروط کردی گئی۔- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں معاملہ عورتوں کا ہے، ان سے عام اطاعت کہ ان کے کسی حکم کے خلاف نہ کریں گی، کسی کے دل میں اس سے شیطان گمراہی کے وسوسے پیدا کرسکتا ہے اس کا راستہ روکنے کے لئے یہ قید لگا دی، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- تمت - سورة المتحنہ بعون اللہ تعالیٰ و حمدہ - لعثرین خلت من جمادی الاولیٰ سن 1391 ھ - یوم الثلثاء و تیلو ہا انشاء اللہ سورة الصف

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللہِ شَـيْـــــًٔــا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُہْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَہٗ بَيْنَ اَيْدِيْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٢- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- بيع - البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :- إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع :- الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل :- وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه .- وأَبَعْتُ الشیء : عرضته، نحو قول الشاعر :- فرسا فلیس جو ادنا بمباع والمبَايَعَة والمشارة تقالان فيهما، قال اللہ تعالی: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] ، وقال : وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] ، وقال عزّ وجل : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] ، لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، وبَايَعَ السلطان : إذا تضمّن بذل الطاعة له بما رضخ له، ويقال لذلک : بَيْعَة ومُبَايَعَة . وقوله عزّ وجل : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] ، إشارة إلى بيعة الرضوان المذکورة في قوله تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وإلى ما ذکر في قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] ، وأمّا الباع فمن الواو بدلالة قولهم : باع في السیر يبوع : إذا مدّ باعه .- ( ب ی ع )- البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں ؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔ ابعت الشئی کسی چیز کو بیع کے لئے پیش کرنا ۔ شاعر نے کہا ہے یعنی ہم عمدہ گھوڑی فروخت کے لئے پیش نہیں کریں گے ۔ المبایعۃ والمشارۃ خریدو فروخت کرنا ۔ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] اور خرید فروخت ترک کردو ) لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا نہ دوستی ( کام آئے گی ) بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرار یبعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو ۔ میں بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] میں پایا جاتا ہے ۔ الباع ( دونوں بازوں کے پھیلانے کی مقدار جو تقریبا 2 فٹ ہوتی ہے ) یہ مادہ وادی سے ہے کیونکہ باع فی السیر یبوع کہا جاتا ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے کے لمبے لمبے قدم رکھنا کے ہیں ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مہاجر خواتین کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا حکم ہوا ؟- قول باری ہے (یایھا الذین امنوا اذا جآء ک المومنات مھاجرات، اے ایمان لانے والو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آجائیں) تا آخر آیت۔- زہری نے عروہ سے، انہوں نے حضرت مسور بن مخرمہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سے روایت کی ہے کہ صلح حدیبیہ میں سہیل بن عمرو نے قریش کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک شرط یہ پیش کی تھی کہ ہمارا کوئی آدمی اگر آپ لوگوں کے پاس آجائے گا تو آپ اسے ضرور ہمارے پاس واپس بھیج دیں گے خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔- چنانچہ سہیل بن عمرو کے بیٹے حضرت ابوجندل (رض) کو واپس ان کے باپ کے پاس بھیج دیا گیا بلکہ اس مدت میں جو مرد بھی بھاگ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینے میں آگیا آپ نے اسے واپس کردیا خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ تھا۔- پھر مومن عورتیں ہجرت کرکے آنے لگیں ان میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بھی تھیں جو ہجرت کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئی تھیں۔ وہ اس وقت دوشیزہ تھیں ۔- ان کے خاندان والے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے اور ان کی واپسی کا مطالبہ کردیا اللہ تعالیٰ نے ان جیسی خواتین کے بارے میں درج بالا آیت نازل فرمائی۔ عروہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ نے بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کی بنا پر ان خواتین کا امتحان لیا کرتے تھے۔- قول باری ہے (یایھا النبی اذا جآء ک المومنات یبایعسک علی الا یشرکن باللہ۔ اے نبی جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس آئیں کہ آپ ان سے اس شرط پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی) تا آخر آیت۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت لیتے وقت کسی خاتون کے ہاتھ میں ہاتھ نہ ڈالا - حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جو عورتیں آیت میں مذکورہ شرائط کو تسلیم کرلیتیں آپ ان سے فرماتے میں نے تمہاری بیعت لے لی۔ “ آپ الفاظ کے ذریعے ان سے بیعت لیتے، بخدا آپ کا ہاتھ بیعت کرنے والی کسی عورت کے ہاتھ کے ساتھ نہیں لگا۔ “- عکرمہ بن عمار نے ابوزمیل سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) بن الخطاب سے روایت کی ہے کہ اہل مکہ نے حدیبیہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح کی تھی ۔ اس میں ایک شرط یہ تھی کہ جو مسلمان بھاگ کر کافروں کے پاس چلا جائے گا کافر اسے واپس نہیں کریں گے اور کافروں کا جو آدمی بھاگ کر مسلمانوں کے پاس آجائے گا مسلمان اسے واپس کردیں گے۔- الحکم نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ صلح حدیبیہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اہل مکہ میں سے جو شخص مسلمان ہوکر مسلمانوں کے پاس آئے گا اسے واپس کردیا جائے گا۔- سورہ الممتحنہ کا نزول صلح حدیبیہ کے بعد ہوا تھا، اہل مکہ کی جو عورت مسلمان ہوکر مدینہ آجاتی اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مکہ سے کیوں نکل کر آئی ہے۔ اگر وہ اپنے سو ہر سے جان چھڑانے آئی ہوتی تو اسے واپس کردیا جاتا اور اگر وہ اسلام کی رغبت میں آئی ہوتی تو اسے واپس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے شوہر کو وہ رقم واپس کردی جاتی جو اس نے مہر کے طور پر اسے دی ہوتی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے اندر واپسی کی شرط یا تو صرف مردوں کے لئے مخصوص تھی اس میں عورتیں داخل نہیں تھیں جیسا کہ اس طریق کار سے یہ بات ظاہر ہے کہ اہل مکہ کا جو فرد مسلمان ہوکر مدینہ آجاتا اسے واپس کردیا جاتا یا یہ کہ یہ شرط مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے شروع ہی سے عام تھی پھر عورتوں کے سلسلے میں یہ شرط منسوخ ہوگئی۔- یہ دوسری بات زیادہ واضح ہے۔ ہمارے نزدیک یہ جائز ہے اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ سے آنے والی کسی خاتون کو واپس نہیں کیا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ فعلی پر تمکین حاصل ہونے کے بعد اس کا نسخ جائز ہوتا ہے خواہ وہ فعل عملاً واقع نہ بھی ہوا ہو۔- قول باری (یایھا الذین امنوا) میں اہل ایمان کو خطاب ہے لیکن اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد ہے۔ یعنی جب عورتیں ہجرت کرکے آپ کے پاس آجائیں کیونکہ آپ ہی ان کا امتحان کرنے کے ذمہ دار تھے، مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی۔ البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں اس خطاب سے مسلمان مراد ہوتے۔- احکام شریعت ظاہر پر نافذ ہوتے ہیں - قول باری ہے (فان علمتموھن مومنات ، پس اگر تم انہیں مسلمان سمجھ لو) اس سے مراد علم ظاہری ہے۔ حقیقت یقین مراد نہیں ہے۔ کیونکہ حقیقت تک رسائی کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔- اس کی مثال حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا وہ قول ہے جو قرآن کے الفاظ میں یوں مذکور ہے (ان ابنک سوق وما شھدنا الا بما علمنا۔ آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کررہے ہیں) اس سے ان کی مراد ظاہری علم تھا کیونکہ ان کے بھائی نے حقیقت میں چوری نہیں کی تھی۔- آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (وما کنا للغیب حافظین۔ اور غائب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے) بادشاہ کا پیمانہ جب بھائی کے کجاوے سے برآمد ہوا تھا تو لوگوں نے ان پر اسی ظاہر ی جہت سے چوری کا حکم عائد کردیا تھا۔ اس کی مثال ان گواہوں کی گواہی ہے جن کی ظاہری حالت ان کی عدالت اور راست روی کی نشاندہی کرتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی گواہی پر فیصلہ کرنے اور ان کی گواہی کو صحت پر محمول کرنے کا پابند کردیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی اخبار احاد کو قبول کرنے کی بھی یہی بنیاد ہے اور اس کے لئے یہی طریق کار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ہم پر اس شخص کی خبر کو قبول کرنا لازم کردیا ہے جو ہمارے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتا ہو، اگر ایسا شخص ہمارے آپس کے معاملات کے سلسلے میں اپنی ذات کے بارے میں کوئی بات کہے تو ہم پر اس کی بات کو صحت پر محمول کرنا لازم ہے۔- یہ بات ہر شخص کی ایسی خبر کی تصدیق کے لئے اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے جس کا تعلق اسکی اپنی ذات سے ہو اور کسی اور کو اس کی اطلاع نہ ہو مثلاً عورت کی اپنی حیض، طہر یا حمل کے متعلق اطلاع اور خبر۔ یا مثلاً شوہر نے اپنی بیوی سے یہ کہہ دیا ہو کہ ” جب تمہیں حیض ہے تو تمہیں طلاق ہے یا جب تم حیض سے پاک ہو جائو تو تمہیں طلاق ہے۔ “ اس صورت میں حیض اور طہر کے بارے میں عورت کی بات قابل قبول ہوگی۔- عطاء بن ابی رباح نے قول باری (اذا جاء کم المومنات مھاجرات) تا آخر آیت تلاوت کرنے کے بعد کہا ” ہمیں ان کے ایمان کے بارے میں صرف ان کے قول کے ذریعے علم ہوگا جس کا اظہار وہ ہم سے کریں گی۔ “ قتادہ کا قول ہے کہ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ یہ کہیں ” ہم صرف دین کی خاطر، اسلام سے رغبت نیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں نکل کر آئی ہیں۔ “- اختلاف دارین کی بنا پر علیحدگی واقع ہوجانے کا بیان - قول باری ہے (فان علمتموھن مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار لا ھن حد لھم ولا ھم یحلون لھن۔ پس اگر انہیں مسلمان سمجھ لو تو انہیں کافروں کی طرف مت واپس کرو وہ عورتیں ان کافروں کے لئے نہ حلال ہیں اور نہ وہ کافر ان کے لئے حلال ہیں۔ )- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اختلاف دارین کی بنا پر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی واقع ہوجانے پر آیت کئی پہلوئوں سے دلالت کررہی ہے۔ اختلاف دارین کی صورت یہ ہے کہ شوہر دارالحرب کا باشندہ ہو اور بیوی دارالاسلام کی شہری ہو یا اس کے برعکس صورت ہو۔ جب بیوی ہجرت کر کے دارالاسلام میں آجائے گی تو وہ وہاں کی شہری بن جائے گی اور اس کا شوہر جو اپنے کفر پر قائم رہے گا وہ دارالحرب کا باشندہ کہلائے گا۔- اس طرح دونوں کے درمیان اختلاف دارین ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے جوڑے کے درمیان علیحدگی کا حکم عائد کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے (فلا ترجعو ھن الی الکفار) اگر اس صورت میں زوجیت باقی رہتی تو شوہر کو اس بات کا حق حاصل ہوتا کہ بیوی کو اپنے ساتھ جہاں بھی چاہے رکھے۔- اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن) نیز قول باری (واتوھم ما انفقوا، ان کے کافر شوہروں نے جو مہران کو دیے تھے وہ انہیں پیر دو ) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں شوہر کو اس کا دیا ہوا مہر واپس کرنے کا حکم ہے۔- اگر رشتہ ازدواج باقی ہوتا تو شوہر مہر کی واپسی کا مستحق قرار نہ پاتا کیونکہ یہ درست نہیں کہ شوہر بضع اور بضع کے بدل یعنی مہر دونوں کا مستحق قرار دیا جائے۔ اس پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے (ولا جناح علیکم ان تنکحوھن اذا اتیتموھن اجورھن اور تم کو ان عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی گناہ نہیں جبکہ تم ان کے مہران کے حوالے کردو۔ )- اگر پہلا نکاح باقی ہوتا تو اس صورت میں اس کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہ ہوتا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (ولا تمسکوا بعصم الکوافر) عصمہ منع کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کافر عورتوں سے ان کی حربی شوہروں کی بنا پر نکاح کرنے سے بار رہنے کی نہی کردی ہے۔ - جو حربی عورت مسلمان ہوکر دارالاسلام میں ہمارے پاس آجائے اس کے متعلق اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر حربی عورت ہمارے پاس مسلمان ہوکر آجائے اور والحرب میں اس کا کافر شوہر موجود ہو تو شوہر سے اس کی علیحدگی واقع ہوجائے گی اور اس پر عدت بھی لازم نہیں ہوگی۔- امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اس پر عدت لازم ہوگی اور اگر اس کا شوہر مسلمان ہوجائے گا تو وہ اس کے لئے نئے سرے سے نکاح کے ذریعے حلال ہوگی۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک ، امام شافعی، اوزاعی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر تین حیض گزارنے سے پہلے شوہر مسلمان ہوجائے گا تو وہ اس کے لئے نئے سرے سے نکاح کے ذریعے حلال ہوگی۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک، امام شافعی، اوزاعی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر تین حیض گزارنے سے پہلے شوہر مسلمان ہوجائے گا تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ امام شافعی کے نزدیک دارالحرب اور دارالاسلام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اختلاف دارین کا کوئی حق نہیں ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قتادہ نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی یہودی یا نصرانی عورت اپنے شوہر سے پہلے مسلمان ہوجائے تو جب تک یہ دونوں دارالہجرت میں رہیں گے اس وقت تک شوہر اپنی اس بیوی کا زیادہ حق دار ہوگا۔- شیبانی نے سفاح بن مطر سے، انہوں نے دائود بن کردوس سے روایت کی ہے کہ بنو تغلب کا ایک نصرانی مرد تھا جس کی زوجیت میں بنو تمیم کی ایک نصرانی عورت تھی، عورت مسلمان ہوگئی لیکن شوہر نے مسلمان ہونے سے انکار کردیا۔ حضرت عمر (رض) نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔- لیث نے عظاء طائوس اور مجاہد سے روایت کی ہے کہ نصرانی مرد کی بیوی اگر مسلمان ہوجائے اور اس کے ساتھ مرد بھی مسلمان ہوجائے تو وہ اس کی بیوی رہے گی اگر عورت مسلمان نہیں ہوگی تو ان کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی۔- قتادہ نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ بیوی کی عدت کے اندر اگر شوہر مسلمان ہوجائے تو وہ اس کی بیوی رہے گی۔ اگر وہ مسلمان نہیں ہوگی تو دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی۔ حجاج نے عطاء سے اسی قسم کی روایت کی ہے حسن اور سعید بن المسیب سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔- ابراہیم کا قول ہے کہ اگر شوہر مسلمان ہونے سے انکار کردے تو ان کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی۔ عباد بن العوام نے خالد سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر نصرانی عورت اپنے شوہر سے پہلے مسلمان ہوجائے تو وہ اپنی ذات کی زیادہ مالک بن جائے گی۔- ان تمام آراء پر ابوبکر حبصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں سلف کے اختلاف کی تین صورتیں ہوگئیں۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے کہ جب تک یہ دارالہجرت میں رہیں گے اس وقت تک شوہر اپنی بیوی کا زیادہ حق دار رہے گا۔ ہمارے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میاں بیوی ایک ہی دار میں اقامت گزیں رہیں گے تو ان کا یہ حکم ہوگا ۔ لیکن جب اختلاف دارین ہوجانے کا یعنی ایک دارالحرب میں رہ جائے اور فریق آخر دارالاسلام میں تو عورت بائن ہوجائے گی۔- حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ اگر عورت مسلمان ہوجائے اور مرد مسلمان ہونے سے انکار کردے تو دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی۔ یہ بھی اس صورت پر محمول ہے جب دونوں دارالاسلام میں ہوں گے۔ دوسرے حضرات کے نزدیک جن کی آراء ہم نے نقل کی ہے، عورت اس کی بیوی رہے گی جب تک وہ عدت میں ہوگی، جب عدت ختم ہوجائے گی تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اگر عورت مسلمان ہوجائے تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔- تاہم فقہائے امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ایک ہی دار میں ہوں تو عورت کے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے وہ اپنے شوہر سے بائن نہیں ہوگی۔- اگر عورت مسلمان ہوجائے اور شوہر مسلمان نہ ہو تو اس صورت میں علیحدگی واقع ہونے کے وقت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ذمی ہوں اور عورت مسلمان ہوجائے تو اس وقت تک دونوں کے درمیان علیحدگی نہیں ہوگی جب تک شوہر پر اسلام نہ پیش کیا جائے۔- اگر شوہر اسلام قبول کرلے تو فبہا ورنہ دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی۔ اس سلسلے میں حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے جو روایتیں منقول ہیں یہ قول ان کے ہم معنی ہے۔ ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں حربی ہوں اور دارالحرب میں رہتے ہوں اور عورت مسلمان ہوجائے تو اس صورت میں وہ اس کی بیوی رہے گی جب تک اسے تین حیض نہ آجائے۔- اگر شوہر کے مسلمان ہونے سے پہلے وہ تین حیض گزارے تو علیحدگی واقع ہوجائے گی۔ سلف کے جن حضرات سے حیض کا اعتبار منقول ہے۔ عین ممکن ہے کہ انہوں نے یہ مراد لی ہو کہ جب میاں بیوی حربی ہوں اور دارالحرب میں رہتے ہوں۔- ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ حربی جوڑے میں سے جو بھی مسلمان ہوکر ہمارے پاس آجائے گا اور دوسرا دالحرب میں ٹھہرا رہے گا تو اس صورت میں اختلاف دارین کی بنا پر علیحدگی واقع ہوجائے گی۔- ہم نے اس قول کی صحت پر آیت کی دلالت کے مختلف پہلوئوں کا پہلے ہی ذکر کردیا ہے اس کی ایک دلیل یہ قول باری ہے (والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں البتہ ایسی عورتیں مستثنیٰ ہیں جو جنگ میں تمہارے ہاتھ آئیں)- حضرت ابوسعید خدری (رض) کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول جنگ اوطاس میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے بارے میں ہوا تھا، ان عورتوں کے مشرک شوہر موجود تھے لیکن جنگ میں گرفتار ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ان کی اباحت کردی۔- سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ہر شوہر والی عورت سے ہم بستری زنا ہے مگر جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوجائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے۔ (لا توطا حامل حتی تصنع ولا حائل حتی تسہراء عیثۃ)- حاملہ عورت کا جب تک وضع حمل نہ ہوجائے اور غیر حاملہ کا ایک حیض کے ذریعے استبراء رحم نہ ہوجائے ان کے ساتھ ہم بستری نہ کی جائے۔- فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ استبراء رحم کے بعد گرفتار شدہ عورت کے ساتھ ہم بستری جائز ہے خواہ دارالحرب میں اس کا شوہر موجود کیوں نہ ہو بشرطیکہ شوہر بھی اس کے ساتھ گرفتار نہ ہوا ہو۔ اس لئے علیحدگی واقع ہونے کا تعلق یا تو عورت کے مسلمان ہوجانے کے ساتھ ہوگا یا اختلاف دارین کے ساتھ ہوگا جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں یا پھر اس پر ملکیت کے حدوث کے ساتھ ہوگا۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کا مسلمان ہوجانا فوری طور پر علیحدگی کا موجب نہیں ہوتا ۔- نیز یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ ملکیت کا حدوث نکاح کو رفع نہیں کرتا جس کی دلیل یہ ہے کہ شوہر والی لونڈی کو اگر فروخت کردیا جائے تو علیحدگی واقع نہیں اسی طرح اگر شوہر والی لونڈی کا آقا مرجائے تو وارث کی طرف ملکیت کا انتقال نکاح کو رفع نہیں کرتا۔- جب درج بالا دونوں صورتیں باطل ہوگئیں تو اب صرف تیسری صورت یعنی اختلاف دارین علیحدگی واقع ہونے کی وجہ رہ گئی ۔- اگر یہ کہا جائے کہ اختلاف دارین علیحدگی کا موجب نہیں ہے کیونکہ مسلمان اگر امان لے کر دارالحرب میں چلا جائے تو اس کی بیوی کے ساتھ اس کا نکاح باطل نہیں ہوتا اسی طرح اگر حربی امان لے کر دارالاسلام میں داخل ہوجائے تو علیحدگی واقع نہیں ہوتی اسی طرح اگر میاں بیوی دارالحرب میں مسلمان ہوجائیں اور پھر ان میں سے کوئی ایک دارالاسلام میں آجائے تو ان کے درمیان علیحدگی واقع نہیں ہوتی۔- ان مثالوں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ علیحدگی کے ایجاب میں اختلاف دارین کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اختلاف دارین کا وہ مفہوم نہیں ہے جو معترض نے اختیار کیا ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں میں سے ای دارالاسلام کا باشندہ ہو اس کی یہ شہریت یا تو مسلمان ہونے کی وجہ سے ہو یا ذمی ہونے کی بنا پر ہو، اور دوسرا دارالحرب کا باشندہ ہو، اس صورت میں وہ کافر حربی ہوگا۔- لیکن اگر دونوں مسلمان ہوں تو انہیں ایک ہی دار کے باشندے تصور کیا جائے گا خواہ ان میں سے ایک دارالاسلام میں مقیم ہو اور دوسرا دارالحرب میں۔- اگر ہم سے اختلاف رکھنے والا اس روایت سے استدلال کرے جسے یونس نے محمد بن اسحاق سے نقل کیا ہے ، انہوں نے دائود بن الحصین سے، انہوں نے عکرمہ سے۔- اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعباس بن الربیع کی طرف چھ سال کے بعد پہلے نکاح کی بنا پر واپس بھیج دیا تھا۔ زینب ہجرت کرکے مدینہ آگئی تھیں جب کہ ان کا خاوند شرک کی حالت میں مکہ میں مقیم رہا تھا۔ پھر آپ نے زینت کو پہلے نکاح کی بنا پر ان کے خاوند کے پاس بھیج دیا تھا۔- یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ علیحدگی واقع کرنے میں اختلاف دارین کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس واقعہ سے مخالف کا اپنے حق میں استدلال درست نہیں ہے اس کے کئی وجوہ ہیں۔- ایک وجہ تو یہ ہے کہ مخالف نے یہ کہا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی کو چھ سال کے بعد پہلے نکاح کی بنا پر واپسی بھیج دیا تھا جبکہ فقہاء کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورت کو تین حیض گزر جانے کے بعد پہلے نکاح کی بنا پر واپس نہیں بھیجا جائے گا اور یہ بات تو واضح ہے کہ عادۃ تین حیض کے لئے چھ سال کی مدت نہیں ہوتی۔ اس بنا پر اس جہت سے معترض کا استدلال ساقط ہوگیا۔- اس استدلال کے درست نہ ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہے وہ یہ کہ خالد نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک یہودی عورت کے متعلق جو اپنے شوہر سے پہلے مسلمان ہوگئی روایت کی ہے کہ وہ اپنی ذات کی زیادہ مالک بن گئی تھی، گویا حضرت ابن عباس (رض) کا مسلک یہ تھا کہ عورت کے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے علیحدگی واقع ہوگئی تھی۔ اب یہ بات تو درست ہو ہی نہیں سکتی کہ حضرت ابن عباس ایک حکم کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرنے کے بعد خود اس سے اختلاف کریں۔- تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عمر و بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کی طرف دوسرے نکاح کی بنا پر واپس کیا تھا۔- یہ روایت دائود بن الحصین کی روایت کی معارض ہے۔ عمرو بن شعیب کی یہ روایت اس کے باوجود اولیٰ ہے کہ کیونکہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ زینب اپنے شوہر کے مسلمان ہوجانے کے بعد بحالہ اس کی بیوی رہیں۔ اس روایت سے عقد ثانی کی کوئی بات معلوم نہیں ہوئی جبکہ عمرو بن شعیب کی روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوالعاص کے مسلمان ہوجانے کے بعد ان کے ساتھ عقد ثانی ہوا۔ اس لئے یہ روایت اولیٰ ہوگئی۔- کیونکہ پہلی روایت میں ظاہر حال کی خبر دی گئی ہے جبکہ اس دوسری روایت میں ایک نئی بات کے پیدا ہونے کی اطلاع دی گئی ہے جس کا علم راوی کو ہوا تھا۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جو حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت میمونہ کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کے متعلق نقل کی ہے کہ آپ نے حالت حرام میں ان کے ساتھ نکاح کیا تھا جبکہ یزید ین الا صم کی روایت ہے کہ آپ نے حالت احلال میں ان کے ساتھ عقد کیا تھا۔ یہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت اولیٰ ہے کیونکہ اس میں ایک نئے پیدا ہونے والے حال کی خبر دی گئی ہے جبکہ یزیدبن الاصم (رض) کی روایت میں ظاہر حال کی اطلاع دی گئی ہے یا جس طرح بریرہ (رض) کے شوہر کے متعلق روایت ہے کہ وہ بریرہ (رض) کی آزادی کے وقت آزاد تھے جبکہ ایک اور روایت کے مطابق وہ اس وقت غلام تھے ۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ پہلی روایت اولیٰ ہے کیونکہ اس میں ایک نئی بات کی اطلاع ہے جس کا علم راوی کو ہوا تھا جبکہ دوسری روایت میں ظاہر حال کی اطلاع ہے اور راوی کو اس نئی بات کا علم نہیں ہوسکا تھا۔- فصل - امام ابوحنیفہ نے ہجرت کرکے دارالاسلام میں آجانے والی عورت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ اپنے حربی شوہر سے علیحدگی کی عدت نہیں گزارے گی۔ اس کی وجہ یہ قول باری ہے (ولا جناح علیکم ان تنکحوھن ، ان کے ساتھ نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے عدت کا ذکر کیے بغیر ان کے ساتھ نکاح کی اباحت کردی)- سلسلہ تلاوت میں یہ بھی فرمایا (ولا تمسکوھن بعصم الکوافر) عصمت کے معنی منع کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کافر عورت کے ساتھ اس کے حربی شوہر کی بنا پر نکاح کرنے سے باز رہنے کی نہی کردی ہے۔ کو افر کے لفظ کا مردوں کو بھی شامل ہونا جائز ہے۔ اس مقام پر ظاہراً اس کا اطلاق مردوں پر ہوا ہے کیونکہ یہ لفظ ہجرت کرکے آنے والی عورتوں کے ذکر کے سلسلے میں لایا گیا ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حیض کے ذریعے استہزاء رحم کے بعد گرفتار شدہ عورت سے ہم بستری کو جائز کردیا ہے۔- حالانکہ استبراء عدت نہیں ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ (عدۃ الامۃ حیضتان ، لونڈی کی عدت دو حیض ہے) اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اختلاف دارین کی بنا پر علیحدگی واقع ہوجاتی ہے۔- کافر بیوی کے مہر کا بیان - قول باری ہے (واسئلواما انفقتم ولیسئلوا ماانفقوا، جو مہر تم نے اپنی بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں) معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ اس سے مہر مراد ہے۔ یعنی اہل حرب سے وہ مہر واپس مانگ لو جو تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے جب یہ بیویاں ان کے پاس رہ جائیں یا چلی جائیں۔- اسی طرح اہل حرب مسلمانوں سے اپنی ان بیویوں کے مہر واپس مانگ لیں جو مسلمان ہوکر دارالاسلام میں آجائیں۔ زہری کا قول ہے کہ اہل ایمان نے تو اللہ کے حکم کو تسلیم کرلیا یعنی مہر واپس دینے کے لئے تیار ہوگئے لیکن مشرکین نے اللہ کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وان فاتکم شیء من ازواجکم الی الکفار فعاقبتم فاتوا الذین ذھبت ازواجھم مثل ما انفقوا، اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہر میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہوں ان کو اتنی رقم ادا کردو جو ان کے دیے ہوئے مہروں کے برابر ہو)- اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ اگر مسلمان کی کوئی کافر بیوی دارالحرب چلی جائے اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں مہروں کی رقم ہو جسے وہ کافروں کی طرف لوٹانے والے ہوں تو اس میں سے مسلمان شوہر کو اس کے دیے ہوئے مہر کی رقم واپس کردیں اور پھر باقی ماندہ رقم کافروں کو واپس کریں۔- خصیف نے مجاہد سے قول باری (واسئلوا ما انفقتم) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ مسلمان شوہر کو اس کے دیے ہوئے مہر کا معاوضہ مال غنیمت سے ادا کردیا جائے۔ زکریا بن ابی زائدہ نے شعبی سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت (واسئلوا ماانفقتم ولیسئلوا ما اتفقوا ) تو کافر بیوی کے شوہر کو اتنی رقم معاوضہ میں دے دو جو اس کے ہاتھ سے مہر کی صورت میں نکل گئی ہو۔- سعید نے قتادہ سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ یہ معاوضہ اسے مجموعی مال غنیمت سے دیا جائے گا اور پھر مال غنیمت کی تقسیم ہوگی۔ ابن اسحاق نے زہری سے روایت کی ہے کہ اگر تم میں سے کسی کی بیوی کافروں کے پاس رہ جائے اور کافروں کی طرف سے کوئی عورت تمہارے پاس نہ آئے جس سے تم ادا کیے ہوئے مہر کے برابر رقم وصول کرسکو تو اس صورت میں اگر تمہیں اموال فئے میں سے کچھ ہاتھ آئے تو اس میں سے انہیں معاوضہ دے دو ۔- یہاں یہ کہنا درست ہے کہ زہری سے یہ روایت اس روایت کے خلاف نہیں جس کا ہم پہلے ذکر آئے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے پاس کافروں کو واجب الاد مہروں کی رقم ہوتی تو اس میں سے مسلمان شوہروں کو ان کے دیے ہوئے مہروں کے بدلے رقم دے دی جاتی اور اگر ایسی رقم نہ ہوتی جسے کافروں کو واپس کرنا واجب ہوتا تو اس صورت میں مسلمان شوہروں کو مال غنیمت سے ان کے دیے ہوئے مہروں کی رقم واپس کردی جاتی۔- درج بالا احکام جن کا تعلق کافروں کو مہر کی رقمیں واپس کرنے، ان سے رقمیں واپس لینے نیز مسلمان شوہر کو مال غنیمت سے یا مہر کی اس رقم سے معاوضہ دینے کے ساتھ ہے جسے کافروں کو واپس کرنا واجب ہو، اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک منسوخ ہوچکے ہیں۔- البتہ اس سلسلے میں عطا سے ایک روایت ہے، عبدالرزاق نے ابن جریج سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں عطاء سے پوچھاکا کیا خیال ہے کہ اگر مشرکین کی کوئی عورت مسلمانوں کے پاس آکر اسلام قبول کرلے، آیا اس کے شوہر کو مہر کا معاوضہ دیا جائے گا کیونکہ سورة الممتحنہ میں یہ قول باری ہے (واتوھم ما انفقوا)- عطاء نے جواب میں کہا کہ یہ بات ان لوگوں کے لئے تھی جن سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ تھا۔ میں نے کہا کہ اب ایک ایسی عورت آئی ہے جس کا تعلق اہل معاہدہ سے ہے، یہ سن کر عطاء نے کہا کہ اس کے شوہر کو معاوضہ دیا جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عطاء کا یہ مسلک اجماع کے خلاف ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قرآن وسنت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے درج بالا احکام کے نسخ کی موجب بنتی ہو، پھر ان احکام کا نسخ کیسے واجب ہوا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ممکن ہے کہ یہ احکام قول باری (ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ، آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو الا یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کی صورت ہو) کی بنا پر منسوخ ہوگئے ہوں۔- نیز شاہد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (لا یحل مال امری مسلم الا بطیبۃ من نفسہ ، کسی مسلمان کا مال کھانا حلال نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ بطیب خاطر اپنے مال میں سے کچھ دے دے) کی بنا پر یہ احکام منسوخ ہوگئے ہوں۔- قول باری ہے (ولا یاتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن وارجلھن اور اپنے ہاتھ پائوں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ ایسے بچوں کو ملحق نہیں کریں گی جو ان کے نطفوں سے نہ ہوں۔- ایک قول کے مطابق اہل احصان پر زنا کی تہمت لگانا، لوگوں پر جھوٹ باندھنا، ان پر غلط الزام لگانا اور ان کے متعلق ایسی بات کہنا جو ان میں نہ پائی جاتی ہو، یہ تمام صورتیں آپ کے حکم میں داخل ہیں اسی طرح جھوٹ کی تمام صورتیں بھی اس میں داخل ہیں۔ ظاہر آیت ان تمام صورتوں کا مقتضی ہے۔- قول باری ہے (ولا لعصینک فی معروف اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی) معمر نے ثابت سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عورتوں سے بعیت لی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہ کریں گی۔ چند عورتیں بول اٹھیں کہ ” اللہ کے رسول “ زمانہ جاہلیت میں کچھ عورتوں نے نوحہ کرنے میں ہماری ہمنوائی کی تھی ہم زمانہاسلام میں ان کی ہمنوائی کریں گی۔- یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اسلام میں نوحہ کے اندر کوئی ہمنوائی نہیں۔ اسلام میں شعار نہیں (کسی کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کا اس شرط پر نکاح کہ وہ بھی اپنی یا بیٹی کا نکاح مہر کے بغیر کے ساتھ کردے) اسلام میں جلب نہیں (یہ جائز نہیں کہ مویشیوں کی زکوٰۃ کا محصل مویشیوں کے مالکوں کو اپنے تمام جانور اس جگہ لانے کے لئے کہے جہاں وہ ٹھہرا ہوا ہے بلکہ خود ان کے پاس چل کر جائے ) اسلام میں جنب نہیں (یہ جائز نہیں کہ مویشیوں کے مالکان محصل کو تنگ کرنے اور زکوٰۃ سے بچنے کے لئے اپنے جانور ادھر ادھر کردیں بلکہ اپنے ڈیروں پر رکھیں) اور جس نے لوٹ کار کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔- شہر بن جو شب سے مروی ہے، انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آیت (ولا یعصیتک فی معو وف) سے مراد مرنے والوں پر نوحہ کرنا ہے۔- ہشام نے حفصہ سے اور انہوں نے حضرت ام عطیہ (رض) سے روایت کی ہے کہ بیعت لیتے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم مرنے والے پر نوحہ نہیں کریں گی اور قول باری (ولا یعصینک فی معروف) کا یہی مفہوم ہے۔- عطاء نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مجھے دو احمقانہ آوازوں سے روکا گیا ہے، لہو ولعب کی آواز نیز گاتے وقت مزامیر شیطان یعنی بانسری کی شیطانی آواز سے۔ اور معصیبت کے وقت رونے دھونے کی آواز سے جس کے ساتھ چہرہ نوچنا، گریبان پھاڑنا اور شیطان کی آواز میں فریاد کرنا ہوتا ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اللہ کی اطاعت کی تمام صورتوں کے لئے عموم ہے کیونکہ اطاعت کی تمام صورتیں معروف کہلاتی ہیں اور مرنے والے پر نوحہ نہ کرنا آیت کی مراد کی ایک صورت ہے۔ اللہ کو معلوم تھا کہ اس کا نبی کبھی معروف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا پھر بھی اس نے اپنے نبی کی نافرمانی سے منع کرتے ہوئے معروف کی شرط لگادی تاکہ کوئی شخص کبھی اس امر کی گنجائش نہ نکال سکے کہ ایسی حالت میں بھی سلاطین کی اطاعت کی جائے جب کہ ان کا حکم اللہ کی اطاعت میں نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو افضل البشر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں بھی معروف کی شرط لگا دی ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں) نیز آپ کا ارشاد ہے (من اطاع مخلوقاً فی معصیۃ الخالق سلط اللہ علیہ ذلک المخلوق جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کردیتا ہے) دوسرے الفاظ میں اس مخلوق کی تعریفیں کرنے والا خود اس کی مذمت کرنے والا بن جاتا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے (یایھا النبی اذاجآء ک المومنات یبایعنک) میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خطاب کی تخصیص کردی کیونکہ مسلمان ہونے والیوں سے بیعت لینا صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تھا لیکن ہجرت کرکے آنے والی عورتوں کی جانچ پڑتال اور امتحان کے حکم کو تمام مسلمانوں کے لئے عام رکھا۔- چنانچہ ارشاد ہوا (یایھا الذین امنوا اذا جآء کم المومنات مھاجرات فامتحنوھن ) کیونکہ جانچ پڑتال کا کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص نہیں تھا۔ بلکہ اس میں دوسرے بھی شریک تھے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہم اب بھی ہجرت کرکے آنے والی عورت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے نبی اکرم فتح مکہ کے بعد جب اہل مکہ کی مسلمان عورتیں آپ کے پاس آئیں اور آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی اور نہ اس چیز کو حلال سمجھیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی زندہ لڑکیوں کو دفن کریں گی اور نہ ان باتوں کو حلال سمجھیں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولاد لائیں گی کہ جس کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کردیں کہ یہ تیرا لڑکا ہے اور میں نے جنا ہے اور تمام ان باتوں میں جن کا آپ ان کو حکم دیں اور جسن سے آپ ان کو منع کریں آپ کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔ مثلا نوحہ نہیں کریں گی بال نہیں رلائیں گی، کپڑے نہیں پھاڑیں گی، چہرے نہیں نوچیں گی، گریبان نہیں چاک کریں گی اور کسی نئے آدمی کے ساتھ تنہائی میں نہیں بیٹھیں گی اور نامحرم کے ساتھ تین دن اور اس سے کم کا سفر نہیں کریں گی تو آپ ان شرطوں پر ان سے بیعت کرلیا کیجیے اور زمانہ جاہلیت میں جو ان سے غلطیاں ہوں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کیجیے بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ کے پاس آئیں مومن خواتین آپ سے بیعت کرنے کے لیے “- اب آگے بیعت کا وہ متن دیا گیا ہے جس کا ذکر سطور بالا میں ہوا تھا :- عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا ” اس بات پر کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی “- وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ ” اور نہ چوری کریں گی ‘ نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی “- وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ ” اور نہ وہ کوئی بہتان باندھیں گی جو ان کے ہاتھوں اور پائوں کے مابین سے ہو “- یعنی یہ کہ وہ کسی پر زنا کی تہمت نہیں لگائیں گی ‘ کوئی جنسی سکینڈل نہیں گھڑیں گی۔ اس تہمت کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی عورت کسی مرد پر الزام لگا دے کہ اس نے اس کی آبروریزی کی ہے۔ ایسے الزامات انبیاء کرام پر بھی لگتے رہے ہیں۔ اس بیعت کی آخری شق یہ ہے کہ :- وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ ” اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہیں کریں گی معروف میں “- فَـبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے استغفار کریں۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے و الا ہے۔ “- احادیث میں بیعت عقبہ اولیٰ کا جو مضمون ملتا ہے وہ بھی خواتین کی اس بیعت کے مضمون سے ملتا جلتا ہے ‘ اسی لیے بیعت عقبہ اولیٰ کو ” بیعت النساء “ بھی کہا جاتا ہے۔ بیعت عقبہ اولیٰ کے زمانے تک اہل ایمان چونکہ ایک باقاعدہ جماعت کی شکل میں منظم نہیں ہوئے تھے اس لیے اس بیعت کے مضمون میں جماعتی نظم و ضبط سے متعلق کوئی شق موجود نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں صوفیاء اپنے عقیدت مندوں سے جو ’ بیعت ِارشاد ‘ لیتے ہیں اس کا مضمون بھی تقریباً انہی نکات پر مشتمل ہوتا ہے کہ میں شرک نہیں کروں گا ‘ چوری نہیں کروں گا ‘ بدکاری نہیں کروں گا ‘ وغیرہ ۔ گویا بیعت ِعقبہ اولیٰ ‘ بیعت ِخواتین اور بیعت ِارشاد تینوں کا مضمون تقریباً ایک ہی ہے ۔ البتہ وہ بیعت جس کی بنیاد پر مسلمان باقاعدہ ایک جماعت کے طور پر منظم ہوئے وہ بیعت ِعقبہ ثانیہ ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت (رض) کی روایت کردہ ایک متفق علیہ حدیث میں اس بیعت کے مضمون کا پورا متن موجود ہے۔ حضرت عبادہ (رض) بن صامت روایت کرتے ہیں : (بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ) اس بات پر کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے (فِی الْعُسْرِ ) تنگی اور مشکل میں بھی (والْیُسْرِ ) اور آسانی میں بھی (وَالْمَنْشَطِ ) اس حالت میں بھی کہ ہماری طبیعتوں میں انشراح ہو کہ ہاں یہ کام واقعی بہت مفید ہے اور درست ہے (وَالْمَکْرَہِ ) اور اس حالت میں بھی کہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے۔ یعنی ہمیں کسی فیصلے سے اتفاق نہ ہو تب بھی ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ مانیں گے۔ (وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا) اور اس کے باوجود کہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دے دی جائے ۔ یعنی ہمارے مقابلے میں اگر کسی نووارد کو بھی امیر بنا دیا جائے گا تب بھی ہم اعتراض نہیں کریں گے۔ (وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ) اور جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذمہ دار یا امیر بنائیں گے ان سے ہم جھگڑا نہیں کریں گے ‘ بلکہ ان کا ہر حکم مانیں گے٭۔ (وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا) اور یہ کہ ہم حق بات ضرور کہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں گے (لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ) (١) اور ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کے خوف سے اپنی زبان بند نہیں کریں گے۔ - بیعت عقبہ ثانی کے اس مضمون کو ہم نے صرف ایک فقرے کے اضافے کے ساتھ تنظیم اسلامی کی بیعت کے لیے اختیار کیا ہے اور وہ اضافی فقرہ یہ ہے : اُبَایِعُ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِکہ میں بیعت کرتا ہوں اس بات پر کہ ہر وہ حکم سنوں گا اور مانوں گا جو شریعت کے دائرے سے باہر نہ ہو آج ایسی کسی بھی بیعت کے لیے اس فقرے کا اضافہ اس لیے ضروری ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت تو مطلق تھی ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تو ہر حکم ہی معروف کے دائرے میں تھا ‘ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی بھی شخصیت کی مطلق اطاعت پر بیعت کرنا درست نہیں۔ اسی لیے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی خلیفہ بننے پر صحابہ کرام (رض) سے جو بیعت لی وہ بھی مشروط تھی۔ یعنی آپ (رض) کی بیعت کرنے والا ہر شخص آپ (رض) کا صرف وہی حکم ماننے کا پابند تھا جو قرآن و سنت کے دائرے کے اندرہو۔- بیعت عقبہ ثانیہ کے مذکورہ مضمون کا تعلق ایک جماعت اور تنظیم کے نظم و نسق سے ہے۔ چناچہ اسی بیعت کی بنیاد پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مضبوط جماعت منظم فرمائی اور مدینہ منورہ میں بارہ نقیب (نو قبیلہ خزرج اور تین قبیلہ اوس سے) مقرر فرما کر اہل ایمان کی جماعت کے ذیلی تنظیمی ڈھانچے کی بنیاد بھی رکھ دی ۔ اس سے پہلے مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اور تمام اہل ایمان مکہ کی حدود میں ہی رہتے تھے۔ مکہ ایک چھوٹا سا شہر تھا اور اہل ایمان کے امیر یا سربراہ کی حیثیت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خودشہر میں موجود تھے۔ اس لیے کوئی نقیب یا ذیلی امیر مقرر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب مسلمان مکہ سے دور مدینہ میں بھی موجود تھے اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا تھا اس لیے وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الگ تنظیمی ڈھانچہ تشکیل فرمایا۔- جماعتی زندگی میں عملی جدوجہد کے دوران چونکہ جہاد و قتال کے مراحل بھی آتے ہیں اور ایسے مراحل میں خواتین بالواسطہ طور پر ہی حصہ لیتی ہیں ‘ اس لیے حضرت عبادہ (رض) بن صامت کے روایت کردہ متن کے مطابق خواتین سے بیعت جہاد نہیں لی گئی ‘ بلکہ ان سے آیت زیر مطالعہ کے مضمون کے مطابق ہی بیعت لی گئی کہ وہ فلاں فلاں افعال نہیں کریں گی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بھی بھلائی کا حکم دیں گے اس کی نافرمانی نہیں کریں گی۔- ہمارے ہاں تنظیم اسلامی میں بھی خواتین سے بیعت کے لیے بعینہٖ یہی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو اس آیت میں آئے ہیں۔ دراصل خواتین کی بیعت سے مقصود یہ نہیں کہ وہ بھی غلبہ دین کی جدوجہد میں َمردوں کی طرح عملی کردار ادا کریں یا جہاد و قتال میں حصہ لیں ‘ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جماعتی زندگی کے ساتھ تعلق کی بنا پر کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کے حکم کی مصداق بن کر جماعتی زندگی کے فیوض و برکات سے وہ بھی بہرور ہوتی رہیں اور جماعتی زندگی کے لزوم سے متعلق احکامات پر بھی ان کا عمل ہوتا رہے ۔ لزومِ جماعت کے حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درج ذیل احادیث بہت قطعی اور واضح ہیں :- (١) (عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ ، وَاِیَّاکُمْ وَالْـفُرْقَـۃَ ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ ، وَھُوَ مِنَ الْاِثْـنَـیْنِ اَبْعَدُ ) (١)- ” تم پر جماعت کی شکل میں رہنا فرض ہے ‘ اور تم تنہا مت رہو ‘ اس لیے کہ اکیلے شخص کا ساتھی شیطان بن جاتا ہے ‘ لیکن اگر دو (مسلمان) ایک ساتھ رہیں تو وہ دور ہوجاتا ہے۔ “- حضرت عبداللہ بن عمر - روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (٢) (یَدُ اللّٰہِ مَعَ الْجَمَاعَۃِ ، ومَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ ) (٢)- ” اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ‘ اور جو شخص خود کو جماعت سے کاٹ لیتا ہے وہ آگ میں ڈالا جائے گا۔ “- جماعتی زندگی کی اہمیت اور ” جماعت “ کے ڈسپلن سے متعلق حضرت عمر (رض) کا یہ فرمان بھی بہت واضح ہے :- اِنَّــہٗ لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجَمَاعۃٍ وَلاَ جَمَاعَۃَ اِلَّا بِاِمَارَۃٍ وَلَا اِمَارَۃَ اِلاَّ بِطَاعَۃٍ (٣)- ” یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نہیں ہے بغیر جماعت کے ‘ اور کوئی جماعت نہیں ہے بغیر امارت کے ‘ اور امارت کا کوئی فائدہ نہیں اگر اس کے ساتھ اطاعت نہ ہو۔ “- بہرحال جماعت سازی کا مسنون ‘ منصوص اور ماثور طریقہ بیعت کا طریقہ ہی ہے ‘ لیکن آج کل اکثر دینی جماعتوں نے یہ مسنون طریقہ ترک کر کے دوسرے طریقے اپنا لیے ہیں۔ اگرچہ رائج الوقت سب طریقے بھی مباح ہیں ‘ لیکن ظاہر ہے مباح اور سنت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی لیے ہم نے تنظیم اسلامی کی اساس بیعت کے نظام پر رکھی ہے ۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس اہم سنت کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی جو آج کل جماعت سازی کے حوالے سے بالکل متروک ہوچکی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :18 جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ، یہ آیت فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو قریش کے لوگ جوق در جوق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہونے لگے ۔ آپ نے مردوں سے کوہ صفا پر خود بیعت لی اور حضرت عمر کو اپنی طرف سے مامور فرمایا کہ وہ عورتوں سے بیعت لیں اور ان باتوں کا اقرار کرائیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں ( ابن جریر بروایت ابن عباس ۔ ابن ابی حاتم بروایت قتادہ ) ۔ پھر مدینہ واپس تشریف لے جا کر آپ نے ایک مکان میں انصار کی خواتین کو جمع کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمر کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجا ( ابن جریر ، ابن مردویہ ، بزار ، ابن حبان ، بروایت ام عطیہ انصاریہ ) ۔ عید کے روز بھی مردوں کے درمیان خطبہ دینے کے بعد آپ عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں اپنے خطبہ کے دوران میں آپ نے یہ آیت تلاوت کر کے ان باتوں کا عہد لیا جو اس آیت میں مذکور ہوئی ہیں ( بخاری ، بروایت ابن عباس ) ۔ ، ان مواقع کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں عورتیں فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرتی رہیں جن کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :19 مکہ معظمہ میں جب عورتوں سے بیعت لی جا رہی تھی اس وقت حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے اس حکم کی تشریح دریافت کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، یا رسول اللہ ، ابوسفیان ذرا بخیل آدمی ہیں کیا میرے اوپر اس میں کوئی گناہ ہے کہ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے لیے ان سے پوچھے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں ، مگر بس معروف کی حد تک ۔ یعنی بس اتنا مال لے لو جو فی الواقع جائز ضروریات کے لیے کافی ہو ( احکام القرآن ، ابن عربی ) ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :20 اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے ، خواہ وہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :21 اس سے دو قسم کے بہتان مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دوسری عورتوں پر غیر مردوں سے آشنائی کی تہمتیں لگائے اور اس طرح کے قصے لوگوں میں پھیلائے ، کیونکہ عورتوں میں خاص طور پر ان باتوں کے چرچے کرنے کی بیماری پائی جاتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ ایک عورت بچہ تو کسی کا جنے اور شوہر کو یقین دلائے کہ تیرا ہی ہے ۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت کسی خاندان میں کوئی ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے اس کا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں ، اور اللہ اسے کبھی جنت میں داخل نہ کرے گا ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :22 اس مختصر سے فقرے میں دو بڑے اہم قانونی نکات بیان کیے گئے ہیں : پہلا نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے ، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس امر کے کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی منکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں ۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانون خداوندی کے حدود سے باہر جا کر نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ جب خدا کے رسول تک کی اطاعت معروف کی شرط سے مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اطاعت کا حق پہنچے اور اس کے کسی ایسے حکم یا قانون یا ضابطے اور رسم کی پیروی کی جائے جو قانون خداوندی کے خلاف ہو ۔ اس قاعدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ ، انما الطاعۃ فی المعروف ۔ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے ، اطاعت صرف معروف میں ہے ( مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ) ۔ یہی مضمون اکابر اہل علم نے اس آیت سے مستبط کیا ہے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں ، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط سے مشروط کیا ہے تو کسی اور شخص کے لیے یہ کیسے سزاوار ہو سکتا ہے کہ معروف کے سوا کسی معاملہ میں اس کی اطاعت کی جائے ( ابن جریر ) ۔ امام ابو بکر جصاص لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا نبی کبھی معروف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا ، پھر بھی اس نے اپنے نبی کی نافرمانی سے منع کرتے ہوئے معروف کی شرط لگا دی تاکہ کوئی شخص کبھی اس امر کی گنجائش نہ نکال سکے کہ ایسی حالت میں بھی سلاطین کی اطاعت کی جائے جبکہ ان کا حکم اللہ کی اطاعت میں نہ ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : من اطاع مخلوقاً فی معصیۃ الخالق سلَّط اللہ علیہ ذٰلک المخلوق ، یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے ، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے ( احکام القرآن ) علامہ آلوسی فرماتے ہیں : یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیال کی تردید کرتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اولی الامر کی اطاعت مطلقاً لازم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگا دی ہے ، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا ۔ اس سے مقصود لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے ( روح المعانی ) ۔ پس در حقیقت یہ ارشاد اسلام میں قانون کی حکمرانی ( ) کا سنگ بنیاد ہے ۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر کام جو اسلامی قانون کے خلاف ہو ، جرم ہے اور کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ ایسے کسی کام کا کسی کو حکم دے ۔ جو شخص بھی خلاف قانون حکم دیتا ہے وہ خود مجرم ہے اور جو شخص اس حکم کی تعمیل کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے ۔ کوئی ماتحت اس عذر کی بنا پر سزا سے نہیں بچ سکتا کہ اس کے افسر بالا نے اسے ایک ایسے فعل کا حکم دیا تھا جو قانون میں جرم ہے ۔ دوسری بات جو آئنی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ ہے کہ اس آیت میں پانچ منفی احکام دینے کے بعد مثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام نیک کاموں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کی جائے گی ۔ جہاں تک برائیوں کا تعلق ہے ، وہ بڑی بڑی برائیاں گنا دی گئیں جن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلا تھیں اور ان سے باز رہنے کا عہد لے لیا گیا ، مگر جہاں تک بھلائیوں کا تعلق ہے ان کی کوئی فہرست دے کر عہد نہیں لیا گیا کہ تم فلاں فلاں اعمال کرو گی بلکہ صرف یہ عہد لیا گیا کہ جس نیک کام کا حضور حکم دیں گے اس کی پیروی تمہیں کرنی ہوگی ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ نیک اعمال صرف وہی ہوں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے تو عہد ان الفاظ میں لیا جانا چاہیے تھا کہ تم اللہ کی نافرمانی نہ کرو گی یا یہ کہ تم قرآن کے احکام کی نافرمانی نہ کرو گی ۔ لیکن جب عہد ان الفاظ میں لیا گیا کہ جس نیک کام کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیں گے تم اس کی خلاف ورزی نہ کرو گی تو اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیع ترین اختیارات دیے گئے ہیں اور آپ کے تمام احکام واجب الاطاعت ہیں خواہ وہ قرآن میں موجود ہو یا نہ ہوں ۔ اسی آئینی اختیار کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے ہوئے ان بہت سی برائیوں کے چھوڑنے کا عہد لیا جو اس وقت عرب معاشرے کی عورتوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور متعدد ایسے احکام دیے جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں ۔ اس کے لیے حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں : ابن عباس ، ام سلمہ اور ام عطیہ انصاریہ وغیرہ کی روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہ کریں گی ۔ یہ روایات بخاری ، مسلم ، نسائی اور ابن جریر نے نقل کی ہیں ۔ ابن عباس کی ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو عورتوں سے بیعت لینے کے لیے مامور کیا اور حکم دیا کہ ان کو نوحہ کرنے سے منع کریں ، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے کپڑے پھاڑتی تھیں ، منہ نوچتی تھیں ، بال کاٹتی تھیں اور سخت واویلا مچاتی تھیں ( ابن جریر ) ۔ زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ آپ نے بیعت لیتے وقت عورتوں کو اس سے منع کیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے اپنے منہ نوچیں اور گریبان پھاڑیں اور واویلا کریں اور شعر گا گا کر بین کریں ( ابن جریر ) ۔ اسی کی ہم معنی ایک روایت ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ایک ایسی خاتون سے نقل کی ہے جو بیعت کرنے والیوں میں شامل تھیں ۔ قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ جو عہد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے لیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیر محرم مردوں سے بات نہ کریں گی ۔ ابن عباس کی روایت میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ غیر مردوں سے تخلیہ میں بات نہ کریں گی ۔ قتادہ نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے عرض کیا یا رسول اللہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے ہاں کوئی صاحب ملنے آ جاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا میری مراد یہ نہیں ہے ۔ یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں ( یہ روایات ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں ) ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ امیمہ بنت رقیقہ سے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ عہد لیا کہ نوحہ نہ کرنا اور جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار کر کے اپنی نمائش نہ کرنا ( مسند احمد ، ابن جریر ) ۔ حضور کی ایک خالہ سلمٰی بنت قیس کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی تو آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا پھر فرما یا ولا تغششن ازواجکن اپنے شوہروں سے دھوکے بازی نہ کرنا جب ہم واپس ہونے لگیں تو ایک عورت نے مجھ سے کہا کہ جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو شوہروں سے دھوکے بازی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جاکر پوچھا تو آپ نے فرمایا تاخذ مالہ فتحابی بہ غیرہ یہ کہ تو اس کا مال لے اور دوسروں پر لٹائے ( مسند احمد ) ۔ ام عطیہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لینے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین کی جماعت میں حاضر ہوا کریں گی البتہ جمعہ ہم پر فرض نہیں ہے ، اور جنازوں کے ساتھ جانے سے ہمیں منع فرما دیا ( ابن جریر ) ۔ جو لوگ حضور کے اس آئینی اختیار کو آپ کی حیثیت رسالت کے بجائے حیثیت امارت سے متعلق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ چونکہ اپنے وقت کے حکمراں بھی تھے اس لیے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو احکام دیئے وہ صرف آپ کے زمانے تک ہی واجب الاطاعت تھے ، وہ بڑی جہالت کی بات کہتے ہیں ۔ اوپر کی سطور میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احکام نقل کیے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈال لیجیے ۔ ان میں عورتوں کی اصلاح کے لیے جو ہدایات آپ نے دی ہیں وہ اگر محض حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے ہوتیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی عورتوں میں یہ اصلاحات کیسے رائج ہو سکتی تھیں؟ آخر دنیا کا وہ کونسا حاکم ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہو کہ ایک مرتبہ اس کی زبان سے ایک حکم صادر ہو اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں کے مسلم معاشرے میں ہمیشہ کے لیے وہ اصلاح رائج ہو جائے جس کا حکم اس نے دیا ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ حشر ، حاشیہ 15 ) ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :23 معتبر اور متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں سے بیعت لینے کا طریقہ مردوں کی بیعت سے مختلف تھا ۔ مردوں سے بیعت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ بیعت کرنے والے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتے تھے ۔ لیکن عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے آپ نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ، بلکہ مختلف دوسرے طریقے اختیار فرمائے ۔ اس کے بارے میں جو روایات منقول ہوئی ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم بیعت میں حضور کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے چھوا تک نہیں ہے ۔ آپ عورت سے بیعت لیتے ہوئے بس زبان مبارک سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تجھ سے بیعت لی ( بخاری ۔ ابن جریر ) ۔ امیہ بنت رقیقہ کا بیان ہے کہ میں اور چند عورتیں حضور کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئیں اور آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا ۔ جب ہم نے کہا ہم معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو آپ نے فرمایا فیما استطعتنَّ ، جہاں تک تمہارے بس میں ہو اور تمہارے لیے ممکن ہو ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہمارے لیے خود ہم سے بڑھ کر رحیم ہیں پھر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہاتھ بڑھایئے تاکہ ہم آپ سے بیعت کریں ۔ آپ نے فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ، بس میں تم سے عہد لوں گا ۔ چنانچہ آپ نے عہد لے لیا ۔ ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ آپ نے ہم میں سے کسی عورت سے بھی مصافحہ نہیں کیا ( مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) ۔ ابوداؤد نے مراسیل میں شعبی کی روایت نقل کی ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت ایک چادر حضور کی طرف بڑھائی گئی آپ نے بس اسے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔ یہ مضمون ابن ابی حاتم نے شعبی سے ، عبدالرزاق نے ابراہیم نخعی سے اور سعید بن منصور نے قیس بن ابی حازم سے نقل کیا ہے ۔ ابن اسحاق نے مغازی میں ابان بن صالح سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے ایک برتن میں ہاتھ ڈال دیتے تھے ، اور پھر اسی برتن میں عورت بھی اپنا ہاتھ ڈال دیتی تھی ۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ عید کا خطبہ دینے کے بعد آپ مردوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ نے وہاں اپنی تقریر میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی ، پھر عورتوں سے پوچھا تم اس کا عہد کرتی ہو؟ مجمع میں سے ایک عورت نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہ ۔ ایک روایت میں جسے ابن حبان ، ابن جریر اور بزار وغیرہ نے نقل کیا ہے ، ام عطیہ انصاریہ کا یہ بیان ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے باہر سے ہاتھ بڑھایا اور ہم نے اندر سے ہاتھ بڑھائے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا یہ عورتوں نے آپ سے مصافحہ بھی کیا ہو ، کیونکہ حضرت ام عطیہ نے مصافحہ کی تصریح نہیں کی ہے ۔ غالباً اس موقع پر صورت یہ رہی ہوگی کہ عہد لیتے وقت آپ نے باہر سے ہاتھ بڑھایا ہوگا اور اندر سے عورتوں نے اپنے اپنے ہاتھ آپ کے ہاتھ کی طرف بڑھا دیے ہوں گے بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے مس ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: عربی محاورے کے مطابق ہاتھوں اور پاوں کے درمیان بہتان باندھنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کھلم کھلا اور جانتے بوجھتے کسی پر جھوٹا بہتان باندھا جائے، اور ’’ہاتھوں اور پاوں کے درمیان‘‘ بہتان باندھنے کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو اپنے شوہر کا بیٹا قرار دیں جو درحقیقت اُس کا نہیں ہے۔ جاہلیت کے زمانے میں عورتیں یا تو کسی اور کا بچہ اُٹھا لاتیں اور کہتیں کہ یہ میرے شوہر کا بچہ ہے، یا جانتے بوجھتے زنا کرتیں، اور اُس حرام کی اولاد کو اپنے شوہر کی طرف منسوب کرتی تھیں۔ یہاں اس گھناونے جرم سے باز رہنے کا معاہدہ کرانا مقصود ہے۔ واضح رہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کسی عورت کو بیعت کرتے تھے تو اُس کا ہاتھ کبھی اپنے ہاتھ میں لے کر نہیں کرتے تھے، بلکہ بس زبانی بیعت فرما لیتے تھے۔