9۔ 1 یعنی ارشاد الٰہی اور امر ربانی سے اعراض کرتے ہوئے۔ 9۔ 2 کیونکہ انہوں نے ایسے لوگوں سے محبت کی ہے جو محبت کے اہل نہیں تھے، یوں انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا کہ انہیں اللہ کے عذاب کے لئے پیش کردیا۔
[١٩] معاند قسم کے کافر ہی اسلام، پیغمبر اسلام، اہل اسلام اور اللہ کے دشمن ہیں۔ اور ایسے لوگوں سے دوستی دراصل اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کے مترادف ہے۔ لہذا اس قسم کے کافروں کو دوست بنانا یا ان سے راز و نیاز کی باتیں کہنا یا بتانا بڑے ظلم کی بات ہے۔
اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللہ ُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰـتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ ۔۔: ان لوگوں سے مراد وہ کفار ہیں جن کا تذکرہ شروع سورت سے آرہا ہے۔
اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ (الیٰ ) اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ، اس آیت میں ان کفار کا بیان ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال کر رہے ہوں اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے میں کوئی حصہ لے رہے ہوں، ان کے بارے میں ارشاد یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ موالات اور دوستی سے منع فرماتا ہے، اس میں برو احسان کا معاملہ کرنے کی ممانعت نہیں، بلکہ صرف قلبی دوستی اور دوستانہ تعلقات کی ممانعت ہے اور یہ ممانعت کچھ ان میں برسر پیکار دشمنوں کے ساتھ نہیں بلکہ اہل ذمہ اور اہل صلح کافروں کے ساتھ بھی قلبی موالات اور دوستی جایز نہیں، اس سے تفسیر مظہری میں یہ مسئلہ نکالا ہے کہ حربی یعنی برسر جنگ کفار کے ساتھ عدل و انصاف تو اسلام میں ضروری ہے ہی اور ممانعت صرف موالات یعنی دوستی کی کی گئی، برو احسان کی ممانعت نہیں کی گئی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محسنانہ سلوک برسر پیکار دشمنوں کے ساتھ بھی جائز ہے، البتہ دوسری نصوص کی بنا پر یہ شرط ہے کہ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے سے مسلمانوں کو کسی نقصان و ضرر کا خطرہ نہ ہو، جہاں یہ خطرہ ہو وہاں برو احسان ان پر جائز نہیں، ہاں عدل و انصاف ہر حال میں ہر شخص کیلئے ضروری اور واجب ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ ٠ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٩- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - ظَاهَرَ ( مدد)- وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] ، وظاهَرْتُهُ :- عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ- [ التحریم 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ- ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب 26] اور اہل کتاب میں سے جہنوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
خزاعہ، خزیمہ اور بون مدلج نے حدیبیہ کے سال رسول اکرم سے اس چیز پر صلح کی آپ سے قتال نہیں کریں گے اور نہ مکہ مکرمہ سے کسی کو نکالیں گے اور نہ نکالنے میں کسی کی مدد کریں گے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ احسان کرنے سے نہیں روکا۔- البتہ مکہ والوں سے احسان کرنے اور صلہ رحمی کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ان میں یہ تمام چیزیں موجود تھیں اور فرما دیا کہ جو ایسے لوگوں سے دوستی رکھے گا وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا۔
آیت ٩ اِنَّمَا یَنْہٰٹکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ ” وہ تو تمہیں منع کرتا ہے ان لوگوں سے جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں دوسروں کی مدد کی کہ تم ان کے ساتھ ولایت اور دوستی کا رشتہ قائم کرو۔ “- وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ ” اور جو کوئی ان کے ساتھ دوستی کرے گا تو وہی لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔ “- اب اگلی آیات میں خواتین سے متعلق چند مسائل کا ذکر آ رہا ہے جو صلح حدیبیہ (٦ ہجری) کے نتیجے میں سامنے آئے تھے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے ‘ لیکن اگر مدینہ سے کوئی مسلمان اپنا دین چھوڑ کر واپس مکہ آجائے گا تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ اس معاہدے کے بعد چند مسلمان خواتین مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قریش کی طرف سے مطالبہ آیا کہ انہیں واپس کیا جائے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ معاہدے کی متعلقہ شق مردوں (رجال) سے متعلق ہے ‘ اس میں عورتوں (نساء) کا ذکر نہیں ہے ‘ اس لیے ان خواتین کو واپس نہیں کیا جائے گا ۔ اس مثال کے بعد مکہ سے کچھ مزید خواتین بھی آنا شروع ہوگئیں تو ایسی مہاجر خواتین کے بارے میں تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ خدشہ یہ تھا کہ ہجرت کے نام پر مشرک عورتیں جاسوسی وغیرہ کے لیے مکہ سے مدینہ آکر آباد نہ ہوجائیں اور ان کی وجہ سے بعد میں مسلمان معاشرے میں کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ پھر ان میں کچھ ایسی شادی شدہ خواتین بھی تھیں جو اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر آرہی تھیں۔ ان کے بارے میں بھی یہ سوال اپنی جگہ جواب کا متقاضی تھا کہ کیا وہ مسلمان ہوجانے کے بعد بھی مشرک شوہروں کی زوجیت میں ہیں یا کہ آزاد ہوچکی ہیں ؟ اور اسی معاملے سے متعلق یہ مسئلہ بھی اہم تھا کہ کسی ایسی عورت کے مدینہ آجانے کے بعد کیا کوئی مسلمان اس سے نکاح کرسکتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ اگلی دو آیات میں ان مسائل سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں ۔ جبکہ اس کے بعد ایک آیت میں مسلمان خواتین کی بیعت کا ذکر ہے ۔ قرآن مجید میں ذکر تو مردوں کی بیعت (بیعت رضوان) کا بھی ہے ‘ لیکن اس بیعت کے الفاظ کیا تھے ‘ یا بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کا مضمون کیا تھا ؟ یہ تفصیل ہمیں احادیث سے ملتی ہے ‘ قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہاں خواتین کو مردوں پر ایک طرح سے فضیلت دی گئی ہے کہ آیت ١٢ میں ان کی بیعت کے حکم کے ساتھ بیعت کا پورا متن بھی دے دیا گیا ہے۔- میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواتین کو یہ خصوصی انعام ان کے حقوق کے پلڑے کا توازن درست رکھنے کے لیے دیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ قوانین و ضوابط اور حقوق و فرائض کی خصوصیت ہی یہی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے متوازن ہیں۔ اگر کسی معاملے میں کوئی ایک حکم زیادہ سخت ہو تو اس کے پہلو میں کہیں کوئی نرم قانون بھی موجود ہوتا ہے۔ اگر کہیں کسی کے فرائض کا وزن زیادہ ہو رہا ہو تو اس کے حقوق کے پلڑے میں کچھ مزید ڈال کر اس کی میزان کو برابر کردیا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہی کی مثال لے لیں ۔ قرآن مجید نے طلاق کا حق صرف خاوند کو دیا ہے ‘ اس کے مقابلے میں بیوی صرف خلع لے سکتی ہے ‘ طلاق نہیں دے سکتی۔ اسی طرح اگر میاں بیوی میں طلاق ہوجائے تو اولاد قانوناً والد کی شمار ہوتی ہے ۔ ان دو مثالوں سے خاوند کے حقوق یا اختیارات کا پلڑا غیر معمولی طور پر جھکتا ہوا نظر آتا ہے ‘ لیکن دوسری طرف دیکھیں تو اولاد کے لیے ماں کا حق باپ کے حق کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رکھا گیا ہے اور جنت کی بشارت صرف ماں کے قدموں کے حوالے سے دی گئی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنے قوانین و ضوابط کو متوازن بناتے ہیں اور ہر کسی کے حقوق و فرائض کی ترازو کے ہر دو پلڑوں کو برابر رکھتے ہیں۔
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :13 سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلق کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس لیے ان آیات میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے ، اور ان کافروں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہ کی ہو ۔ اس کی بہترین تشریح وہ واقعہ ہے جو حضرت اسماء بنت ابی بکر اور ان کی کافر ماں کے درمیان پیش آیا تھا ۔ حضرت ابوبکر کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبدالعزّٰی کافرہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں ۔ حضرت اسماء انہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئی اور کچھ تحفہ تحائف بھی لائیں ۔ حضرت اسماء کی اپنی روایت یہ ہے کہ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، اپنی ماں سے مل لوں؟ اور کیا میں ان سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس سے صلہ رحمی کرو ( مسند احمد ۔ بخاری ۔ مسلم ) ۔ حضرت اسماء کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر اس واقعہ کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماء نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا تھا ۔ بعد میں جب اللہ اور اس کے رسول کی اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں ( مسند احمد ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے کافر ماں باپ کی خدمت کرنا اور اپنے کافر بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے جبکہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں ۔ اور اسی طرح ذمی مساکین پر صدقات بھی صرف کیے جا سکتے ہیں ( احکام القرآن للجصاص ۔ روح المعانی ) ۔