8۔ 1 یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایت دی جا رہی ہے جو مسلمانوں سے محض دین السلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے ۔ 8۔ 2 یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہوجاؤ، یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیار وغیرہ کے ذریعے سے۔ 8۔ 3 یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صلی امک۔ صحیح مسلم۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ 8۔ 4 اس میں انصاف کرنے کی ترغیب ہے حتی کہ کافروں کے ساتھ بھی حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے۔ ان المقسطین عند اللہ علی منبر من نور عن یمین الرحمن عز وجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وماولوا۔ صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمن کے دائیں جانب ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں جو اپنے فیصلوں میں اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں۔
[١٨] لڑنے کا حکم صرف ان کافروں سے ہے جو دکھ پہنچاتے اور معاندانہ سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔ عام کافروں سے نہیں محض کفر لڑائی کا سبب نہیں بن سکتا :۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک وہ جو معاند تھے۔ مسلمانوں کو ایذائیں پہنچاتے، اسلام کی راہ روکتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں سرگرم تھے۔ دوسرے مسالم جو کافر تو تھے مگر روادار تھے۔ غیر جانبدار بن کر رہے۔ مسلمانوں کو نہ کوئی دکھ پہنچایا نہ ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا۔ اور یہ دونوں قسم کے لوگ مکہ میں بھی رہتے تھے اور ارد گرد بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے الگ الگ احکام بیان فرمائے۔ پہلی قسم کے لوگوں سے سلوک کا بیان ابتدائے سورة سے چلا آرہا ہے۔ رہے دوسری قسم کے بےضرر قسم کے کافر تو ان کے ساتھ رواداری کا حکم فرمایا۔ یعنی ان سے تم کو بھی عداوت نہ رکھنی چاہئے۔ اور رشتہ داری کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ان سے بہتر سلوک کرنا چاہئے۔ کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ ان دونوں سے سلوک میں فرق رکھا جائے۔ اس سے دو اہم باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ مسلمانوں کی عداوت کی بنیاد محض کفر نہیں بلکہ اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے دوران جنگ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، عبادت گزار اور درویش قسم کے لوگوں اور جنگ میں شریک نہ ہونے والے کافروں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ اور دوسری یہ کہ اسلام ایک حق پسند، انصاف پسند اور امن پسند دین ہے۔ جو صرف ان لوگوں سے تعرض کرتا ہے۔ جو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
١۔ لَا یَنْہٰکُمُ اللہ ُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ ۔۔۔۔۔: اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک محارب جو مسلمانوں سے ضد اور عناد رکھتے تھے ، انہیں ایذا دینے ، ان کے گھروں سے نکالنے اور ان سے لڑنے میں سر گرم تھے ، یا ایسے لوگوں کی پشت پناہی اور مدد کرتے تھے ۔ دوسرے مسالم جو کافر تو تھے مگر روادادر تھے ، غیر جانبدار بن کر رہے ، مسلمانوں کو نہ کوئی دکھ پہنچایا اور نہ ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا ۔ ان میں مکہ کے ارد گرد رہنے والے کئی قبائل تھے ، جیسے بنوخزاعہ اور بنو حارث وغیرہ جو مسلمانوں کے حلیف تھے یا کفار قریش کے مقابلے میں مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اہل مکہ میں بھی اس طرح کے کئی لوگ تھے ، خصوصاً بنو ہاشم اور بنو مطلب کے اکثر لوگوں کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں ۔ مہاجرین کی بہت سی رشتہ دار عورتیں اور بچے جو مکہ میں تھے اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تے مگر ان سے انس اور تعلق رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی دلی خواہش ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایسے لوگوں سے نیک سلوک اور ان کے حق میں انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا ۔ - اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ( معاہدہ ٔ صلح کے دوران حسن سلوک کی) امید رکھتے ہوئے میرے پاس آئی ، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا :” کیا میں اس سے حسن سلوک کروں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں “ ابن عینیہ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ( لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین) ” اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی “۔ (بخاری ، الادب ، باب صلۃ الوالد المشرک : ٥٩٧٨) اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کو ایک ریشمی حلہ عطاء فرمایا ، انہوں نے وہ اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ ( بخاری ، الادب ، باب صلۃ الاخ المشرک ، ٥٩٨١)
صحیح بخاری میں حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق سے روایت ہے کہ ان کی والدہ بحالت کفر مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ پہنچیں (مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ غزوہ بدر حدیبیہ کے بعد قریش مکہ سے معاہدہ صلح ہوگیا تھا اور ان کی والدہ کا نام قتیلہ ہے، یہ اپنی بیٹی اسماء کے لئے کچھ تحفے ہدیئے لے کر مدینہ پہنچیں تو حضرت اسماء نے ان کے تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنے گھر میں آنے کی بھی اجازت اس وقت تک نہ دی جب تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت نہ کرلیا) غرض حضرت اسماء نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری والدہ مجھ سے ملنے کے لئے آئی ہیں اور وہ کافر ہیں میں ان کے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی والدہ کی صلہ رحمی کرو یعنی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُم - بعض روایات میں ہے کہ حضرت اسماء کی والدہ قتیلہ کو صدیق اکبر نے زمانہ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی حضرت اسماء اس کے بطن سے تھیں اور ان کی بہن ام المومنین حضرت عائشہ صدیق اکبر کی دوسری بیوی ام رومان کے بطن سے تھیں، یہ مسلمان ہوگئی تھیں (ابن کثیر و مظہری) - اس آیت میں ایسے کفار جنہوں نے مسلمانوں سے مقابلہ نہیں کیا اور ان کے گھروں سے نکالنے میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا ان کے ساتھ احسان کے معاملہ اور اچھے سلوک اور عدل انصاف کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، عدل و انصاف تو ہر کافر کے ساتھ ضروری ہے، جس میں کافر ذمی کا مصالح اور کافر حربی و دشمن سب برابر ہیں، بلکہ اسلام میں تو عدل و انصاف جانوروں کے ساتھ بھی واجب ہے کہ ان کی طاقت سے زیادہ بار ان پر نہ ڈالے اور ان کے چارے اور آرام کی نگہداشت رکھے، اس آیت میں اصل مقصود بر و احسان کرنے کی ہدایت ہے۔- مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ نفلی صدقات ذمی اور مصالح کافر کو بھی دیئے جاسکتے ہیں صرف کافر حربی کو دینا ممنوع ہے۔
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ٨- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6] .- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - برَّ- البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر :- أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل .- والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته .- ( ب رر)- البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔.- قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔
مشرک کے ساتھ صلہ رحمی کا بیان - قول باری ہے (لا ینھا کم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین۔ اللہ تمہیں ان لوگوں سے (حسن سلوک اور انصاف کرنے سے ) نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے) تا آخر آیت - ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت اسماء (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ ان کی ایک مشرک ماں ہے جو ان کے پاس آئی ہوئی ہے، آیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان لوگوں سے حسن سلوک اور انصاف کرنے سے (نہیں روکتا) ) اہل ذمہ کو صدقات دینے کے جواز میں عموم ہے۔ کیونکہ اہل ذمہ ہم سے قتال نہیں کرتے۔ - اس میں اہل حرب کو صدقہ دینے کی ممانعت ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (انما ینھاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین، اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں سے (دوستی کرنے سے) روکتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑے) اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں اور روایتیں بھی ہیں۔- ہمیں عبدللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے قول باری (لا ینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس آیت کو قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتمو ھم مشرکین کو قتل کرو جہاں کہیں بھی انہیں پائو) نے منسوخ کردیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنے اور احسان کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تمہیں انہوں نے مکہ مکرمہ سے نہیں نکالا اور نہ تمہارے نکالنے میں کسی کی مدد کی اور اللہ تعالیٰ وفائے عہد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔- شان نزول : لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ (الخ)- امام بخاری نے حضرت اسماء سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ میری والدہ میرے پاس آئیں اور وہ ضرور مند تھیں میں نے رسول اکرم سے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارے میں دریافت کیا آپ نے اجازت دے دی۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے۔- امام احمد اور بزار نے اور حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت کیا ہے کہ فتیلہ اپنی صاحبزادی حضرت اسماء بنت ابوبکر کے پاس آئیں اور حضرت ابوبکر نے ان کو زمانہ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی۔ چناچہ یہ اپنی لڑکے کے پاس تحائف لے کر آئیں، تو حضرت اسماء نے اپنی والدہ کے تحائف قبول کرنے یا ان کے گھر جانے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ حضرت عائشہ کے پاس قاصد بھیجا کہ وہ اس بارے میں رسول اکرم سے دریافت کریں۔ چناچہ حضرت عائشہ نے حضور اکرم کو اس چیز کی اطلاع دی، آپ نے ان کے تحائف قبول کرنے اور ان کے گھر جانے کا حکم دیا اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔
آیت ٨ لَا یَنْہٰٹکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَـبَـرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَـیْہِمْ ” اللہ تمہیں نہیں روکتا ان لوگوں سے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے کبھی جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ کوئی بھلائی کرو یا انصاف کا معاملہ کرو۔ “- یعنی وہ غیر حربی کافر ‘ جن کے ساتھ تمہاری جنگ نہیں ہے ‘ تم لوگوں کو مکہ سے بےدخل کرنے میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی انہوں نے تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی کبھی مدد کی ہے ‘ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا سلوک روا رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ دنیوی معاملات کے حوالے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے بھی پورے کرنے چاہئیں۔ البتہ ولایت کا رشتہ اور قلبی محبت کا تعلق ان کے ساتھ بھی قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ - اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ ” بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ “
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :12 اس مقام پر ایک شخص کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ دشمنی نہ کرنے والے کافروں کے ساتھ نیک برتاؤ تو خیر ٹھیک ہے ، مگر کیا انصاف بھی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے؟ اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ بے انصافی کرنی چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سیاق و سباق میں دراصل انصاف ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تمہارے ساتھ عداوت نہیں برتتا ، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ برتو ۔ دشمن اور غیر دشمن کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں سے ایک ہی سلوک کرنا انصاف نہیں ہے ۔ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں تم پر ظلم توڑے اور تم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا ، اور نکالنے کے بعد بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑا ۔ مگر جن لوگوں نے اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں لیا ، انصاف یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کرو ۔
4: یعنی جو غیر مسلم مسلمانوں سے نہ جنگ کرتے ہیں، اور نہ اُنہیں کوئی اور تکلیف دیتے ہیں، اُن سے اچھا برتاو اور نیکی کا سلوک اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ناپسند نہیں ہے، بلکہ انصاف کا معاملہ کرنا تو ہر مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ واجب ہے۔