6۔ 1 یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے اور ان کے ساتھی اہل ایمان میں۔ یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔ 6۔ 2 کیونکہ ایسے ہی لوگ اللہ سے اور عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں، یہی لوگ حالات و واقعات سے عبرت پکڑتے اور نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ 6 ۔ 3 یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوے کو اپنانے سے گریز کرے۔
[١٣] سیدنا ابراہیم کے ساتھیوں کے تین اوصاف :۔ یعنی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں کے یہاں اللہ تعالیٰ نے تین اوصاف بیان فرمائے۔ ایک یہ کہ انہوں نے مشرکوں سے مکمل طور پر قطع تعلق کرلیا تھا اور یہ قطع تعلق دائمی تھا، تاآنکہ مشرک شرک سے باز آجائے۔ دوسرے وہ صرف اللہ پر توکل رکھتے تھے، تیسرے وہ اپنے حق میں اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کی توفیق کی دعائیں بھی کرتے رہتے تھے اور بجا بھی لاتے ہیں۔ یہ صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر تم لوگ فی الواقع اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے اور اس سے جزائے اعمال کی امید رکھتے ہو تو تمہیں بھی ان جیسے کام کرنے چاہئیں۔- [١٤] تَوَلَّ کا ایک معنی تو وہی ہے تو ترجمہ میں مذکور ہے۔ اس کا دوسرا معنی دوست بنانا، دوستی گانٹھنا ہے۔ یعنی جو شخص سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے قابل تقلید نمونہ کے باوجود اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور توقع رکھنے کے باوجود مشرکوں سے دوستی گانٹھتا ہے تو اللہ کو اس کے ایسے ایمان کی کوئی پروا نہیں۔ کیونکہ وہ تو بےنیاز ہے۔ اور یہ مطلب اصل مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔- [١٥] یہ صورت نہیں کہ اگر کوئی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے تو تب ہی وہ محمود ہے۔ وہ کسی کے حمد و ثنا بیان کرنے کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ اس کی حمدو ثنا بیان کرنے سے حمد کرنے والے کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ کا اس سے کچھ نہیں سنورتا اور حمد و ثنا نہ کرنے سے اس کا بگڑتا بھی کچھ نہیں۔
١۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔۔۔۔: اس سے پہلے ” قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم “ میں یہی بات ذکر ہوئی ہے ، لام قسم کے ساتھ اسے دوبارہ لانے سے ایک تو اس حکم کی تاکید مقصود ہے اور ایک اس کے بعد ” لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخر “ لا کر یہ بتانا مقصود ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی ان لوگوں کے لیے نمونہ نہیں جن کی ساری جدوجہد دنیا کے لیے ہے ، بلکہ وہ صرف ان لوگوں کے لیے نمونہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتے ہیں۔- ٢۔ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ احزاب ( ٢١) کی تفسیر۔- ٣۔ وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللہ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ : یعنی جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کی امید سے منہ موڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ، کیونکہ وہ تو غنی وحمید ہے اور غنی وحمید بھی ایسا کہ اس کے سوا کوئی غنی وحمید ہے ہی نہیں ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ فاطر (١٥) ، حج (٦٤) اور سورة ٔ حدید (٢٤) کی تفسیر۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ٠ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللہَ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ٦ ۧ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- أسَو - الأُسْوَة والإِسْوَةُ کالقدوة والقدوة، وهي الحالة التي يكون الإنسان عليها في اتباع غيره إن حسنا وإن قبیحا، وإن سارّا وإن ضارّا، ولهذا قال تعالی: لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ الأحزاب 21] ، فوصفها بالحسنة، ويقال : تَأَسَّيْتُ به، والأَسَى: الحزن . وحقیقته :- إتباع الفائت بالغم، يقال : أَسَيْتُ عليه وأَسَيْتُ له، قال تعالی: فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرِينَ [ المائدة 68] ، وقال الشاعر : أسيت لأخوالي ربیعة وأصله من الواو، لقولهم : رجل أَسْوَان ، أي : حزین، والأَسْوُ : إصلاح الجرح، وأصله :إزالة الأسى، نحو : کر بت النخل : أزلت الکرب عنه، وقد أَسَوْتُهُ آسُوهُ أَسْواً ، والآسِي : طبیب الجرح، جمعه : إِسَاة وأُسَاة، والمجروح مَأْسِيٌّ وأَسِيٌّ معا، ويقال : أَسَيْتُ بين القوم، أي : أصلحت ، وآسَيْتُهُ. قال الشاعر :- آسی أخاه بنفسه وقال آخر : فآسی وآداه فکان کمن جنی وآسي هو فاعل من قولهم : يواسي، وقول الشاعر : يکفون أثقال ثأي المستآسي فهو مستفعل من ذلك، فأمّا الإساءة فلیست من هذا الباب، وإنما هي منقولة عن ساء .- ( ا س و ) الاسوۃ والاسوۃ قدوۃ اور قدوۃ کی طرح ) انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا متبع ہوتا ہے خواہ وہ حالت اچھی ہو یا بری ، سرور بخش ہو یا تکلیف وہ اس لئے آیت کریمہ ؛ ۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( سورة الأحزاب 21) تمہارے لئے پیغمبر خدا میں اچھا اسوہ ہے ۔ میں اسوۃ کی صفت حسنۃ لائی گئی ہے ۔ تاسیت بہ میں نے اس کی اقتداء کی ۔ الاسٰی بمعنی حزن آتا ہے اصل میں اس کے معنٰی کسی فوت شدہ چیز پر غم کھانا ہوتے ہیں ۔ اسیت علیہ اسی واسیت لہ ۔ کسی چیز پر غم کھانا قرآن میں ہے ۔ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( سورة المائدة 68) تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو ۔ شاعر نے کہا ہے ع (16) اسیت الاخوانی ربعیہ میں نے اپنے اخوال بنی ربعیہ پر افسوس کیا ۔ یہ اصل میں ( ناقص) وادی سے ہے کیونکہ محاورہ میں غمگین آدمی کو اسوان ( بالفتح ) کہا جاتا ہے ۔ الاسو کے معنی زخم کا علاج کرنے کے ہیں ۔ اصل میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت النخل کی طرح ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کی شاخوں کی جڑوں کو دور کرنے کے ہیں کہا جاتا ہے اسوتہ اسوءہ اشوار از باب نصرا یعنی میں نے اس کا غم دور کیا اس کو تسلی دی ۔ الاٰسی صالح ۔ مر ہم پٹی کرنے والا اس کی جمیع اساعہ واساۃ ہے اور زخمی آدمی کو ماسی وآسی کہا جاتا ہے ۔ اسیت بین القوم باہم صلح کرانا ۔ اٰسیتہ ( مفاعلہ ) کسی کے ساتھ ہمدردی کرنا ۔ ( مال وغیرہ کے ذریعہ ۔ شاعر نے کہا ہے ع (17) ، ، آسیٰ اخاہ بنفسہ ( طویل ) ، ، جس نے خود کو اپنے بھائی پر نثار کردیا ہو ۔ اور دو سرے شاعر نے کہا ہے (18) فآسی و آداہ فکان کمن جنٰی ، ، اس نے ہمدردی کی اور سامان حرب دیا تو گویا اس جنایت کی ۔ یہاں آسیٰ بروزن فاعل یو اسی سے ہے اسی طرح شاعر کے قول ع (19) یکفون اثقال ثای المستاسی ، ، المستای بروزن مستفعل بھی اسی مادہ سے مگر الاساءۃ ( افعال ) جس کے معنی تکلیف پہنچانے کے ہیں اس مادہ سے نہیں ہے بلکہ ساء ( س و ء ) سے منقول ہے ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - حمید - إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد،- ( ح م د ) حمید - اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔
اے حاطب تمہارے لیے ابراہیم اور ان کی اتباع کرنے والوں کے اقوال میں ایک عمدہ نمونہ ہے جو کہ اللہ اور قیامت پر اعتقاد رکھتا ہو تو تم نے اس طریقہ پر کیوں دعا نہ کی، باقی جو حکم خداوندی سے منہ پھیرے گا تو اللہ تعالیٰ تو بالکل بےنیاز ہے اور تعریف کے لائق ہے۔
آیت ٦ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ” تمہارے لیے یقینا ان (کے طرزِعمل) میں ایک بہت اچھا نمونہ ہے “- لیکن یہ نمونہ اور اسوہ فائدہ مند کس کے لیے ہوسکتا ہے ؟- لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ ” اس کے لیے جو اللہ تعالیٰ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو۔ “- بالکل یہی الفاظ سورة الاحزاب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کے حوالے سے آئے ہیں : لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت اور سیرت یقینا اسوہ کاملہ ہے ‘ لیکن اس سے مستفیض صرف وہی لوگ ہو سکیں گے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہوں۔- وَمَنْ یَّـتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ۔ ” اور جو کوئی منہ موڑ لے تو یقینا اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں خود ستودہ صفات ہے۔ “
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :9 یعنی جو اس بات کی توقع رکھتا ہو کہ ایک روز اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے ، اور اس چیز کا امیدوار ہو کہ اللہ اسے اپنے فضل سے نوازے اور روز آخر میں اسے سرخروئی نصیب ہو ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :10 یعنی اللہ کو ایسے ایمان لانے والوں کی کوئی حاجت نہیں ہے جو اس کے دین کو ماننے کا دعویٰ بھی کریں اور پھر اس کے دشمنوں سے دوسری بھی رکھیں ۔ وہ بے نیاز ہے ۔ اس کی خدائی اس کی محتاج نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے خدا مانیں ۔ اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے ، اس کا محمود ہونا اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ یہ اس کی حمد کریں ۔ یہ اگر ایمان لاتے ہیں تو اللہ کے کسی فائدے کے لیے نہیں ، اپنے فائدے کے لیے لاتے ہیں ۔ اور انہیں ایمان کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک یہ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی طرح اللہ کے دشمنوں سے محبت اور دوستی کے رشتے توڑ نہ لیں ۔