Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کفار سے دلی دوستی کی ممانعت اس سورت کی ابتداء میں جو حکم تھا وہی انتہا میں بیان ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار سے جن پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اتر چکی ہے اور اللہ کی رحمت اور اس کی شفقت سے دور ہو چکے ہیں تم ان سے دوستانہ اور میل ملاپ نہ رکھو ، وہ آخرت کے ثواب سے اور وہاں کی نعمتوں سے ایسے ناامید ہو چکے ہیں جیسے قبروں والے کافر ، اس پچھلے جملے کے دو معنی کے گئے ہیں ایک تو یہ کہ جیسے زندہ کافر اپنے مردہ کافروں کے دوبارہ زندہ ہونے سے مایوس ہو چکے ہیں ، دوسرے یہ کہ جس طرح مردہ کافر ہر بھلائی سے ناامید ہو چکے ہیں وہ مر کر آخرت کے احوال دیکھ چکے اور اب انہیں کسی قسم کی بھلائی کی توقع نہیں رہی ، الحمد اللہ سورہ ممتحنہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 اس سے بعض یہود، بعض منافقین اور بعض نے تمام کافر مراد لئے ہیں۔ یہ آخری قول ہی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اس میں یہود و منافقین بھی آجاتے ہیں، علاوہ ازیں سارے کفار ہی غضب الٰہی کے مستحق ہیں، اس لئے مطلب یہ ہوگا کہ کسی بھی کافر سے دوستانہ تعلق مت رکھو، جیسا کہ یہ مضمون قرآن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ 13۔ 2 آخرت سے مایوس ہونے کا مطلب، قیامت کے برپا ہونے سے انکار ہے۔ ایک دوسرے معنی اس کے یہ کئے گئے ہیں کہ قبروں میں مدفون کافر، ہر قسم کی خیر سے مایوس ہوگئے۔ کیونکہ مر کر انہوں نے اپنے کفر کا انجام دیکھ لیا، اب وہ خیر کی کیا توقع کرسکتے ہیں (ابن جریر طبری) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] سورة کے آخر میں ایک دفعہ پھر تاکید مزید کے طور پر اسی بات کو دہرایا گیا ہے کہ معاند قسم کے کافر کبھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ لہذا ان سے دوستی کی پینگیں مت بڑھاؤ۔ نہ ہی ان پر اعتماد کرو۔ جن پر اللہ ناراض ہے۔ اللہ کے دوستوں کو ان سے ناراض ہی رہنا چاہئے۔- [٣١] اصحاب قبور سے کافروں کی مایوسی کی مختلف توجہیات :۔ اس جملہ کے دو مختلف مطلب صحابہ سے منقول ہیں۔ ایک یہ کہ کافروں کا نہ آخرت پر ایمان ہے، نہ ہی قبروں سے مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے پر۔ وہ آخرت میں جزاء و سزائے اعمال کی ویسے ہی توقع نہیں رکھتے جیسے مردوں کے قبروں سے جی اٹھنے کی توقع نہیں رکھتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کافر قبروں میں پہنچ چکے ہیں حقیقت حال ان کے سامنے کھل کر آچکی ہے اور آخرت میں اللہ کی رحمت اور مہربانی سے ایسے ہی مایوس ہوچکے ہیں۔ جیسے کہ یہ کافر آخرت کے قیام سے ہی مایوس ہیں۔ یہ دونوں مطلب درست ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بعض لوگوں نے، جو قبروں میں پڑے ہوئے اولیاء اللہ کے تصرفات کے قائل ہیں، ایک تیسرا مطلب بھی کشید کرلیا ہے جو یہ ہے کہ اہل قبور کے تصرفات سے جو لوگ مایوس ہیں اور اس بات کا یقین نہیں رکھتے وہ کافر ہیں۔ گویا اہل قبور کے تصرفات کو تسلیم نہ کرنا کافروں کا کام ہے۔ (نعوذ باللہ من شرور انفسا)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہ ُ عَلَیْھِمْ : سورت کے شروع میں ” لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیا “ میں مشرکین کی دوستی سے منع فرمایا تھا، آخر میں یہود کی دوستی سے منع فرمایا۔ قرآن مجید میں ” مغضوب علیہم “ عموماً یہود کو کہا گیا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ فاتحہ میں ” غیر المغضوب علیھم “ کی تفسیر۔- ٢۔ قَدْ یَـئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الکُفَّارُمِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ : اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے ، ایک یہ کہ ” من “ بیانیہ ہے اور ” اصحب القبور “” الکفار “ کا بیان ہے ۔ یعنی ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ تعالیٰ غصے ہوگیا ( کیونکہ انہوں نے حق کو جانتے ہوئے اور یہ پہچانتے ہوئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے نبی ہیں، آپ پر ایمان لانے سے انکار کردیا ، اس لیے) وہ آخرت ( کی ہر خیر) سے ناامید ہوچکے ، جس طرح وہ کافر آخرت ( کی ہر خیر) سے ناامید ہوچکے جو قبروں والوں میں سے ہیں ، یعنی وہ کافر جو فوت ہوچکے اور اپنی آنکھوں سے اپنے عذاب کو دیکھ کر ہر خیر سے مایوس ہوچکے ان کی طرح یہ یہودی بھی جان بوجھ کر حق کو جھٹلانے کی وجہ سے آخرت ( کی ہر بھلائی) سے مایوس ہیں ، سو انہیں دوست مت بناؤ ۔ متن میں ترجمہ اسی مفہوم کے مطابق کیا گیا ہے اور طبری نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” من “ ابتدائیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ تعالیٰ غصے ہوا ، جو آخرت کے واقع ہونے سے اسی طرح ناامید ہیں جس طرح کفار قبروں والوں کے واپس آنے سے ناامید ہوچکے ہیں ۔ یہ دونوں تفسیریں درست ہیں۔- ٣۔ بعض اہل علم نے ” مغضوب علیہم “ کو عام رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ جس طرح ” ک عدوی وعدوکم “ کے الفاظ عام ہیں ، اسی طرح ” مغضوب علیہم “ کے الفاظ بھی عام ہیں ان میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین و منافقین سبھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے سبھی کی دوستی سے منع فرمایا ہے اور ان سب پر اللہ کا غضب بھی ہے۔ سبھی آخرت میں کسی بھی خیر کی توقع سے محروم ہیں اور سب کافر اس بات سے بھی ناامید ہوچکے ہیں کہ مرنے والے ان کے پاس دوبارہ آئیں گے ۔ قرآن مجید میں یہود کے علاوہ دوسرے کفار کے لیے بھی ” غضب “ کا لفظ آیا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ اعراف (٧١) ، نحل (١٠٦) ، شوریٰ (١٦) اور سورة ٔ فتح (٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ قَدْ يَىِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ كَـمَا يَىِٕسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ۝ ١٣ ۧ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - قبر - القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ- [ فاطر 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات .- ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی مدد کرنے اور حضور کا راز فاش کرنے میں ان یہودیوں سے دوستی مت کرو جن پر اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ غضب فرمایا، ایک مرتبہ اس وقت جبکہ ان لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بند ہیں، اور دوسری مرتبہ حضور کی تکذیب پر یہ جنت کی نعمتوں سے ایسے ناامید ہوگئے جیسا کہ کفار مکہ مردوں کی واپسی سے یا یہ کہ منکر نکیر کے سوال سے یا یہ مطلب ہے کہ مغضوب علیہم سے مت دوستی کرو بلکہ ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا (الخ)- ابن منذر نے بواسطہ ابن اسحاق، محمد، عکرمہ، ابوسعید، حضرت عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور زید بن حارث کچھ یہودیوں سے دوستی رکھتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ ” اے اہل ِایمان ان لوگوں کے ساتھ دوستی مت کرو جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے “- نوٹ کیجیے ‘ جس مضمون سے سورت کا آغاز ہوا تھا اختتام پر وہی مضمون دوبارہ آگیا ہے۔ قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ سے یہودی مراد ہیں اور یہاں اہل ایمان کو واضح طور پر منع کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ تمہاری دوستی نہیں ہونی چاہیے۔- قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ ۔ ” یہ لوگ آخرت سے مایوس ہوچکے ہیں جیسے کہ کفار مایوس ہوچکے ہیں اصحابِ قبور میں سے۔ “- آیت کے اس حصے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت سے ایسے مایوس ہوچکے ہیں جیسے قبروں میں پڑے ہوئے کفار اپنی نجات سے مایوس ہیں ۔ ظاہر ہے مرنے کے بعد کفار پر تمام حقائق منکشف ہوچکے ہیں اور ان حقائق کو دیکھتے ہوئے انہیں سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ دوسرا مفہوم یوں ہے کہ یہ لوگ آخرت سے ایسے مایوس ہوچکے ہیں جیسے کفار اصحاب القبور کے دوبارہ اٹھنے سے مایوس ہیں۔ یہ دونوں مفاہیم اپنی اپنی جگہ درست ہیں ‘ اس لیے اس فقرے کے تراجم دونوں طرح سے کیے گئے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :24 اصل الفاظ ہیں قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحَابِ الْقُبُوْرِ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ آخرت کی بھلائی اور اس کے ثواب سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح زندگی بعد موت سے انکار کرنے والے اس بات سے مایوس ہیں کہ ان کے جو عزیز رشتہ دار قبروں میں جا چکے ہیں وہ کبھی پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ۔ یہ معنی حضرت عبداللہ بن عباس ، اور حضرات حس بصری ، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ نے بیان کیے ہیں ۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ وہ آخرت کی رحمت و مغفرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر ہر خیر سے مایوس ہیں ، کیونکہ انہیں اپنے مبتلائے عذاب ہونے کا یقین ہو چکا ہے ۔ یہ معنی حضرت عبداللہ بن مسعود ، اور حضرات مجاہد ، عِکْرِمہ ، ابن زید ، کلبی ، مقاتل اور منصور رحمہم اللہ سے منقول ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: یعنی جس طرح کافر لوگ اپنے مرے ہوئے عزیزوں دوستوں اور باپ دادوں سے مایوس ہیں کہ وہ ان کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے، اسی طرح یہ لوگ آخرت کی زندگی سے مایوس ہیں۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ ’’یہ لوگ آخرت سے ایسے ہی مایوس ہوچکے ہیں جیسے وہ کافر مایوس ہیں جو قبروں میں جا چکے‘‘ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جو کافر قبروں میں جا چکے ہیں، انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ آخرت کی زندگی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے، اسی طرح یہ لوگ بھی آخرت کی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔